اردو
Thursday 14th of November 2024
0
نفر 0

انبیاء (ع)کی رسالت کا عالمی ھونا

اگر رسالت کے عالمی ھونے کامطلب یہ ھو کہ پیغمبر کا فریضہ وہ اپنی تعلیمات صرف اپنی قوم تک محدود نہ رکھے بلکہ دنیا کی تمام یا کم از کم اھم قوموں تک ضرور پھونچائے تو اس معنی میں بہت سے پیغمبر یھاں تک کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (ع) کی رسالت بھی عالمی رسالت نھیں تھی لیکن اگر عالمی رسالت کا مطلب یہ ھو کہ متعلقہ تمام ”قوموں تک سابقے کی صورت میں اپنی رسالت کا پیغام پھونچانا نبی پر لازم ھے اور کسی نبی کی نبوت سے آگاہ ھونے کے بعد تمام مکلفین پر اسکی اطاعت و پیروی لازم ھے “تو اس معنی میں تمام انبیاء کی رسالت عام اور عالمی رسالت تھی ۔

پیغمبر اسلام کی رسالت کا عالمی ھونا:

 اگر چہ پیغمبر اسلام (ص)کی عالمی رسالت پر گفتگو ۔ نبوت خا صہ کی بحث میں(پیغمبر اسلام (ص)سے متعلق بحث کے تحت ) کی جا تی تو زیادہ منا سب ھو تا مگر یھا ں مجمو عی طور پراس مسئلہ کا بیان کر دینا بھی شا ید بے جا نہ ھو گا ۔ بنیا دی سوال یہ ھے کہ ” کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)عالمی رسالت کے حا مل تھے ؟“

ایسا محسو س ھو تا ھے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت کا عا لمی ھو نا اسلام کے ضر وریات دین میں سے ھے ۔ پھر بھی منا سب معلوم ھو تا ھے (خا ص طور سے مخا لفین نے جو شبھات ایجا د کئے ھیں ) ان سے بر طرف کر نے کے لئے فر یقین کی دلیلو ں کا جا ئزہ لیں اور اپنا مد عا علمی دلا ئل سے ثا بت کر یں ۔ اس بحث میں اُن آیات کا جو اسلام کی عالمی رسالت کو ثابت کر تی ھیں اور ان آیات کا جن سے مخا لفین نے استفا دہ کیا ھے تحقیقی جا ئزہ لینا ضر و ری ھے ۔

قرآن کریم کی کچھ آیات با لکل واضح طور پر دعو ت اسلام کے عا لمی ھو نے پر دلالت کر تی ھیں  ایک آیت میں ارشاد ھو تا ھے :

<تَبَا رَ کَ الَّذِ یْ نَزَّ لَ الْفُرْ قَا نَ عَلیٰ عَبْدِ ہِ لِیَکُوْ نَ لِلْعٰا لَمِیْنَ نَذِ یْراً >[1]

”وہ ذات (خدا )بہت با بر کت ھے جس نے اپنے بندے پر فر قان (یعنی حق کو با طل سے جدا کر نے والی کتاب )نا زل کی تا کہ تما م دنیا وٴ ں کے لئے ڈ را نے والا ھو “یہ آیت صاف طور پر دلالت کر تی ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تمام عالمین کے لئے ”نذ یر “ بنا کر  مبعو ث کئے گئے ھیںاور انذار یعنی خبر دار کر نے کا فریضہ (جو آپ کی رسالت اور پیغمبری کا حصہ ھے ) کسی خاص قوم یا گروہ سے مخصوص نھیں ھے ۔ ایک اور مقام پر قرآن نبی اکرم (ص)کی زبا نی کہتا ھے :

<۔۔۔وَاَوْحیٰ اِلَیَّ ھٰذٰا الْقُرآنَ لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمنْ  بَلَغَ  >[2]

”۔۔۔اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے وحی کیاگیاھے کہ میںتمھیںاورجس شخص تک اس کاپیغام پھنچے اس کے ذریعہ اسے ڈراوٴں۔۔۔“

جیسا کہ آپ نے ملا حظہ فر مایا کہ اس آیت میں ” مَنْ بَلَغَ “ایک عمو می تعبیر ھے ”کہ جس تک بھی یہ پیغام پھو نچے“یعنی اسلا می دعو ت کے تحت آنے وا لے تمام افراد چا ھے (وہ کسی بھی قوم و گروہ اور وہ کسی بھی جگہ اور زمانہ سے کیو ں نہ تعلق رکھتے ھو ں )سب شا مل ھیں ۔ قرآن میں ار شاد ھوتا ھے :

