اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

سيد الشہدا کے مبارزے کي دو صورتيں

امام حسين کے قيام ومبارزے کي دوصورتيں ہيں اور دونوں کا اپنا اپنا الگ نتيجہ ہے اور دونوں اچھے نتائج ہيں؛ ايک نتيجہ يہ تھا کہ امام حسين يزيدي حکومت پر غالب و کامياب ہوجاتے اور لوگوں پر ظلم و ستم کرنے والوں سے زمام اقتدار چھين کر امت کي صحيح سمت ميں راہنمائي فرماتے،اگر ايسا ہوجاتا تو تاريخ کي شکل ہي بدل جاتي۔ دوسري صورت يہ تھي کہ اگر کسي بھي وجہ اور دليل سے يہ سياسي اور فوجي نوعيت کي کاميابي آپ کيلئے ممکن نہيں ہوتي تو اُس وقت امام حسين اپني زبان کے بجائے اپنے خون، مظلوميت اور اُس زبان کے ذريعہ کہ جسے تاريخ ہميشہ ہميشہ کيلئے ياد رکھتي، اپني باتيں ايک رواںاور شفاف پاني کي مانند تاريخ کے دھارے ميں شامل کرديتے اور آپ نے يہي کام انجام ديا ۔

البتہ وہ افراد جو بڑے بڑے زباني وعدے کرتے اور اپنے ايمان کي مضبوطي کا دم بھرتے تھے اگر ايسا نہ کرتے تو پہلي صورت وجود ميں آتي اور امام حسين اُسي زمانے ميں دنيا و آخرت کي اصلاح فرماديتے ليکن اِن افراد نے کو تاہي کي! اِس کوتاہي کے نتيجے ميں وہ پہلي صورت سامنے نہيں آسکي اور نوبت دوسري صورت تک جا پہنچي۔ يہ وہ چيز ہے کہ جسے کوئي بھي قدرت امام حسين سے نہيں چھين سکتي اور وہ ميدانِ شہادت ميں جانے کي قدرت اورراہِ دين ميں اپني اور اپنے عزيز و اقارب کي جان قربان کرنا ہے ۔ يہ وہ ايثار و فداکاري ہے کہ جو اتني عظيم ہے کہ اِس کے مقابلے ميں دشمن کتني ہي ظاہري عظمت کا مالک کيوں نہ ہو، وہ حقير ہے اور اُس کي ظاہري عظمت ختم ہوجاتي ہے اور يہ وہ خورشيد ہے کہ جو روز بروز دنيائے اسلام پر نور افشاني کررہا ہے ۔

آج امام حسين گذشتہ پانچ يا دس صديوں سے زيادہ دنيا ميں پہچانے جاتے ہيں ۔ آج حالات يہ ہيں کہ دنيا کے مفکرين، روشن فکر شخصيات اور بے غرض افراد جب تاريخ کا مطالعہ کرتے ہيں اور واقعہ کربلا کو ديکھتے ہيں تو اپنے دل ميں خضوع کا احساس کرتے ہيں ۔ وہ تمام افراد جو اسلام سے کوئي سروکار نہيں رکھتے ليکن آزادي، عدالت، عزت، سربلندي اور اعليٰ انساني اقدار جيسے بلند پايہ مفاہيم کو سمجھتے ہيں اور اِس زاويے سے کربلا کو ديکھتے ہيں تو آزادي و آزادي خواہي، عدل و انصاف کے قيام، برائيوں ، جہالت اور انساني پستي سے مقابلہ کرنے ميںسيد الشہدا اُن کے امام و رہبر ہيں ۔

جہالت و پستي، انسان کے دو بڑے دشمن

آج انسان نے دنيا ميں جہاں کہيں بھي چوٹ کھائي ہے خواہ وہ سياسي لحاظ سے ہو يا فوجي و اقتصادي لحاظ سے، اگر آپ اُس کي جڑوں تک پہنچيں تو آپ کو يا جہالت نظر آئے گي يا پستي ۔يعني اِس انساني معاشرے کے افراد يا آگاہ وواقف نہيںہيں اوراُنہيں جس چيز کي لازمي معرفت رکھني چاہيے وہ لازمي معرفت و شناخت نہيں رکھتے ہيں يا يہ کہ معرفت کے حامل ہيں ليکن اُس کي اہميت اور قدر وقيمت کے قائل نہيں ہيں،انہوں نے اُسے کوڑيوں کے دام بيچ ديا ہے اور اُس کے بجائے ذلت وپستي کو خريد ليا ہے!

