اس سلسلے میں عرض ہے کہ گناہ صغیرہ کی تکرار کبیرہ بننے کا سبب ہوتی ہے۔چونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ بار بار گناہ صغیرہ کا مرتکب ہونے پر گناہ کبیرہ کا حکم لاگو ہوتا ہے ۔انشاء اللہ ہم اس بحث کو "گناہ صغیرہ پر اصرار" کے باب میں تفصیل سے بیان کریں گے۔
پس گناہان ِکبیرہ کو مبہم کرنے میں ہی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت مضمر ہے۔ تا کہ اس کے بندے دوسرے گناہوں سے اجتناب کریں اور گناہان ِ کبیرہ میں ملوّث نہ ہو جائیں اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ چھوٹے گناہوں کو کمتر سمجھنا کبیرہ بننے کا موجب ہوتا ہے چناچہ آگے اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔
خرابی میں پڑنا ثواب سے محرومی کا سبب ہے
(یہ بھی اعتراض کا جواب ہو سکتا ہے )گناہان ِصغیرہ کی خرابیوں میں پڑنے سے بندہ ان نیکیوں کے اجروثواب سے محروم رہتا ہے جو کہ گناہانِ صغیرہ کے ترک کرنے پر دیا جاتا ہے ۔چوں کہ ہر وہ عمل جس سے باز رہنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اس میں دینوی یا اخروی کوئی نہ کوئی فساد ضرور ہوتا ہے ۔اس لئے جب کوئی بندہ گناہ ِصغیرہ کا مرتکب ہو جائے تو گناہِ کبیرہ سے دوری کی برکت سے وہ گناہِ صغیرہ بخش دیا جاتا ہے ۔البتہ گناہ کی مقدار جس قدر ہو اسی قدر اس کا دل سیاہ ہو جا تا ہے ۔ البتہ جب باوجودِقدرت کے بڑے گناہ سے اجتناب کرے تو اس کی تلافی ہو سکتی ہے ۔علاوہ برایں جب اللہ کی خوشنودی کے لئے اسے چھوڑ دیتا ہے تو وہ ثواب کا مستحق بھی بنتا ہے ۔
اس بیان سے معلو م ہوا کہ گناہِ صغیرہ کا مرتکب اس گناہ کی خرابیوں سے دنیا یا آخرت میں دوچار ضرور ہو گا۔ اور گناہ ترک کرنے کے ثواب سے بھی محروم رہے گا ۔ شائد اسی مطلب کو ملحوظ رکھ کر معصوم علیہ السلام نے فرمایا ہے :
ھَبْ غَفَرَ اللّٰہُ ذُنُوْبَ الْمُسِیْئِیْنَ فَقَدْ فَاتَھُمْ ثوابَ الْمُحْسِنِیْن
خدا گناہ گاروں کے گناہوں کی مغفرت فرمائے یہ لوگ یقینا اچھے کاموں کے ثواب سے محروم ہو گئے (یعنی ترکِ گناہ کا ثواب حاصل نہ کر سکے۔)
(۲)اھلِ بیت کی طرف رجوع کرنا چاہیے
یہ عنوان بھی دوسرے بہت سے مطالب کی طرح قرآنِ مجید میں مختصر طور پر ذکر ہوا ہے لیکن ان کی تشریح و توضیح حضرت پیغمبرِاکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نیز ائمہٴ اطہار کے پاکیزہ دلوں میں جو کہ علم و حکمت اور وحی ٴالہٰی کا خزینہ ہیں۔ الہام کے ذریعہ ودیعت فرمائی گئی ہے ۔ اور بندوں کو ان کی طرف مراجعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ اس بارے میں خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکَر لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَاُنزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَّفَکَّرُوْنَ
(سورہ ۱۶۔آیت۴۴)
اور تمہارے پاس قرآن نازل کیا ہے جو کہ ذکر ہے تاکہ جو احکام لوگوں کے لئے نازل کئے گئے تم ان سے صاف صاف بیان کر دو تا کہ وہ لوگ خود سے کچھ غور و فکر کریں ۔ اور اسی طرح اہلِ بیت رسولِ خدا کی طرف لازمی طور پر رجوع کرنے کے لئے قرآنِ شریف میں فرماتا ہے:
فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکرِ اِنْ کُنْتُم لَا تَعْلَمُوْنْ (سورہ۱۶۔آیت۴۳)
اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل ِذکر سے پوچھو۔
اہل بیت اطہاراہل ذکر کیوں ہیں؟