<وَمٰااَرْسَلْنٰاک َاِلّٰا رَ حْمَةًلِلْعٰالَمینٰ>[3]

”اور  (اے  رسول )ھم نے آپ کو  دنیا وٴں کے لو گو ں کےلئے سر ا پا رحمت بنا کر بھیجا ھے “

البتہ آخر ی آیت دلا لت کے لحا ظ سے پھلی دو آیتو ں کے ما نند نھیں ھے اس لئے کہ ”پیغمبر کا تمام دنیا وٴں کے لئے رحمت ھو نا “صاف طو ر پر تمام دنیا وٴ ں کے لئے مبعوث ھو نے پر بھی دلالت نھیں کرتا لیکن اس کے با وجود آ خری آیت سے بہ ظا ھر یہ مطلب بھی نکلتا ھے کیو نکہ پیغمبر اکرم (ص)کے رحمت ھو نے میں یقینی طور پر وہ رحمت شا مل ھے جو را ہِ حق کی ھدا یت اور امت کی رھنما ئی کے ذریعہ ان کو نصیب ھو تی ھے ۔

قر آ ن کریم کی بعض آیتیں اس چیز کو بیان کر تی ھیں کہ دینِ اسلام تمام ادیان پر غالب آ جا ئے گا ۔یہ اور اس طرح کی آیا ت بھی اپنی جگہ پیغمبر اکرم (ص)کی رسالت کے عا لمی ھو نے پر دلالت کر تی ھیں ۔ قر آن کریم میں ایک مقام پر ارشا د ھو تا ھے :                 

<ھُوَ الَّذِیْ اَرْ سَلَ رَسُوْ لَہُ بِا لْھُد یٰ وَ دِیْنِ الْحَق لِیُظْھِرَہُ عَلیٰ الدِّ یْنِ کُلِّہ وَ کَفیٰ بِا للهِ شَھِیْداً >[4]

” وہ وھی توھے جس نے اپنے رسو ل کو ھدایت کے(قصد) سے سچادین دے کر بھیجا تا کہ اس کو تمام ادیا نِ عا لم پر غالب بنا ئے اور گو اھی کے لئے توبس خدا ھی کا فی ھے “

اسی مطلب کو قر آ ن حکیم میں خدا فر ما تا ھے :

<ھُوَ الَّذِیْ اَرْ سَلَ رَسُوْ لَہُ بِا لْھُدیٰ وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَ ہُ عَلیٰ الدِّیْنِ کُلِّہ ِوَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ   >[5]

”وہ خدا وہ ھے جس نے اپنے رسو ل کو ھدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے چا ھے مشر کین کو کتنا ھی نا گوا ر کیو ں نہ ھو “

یہ آیتیں صاف صاف اس چیز پر دلالت کر تی ھیں کہ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب و کا مران ھو گا اور ان کو صفحہٴ ھستی سے مٹا دے گا یا کم سے کم دو سرے ادیان پر دین اسلام چھا جا  ئے گا ۔ اور یہ حقیقت دین اسلام کے عا لمی ھو نے کے علاوہ اور کچھ بیا ن نھیں کر تی ۔

یھا ں یہ بات بھی لا ئق ذکر ھے کہ ”غلبہ “کے مفھو م میں دو احتمال پا ئے جا تے ھیں :

۱۔غلبہٴ تشر یعی ۔ 

۲۔غلبہٴ تکو ینی ۔

پھلے مفھوم سے جو بات لا زم آتی ھے وہ ھما رے مد عا سے بہت قر یب ھے اس لئے کہ اس کا  کو ئی مطلب ھی نھیں ھو گا کہ دین اسلام تو عا لمی نہ ھو لیکن اس کے اصو ل و قو انین دو سرے تمام ادیان کے اصو ل و قو انین پر حا کم ھو جا ئیں ۔ اور اگر دوسرے معنی بھی مرا د لئے جا ئیں تو آیت کا سیاق اس چیز کو بیان کر رھا ھے کہ یہ غلبہ وہ استحقاق ھے جو دین اسلام کی ذاتی صلا حیتو ں کا نتیجہ ھے اور تمام ادیان پر غلبہ کی صلا حیت صرف اسلام کی عا لمی دعو ت کے ساتھ ھی معقول ھو سکتی ھے ۔ بنا بر این اگر اسلام کے تمام ادیان پر غالب آجا نے سے مراد حتی اس کا تکو ینی غلبہ ھو تو یہ غلبہ بھی اسلامی احکام و شریعت کے دو سرے تمام احکام و قو انین پر غالب آجا نے کو فرض کئے بغیر قا بلِ تصو ر نھیں ھے ۔