حضرت امام سجاد اور حضرت امير المومنين سے نقل کيا گيا ہے کہ آپ نے فرمايا کہ ’’لَيسَ لِاَنفُسِکُم ثَمَن? اِلَّا الجَنَّۃَ فَلَا تَبِيعُوھَا بِغَيرِھَا‘‘؛’’تمہاري جانوں کي جنت کے علاوہ کوئي اور قيمت نہيں ہے لہٰذا اپني جانوں کو جنت کے علاوہ کسي اور چيز کے عوض نہ بيچو‘‘۔ يعني اے انسان! اگر يہ طے ہو کہ تمہاري ہستي و ذات اور تشخص و وجود کو فروخت کيا جائے تو اِن کي صرف ايک ہي قيمت ہے اور وہ ہے خدا کي جنت، اگر تم نے اپنے نفس کو جنت سے کم کسي اور چيز کے عوض بيچا تو جان لو کہ تم کو اِس معاملے ميں غبن ہوا ہے! اگر پوري دنيا کوبھي اِس شرط کے ساتھ تمہيںديں کہ ذلت وپستي کو قبول کر لو توبھي يہ سودا جائز نہيں ہے ۔

وہ تمام افراد جو دنيا کے گوشے کناروں ميں زر وزمين اور صاحبانِ ظلم و ستم کے ظلم کے سامنے تسليم ہوگئے ہيں اوراُنہوں نے اِس ذلت و پستي کو قبول کر ليا ہے، خواہ عالم ہوں يا سياست دان، سياسي کارکن ہوں يا اجتماعي امور سے وابستہ افراد يا روشن فکر اشخاص، تو يہ سب اِس وجہ سے ہے کہ اُنہوں نے اپني قدر وقيمت کو نہيں پہچانا اور خود کو کوڑيوں کے دام فروخت کرديا ہے ؛ہاں سچ تو يہي ہے کہ دنيا کے بہت سے سياستدانوں نے خود کو بيچ ڈالا ہے ۔ عزت صرف يہ نہيں ہے کہ انسان صرف سلطنت کیلئے بادشاہت يا رياست کي کرسي پر بيٹھے؛ کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ ايک انسان تخت حکومت پر بيٹھ کر ہزاروں افرادسے غروروتکبر سے پيش آتا ہے اوراُن پر ظلم کرتاہے ليکن اُسي حالت ميں ايک بڑي طاقت اور سياسي مرکز کا اسير و ذليل بھي ہوتا ہے اور خود اُس کي نفساني خواہشات اُسے اپنا قيدي بنائے ہوئے ہوتي ہيں! آج کي دنيا کے سياسي اسير و قيدي کسي نہ کسي بڑي طاقت و قدرت اور دنيا کے بڑے سياسي مراکز کے اسير و قيدي ہيں!

اسلامي انقلاب سے قبل ايران کي ذلت و پستي!

اگر آپ آج ہمارے اِس عظيم ملک پر نگاہ ڈاليں تو آپ مشاہدہ کريں گے کہ اِس ملک کے نوجوانوں کے چہرے اپنے ملک کے استقلال و خودمختاري اور عزت کے احساس سے شادمان ہيں ۔ کوئي بھي اِ س بات کا دعويٰ نہيں کرسکتا ہے کہ اِس ملک کا سياسي نظام، دنيا کي کسي ايک سياسي قدرت کا ايک چھوٹا سا حکم بھي قبول کرتا ہے! پوري دنيا اِس بات کو اچھي طرح قبول کرتي ہے کہ اِس عظيم اوربا عزت ملک ميں اسلامي انقلاب سے قبل ايسي حکومت برسراقتدار تھي کہ جس کے افراد فرعونيت اور تکبر کے مرض ميں مبتلا تھے، اُنہوں نے اپنے ليے ايک اعليٰ قسم کے جاہ وجلال اور رعب و دبدبے کي دنيا بنائي ہوئي تھي اور لوگ اُن کي تعظيم کرتے ہوئے اُن کے سامنے جھکتے تھے ليکن يہي افراد دوسروں کے اسير و اُن کے سامنے ذليل و پست تھے!اِسي تہران ميں جب بھي امريکي سفير چاہتا تو وقت ليے بغير شاہ سے ملاقات کرتا، ہربات کو اُ س پر تھونپتا اور اُس سے اپني بات کي تکميل چاہتا اور اگر وہ انجام نہ ديتا تو اُسے ہٹا ديتا (ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ شاہ ايران ميں اتني جرآت ہي نہيں تھي کہ وہ امريکي حکومت يا امريکي سفير کے مرضي کے خلاف کوئي چھوٹا سا عمل انجام دے!) اِن افراد کا ظاہر بہت جاہ و جلال والا تھا ليکن صرف عوام اور کمزور افراد کے سامنے ۔ امام حسين اِسي پستي و ذلت کو انسانوں سے دور کرنا چاہتے تھے ۔

