اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

قرآنی ہدایت پرہیزگاروں کے ساتھ کیوں مخصوص ہے؟

یہ مسلم ہے کہ قرآن تمام دنیا کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔ لیکن مندرجہ بالا آیت میں اس کی ہدایت کو پرہیزگاروں کے ساتھ کیوں مخصوص قرار دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک تقوی کا کچھ حصہ انسان میں موجود نہ ہو اس کے لئے آسمانی کتابوں اورانبیاء کی دعوت سے ہدایت کا حصول محال ہے(تقوی کے کچھ حصے سے مراد یہ ہے کہ انسان عقل و فطرت کی روشنی میں حق کو پہچان سکے اور پھر اس کے سامنے سر تسلیم خم بھی کردے۔

با الفاظ دیگر جن لوگوں کے پاس ایمان نہیں، انہیں دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک وہ جو حق کی تلاش میں ہیں اور اس قدر تقوی ان میں موجود ہے کہ جاں کہیں حق کوپائیں گے اسے قبول کرلیں گے اور دوسرا حصہ وہ جو لجوج، متعصب اور ہوا پرست لوگوںپر مشتمل ہے جو نہ صرف یہ کہ تلاش حق نہیں کرتے بلکہ جہاں کہیں اسے دیکھیں گے اسے ختم کردینے کے در پے ہوں گے اب یہ مسلم ہے کہ قرآن اوردوسر ی کتب صرف پہلے گروہ کے لئے مفید تھیں اور ہیں اور دوسرا گروہ ان کی ہدایت سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا۔ گویا فاعل کی فاعلیت کے علاوہ قبول کرنے والے میں قبولیت کی شرط بھی ہے۔ فرق نہیں کہ ہدایت تکوینی ہو یا ہدایت تشریعی۔

زمین شورہ زار ہرگز سنبل بر نیارد

اگر چہ ہزاران مرتبہ باران بر آن بیارد

یعنی۔ شوردار زمین سے فصل نہیں آگتی چاہے ہزاروں مرتبہ اس پر بارش برسے۔

بلکہ ضروری ہے کہ زمین آمادہو تاکہ وہ بارش کے حیات بخش قطروں سے بہرہ ور ہوسکے۔

وجود انسانی کی سرزمین بھی جب تک ہٹ دھرمی، عناد اور تعصب سے پاک نہ ہو ہدایت کے بیج کو قبول نہیں کرے گی۔ اسی بناء پر ارشاد الہی ہے کہ ۔ قرآن متقی لوگوں کے لئے ہادی و رہنما ہے۔

الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ (۳) 

وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا آنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا آنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُونَ (۴)

آوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّہِمْ وَآوْلَئِکَ ہُمْ الْمُفْلِحُونَ (۵) 

ترجمہ 

۳۔ پرہیزگار وہ ہیں جو غیب(جس کا حواس ادارک نہیں کرسکتے) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور ان نعمتوں اور عطیوں میں سے جو ہم نے انیہں بطور روزی دیے ہیں خرچ کرتے ہیں۔

۴۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو کچھ آپ(ص) سے قبل (انبیاء گذشتہ پر) نازل ہوچکا ایمان رکھتے ہیں۔

۵۔ انہیں خدا نے ہدایت کی ہے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔

روح و جسم انسانی میں آثار تقوی

قرآن اس سورہ کی ابتداء میں اسلامی آئین اور پروگرام سے مربوط ہونے کے لحاظ سے لوگوں کو تین مختلف گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔

۱۔ متقین(پرہیزگار)۔ جو اسلام کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں۔

۲۔ کافرین۔ جو پہلے گروہ کے مد مقابل کھڑے ہیں، اپنے کفر کے معترف ہیں اور اسلام کے مقابلے میں دشمنی کی گفتار و رفتار سے انکاری نہیں ہیں۔

