قرآن كریم، خداوند عالم كی جانب سے انسانوں كے لئے عظیم ترین تحفہ ہے جو سعادت جاودانی كی طرف ان كی ہدایت كرتا ہے۔
قرآن مجید، اسلام اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كی رسالت كی حقانیت پر بہترین دلیل ہے جو ہمیشہ اپنے اعجاز آفرین بیان سے تمام انسانوں كے لئے حجت تمام كردیتا ہے۔
قرآن حكیم، اسلامی احكام و معارف كے اثبات كی معتبر ترین سند ہے خداوند متعال نے جس كی بقا كی ضمانت لی ہے۔ اور ہر طرح كی تحریف سے اس كو محفوظ و مصئون ركھا ہے۔
قرآن شریف، تمام مسلمانوں كے درمیان اتحاد و اتفاق كا محكم ترین محور ہے جس میں تمام فرقوں اور گروہوں كے درمیان اختافات مٹانے كا منبع ووسیلہ بننے اور تمام حق كے متلاشیوں كے سامنے دین كے اصل خطوط واضح كرنے كی صلاحیت موجود ہے۔
ان سب كے باوجود مسلمانوں نے حقائق كی شناخت اور اس كے اصول و قوانین كی اطاعت كے سلسلہ میں ضروری اہتمام سے كام نہیں لیا ہے اسی بنا پر رحمت الہٰی كا پیغام لانے والا بارگاہ پروردگار میں شكایت كرتا نظر آتا ہے: ۔
“وَقال الرسول یارب انَّ قومی اتَّخذوا ھٰذا القرانَ مھجوراً”
(اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے كہا: اے میرے پالنے والے ! بے شك میری اس قوم نے اس قرآن كو مہجور و تنہا چھوڑ دیا ہے) ۔ فرقان/۳۰
ہمارے عصر كی جلیل القدر ہستی علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ نے حوزہٴ علمیہ قم میں قرآن كے احیاء كا پرچم بلند كیا اور اپنے دروس نیز “المیزان” جیسی تفسیر لكھ كر اس راہ میں ایك عظیم قدم اٹھایا كہ انشاء اللہ خداوندعالم انہیں اس كا اجر عطاكرے گا اس جذبہ سے سرشار ہوكر ہم نے قرآنی افكار سے آگاہی حاصل كرنے كے لئے اس كے مطالب كو چند عنوانات كے تحت جدید پیرائے میں اختصار كے ساتھ درس كے عنوان سے رواں و عام فہم زبان میں پیش كرنے كی كوشش كی ہے۔
جیسا كہ امیرالمونین صلوات اللہ علیہ نے فرمایاہے كہ قرآن ایك بے كراں سمندر ہے جس كی گہرائیوں تك پہنچنا معصومین صلوات ا للہ علیہم اجمعین كے علاوہ كسی كے لئے ممكن نہیں ہے اس كے باوجود خود قرآن نے بھی اور حضرت ائمہٴ طاہرین علیہم السلام نے بھی لوگوں كو قرآنی آیات كے بارے میں غور و فكر سے كام لینے كی دعوت دی ہے قرآن كہتا ہے: ۔
“كِتَاب اَنزلناہ الیك مبارك لیدّبروا آیاتہ ” (سورہٴ ص آیت ۲۹)
ہم نے بركتوں سے معمور كتاب تم پر اس لئے نازل كی ہے تاكہ لوگ اس كی آیتوں پر غوروفكر كریں۔
قرآن اسی پر اكتفا نہیں كرتا بلكہ وہ لوگ جو قرآن میں فكر و تدبر سے كام نہیں لیتے ان كو مورد مواخذہ قرار دیتا ہے: ۔
“اَفَلا یَتَدَبّرونَ القرآن اَم عَلیٰ قُلُوب اَقضَالُھَا” (سورہٴ محمد آیت ۲۴)
آیا وہ قرآن كے بارے میں غور و فكر نہیں كرتے یا ان كے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں؟
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہٴ ہدیٰ علیہم السلام نے بھی قرآن كی طرف رجوع كرنے اور اس كی آیتوں پر غور و فكر كرنے كی بڑی شدّت كے ساتھ تاكید كی ہے، خصوصاً جبكہ معاشرہ كی فكر ظلمبت و آشفتگی كا شكار ہو اور مسلمانوں كے درمیان ایسے شكوك و شبہات سر اٹھارہے ہوں جوان كو فكری و عقیدتی انحرافات میں مبتلا كرنے كا سبب ہوں تو ایسے حالات میں قرآن كی طرف رجوع كرنے كی شدید لہجہ میں تاكید كی گئی ہے: ۔
اِذّا التَبَسَت علیكم الفتن كقطع اللیل المظلم فعلیكم بالقرآن 1
جب فتنے اندھیری رات كے ٹكڑوں كی مانند تم كو گھیر لیں تو قرآن كی جانب رجوع كرو۔
اگر چہ بہت سی روایت اس بات پر دلالت كرتی ہیں كہ قرآن كا كامل علم محض پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام كے پاس ہے اور وہی قرآن كے حقیقی معلم و مفسّر ہیں (جیسا كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كے بارے میں قرآن كہتا ہے، قرآن كے معلم اور اس كو بیان كرنے والے خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہیں) 2 اس كے باوجود ہم دیكھتے ہیں كہ خود نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہ اطہار علیہ السلام نے بھی قرآن كی طرف رجوع كرنے كی تاكید كی ہے حتیٰ فرمایا ہے: اگر ہم سے منقول روایات كے بارے میں شك پیدا ہوتو انہیں قرآن كی روشنی میں پركھ لو”
روایات میں “عرض علیٰ الكتاب” 3 كے عنوان سے ایك مستقل باب موجود ہے اور جس كا ذكر اصول كی كتابوں میں بھی تعاول و ترجیح كے عنوان سے مذكور باب میں ملتا ہے كہ روایتوں كے درمیان ترجیح یا ان كے قابل اعتبار ہونے كی شرطوں میں سے ایك شرط ان كی قرآن كے ساتھ موافقت یاعدم مخالفت بھی ہے۔