اخلاق پيغمبر

پيغمبر اکرم  کي حالت يہ تھي کہ ’’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ يَاکُلُ آَکلَ العَبدِ وَ يَجلِسُ جُلُوسَ العَبدِ‘‘ ،’’ وہ غلام و عبد کي مانند غذا تناول فرماتے اور بندوں کے مثل بيٹھتے تھے ‘‘۔ خود پيغمبر اکرم  کے بہت سے عزيز و اقارب امير ترين افراد تھے ليکن لوگوں سے آپ کي رفتار و عمل بہت ہي متواضعانہ تھا، اُن کا احترام فر ماتے اور کبھي فخر و مباہات سے پيش نہيں آتے تھے ليکن آپ  کي ايک نگاہ و اشارے سے اُس زمانے کے بڑے بڑے شہنشاہوں کے بدنوں ميں کپکپي طاري ہوجاتي تھي؛يہ ہے حقيقي عزت!

امامت و سلطنت کا بنيادي فرق

امامت يعني وہ نظام کہ جو خدا کي عطا کي ہوئي عزت کو لوگوں کيلئے لے کر آتا ہے، لوگوں کو علم و معرفت عطا کرتا ہے، اُن کے درميان پيا ر محبت کو رائج کرتا ہے اور دشمنوں کے مقابلے ميں اسلام اور مسلمانوں کي عظمت و بزرگي کي حفاظت جيسا عظيم فريضہ اُس کے فرائض ميں شامل ہے ليکن بادشاہت اور ظالم حکومتيں بالکل اِس کے برعکس عمل کرتي ہيں ۔

آج دنيا کے بہت سے ممالک ميں بادشاہي نظام رائج نہيں ہے ليکن وہ لو گ درحقيقت بادشاہ ہي ہيںاور مطلق العنانيت اُن کے ملک پر حاکم ہے ۔اِن کا نام سلطان ،بادشاہ سلامت،جاں پناہ ،ظلِّ الٰہي اور ظلِّ سبحاني نہيں ہے اور ظاہري جمہوريت بھي اُن کے ملک ميں موجود ہے ليکن اُن کے دماغ ميں وہي قديم سلطنت و بادشاہت اور اُس کي فر عونيت کا قوي ہيکل دِيو سوارہے يعني لوگوں سے ظالمانہ اور متکبرانہ رويہ رکھنا اور اپنے سے بالاتر طاقتوں کے سامنے ذلت ورسوائي سے جھکنا! نوبت تو يہاں تک آپہنچي ہے کہ ايک بہت ہي بڑے اور طاقتور ملک (امريکا) کے اعلي سياسي عہديدار اپنے اپنے مقام و منصب کے لحاظ سے صہيونيوں، بين الاقوامي مافيا، بين الاقوامي خفيہ نيٹ ورک اور بڑي بڑي کمپنيوں کے مالکان کے ہاتھوں اسير و غلام ہيں! يہ لوگ مجبور ہيں کہ اُن کي خواہشات کے مطابق باتيں کريں اور اپنا موقف اختيار کريں تاکہ وہ کہيں اِن سے ناراض نہ ہو جائيں، اِسے کہتے ہيں سلطنت و با دشاہت! جب کسي بھي کام کے ايک پہلو ميں بھي ذلت و رُسورائي موجود ہوگي تو وہ ذلت و رُسوائي اُس کے بدن اور ڈھانچے ميں بھي سرائيت کرجائے گي اور امام حسين نے عالم اسلام ميں پنپنے والي اِسي ذلت و رُسوائي کے خلاف قيام کيا ۔

بندگي خداکے ساتھ ساتھ عزت و سرفرازي

امام حسين کے رفتار و عمل ميں ابتدائ ہي سے يعني مدينہ سے آپ کي حرکت سے شہادت تک معنويت، عزت وسربلندي اور اُس کے ساتھ ساتھ خداوند عالم کے سامنے عبوديت و بندگي اور تسليم محض کوواضح طور پر محسوس کيا جاسکتا ہے جبکہ واقعہ کربلا اورامام ٴکي پوري زندگي ميں يہي بات قابل مشاہدہ ہے ۔