۳۔ منافقین۔ جو دو رخ اور دو چہرے رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ظاہرا مسلمان ہیں اور گروہ مخالف کے ساتھ ہوں تو مخالف اسلام۔ البتہ ان کا اصلی چہرہ وہی کفر والا ہے تاہم اسلام کی ظاہری چیزیں بھی اپناتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہ گروہ اسلام کے لئے دوسرے گروہ کی نسبت زیادہ خطرناک ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اسی بناء پر قرآن ان پر بہت زیادہ نکتہ چینی کرتاہے۔

البتہ یہ موضوع اسلام ہی سے مخصوص نہیں بلکہ تمام مکاتب و مذاہب عالم ان تین گروہ سے واسطہ رکھتے ہیں کیونکہ کوئی شخص کسی مکتب کا مومن ہے یا واضح طور پر اس کا مخالف یا پھر منافق جسے اپنے کام سے کام ہے۔ نیز یہ مسئلہ کسی خاص زمانے سے بھی تعلق نہیں رکھتا بلکہ تمام ادوار عالم میں ایسا ہی رہا ہے۔

زیر بحث آیات میں پہلے گروہ کے متعلق گفتگو ہے۔ ان کی خصوصیات کو ایمان و عمل کے لحاظ سے پانچ عنواناتن کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔

۱۔ غیب پر ایمان

۱۔ غیب پر ایمان : سب سے پہلے قرآن کہتا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں (الذین یومنون بالغیب) ۔ غیب و شہود ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ عالم شہود عالم محسوسات ہے اور عالم غیب ماورائے حس ہے۔ کیونکہ غیب کے معنی اصل میں پوشیدہ و پنہاں چیز کے ہیں۔ کیونکہ محسوسات سے ماوراء کی دنیا ہماری حس سے پوشیدہ ہے لہذا اسے غیب کہا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے :

عالم الغیب والشھادة، ھو الرحمن الرحیم

وہ خدا جو غیب و شہود سے واقف ہے وہی مہربان (اور ) رحیم ہے۔

غیب پر ایمان رکھنا در اصل وہ پہلا نقطہ ہے جو مومنین کو دوسروں سے جدا کرتاہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جو آسمانی ادیان کے پیروکاروں کو خدا، وحی اور قیامت کے منکروں کے مقابلے میں کھڑا کرتاہے۔ اسی بناء پر پرہیزگاروں کی پہلی خصوصیت کے طور پر ایمان بالغیب کا ذکر کیا گیاہے۔

مومنین سرحد مادہ کو توڑ کر، اس محدود چاردیواری سے نکال لئے گئے ہیں اور وہ اس وسعت فکر و نظر کے باعث ایک بہت بڑے فوق العادہ جہان سے مربوط ہوگئے ہیں جبکہ ان کے مخالف مصر ہیں کہ انسان کو مادہ کی چار دیواری میں جانوروں کی طرح محدود رکھیں اور اس الٹی چال کو وہ تمدن کی پیش رفت اور ترقی کا نام دیتے ہیں۔

ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے ادراک و فکر کا مقابلہ کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچیںگے کہ غیب پر ایمان رکھنے والے۔ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جہان ہستی اس دنیا سے کہیں وسیع تر ہے جسے ہمارے حواس درک کرتے ہیں۔ اس جہان کے پیدا کرنے والے کا علم اور قدرت بے انتہا ہے اور اس کی عظمت و ادراک کی کوئی حد نہیں۔ وہ ازلی و ابدی ہے ۔ اس نے عالم ایک بہت بڑے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنایا ہے۔