لہٰذا جب ہم كسی روایت كا اعتبار برقرار ركھنے یا كم از كم اس كو دوسری روایت پر ترجیح دینے كے لئے قرآن كے ساتھ اس كی مطابقت كریں تو آیت كا مفہوم ہم پر واضح و روشن ہونا چاہیئے تاكہ روایت كی اس كے ساتھ تطبیق كرسكیں اور اگر یہ صورت ہو كہ آیت كا مفہوم بھی روایت كے ذریعہ سمجھا جائے تو دور لازم آتا ہے لہٰذا یہ اشتباہ كہ كوئی شخص روایت كی طرف رجوع كئے بغیر قرآن كے بارے میں فكر و تدبر اور استفادہ كا حق نہیں ركھتا ایك خیال خام ہے ہم كو خود قرآن میں خداوندمتعال نے بھی حكم دیا ہے اور پیغمبر اكرم و ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بھی قرآنی آیات میں غور و فكر كی تاكید كے ساتھ دعوت دی ہے۔ مگر افسوس گذشتہ دور میں اس جانب كوتاہی سے كام لیاگیا یہاں تك كہ قرآن اور تفسیر قرآن كے دروس حتی دینی علمی مراكز میں بھی ضعف و اضمحلال كا شكار بلكہ نہ ہونے كے برابر تھے۔
اور پھر حوزہٴ علمیہٴ قم میں علامہ طباطبائی رضوان الله علیہ كو یہ توفیق حاصل ہوئی كہ انہوں نے حوزہٴ علمیہٴ قم میں تفسیر قرآن كو حیات نو بخشی اور یہ عظیم افتخار ان كے نصیب میں آیا ہم سب كو ان كا شكر گزار ہونا چاہئے كہ آج اسلامی معارف كی شناخت كے سلسلہ میں عظیم ترین مآخذ و مدرك یہی تفسیر المیزان ہے جو آپ نے تالیف فرمائی ہے۔
بہر حال، وہ ذمہ داری جو ہم پر خداوند عالم اور اس كے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كی جانب سے مقرّر كی گئی ہے اس كے تحت ہمیں قرآن كے بارے میں غور و فكر اور تدبر و تعقل سے كا م لے كر ان گراں بہا موتیوں سے استفادہ كرنا چاہیئے جو خدا وند عالم نے لوگوں كے لئے اس میں ذخیرہ كردیئے ہیں۔
آج بحمداللہ قرآن كریم كی تعلیم و تفسیر كی اہمیت ہمارے عوام پر بڑی حد تك روشن و واضح ہوچكی ہے ان كے درمیان تفسیر قرآن كی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے بے نظیر ہے عوام كے درمیان اس كا استقبال اور ان كی گرم جوشی اگر چہ دل كو شادمانی عطاكرتی ہے لیكن اس كے ساتھ ہی اس بات سے خوف زدہ رہنا چاہیئے كہ كہیں قرآن كی تفسیر كجروی كا شكار نہ ہوجائے كیونكہ یہ چیز نہ صرف یہ كہ معاشرہ كو حقائق سے قریب نہیں كرسكتی بلكہ شیطانی مقاصد كے لئے راہ كھول دے گی اور افسوس یہ كام ہوا بھی ہے، آج مختلف ناموں سے ایسے گروہ موجود ہیں جو بزعم خود قرآن سے استفادہ كرتے ہوئے اپنے ذاتی افكار كو قرآنی آیات سے ثابت كرنے كے دعویدار ہیں ان میں سے بعض كا چہرہ تو بالكل پہچانا جاچكا ہے لیكن بعض ایسے بھی ہیں جو گویا ابھی اچھی طرح پہچانے نہیں جاسكے ہیں لیكن اس میدان میں ان كی سرگرمی بہت بڑھی ہوئی ہے لہٰذا اگر چہ قرآ ن كو سمجھنے كے سلسلہ میں عوام خصوصاً نوجوانوں كی بے پناہ دلچسپی ہمارے لئے خوشی كا باعث ہے لیكن اس كے ساتھ ہی ہمیں خبردار رہنا چاہیئے كہ تفسیر قرآن كے سلسلہ میں انحراف كی وہ روش پیدا نہ ہونے پائے جو خدانخواستہ معاشرہ كو غلط راہ پر لگا دے۔
اور یقیناً اس منزل میں بھی، یہ بھاری ذمہ داری علما كے دوش پر ہی عائد ہوتی ہے كہ وہ قرآن سے شغف ركھنے والوں كے لئے صحیح راہ مشخص و معین كریں كیونكہ تمام كے تمام منحرفین جان بوجھ كر كسی غرض كے تحت اسلام اور اسلامی حكومت كے دشمن نہیں بن گئے ہیں بلكہ ان كی بڑی تعداد… شاید اكثریت … اشتباہات اور غلط تعلیمات و تلقینات كا شكار ہو كر اس راہ پر لگ گئی ہے اور كتنے افسوس كا مقام ہے كہ ان میں سے بعض كو ماضی میں بعض علماء كی تاٴیید بھی حاصل رہی ہے۔
بہر حال ہمیں ان مسائل سے بڑی ہوشیاری كے ساتھ نپٹنا چاہئیے اور خیال ركھنا چاہیئے كہ ہمیں تعلیم قرآن كی وہ درست راہ حل كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے نشان دہی كردی ہے اپنانا چاہیئے اور تمام تر خود غرضانہ مقاصد كو بالائے طاق ركھ كر قرآن كو خود اپنے مقاصد و افكار سے تطبیق كرنے كے بجائے كوشش كرنا چاہئے كہ اپنے افكار كو قرآن كی روشنی میں درست كریں كیونكہ یہ وہ بلا ہے جو امیرالمومنین علیہ السلام كے زمانے میں بھی رائج تھی اور نہج البلاغہ میں حضرت علیہ السلام نے اپنے جن دردوں كی فریاد كی ہے ان میں سے ایك یہی ہے كہ بعض لوگ قرآن كو خود اپنے افكار پر منطبق كرنے كی كوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
جب اس زمانے میں، حتی عہد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے اتنا قریب ہونے اور حضرت علی علیہ السلام جیسے افراد كی موجودگی كے باوجود اس طرح كا انحراف اور گمراہی پیدا ہوسكتی ہے تو اس زمانہ میں جبكہ ہماری علمی كمزوریاں بھی واضح ہیں۔ كوئی بعید نہیں ہے كہ یہ كجی بہت ہی زیادہ وسیع پیمانے پر پیدا ہو۔