اس بارے میں بہت سی روایتیں ہمارے پاس موجود ہیں کہ اہل الذکر سے مراد اہل بیت رسول مختار ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ مجلس مامون میں جب امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا:"ہم اہل الذکر ہیں"۔ علمائے عامّہ اس مجلس میں حاضر تھے ، کہنے لگے، اہل الذکر سے مراد یہودونصاریٰ ہیں اور ذکر کا مطلب توریت و انجیل ہے۔ تو حضرت نے ان کو جواب دیا:
سُبْحانَ اللّٰہِ ھَلْ یَجُوْزُ ذٰلِکَ اِذایَدعُوْنَا اِلٰی دِیْنھِمْ وَیَقُوْلونَ اِنَّھا اَفْضَلُ مِنْ دِیْنِ الْاِسْلَامِ (عیون اخبار الرضا(ع))
"سبحان اللہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اور کیسے جائز ہے کہ خدائے تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دے کہ وہ یہود اور نصاریٰ کے علماء سے رجوع کریں ۔ حالانکہ اگر کوئی رجوع کرے تو ان کے علماء کہیں گے کہ ہمارا دین برحق ہے اور دین اسلام سے بہتر ہے۔ وہ ہمیں اپنے نظریئے کی طرف دعوت دیں گے (کیا آپ اس دعوت کو قبول کریں گے)۔
پس مامون نے عرض کیا، "کیا آپ اپنے دعوے کے اثبات میں قرآن مجید سے کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟"
فَقَالَ نَعَمْ۔ اَلذِّکْرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ص) وَنَحْنُ اَھْلُہ وَذٰلِکَ بَیْنٌ فِیْ کِتابِ اللّٰہِ تَعَالٰی حَیْثُ یَقُوْلُ فِیْ سُوْرَةٍ الطَّلَاقِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْراً رَّسُوْلاً یَّتْلُوا عَلَیْکُمْ آیاتِ اللّٰہِ مُبَبِّنَات(سورہ طلاق آیہ ۱۰،۱۱)
"فرمایا ، جی ہاں! ذکر سے مراد حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں اور ان کے اہل ہیں۔ اس موضوع ِ بحث کے بارے میں قرآن کی یہ آیت میری دلیل ہے: جو لوگ ایمان لائے ہیں خدا نے ان کی طرف ذکر بھیج دیا ہے کہ وہ رسول ہے جو تمہارے سامنے ہماری واضح آیتیں پڑھتا ہے۔"
علمائے عامہ (اہل سنت) میں سے ایک شہر ستانی ہیں۔ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) اور امیر المٴومنین (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم اہل ذکر ہیں۔ اور بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ خدا وند ِ عالم نے کچھ اہم مطالب قرآن مجید میں مختصراً بیان فرمائے ہیں۔ ان کی شرح و تفسیر سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اہل بیت (علیہم السلام) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کہ ہر گز اپنے آپ کو ان سے بے نیاز نہ سمجھیں بلکہ ہر وقت علوم ِآل ِ محمد (علیہم السلام) کا نیاز مند سمجھنا چاہیئے اور ہمیشہ ان ذوات ِ مقدسہ کا دامن گیر رہنا چاہیئے۔ یہاں تک کہ ان کی محبت اور ولایت جو کہ حقیقی اور ابدی سعادت ہیں، ہمیں حاصل ہو جائے۔
دوسرے اعتراض کا جواب
مذکورہ روایات اور احادیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہمارے آئمہ طاہرین صلوات اللہ علیہم اجمعین مصلحت کی بنأ پر گناہان ِ کبیرہ کے شمار اور تعین کے حق میں نہیں تھے۔ یعنی پوچھنے والوں کے جواب میں گناہان کبیرہ مفصل بیان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ اجمالاً بیان کرنے کی حکمت اور راز پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کبھی کبھار مختصر مگر جامع جملوں میں گناہ کبیرہ کی تعریف فرمائی ہے۔ جیسا کہ صحیحہٴ حلّی میں روایت ہے کہ حضرت صادق آل محمد (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:
الکَبَائِرُ کُلُّ مَااَوْعَدَاللّٰہُ عَلَیْہِ النّار (کافی)
"گناہان کبیرہ وہ گناہ ہیں (جن کے مرتکب ہو نے والوں کے لیے) اللہ تعالیٰ نے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے۔"
گناہ کبیرہ دوسرے عنوان میں
آئمہ طاہرین (علیہم السلام) کبھی بعض گناہ ِ کبیرہ شمار نہیں کرتے تھے چونکہ ایک گناہ کبیرہ کے ضمن میں دوسرا گناہ کبیرہ بھی آسکتا تھا۔ تو دوسرے گناہ کو ذکر نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ عبید بن زرارہ کی روایت جو کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے نقل کی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا : گناہانِ کبیرہ کتاب ِ علی (علیہ السلام) میں سات ہیں۔
الکُفْرُ بِاللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَاَکْلُ الرِّبوا بَعْدَ البَیّنَةِ وَاَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ ظُلْماً وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحُفِ وَالتَّعَرُّبُ بَعْدَ الْھِجْرَةِ قَالَ قُلْتُ فھٰذا اَکْبَرُ الْکَبَائِرِ قَالَ نَعْمْ۔ قُلْتُ فَاَکْلُ دِرْھَمٍ مِّنْ مَالِ الْیَتِیْم اَکْبَرُ اَمْ تَرْکُ الصَّلوٰةِ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ تَرِکُ الصَّلوٰة، قُلْتُ فَمَا عَدَوْتَ تَرْکَ الصَّلوٰةِ فِی الْکَبَائِرِ فَقَالَ (ع) اَیُّ شَیءٍ اَوَّلَ مَا قُلْتُ لَکَ قُلْتُ الْکُفْرَ قَال (ع) فَاِنَّ تَارِکَ الصَّلوٰةِ کَافِرٌ یَعنِی مِنْ غَیْرِ عِلَّةٍ (کتاب کافی۔ وسائل الشیعہ۔ کتاب جہاد)
(۱)اللہ کے وجود سے انکار کرنا (۲) کسی نفس محترم کو قتل کرنا (۳) ماں باپ کا عاق کرنا (۴) سود کھانا واضح ہونے کے بعد( ۵)ظلم و ستم سے مال یتیم کھانا(۶) جنگ (جہاد) سے بھاگ جانا (۷) ہجرت کے بعد جہالت کی طرف پلٹنا۔
میں نے عرض کیا ، کیا یہ سب بڑے گناہوں میں شمار ہیں؟
امام (علیہ السلام) نے فرمایا صحیح ہے۔ پھر میں نے عرض کیا ، ظلم و زیادتی سے مال یتیم کا ایک درہم کھانا بڑا گناہ ہے یا نماز ترک کرنا؟ فرمایا : نماز چھوڑنا نسبتاً بڑا گناہ ہے۔ میں نے پھر پوچھا پھر آپ نے نماز ترک کرنا گناہ کبیرہ میں شمار کیوں نہیں کیا؟ امام (علیہ السلام) نے پوچھا میں نے پہلے کونسا گناہ ِ کبیرہ شمار کیا تھا؟ میں نے عرض کیا ، خدا سے انکار کرنا۔ فرمایا نماز ترک کرنے والا کافر ہے بغیر کسی دلیل کے(کیونکہ تارک الصلوٰة کفر باللہ کے ضمن میں آتا ہے)۔ اس لیے آپ (علیہ السلام) نے ترک نماز کا ذکر نہیں فرمایا۔"
اس بیان سے معلوم ہو کہ معصو م سے ہم تک پہنچی ہوئی احادیث میں مکمل طور پر اور شرح کے ساتھ گناہان کبیرہ کا ذکر نہیں۔ غرض کوئی روایت ایسی نہیں (جو کہ جامع و مانع ہو) جس میں گناہان کبیرہ مکمل طور پر اور شرح کے ساتھ مع تعداد ذکر ہوں اور ہم اعتماد کے ساتھ یہ کہ سکیں کہ ان کے سوا اور کوئی گناہ کبیرہ ہو نہیں سکتا۔
چنانچہ صحیفہٴ حضرت شہزادہ عبدالعظیم الحسنی کا ذکر پہلے ہو چکا۔ اس پر غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے ۲۱ گناہان کبیرہ عمروبن عبید کو قرآن مجید سے شمار کر کے بتائے۔ وہ اس سے زیادہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور روتے ہوئے باہر نکل گئے۔ اگر سننے کی سکت ہوتی اور صبر سے کام لیتے تو امام (علیہ السلام) مزید ارشاد فرمارہے تھے۔
source : http://shiastudies.net