قر آ ن کی آیات کا دو سرا مجمو عہ وہ ھے جس میں پیغمبر اکرم (ص)کا ” ناس “یعنی (انسانو ں) کے درمیان مبعوث ھو نا اور قرآن کا  ” ناس “کے لئے نا زل ھو نا ذکر ھو ا ھے ۔ مثال کے طور پرقر آن حکیم میں ارشا د ھو تا ھے :

< کِتٰبٌ اَنْزَ لْنا ہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِ جَ  النّاسِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلیٰ النُّوْرِ بِاِ ذْنِ رَبِّھِمْ اِلیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ>[6]

”  (اے رسول یہ قر آن وہ) کتا ب ھے جو ھم نے آپ کی طرف اس لئے نا زل کی ھے تا کہ آپ لو گو ں کو حکمِ خدا سے تا ریکیو ں سے نکا ل کر روشنی میںلا ؤ اس کی سیدھی راہ پر لا ؤ جو سب پر غالب اور سزا وا ر حمد ھے“

اسی طرح دوسری آیت میں ارشا د ھو تا ھے :

<ھٰذا بَلا غٌ لِلنَّا سِ وَلیُنْذَرُوْا بِہِ>[7]

”یہ قرآن لو گو ں کے لئے ایک پیغام ھے (تاکہ اسی کے ذریعہ ھدایت یا فتہ ھو جا ئیں )  اور اس کے ذریعہ (عذا ب خدا سے )ڈرتے رھیں “

کچھ دوسری آیتوں میں قر آن کریم کا ایک ایسی کتاب کے عنوان سے ذکر ھے جو سا ری دنیا کے لئے بھیجی گئی ھے !

قر آ ن حکیم میں ارشاد ھو تا ھے:

<اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِلْعٰا لَمِیْنَ >[8]

 ” اوریہ( قر آن) تو عا لمین کے لئے سوا ئے نصیحت کے (کچھ نھیں )ھے “

 اور ایک دوسری آیت میں ارشاد ھو تا ھے :

<وَمَا ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِلْعٰا لَمِیْنَ >[9]

”اور حا لانکہ یہ( قرآن )تو سا رے جھان کے وا سطے سوا ئے نصیحت کے اور کچھ نھیں ھے “

 چو نکہ ” ناس“ یعنی ”لوگ “ اور عا لمین ”یعنی تمام دنیا ئیں “جیسے الفاظ صاف طور پر قر آ ن کریم اور پیغمبر (ص)کی رسالت کے مخا طبین کی عمو میت پر دلا لت کر تے ھیں کھا جا سکتا ھے کہ یہ آیات بھی رسالت اسلام کے مکمل طور پر عا لمی ھو نے کی دلیل ھیں۔

مخا لفین کی دلیلو ں پر ایک نظر :

 مذکو رہ آ یتو ں کے پھلو بہ پھلو دو سری آیات بھی ھیں جو ممکن ھے پھلی نظر میں دین اسلام کے  عا لمی نہ ھو نے پر دلا لت کر تی محسو س ھو ں چنا نچہ ان آ یات کو بعض نے پیغمبر اکرم (ص)کی دعو ت اسلام کے مخصوص ھو نے کے اپنے دعو ے کو ثا بت کر نے کے ثبو ت کے طور پر پیش بھی کیا ھے یہ شبہ اس لئے پیدا ھوا ھے کہ آ یات میں عرب قوم یا ان کے کسی مخصوص گرو ہ کو ”انذار کر نے یعنی ڈرا نے کی بات کی گئی ھے جیسا کہ سوره شوریٰ میں ارشاد ھو تا ھے :

<وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْ آناً عَرَبِیّاً لِتُنْذِرَ اُمَّ ا لْقُریٰ وَمَنْ حَوْ لَھَا >[10]

 ”اور ھم نے اسی طرح آپ پر عربی قر آن کی وحی بھیجی تا کہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والو ں کو ڈرائیں “