روح انسانی اور باقی حیوانات میں بہت بڑا فرق ہے ۔ موت کے معنی نابود ہونا اور فنا ہونا نہیں بلکہ یہ انسان کی تکمیل کا ایک مرحلہ و منزل ہے۔ یہ ایک وسیع تر جہان دیکھنے کے لئے ایک دریچہ ہے جب کہ ایک مادی شخص اعتقاد رکھتا ہے کہ جہان ہستی اسی میں محدود ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ جتنا علوم طبیعی نے ہمارے لئے ثابت کیا ہے وہی کچھ کائنات ہے۔ قوانین طبیعت جبری قوانین کا ایک سلسلہ ہے جو بغیر کسی پروگرام یا منصوبے کے ظاہر ہوگیا۔ اس عالم کے پیدا کرنے والی قوت و طاقت ایک چھوٹے سے بچے جتنی عقل و شعور بھی نہیں رکھتی۔ انسان بھی اس طبیعت کا ایک جزء ہے اور موت کے بعد اس کی ہر چیز ختم ہوجائے گی۔اس کا بدن منتشر ہوجائے گا اور اس کے اجزاء دوبارہ طبیعی مواد سے مل جائیںگے۔ انسان کے لئے بقاء نہیں ہے۔ اس کے اور عام حیوانات کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں(۱)۔

کیا انسانوں کا ان دو متضاد طرز فکر ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ آیا معاشرے میں ان کا طرز زندگی اور طریق کار ایک جیسا ہوسکتا ہے۔

پہلا شخص(مومن) حق و عدالت، خیرخواہی اور دوسروں کی مدد سے چشم پوشی نہیں کرسکتا لیکن دوسرے (مادی) شخص کے پاس ان امور کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں مگر جتنا اس کی آج یا کل کی مادی زندگی کا تقاضا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ مومنین کے درمیان سچا بھائی چارہ، پاکیزہ افہام و تفہیم اور تعاون ہوتا ہے جب کہ جہاں پرمادی فکر کے حامل شخص کی حکمرانی ہے وہاں استعمار، استشمار، خونریزی، غارت گری اور تاراجی ہے۔

واضح ہوا کہ قرآن نے تقوی کا پہلا نقطہ ایمان بالغیب کو قرار دیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے جو بیان کی گئی ہے۔

کیا ایمان بالغیب سے مراد صرف ذات پاک پروردگار پر ایمان لانا ہے یا غیب یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے یعنی وحی، قیامت، فرشتے اور عالم حس سے ماوراء سب کچھ اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے لیکن ہم نے ابھی کہا ہے کہ جہاں ماورائے جس پر ایمان رکھنا مومنین اور کافرین میں نقطہ اختلاف اور علیہدگی کا سبب ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ غیب یہاںایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں آیت کی تعبیر بھی مطلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی قید موجود نہیں جو اسے کسی خاص معنی میں محدود کردے۔

اب اگر ہم اہلبیت (ع) کی بعض روایات میں دیکھتے ہیں کہ اس آیت میں غیب سے مراد امام غائب حضرت مہدی سلام اللہ علیہ لئے گئے ہیں ( 2)۔

تو یہ بات ہماری گذشتہ گفتگو سے اختلاف نہیں رکھتی۔ امام مہدی علیہ السلام ہمارے عقیدے کی بناء پر زندہ و سلامت ہیں اور نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ آیات کی تفسیر کے سلسلے کی روایات جن کے بہت سے نمونے آپ ملاحظہ کریں گے زیادہ تر مخصوص مصادیق کے لئے بیان ہوئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں ان مصادیق میں محدود کردیا گیا ہے بلکہ مذکورہ روایات حقیقت میں ایمان بالغیب کی وسعت اور اس کے امام غائب تک کے شمول کو بیان کرتی ہے یہاں تک کہ کہا جاسکتا ہے کہ ایمان بالغیب ممکن ہے زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ نئے مصداق بھی پیدا کرے۔

______________________________

۱۔ اقتباس از قرآن و آخرین پیامبر۔

2۔ نور الثقلین جلد اول ص

 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں ...
حضرت امام مہدی (عج)کے اخلاق اور اوصاف کیا ہے ، اور ...
حقوق العباد کيا ہيں ؟
مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟
کیا تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں ؟
کو نسی چیزیں دعا کے اﷲ تک پہنچنے میں مانع ہوتی ...
صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟

 
user comment