لہٰذا، بلا شك و شبہ یہ علماء اسلام كی واجب ترین ذمہ داریوں میںسے ہے كہ وہ قرآن كریم كے تمام تر مفاہیم مختلف علمی سطحوں (اعلیٰ، اوسط یا ادنیٰ) كے اعتبار سے جس قدر بھی ممكن ہو صحت و یقین كے ساتھ بیان كریں اور معاشرہ كو قرآنی خزانوں سے بہرہ وركریں۔ اور اگر یہ اہم ترین كام انجام نہ پایا اور علمانے اس طرف توجہ نہ دی تو گمراہی كی جو صورت آج ہم دیكھ رہے ہیں اس سے بھی بدصورت حال كے لئے ہمیں تیار رہنا چاہیئے۔
آج زیادہ تر مسلمان نوجوان اس كے لئے تہہ دل سے آمادہ اور بیتاب ہیں كہ قرآنی مفاہیم كو سمجھیں اور یاد كریں حتی اپنے خیال و دماغ كے اعتبار سے وہ ‘المعجم’اور اسی قسم كی دوسری كتابوں كی طرف رجوع كركے اس پر تحقیق فرمانے كی بھی كوشش كرتے ہیں وہ فكر كرتے ہیں كہ یہ ایك معمولی اور ساد سا كام ہے۔ شاید یہ لوگ اپنے اس گمان میں معذور ہوں لیكن وہ لوگ جو برسوں علمی دینی مراكز میں رہے ہیں اور حوزہٴ علمیہ میں بزرگوں سے آیات و روایات میں دقّت نظر سے كام لینے كا درس لیا ہے اگر وہ بھی اسی انداز میں فكر كریں تو حق یہ ہے وہ ہرگز قابل معافی نہ ہونگے۔
ہماری ذمہ داری ہے كہ وہ قوانین و اصول جو بزرگ علماء و مفسرین نے ہمارے حوالے كئے ہیں ہم ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ غور و فكر سے كام لے كر قرآن كے روشن و واضح مفاہیم اخذكریں اور معاشرہ تك پہنچائیں تاكہ قرآن و اسلام كے تئیں اپنی ذمہ داری سے سبك دوش ہوسكیںدوسری طرف، اگر چہ قرآن كا آسانی سے سمجھنا اور تفسیر كرنا ممكن نہیں ہے۔پھر بھی ایك شخص جو قرآن كو سمجھنا چاہتا ہے اس سے اگر ہم كہیں كہ اس كے لئے كم از كم تم كو تیس سال كام كرنا ہوگا، تعلیم حاصل كرنی ہوگی تب كہیں تم قرآن سمجھنے كے قابل ہوسكو گے تو گویا ہم نے اس كو قرآنی مطالب سمجھنے كے قابل ہوسكو گے تو گویا ہم نے اس كو قرآنی مطالب سمجھنے اور یاد كرنے سے مایوس كردیا۔ اور نتیجہ میں اس كا منحرفین كے ہتھے چڑھ جانا یقینی ہے۔ ٹھیك ہے كہ قرآن كا سمجھنا، خاص زحمت، محنت اور مہلت كا طالب ہے۔اور یہ كام سب نہیں كرسكتے اس لئے چند افراد كو بہر حال یہ زحمتیں اٹھانا ہوں گی تاكہ وہ اپنی محنت و ریاضت كا پھل دوسروں كی خدمت میں تقدیم كریں تاكہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جو باتیں ہم پیش كریں ان كے مستند اور قرآن كریم پر مبنی ہونے كے بارے میں كوئی شك و شبہ نہ ہونا چاہیئے اسی كے ساتھ ہی ایك دوسرے سے غیر مربوط اور نظم و ترتیب سے عاری بھی نہ ہونا چاہئے كیونكہ اگر مطالب پراگندگی كا شكار ہوں تو نہ صرف ان كا یادركھنا مشكل ہے بلكہ ایك غلط فكری نظام كے مقابلہ میں ایك صحیح فكری نظام سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے و ہ بھی حاصل نہ ہوگا۔
تمام منحرف مكاتب فكر نے اپنے افكار و تصورات كو ایك نظم اور ایك شكل دینے كی كوشش كی ہے یعنی انہوں نے چاہا ہے كہ اپنے مطالب كی ایك بنیاد پیش كریں اور مربوط مسائل كے ایك سلسلہ كو آپس میں ربط دے كر ایك منظم و ہم آہنگ مجموعہ وجود میں لے آئیں۔ ہم تو صحیح جہت اور صحیح راہ ركھتے ہیں ہمیں ان كے مقابلے میں بعینہ یہی كام كرنا چاہیئے۔ یعنی ہم قرآنی معارف كو ایك منظم اور سسٹمیٹك انداز میں اس طور پرپیش كریں كہ ایك محقق اور علم كا متلاشی ذہن ایك نقطہ سے شروع كرے اور اسلامی معاف كی كڑیاں كسی زنجیر كے مانند ایك دوسرے میں پروتا چلا جائے اور آخر میں قرآن و اسلام نے جس ہدف و مقصد تك پہننانا چاہا ہے اسے حاصل كرلے۔
بنا برین ہم قرآنی معارف كی تقسیم بندی كركے اسے ایك نظم و ترتیب كے ساتھ پیش كرنے پر مجبور ہیں تاكہ ایسے نوجوانوں كے لئے جن كے پاس وقت كم ہے، اس كا سیكھنا آسان اور ممكن ہو دیگر مكاتب فكر كے مقابلے میں بھی پیش كیا جاسكے۔
قرآنی معارف كی تقسیم بندی جو قرآن كی تفسیر موضوعی كے ساتھ منسلك ہے (یعنی آیات قرآنی كو موضوعات كے تحت الگ الگ تقسیم كردیں اور ان كے مفاہیم سمجھنے كی كوشش كریں نیز انكے درمیان رابطہ كو پیش نظر ركھیں) یہ كام اگر چہ ضروری ہے مگر اس میں كچھ دشواریاں بھی ہیں۔