جس دن آپ کي خدمت ميں ہزاروں خطوط لائے گئے کہ ہم آپ کے شيعہ اور چاہنے والے ہيں اور کوفہ و عراق ميں آپ کي آمد کا انتظار کررہے ہيں تو آپٴ کسي بھي قسم کے غرور و تکبر ميں مبتلا نہيں ہوئے ۔ ايک مقام پر آپ ٴنے تقرير کرتے ہوئے فرمايا کہ ’’خُطَّ المَوْتِ عَلٰے وُلدِآدَمَ مَحَطَّ القَلَادَۃِ عَلٰے جِيدِ الفَتَاۃِ‘‘ ١ ِ ’’موت فرزند آدم کيلئے اِس طرح لکھ دي گئي ہے جس طرح ايک گلوبند ايک جوان لڑکي گلے پر نشان چھوڑ جاتا ہے‘‘۔ سيد الشہدا نے يہاں موت کا ذکر کيا ہے ، يہ نہيں کہا کہ ايسا کريں ويسا کريں گے ياامام حسين نے يہاں دشمنوں کو خوف و ہراس ميں مبتلا کيا ہو اور دوستوں اور چاہنے والوں کو سبز باغ دکھائے ہوں کہ ميں تم کو شہر کوفہ کے منصب ابھي سے تقسيم کيے ديتا ہوں؛ايسا ہر گز نہيں ہے! بلکہ سيد الشہدا يہاں ايک سچے اور خالص مسلمان کي حيثيت سے معرفت، عبوديت و بندگي اور تواضع کي بنيا دوں پر قائم اپني تحريک کا اعلان فرمارہے ہيں ۔ يہي وجہ ہے کہ سب لوگ نے اپني نگاہيںاِسي عظيم شخصيت کي طرف اٹھائي ہوئي ہيں اوراُس سے اظہار عقيدت و مودّت کرتے ہيں ۔ جس دن کربلا ميں تيس ہزار پست و ذليل افراد کے ہاتھوں سو سے بھي کم افراد کا محاصرہ کيا

١ بحار الانوار ، جلد ٤٤، صفحہ ٣٦٦

گيا اورلوگ آپ ٴ اور آپٴ کے اہل بيت و اصحاب کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے اور اہل حرم اور خواتين کو قيدي بنانے کيلئے پر تولنے لگے تو اُس خدائي انسان، خداکے سچے بندے اور اسلام کے سچے عاشق ميں خوف اضطراب کا دور دور تک کو ئي نام و نشان نہيں تھا ۔

وہ راوي کہ جس نے روز عاشورا کے واقعات کو نقل کيا ہے اورجو کتابوں کے ذريعہ سينہ بہ سينہ منتقل ہوتے رہے ہيں، کہتا ہے کہ ’’فَوَاللّٰہِ ما رَاَيتُ مَکثُورًا‘‘؛’’قسم خدا کي کہ روز عاشورا کے مصائب ، سختيوں اور ظلم و ستم کے باوجود ميں نے اُنہيں تھوڑا سا بھي ٹوٹا ہوا نہيں پايا‘‘۔ ’’مَکثُورا ‘‘يعني جس پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑيں، جس کا بچہ مرجائے،جس کے دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ديا جائے،جس کے مال و دولت کو لوٹ ليا جائے اور مصيبتوں اور سختيوں کے طو فان کي اُٹتھي ہوئي مو جيںجسے چاروں طرف سے گھير ليں ۔ راوي کہتا ہے کہ ميں نے چاروں طرف سے بلاوں ميں گھرے ہوئے حسين ابن علي کي طرح کسي کو بھي مضبوط چٹان کي مانند نہيں ديکھا، ’’اربط جاشا‘‘۔ مختلف جنگوں ، بڑے بڑے محاذ جنگ اور اجتماعي اور سياسي ميدانوں ميں ہم کو مختلف قسم کے افراد نظر آتے ہيں کہ جو غم و اندوہ کے دريا ميں غرق ہوتے ہيں ۔ راوي کہتا ہے کہ اُس مصيبت اور کڑے وقت حسين ابن علي کي مانندميں نے کسي کو نہيں ديکھا جو شاداب چہرے، مصمم ارادوں کا مالک، عزم آ ہني رکھنے والا اور خداوند عالم کي ذات پر کامل توکل کرنے والا ہو! يہ ہے خداوند عالم کي عطا کي ہوئي عزت! يہ ہيں وہ انمٹ نقوش ہيںجو واقعہ کربلا نے تاريخ پر چھوڑے ہيں ۔ انسان کو ايسي حکومت و معاشرے کے حصول کيلئے جدوجہد کرنا چاہيے يعني ايسا معاشرہ کہ جس ميں جہالت وپستي، انسانوں کي غلامي اور طبقاتي نظام اور نسل و نژاد کے زخم و نا سُور موجودنہ ہوں ۔سب کو ايسے معاشرے کے حصول کيلئے مل کر اجتماعي جدوجہد کرني چاہيے تاکہ وہ وجود ميں آئے اور آئے گا اور يہ کام ممکن ہے ۔


source : http://www.islamshia-w.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

" پيشوائے صادق " ميں حضرت امام جعفر صادق کے متعلق ...
دوسرا باب فضائلِ علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ...
اولوا الامر سے مراد کون ھیں؟
فدک جناب فاطمہ (ع) کے پاس
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کے خطوط بادشاہوں ...
حضرت امام علی علیہ السلام
حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ
قرآن امام سجاد (ع) کے کلام ميں
حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیّبہ
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں

 
user comment