اوردوسرے سورہ میں ارشاد ھو تا ھے :

<وَ ھٰذٰا کِتَا بٌ اَنْزَلْنَا ہُ مُبَا رَکٌ مُصَدَّ قٌ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَوْ لَھَا >[11]

”اور یہ (قرآن) وہ کتا ب ھے جس کو ھم نے برکت  کے ساتھ نا زل کیا ھے اور (یہ کتاب ) ان کتا بو ں کی تصدیق کر تی ھے جو اس کے پھلے آ چکی ھیں اور اس لئے  نا زل کیاھے کہ آپ مکہ اور

اس کے اطراف میں رھنے وا لو ں کو ڈرائیں “

ان آیات میں پیغمبر کے ذریعہ انذار یا ڈرا ئے جا نے کے مخا طب مکہ اور ا س کے اطراف کے لوگ بیان کئے گئے ھیں ۔

 ایک اور آیت میں آیا ھے :

<۔۔۔لِتُنْذِرَقَوْماًمٰا اُنْذِرَ اٰبٰا وٴُھُمْ فَھُمْ غَا فِلُوْ نَ >[12]

 ”تا کہ آپ ان لو گو ں کو کہ جن کے باپ دادا ڈرائے نھیںگئے اور غفلت میں پڑے رہ گئے ڈراوٴ “

اورمقا م پر ارشاد ھو تا ھے :

<لِتُنْذِرَ قَوْ ماً مٰا اٰ تٰھُمْ مِنْ نَذِیْرٍ مِنْ قَبْلِکَ ۔۔۔>[13]

”آپ ان لو گوں کوجن کے پاس آپ سے پھلے کو ئی ڈرا نے والا نھیں آیاڈراوٴ “

یہ آیتیں بھی اس چیز کو بیان کر تی ھیں کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس قوم کے انذار کے لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ جس کے درمیان آ پ سے پھلے خدا وند عالم کی جا نب سے کو ئی انذار کر نے والا نھیں آیا تھا ۔ اور بہ ظاھر اس قوم سے مراد بھی اھل عرب ھیں ۔

سوره شعراء میں بھی آیا ھے کہ پیغمبر (ص)اپنے اقرباء کو انذار کر نے کے لئے ھی مبعوث کئے گئے تھے ارشاد ھو تا ھے:

 <وَ اَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْن>[14]

 ”پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ دا روں کو ڈرا ئیے“

جیسا کہ ھم اشارہ کر چکے ھیں پھلی نظر میں ان آیات سے یھی گمان پیدا ھو تا ھے کہ پیغمبر اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دعو ت رسالت ایک خا ص جما عت سے مخصوص تھی  ۔ لیکن ان آیات کے اسلوب و روش پر غور کر نے سے یہ بات وا ضح ھو جا تی ھے کہ ان میں سے کو ئی بھی آیت پیغمبر اکرم (ص)کی دعوت کو کسی جما عت میں منحصر و مخصوص ھو نے پر دلالت نھیں کر تی ۔ ان میں کچھ آیتیں اس بات کو بیان کر تی ھیں کہ پیغمبر (ص)عر بوں کے درمیان کیوں مبعوث ھو ئے ؟اور بیان کر تی ھیں کہ اس کی ایک وجہ عر بو ں کا ایک عرصہ سے انبیا ئے الٰھی سے محر وم ھو نا تھا اور یہ مسئلہ خود اپنی جگہ اس بات کا سبب بنا کہ وہ عام طور پر جھا لت و بے خبری کی زندگی بسر کر رھے تھے ۔ ظا ھر ھے کہ پیغمبر اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا عر بوں کے در میان مبعوث ھو نا کسی بھی طرح آپ ٌ کی رسا لت کا ان (عر بوں )سے مخصوص ھو نا نھیں کھا جا سکتا ۔ یہ آیات بھی کچھ دو سری آیات سے ملتی جلتی ھیں جو بیان کر تی ھیں کہ عر بوں کے درمیان کیو ں خو د ان ھی کی قو م سے پیغمبر مبعوث ھو ئے سوره شعراء میں ارشاد ھو تا ھے :

<وَ لَوْ نَزَّ لْنٰہُ عَلیٰ بَعْض الْاَ عْجَمِیْنَ .فَقَرَاَہُ عَلَیْھِمْ مَاکَا نُوابِہِ مُوْمِنِیْنَ >[15]