قرآنی معارف كی ترتیب و تقسیم كے لئے ہمیں موضوعات سے متعلق ایك خاص نظم و ترتیب ملحوظ نظر ركھنا چاہیئے، اس كے بعد ہر موضوع سے متعلق آیتیں تلاش كرنا پھر ایك دوسرے كے ساتھ ملاكر دیكھنا اور ان كے بارے میں غور و فكر كرنااور ان كے مبھم نكات كو روشن و واضح كرنے كے لئے ان ہی آیتوں میں ایك دوسرے سے مدد حاصل كرنا چاہیئے۔ یعنی قرآن سے قرآن كی تفسیر كرنا چاہیئے وہی راہ جو علامہ طباطبائی طاب ثراہ نے اپنی تفسیر المیزان میں دكھائی اور اپنائی ہے۔ لیكن اس بات كی طرف بھی متوجہ رہنا ضروری ہے كہ جب ہم نے ایك آیت كو اس كے مخصوص سیاق سے نكال كرالگ كرلیا اور اس كے قبل و بعد كے رعایت كئے بغیر تنہا اسی كو اپنا محور قرار دیا تو ممكن ہے آیت كے حقیقی مطلب تك ہم نہ پہنچ سكیں، دوسرے لفظوں میں قرآن میں كلامی قرائن پائے جاتے ہیں اور یہ قرائن كبھی آیت سے پہلے كبھی اس كے بعد اور كبھی كبھی تو دوسرے سوروں میں نظر آتے ہیں ا ن قرائن پر توجہ كئے بغیر آیتوں كے حقیقی و واقعی مطالب تك رسائی حاصل نہیں كی جاسكتی۔
اب اگر ہم چاہتے ہیں كہ ان حالات سے دوچار نہ ہوں اور آیتیں سب ایك دوسرے سے جدا اور ٹكڑے ٹكڑے ہو كر اپنے واقعی مطلب سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں تو ہمیں كافی دقت نظر سے كام لینا ہوگا یعنی كسی آیت كو كسی موضوع كے تحت قرار دینے سے پہلے اس آیت كے قبل و بعد پر بھی نظر كرلیناچاہیئے اگر احتمال پیدا ہو كہ قبل و بعد كی آیتوں میں كوئی قرینہ موجود ہے تو اس كا بھی ذكر كرنا چاہیے۔ اس میں كوئی حرج كی بات نہیں ہے كہ ہم جس آیت سے استفادہ كرنا چاہتے ہیں اس كا قبل و بعد كی آیتوں كے ساتھ ذكر كریں اور دونوں حصوں كو بریكیٹ میں لكھ دیں تاكہ آیت سے استفادہ كرتے وقت متعلقہ “گفتگو كے قرائن” كی طرف سے غفلت كا شكار نہ ہوں۔
میں اس نكتہ كی طرف ایك بار پھر متوجہ كرنا ضروری سمجھتا ہوں كہ ہمیشہ آیت كے قبل و بعد اس كے قرائن پر غور و فكر كے بعد ہی كسی آیت سے استدلال كرنا چاہیئے، حتیٰ مقالہ نگار كو خود اس مرحلے سے دوچار ہونا پڑا ہے كہ بعض وقت ایك آیت سے متعلق غور و فكر كے بعد اظہار نظر كرتا ہوں اور پھر ایك مدّت كے بعد متوجہ ہوتا ہوں كہ اس سے قبل كی آیت میں قرینہ موجود تھا جس كی طرف اس وقت متوجہ نہیں ہوسكا تھا اگر اس كی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو استدلال میں اور زیادہ استحكام پیدا ہوجاتا یا یہ كہ استدلال كا رخ كچھ اور ہوتا لہٰذا ہمیں اس نكتہ كی طرف سے ہرگز غفلت نہیں برتنا چاہئے۔
جب ہم قرآن كے مفاہیم و معارف كی تقسیم بندی پر مجبور ہیں اور اس تقسیم بندی كے نتیجہ میں طبیعی طور پر آیتوں كی بھی تقسیم بندی كرنا پڑے گا (یعنی ہر باب كے ذیل میں چند آیتوں كا ذكر ضروری ہوگا) تو ہمیں یہ دیكھنا ہوگا كہ آیتوں كی یہ تقسیم بندی كس بنیاد پر اور كس نظام كے تحت انجام دیں؟
سبھی جانتے ہیں كہ قرآن كریم میں انسانی كتب میں رائج تقسیم بندی كے طریقوں كو پیش نظر نہیں ركھا گیا ہے۔ بہت ہی كم ایسے سورے ملیں گے۔ حتیٰ ایك سطری سورے كیوں نہ ہوں۔جن میں شروع سے آخر تك صرف ایك موضوع پر گفتگو كی گئی ہو زیاد تر… حتیٰ ایك ہی آیت میں …كئی كئی مطالب سمودیئے گئے یں اس طرح ایك ہی آیت مختلف پہلوؤں اور گوناگوں رخون سے قابل استفادہ نظر آتی ہے۔ مثلا ایك ہی آیت میں اعتقادی پہلو بھی موجود ہے اور اخلاقی بھی، تاریخی پہلو بھی ہے اور تشریعی بھی وغیرہ وغیرہ چنانچہ آیات كے تجزیے میں یہ بھی ایك مشكل پیش آتی ہے البتہ اس مشكل كا حل یہ ہے كہ ایك ہی آیت كو ہم متعلقہ مختلف عنوانوں كے تحت تكراری طور پر ذكر كرسكتے ہیں۔
آیات كی تقسیم
كسی مفہوم یا موضوع كے تحت ایك یا چند آیتوں كے لئے مثلاً نماز، جہاد، یا امربالمعروف و نہی عن المنكر سے متعلق آیتوں كے لئے ایك جامع اور كلی عنوان تلاش كرلینا كوئی مشكل كام نہیں ہے البتہ چند عنوانات كو ربط و ترتیب كے ساتھ ایك منظم شكل دینا یا ایك زنجیر میں پرودینا واقعی مشكل ہے۔ یعنی فرض كیجئے كہ ہم نے پورے قرآن كی تحقیق كی اور جو مفاہیم ہاتھ آئے، مثلاً سو عناوین ان كے تحت، ہم نے ان كی تقسیم بندی كردی اب مسئلہ یہ ہے كہ خود ان عناوین كو كس طرح مرتب كریں كہ ایك منظم نظام وجود میں آجائے؟ مثال كے طور قرآن كی پہلی آیت حمد باری تعالیٰ میں ہے لہٰذا پہلا عنوان “حمد خدا” قرارد یںاسی طرح سورہٴ بقرہ كی ابتدائی آیت ان لوگوں كے بارے میں ہے كہ قرآنی ہدایت جن كے شامل حال ہوئی ہے لہٰذا دو سراعنوان “ہدایت” قرار پائے گا اور اسی طرح تمام عنوانات، لیكن كیا ہم اسی ترتیب سے تمام عنوانات كی تقسیم بندی كریں؟ یا خود ان عنوانات كے درمیان بھی ایك نظم و ترتیب ممكن ہے اور ان كی ابتدا كے لئے بھی ایك طبیعی و منطقی نقطہ پیش نظر ركھنا ضروری ہے؟
ان عناوین كو ایك زیادہ جامع اور ہمہ گیر عنوان كے تحت درج كیا جاسكتا ہے مثلاً نماز، روزہ، خمس اور زكواة وغیرہ كو “عبادات” كے عنوان سے، بیع (خرید و فروخت) ۔ اجارہ (كرایہ داری) اور قرض وغیرہ كو “معاملات” كے عنوان كے تحت درج كیا جاسكتا ہے اب ان جامع اور كلی عنوانوں كو كس طرح تنظیم و ترتیب دیں؟ اور ان كے درمیان كون سا رابطہ ملحوظ نظر ركھیں؟
تقسیم كے قاعدے
اس منزل میں تین قاعدے بیان كئے جاسكتے ہیں (دیگر قواعد بھی ممكن ہیں لیكن ہم نمونہ كے طور پر یہاں قرآنی معارف كی تقسیم بندی كے جو اہم قاعدے پیش كئے جاتے ہیں بیان كررہے ہیں تاكہ ان كے درمیان سے ا یك قاعدہ اپنے لئے منتخب كرسكیں۔
پہلا قاعدہ
شاید ذہن اس تقسیم بندی سے زیادہ آشنا ہوں كہ تمام دینی مطالب تین قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں…
1۔ عقائد
2۔ اخلاق
3۔ اور احكام۔
تفسیر المیزان میں بھی بہت سے مقامات پر اس روش كا ذكر كیا گیا ہے اس طرح تقسیم بندی كا ایك طریقہ تو یہ ہوا كہ تمام قرآنی معارف كو تین حصوں میں تقسیم كردیا جائے كہ ایك حصہ اصول عقائد (توحید، نبوت، معاد، عدل اور امامت) نیز ان اصول دین كے جزئیات مثلاً عالم برزخ كے جزئیات كے باب میں، دوسرا حصہ اخلاق كے باب میں اور تیسرا حصہ احكام كے باب میں ہو اور ہمارے فقہانے احكام كے باب میں یہ كام كیا بھی ہے۔ انہوں نے آیات الاحكام كے موضوع پر “كنزالعرفان” اور “زبدة البیان” جیسی مستقل كتابیں تحریر فرمائی ہیں۔
یہ قاعدہ شاید دیكھنے میں بہت اچھا محسوس ہو اور بظاہر ہے بھی بہت خوب، لیكن اس میں معمولی طور پر سہی دشواریاں اور خرابیاں بھی نكالی جاسكتی ہیں اوّلاً یہ كہ تمام مفاہیم قرآنی كو ان تین حصوں میں سمونا مشكل ہے۔ مثال كے طور پر قرآنی آیات كا خاصا اہم حصہ تاریخ انبیاء اور پیغمبروں كے واقعات پر مشتمل ہے اگر چہ ان داستانوں كے ضمن میں بھی توحیدی، تشریعی اور اخلاقی نكتے موجود ہیں لیكن پوری كی پوری داستان اس فہرست میں ركھی جاسكتی نہ اُس فہرست میں بلكہ یہ خود ایك مخصوص حصہ اور مستقل عنوان ہے جن كو اگر جملوں اورٹكڑوں میں تقسیم كردیا جائے تو داستان باقی نہ رہے گی اور اگر كوئی اصحاب كہف سے متعلق قرآنی نقطہ نظر معلوم كرنا چاہے اس كو پتہ نہ ہوگا كہ یہ واقعہ كس باب میں تلاش كرے ایك روشن و گویا باب جس كے ذیل میں ہر انسان آسانی سے تمام قرآنی داستانیں مشخص طور پر جان لے اس تقسیم كے تحت میسر نہ ہوگی۔
اس میں، جزئی طور پر، ایك قابل اعتراض پہلو یہ بھی ہے كہ خود یہ تینوں اقسام ایك دوسرے سے كوئی واضح رابطہ و تعلق نہیں ركھتیں اور بڑی دقت كے ساتھ ہی ان میں رابطہ قائم كیا جاسكے گا، البتہ یہ اعتراضات بڑی ہی جزئی حیثیت ركھتے ہیں اور اس سے بہتر و مناسب كوئی دوسری راہ نہ ہونے كی صورت اس ہم اسی قاعدہ پر عمل كرسكتے ہیں۔
دوسرا قاعدہ
دوسرا قاعدہ اس بات پر مبنی ہے كہ قرآن كو انسان كے لئے ہدایت مانتے ہیں: “ھدی للنّاس” اور انسان چونكہ گوناگوں مادی، معنوی، فردی، اجتماعی، دنیوی و اخروی پہلوؤں كا حامل ہے لہٰذا قرآنی معارف كو وجود انسانی كے مختلف پہلوؤں كے اعتبار سے تقسیم كرتے ہیں اس طرح قرآنی معارف كی تقسیم بندی كو محور خود “انسان” كو قرار دیتے ہیں۔
یہ كام یقیناً ممكن ہے اور اس میں كوئی بنیادی نوعیت كا قابل اعتراض پہلو بھی نظر نہیں آتا لیكن فنی كمزوریاں پہلے قاعدے سے زیادہ اس میں ہیں كیونكہ جب ہم قرآن كے دقیق مفاہیم سے آشنا ہوتے ہیں تو دیكھتے ہیں كہ خود انسان كو محور قرار دینا قرآن كی نظر میں بہت زیادہ قابل قبول نہیں ہے، اور ایہ ایك قسم كا “ہیومنسٹ” طرز فكر ہے جس میں انسان كو اصل قرار دیتے ہیں اور ہر چیزكی قدر و قیمت انسان سے ربط و تعلق كی بنیاد پر قائم كرتے ہیں! قرآن اس انداز فكر كا موافق نہیں ہے، ہم واضح طور پر دیكھتے ہیں كہ تمام قرآنی مفاہیم كے تمام ابواب عقائد سے لے كر اخلاق، موعظہ، داستان، تشریع، فردی و اجتماعی احكام وغیرہ تك سب كے سب ایك اور صرف ایك محور ركھتے ہیں اور وہ خود خداوند تبارك و تعالیٰ كی ذات ہے، چنانچہ قرآن جہاں كوئی قانون اور حكم بیان كرتا ہے كہتا ہے: خدا نے تم پر یہ حكم نازل فرمایا ہے، جہاں كسی اخلاقی پہلو كا ذكر كرتا ہے كہتا ہے یہ وہ خلق عادت ہے جو خدا كو پسند ہے…ملاحظہ فرمائیں: ۔
سورہٴ مائدہ كی ۴۲ویں آیت: “واللّہ یحب المقسطین”، (اللہ انصاف پسند لوگوں كو دوست ركھتا ہے) آلِ عمران كی ۱۴۶ ویں آیت: “واللّہ یحب الصّابرین”، (اللہ صبر كرنے والوں سے محبت كرتا ہے) قصص كی ۷۷ ویں آیت: “ان اللّہ لایحب المفسدین”، (اللہ مفسدوں كو پسند نہیں كرتا)
لہٰذا اخلاق كا محور بھی خدا كی ذات ہے، بنابرین ہم كہہ سكتے ہیں كہ قرآنی آیات “اللہ محوری” كی اساس پر مبنی ہیں دوسرے لفظوں میں مكتب قرآن مكتب الہٰی ہے “ہیومنزم” نہیں ہے۔ پس انسان كو محور كل قرار دینا ایك طرح كا انحراف ہے قرآنی معارف كا محور خدا كو قرار دینا چاہیئے اور اس كی پوری طرح حفاظت كرنا چاہیئے۔