”اور اگر ھم اس قر آ ن کو کسی غیر عرب زبان قوم میں نا زل کر تے اور (پیغمبر ) ا ن کے سا منے پڑھتا تو وہ اس پر ایمان نہ لا تے“

ھما ری بحث سے مر بوط بعض دو سری آ یتیں پیغمبر اکرم (ص)کی دعوت کے مختلف مر حلوں کو بیان کر تی ھیں ۔ ھم جا نتے ھیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دعوت اگر چہ سبھی کے لئے تھی پھر بھی تبلیغ کی راہ   ھموا ر کر نے اور عملی رکا وٹو ں کو بر طرف کر نے کی غرض سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی دعوت کا آغا ز ایک خاص دا ئرہ میں ھوا اور پھر بعد کے مر حلوں میں دا ئرہ وسیع ھو تا چلا گیا یھا ں تک کہ اپنے دور کی سب سے بڑی تہذیب و تمدن کو اس نے اپنا مخا طب قرار دیا ۔ یھی وجہ ھے بعثت کے آغاز میں <وَ اَ نْذِرْ عَشِیْرَ تَکَ الْاَ قْرَ بِیْنَ >”اپنے قر یبی خا ندان وا لوں کو ڈرا یٴے“والی آیتیں صرف پیغمبر اکرم (ص)کی تبلیغ کے ابتدا ئی مرا حل کے دا ئرے کو بیان کر تی ھیں [16]بھر حال اگر چہ پھلی نظر میں ممکن ھے کہ ان آیات سے رسا لت اسلام کے محدود ھو نے کا گمان ھو ۔لیکن ان آیات انذار پر غور و فکر  کر نے سے (خاص طو ر سے ان آیات پر تو جہ کے بعد کہ جن میں رسالت کے عام ھو نے کا ذکر ھے ) یہ گمان بھی ختم ھو جا تا ھے کسی غرض یا تعصب سے عا ری وہ شخص جو عمو میت پر دلا لت کر نے وا لی آیات کو ان آیا ت کے پھلو میں قرار دے کر دیکھتا ھے تصدیق کر تا ھے کہ پیغمبر اکر م (ص)کی دعوت اسلام  عر بوں سے مخصوص نھیں تھی ۔ اس کے علا وہ تا ریخ کے مسلم الثبوت شوا ھد بھی (مثلا پیغمبر اکر م (ص)کی    جا نب سے تمام مما لک کے سر برا ھو ں کے پاس دعوت اسلام کے لئے اپنے سفیر و ں کا بھیجا جا نا   اس بات کی گو ھی دیتے ھیں۔     

[1] سوره فر قان آیت/۱۔   

[2] سوره انعام آیت/۱۹۔

[3] سوره انبیاء آیت/۱۰۷۔

[4] سو رئہ فتح آیت/۲۸ ۔ 

[5] سوره صف (آیت /۹)اور سوره تو بہ (آیت /۳۳)

[6] سوره ابرا ھیم آیت/۱۔

[7] سوره ابرا ھیم آیت / ۵۲۔

[8] سوره یو سف آیت/ ۱۰۴ ،سوره ص آیت/۸۷اور سوره تکو یر آیت/ ۲۷۔

[9] سوره قلم آیت/۵۲۔

[10] سوره شوریٰ آیت/ ۷۔

[11] سوره انعام آیت / ۹۲ ۔

[12] سوره مبا رکہٴ یس آیت/ ۶ ۔

[13] سوره قصص آیت/ ۴۶ ۔

[14] سوره شعراء آیت / ۲۱۴۔

[15] سوره شوریٰ آیت / ۹۸او۱۹۹ )

[16] ظا ھری طور پر سوره شو ریٰ کی( آیت /۷)کو سو رئہ انعام کی (آیت /۹۲)پر حمل کر تے ھو ئے رسالت کے عالمی ھو نے کے دو سرے مرحلہ کو جا نا جا سکتا ھے ۔

 


source : http://www.islamshia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام
اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی دینی حالت
قرآن اتحاد مسلمين کي ترغيب ديتا ہے
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
فلسطین ارض تشیع
حسینی انقلاب
صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں انسان کا قرآنی ...
آخرت میں ثواب اور عذاب
فاطمہ زہرا(س) حضرت علی(ع) کے گھر میں

 
user comment