دوسرا نقص یہ ہے كہ انسانی وجود كے پہلو مبہم ہیں اور یہی مشخص نہیں ہے كہ انسان كتنے جنبوں كا حامل ہے كہ ہم كہہ سكیں انسانی وجود كے اِن اِن پہلوؤں كی ایك واضح تقسیم بندی كی بنیاد پر قرآنی آیات كی تقسیم بندی كرلی جائے۔ دوسری طرف پہلی نظر میں وجود انسان كے تمام پہلوؤں كے درمیان كوئی واضح ارتباط بھی نہیں پایا جاتا۔
تیسری دشواری یہ ہے كہ انسانی وجود كے مختلف پہلو (اگر مشخص ہو بھی جائیں) تو ان كی بنیاد پر قرآنی معارف كی تقسیم بھی ایك لاحاصل كام ہوگا كیونكہ ہم دیكھتے ہیں۔ بعض اوقات ایك حكم الہٰی اور ایك خلق و عادت جس كو انسان كے لئے اچھا قرار دیا گیا ہے انسان كے كسی ایك مخصوص جنبہ سے اس كا تعلق نہیں ہے بلكہ وجود انسانی كے بہت سے گوشے اس حكم و قانون اور اخلاق سے اس طورپر تعلق ركھتے ہیں كہ یہ نہیں كہا جاسكتا قرآن كا یہ بیان یقینی طور پر انسانی وجود كے فلاں پہلو سے مربوط ہے۔
تیسرا طریقہ
یہ ہے كہ خود اللہ كو محور قرار دیں اور قرآنی معارف كی تقسیم بندی عرض میں نہیں بلكہ ایك دوسرے كے طول میں انجام دیں یعنی قرآنی معارف كو ایك ایسے بہتے ہوئے دریا اور آبشار كی مانند خیال كریں كہ جس كا منبع و سرچشمہ فیض الہٰی ہے یہ جس منزل اور مرحلے میں پہنچتا ہے سیراب كردیتا ہے۔
“اَنزلَ مِنّ السّمَاءِ فَسَالَت اَودیۃ بقدرھا…” (رعد/۱۷)
“خداوند عالم آسمان سے جو پانی برساتا ہے اپنی ظرفیت كے اعتبار سے ہر وادی اس سے استفادہ كرتی اور سیراب ہوتی ہے۔”
ہمیں اسلامی معاف كو ایك بہتا ہوا چشمہ خیال كرنا چاہیئے جو ایك مرحلے سے گزركر دوسرے مرحلہ میں وارد ہوتا ہے اور ان مرحلوں كے تقسیمات طولی ہیں عرضی نہیں ہیں ابتداء ایك مخصوص نقطہ سے یہ چشمہ ابلنا شروع كرتا ہے جب وہ جگہ لبریز ہوجاتی ہے اس كا فیضان دوسری جگہ پہلی جگہ پہنچتا ہے اب یہ دوسری جگہ كی فرع قرار پائے گی نہ یہ كہ اسی كے برابر اور اسی كی قسیم ہو۔ اگر چہ ایك منزل میں ان طولی تقسیمات سے بھی مختلف شاخیں پھوٹنا شروع كردیتی ہیں پھر بھی بنیادی طور پر اسلامی معارف كو طول مراتب كے اعتبار سے ہی ملحوظ نظر ركھنا چاہیئے۔ ہماری نظر میں یہ قاعدہ چند دلیلوں كے تحت قابل ترجیح ہے۔
پہلی دلیل اس میں محور خدا كی ذات ہے اور اس كے برابرو مساوی كسی بھی چیز كو قرار نہیں دیتے: ۔
ھُوَالاَوّل وَالآخرُ وَالظّاھِرُ وَالبَاطِنُ (حدید/۳)
وہی (خدا) اول بھی ہے اور آخر بھی ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔
دوسری تقسیمات كے برخلاف كہ جس میں یا تواصل محور انسان كی مانند كسی دوسری شئی كو قرار دیتے ہیں یا اگر توحید و عقائد سے بھی بحث كرتے ہیں تو اسی كے برابر و متساوی اخلاق و احكام كا اعتقادات كے قسیم كے طور پر ذكر كرتے ہیں… لیكن اس تقسیم میں ابتدائی طور پر ایك كے علاوہ كوئی بھی دوسری بحث نہیں ہے اور نہ ہی اس كے متوازی كسی دوسری بحث كو ركھنے كی گنجائش ہے۔ جب تك یہ بحث حل نہ ہو اور اس سے فارغ نہ ہوجائیں دوسرے مرحلے اور دوسری بحث تك پہنچنے كا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پس پہلا امتیاز تو یہ ہے كہ یہ تقسیم بندی الله كو محور قرار دے كر انجام پاتی ہے۔ اور دوسری خصوصیت یہ ہے كہ تمام مسائل و تقسیمات كے درمیان ایك منطقی ترتیب پیدا ہوجاتی ہے، كیونكہ جب ان مختلف بحثوں كا سلسلہ آپس میں مربوط ہو تو فطری طور پر پہلے كی بحث بعد كی بحث پر كسی نہ كسی نوعیت سے مقدم ہوگی، كہ جو واضح اور قابل فہم ہے اس كے برخلاف دوسری وہ تقسیمات جن میں مختلف بحثوں كو ایك دوسرے كے عرض میں متوازی قرار دیتے ہیں ایك كو دوسرے پر مقدم قرار دینا توجیہ ووضاحت كا محتاج ہوگا بلكہ بعض اوقات اس میں مشكل بھی پیش آسكتی ہے۔
فرض كیجئے انسان كی فردی و اجتماعی حیثیت، اس كے وجود كے دو پہلوہیں اب سوال یہ ہے كہ اس كے فردی جنبہ كو پہلے بیان كریں یا اجتماعی پہلو كو؟ یا یہ كہ ان دونوں پہلوؤں كو مقدم سمجھیں؟ یا سرے سے كوئی دوسری تقسیم اس كے مادی و معنوی جنبہ كے پیش نظر كریں؟ یہ ایك مسئلہ ہے لیكن اگر مختلف عنوانات كے درمیان ایك فطری وطبعی موجود ہوا اور اسی طرح فطری و منطقی ترتیب كے تحت تقسیم بندی انجام پائے تو تقدم و تاٴخر كے لئے ہمارے پا س ایك روشن و واضح دلیل موجود ہوگی اور اس طرح ایسا محكم و منسجم نظام وجود میں آئے گا، جس میں گذشتہ قاعدوں كی طرح اعتراض كی گنجائش رہے گی۔
بنا براین بہتر ہے كہ تمام معارف قرآنی كا اصل محور “اللہ” كو قراردیں، جو قرآنی تعلیمات سے بھی مكمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ سب سے پہلے خدا كی معرفت اور انسان كی معرفت سے متعلق مسائل سے ابتدا كریں اس كے بعد تمام انسانی مسائل پر الہٰی تعلیم و تربیت و تدبیر و حكمت كی روشنی میں بحث كریں۔ اس طرح قرآنی معارف كا ایك ایسا منظم و مرتب نظام وجود میں آئے گا جس كا اصل محور بھی اصات و حقیقت پر مبنی ہوگا۔اور اس كے گرد بننے والے دائروںكے درمیان بھی ایك نظم و ترتیب اور ربط و تعلق پایا جائے گا۔
اس قاعدے اور اصول كی بنیاد پر قرآنی معارف كا ڈھانچہ اور نظام مندرجہ ذیل عناوین پر قائم ہوگا۔
1۔ خدا كی معرفت
اس میں خدا كی معرفت، توحید، صفات الہٰی اور كلیات افعال باری تعالیٰ كی بحثیں شامل ہیں۔
2۔ كائنات كی معرفت
اس میں كائنات (زمین، آسمانوں اور ستاروں) ، فضائی موجودات (رعد و برق و بادو باراں و غیرہ) اور زمینی مخلوقات (پہاڑ اور دریا وغیرہ) نیز ضمنی طور پرعرش و كرسی فرشتہ، جن اور شیطان وغیرہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔
ظاہر سے افعال باری تعالیٰ سے متعلق كلیات… جو پہلے حصہ میں انجام پاتے ہیں… كے بعد خود افعال كے تفصیلات (خلق و تدبیر وغیرہ) كے ذكر كی نوبت آتی ہے اور طبیعی طور پر كائنات كی پیدائش كا ذكر انسان كی پیدائش پر مقدم ہے۔
3۔ انسان كی معرفت
اس میں انسان كی پیدائش، روح كی خصوصیت، انسانی شرافت و عظمت، ذمہ داریاں اور ان كے شرائط (آگاہی، قوت، عمل، اختیار)، انسانی وجود كے مختلف پہلو، فردی و اجتماعی تدبیروں میں الہٰی سنتیں، معاد اور انسان كا آخری انجام، وغیرہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔
اس مرحلے میں روشن و واضح ہوجاتا ہے كہ دنیوی زندگی اخروی زندگی كا مقدمہ ہے یہ انسانی زندگی كا وہ مرحلہ ہے جس میں انسانی كو خود اپنے لئے راہِ سعادت كا انتخاب كرنا چاہیئے اور اپنے آخری انجام كی داغ بیل ڈالنا چاہیئے اس دنیا میں الہٰی حكمتیں انتخاب كے مقدمات (ابتلا و آزمائش وغیرہ) كی فراہمی كے محور پر گردش كرتی ہے۔
4۔ راوہ و روش كی معرفت
اس منزل میں شناخت و معرفت كے عادی طریقوں (یعنی دنیا میں رائج علم حضوری و علم حصولی كی مختلف قسموں) اور غیر عادی طریقوں (یعنی وحی و الہام وغیرہ) سے متعلق بحثیں شامل ہیں یہیں نبوت كا مسئلہ بعثت انبیاء كی ضرورت اور مقاصد، نیز ان كے مدارج (نبوت، رسالت و امامت اور اسی طرح معجزہٴ و عصمت سے متعلق مسائل بیان ہوتے ہیں اور آخر میں انبیاء كی جانشینی كے مسئلے (یعنی امامت اپنے خاص معنوں) پر بحث ہوتی ہے۔
بحث كے اس مرحلے كا تعلق اپنے گذشتہ مرحلے سے واضح ہے كیونكہ جب یہ معلوم ہوگیا كہ انسان ایك ایسی مخلوق ہے جس كو انتخاب كی آزادی حاصل ہے یعنی اسے اپنی راہ كا تعین آزادانہ طور پر خود كرنا ہے راہ و روش كی معرفت كی ضرورت خود بخود پیش آتی ہے اور اس مرحلے میں یہی چیزموضوع بحث ہے۔
5۔ رہبر و رہنما كی معرفت
اس منزل میں انبیاء كی تاریخ اور ان میں سے ہر ایك كے خصوصیات ان پر نازل ہونے والی كتابیں۔ ان میں پیش كئے جانے والے مطالب، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كی تاریخ اور آنحضرت كے زمانہ حیات میں رونما ہونے والے حوادثات وواقعات بیان كئے جاتے ہیں ضمنی طور پر تمام قرآنی داستانیں اور اقوام و ملل كی تاریخ بھی اسی ذیل میں ذكر كئے جاتے ہیں۔ اس حصہ كا اپنے گذشتہ حصہ كے ساتھ ربط اور ترتیب بیان واضح ہے كیونكہ جب وحی و نبوت كی ضرورت و اہمیت سے ہم واقف ہوگئے تو اب ان حاملان وحی و رسالت كی معرفت كی نوبت آتی ہے جو پیغام وحی عوام الناس تك پہنچاتے رہے ہیں۔
6۔ قرآن كی معرفت
اس میں قرآن سے متعلق اصولی و كلیاتی مباحث۔ اس كے خصوصیات، نزول كا مقصد، نزول كا انداز، اعجازی حیثیت، آفاقی ابدی شان، اسلوب بیان (عقلی استدلال، موعظہ، جدال احسن تمثیل و قصص وغیرہ) نیز محكم و متشابہ اور تاویل وغیرہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں۔ گذشتہ بحث سے اس كا بھی ربط اور ترتیب بیان واضح ہے اس لئے كہ گذشتہ آسمانی كتابوں كے ذكر و بحث كے بعد آخری و ابدی كتاب كی شناخت و معرفت فطری سی بات ہے۔
7۔ اخلاق اور انسانی تعمیر
اس میں خود انسان كی اپنی معرفت اور اپنی تعمیر سے متعلق تمام بحثیں شامل ہیں، افعال اختیاری میں خیرو شر كا وجود اور ان كا آخری كمال وسعادت كے ساتھ ربط، قرآنی تربیت و تزكیہٴ نفس كی روش (انذار وبشارت كے ذریعہ تلاش خیر كا جذبہ بیدار كرنا وغیرہ) انسانی تعمیر میں ایمان و عمل كا كردار اور ان كا ایك دوسرے سے رابطہ نیز ان دونوں كا علم سے ارتباط اور بالآخر اخلاق فاضلہ و اخلاق رذیلہ كی تفصیلات اس بحث كا حصہ ہیں۔
“قرآن كی شناخت و معرفت ” كے بعد “اخلاق اور انسانی تعمیر” كا ذكر اس لئے ہے كہ گذشتہ بحث میں ہم اسی نتیجہ تك پہنچتے ہیں كہ قرآن كا ہدف و معصد تزكیہ و تعلیم ہے۔ تزكیہ اخلاق اور انسانی تعمیر سے متعلق بحثوں كو جنم دیتا ہے اور تعلیم آئندہ مباحث كو وجود میں لائی ہے۔
8۔ قرآن كے عبادی احكام
اس میں نماز و روزہ، حج و قربانی اور ذكر و دعاسے متعلق بحثیں شامل ہیںیعنی جہاںوہ اعمال ذكر ہوتے ہیں جو بنیادی طور پر انسان اور خدا كے درمیان رابطہ كو تقویت پہنچاتے ہیں اگر چہ اجتماعی مصلحتوں كا بھی ان میں بہت زیادہ خیال ركھا گیا ہے۔
9۔ قرآن كے فردی احكام
اس میں خوردونوش (یعنی كھانا، پینا، شكار كرنا اور ذبیحہ كرنا وغیرہ) نیز زینت و آرائش اور تڑك بھڑك سے متعلق حرام و حلال كے احكام بیان كئے جاتے ہیں۔
10۔ قرآن كے اجتماعی احكام
اس میں تمام حقوقی، اجتماعی، سیاسی و اقتصادی بحثیں شامل ہیں جن كو مندرجہ ذیل عنوانات كے تحت تقسیم كیا جاسكتا ہے:
الف) شہری ومدنی احكام
ب) اقتصادی و معاشی احكام
ج) قانونی و عدالتی احكام
د) حدود و جزاء كے احكام
ہ) سیاسی و حكومتی احكام
و) عالمی و بین الاقوامی احكام
اور بحث كے اس حصے میں مقدمہ كے طور پر “معاشرہ قرآن كی نظر میں” بحث كا مركز قرار پاتا ہے
اس تقسیم كے آخری تین حصوں میں انسان سے متعلق قرآن كے پیش كردہ علمی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ایك كا تعلق انسان اور خدا، دوسرے كا تعلق انسان اور خود اس كی ذات اور تیسرے كا تعلق انسان اور معاشرے یا انسان اور دوسرے انسانوں سے ہے اور ہر حصہ سے متعلق اس آسمانی كتاب كی تعلیمات كو جدا گانہ طور پر مورد بحث و تحقیق قرار دیا جاتا ہے۔
اس طرح ہم دیكھتے ہیں كہ قرآنی معارف عالم ہستی كے نقطہٴ آغاز سے شروع ہوتے ہیں اور خلق و تدبیر الہٰی كے مراحل بالترتیب زیر بحث آتے ہیں اور یہ سلسلہ ایك ایسے معاشرے كے خصوصیا ت كے ذكر پر منتہی ہوتا ہے جو انسان كی دیرینہ آرزو ہے اور ان تمام مراحل میں اپنے اصل محور “ذات خدا” سے ان كا ارتباط بھی باقی و محفوظ رہتا ہے۔
————————–
1. اصول كافی جلد ۲ ص۴۳۸
2. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كے اوصاف میں سے یہ بھی ہے كہ خدو اند عالم آپ نے بارے میں، “یتلوا علیھم اٰیاتہ وَیُزكّیھم” كے بعد فرما تا ہے: “وَیعَلِمُھُم الكتاب وَالحِكمۃ” (سورہ جمعہ آیت:۲) یعنی تلاوت اور لوگوں كا تزكیہ كرنے كے بعد تعلیم قرآن كی نوبت آتی ہے معلوم ہوا قرآن كی تعلیم آیات كی تلاوت سے الگ ایك چیز ہے لہٰذا پیغمبر كی ایك ذمہ داری یہ بھی تھی كہ جب آپ پر قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں تو آپ لوگوں كے سامنے ان آیات كی تلاوت فرماتے تھے تاكہ لوگ قرآن كے الفاظ یاد كرلیں اور اس كے بعد نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم تزكیہ نفس فرماتے تھے، اور پھر نبی كی ذمہ داری یہ ہوتی تھی كہ لوگوں كو قرآن كی تعلیم دیں اور یہ تعلیم محض قرآن كے الفاظ دہرانا نہیں ہے كیونكہ یہ تو وہی تلاوت قرآن ہے بلكہ مراد یہ ہے كہ قرآن كے مطالب و مفاہیم سے عوام كو آگاہ كریں، یعنی جو چیزیں لوگ خود سمجھنے سے قاصر ہیں اس كا سمجھانانبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كی ذمہ داری ہے چنانچہ قرآن میں بھی یہ وضاحت موجود ہے: “یُعلّمكم مَالم تكونو تعلمون” (سورہ بقرہ آیت: ۱۵۱) اور وہ (پیغمبر اسلام) تمہیں ان چیزوں كی تعلیم دیتا ہے جسے تم نہیں جانتے۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: “وانزلنا الیك الذكر لتبین للنّاس مانزل الیھم” ہم نے تم پر یہ قرآن نازل كیا ہے تاكہ تم اس كی آیتیں لوگوں كو سمجھاؤ اور بیان كرو۔ (سورہٴ نحل آیت ۴۴) پتہ چلا قرآن كی آیتیں بعض وقت تبئین ووضاحت كی محتاج ہوتی ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كی ذمہ داری ہے كہ وہ اس كو سمجھائے، یقینی طور پر تبئین، تلاوت سے الگ ایك چیز ہے اور ہم شیعوں كا عقیدہ ہے كہ یہ تبئین۔ بیان وفصاحت (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم كے مقام و منصب میں سے ہے) ائمہ معصومین علیہم السلام كے لئے بھی ثابت ہے، نیز دیگر دلیلوں كے مطابق (كہ اس وقت جس كے ذكر كا محل نہیں ہے) قرآن كی معلّمی كا منصب پیغمبر اسلام اور ائمہٴ اطہار علیہ السلام كے خصوصیات سے ہے۔
3. وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص۷۸، ۸۹ حدیث: ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۹، ۳۵، ۳۷، ۴۰، ۴۷، ۴۸
source : http://www.islaminurdu.com