اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حاکميت قرآن

کتاب انزلناہ اليک لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربہم الي صراط العزيز الحميد ( سورہ ابراہيم)

يہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کي طرف نازل کيا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاريکيوں سے نکال کر نور کي طرف لے آئيں اور خدائے عزيز و حميد کے راستے پر لگا ديں۔

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

’’اذا لتبست عليکم الفتن کقطع الليل المظلمۃ فعليکم بالقرآن فانہ شافع مشفع وما حل مصدق من جعلہ امامہ قارہ اليٰ الجنۃ ومن جعلہ فاقہ اليٰ النار .... اليٰ خر الحديث‘‘

جب فتنے اندھيري رات کے تاريک حصوں کي طرح تمھارے لئے الجھنيں پيدا کرديں تو تمھيں قرآن ہي سے وابستہ رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ قرآن شفاعت، کرنے والا ہے، اس کي شفاعت مقبول ہے۔ قرآن تصديق شدہ مدبر ہے۔ جس نے اسے اپنے سامنے رکھا قرآن اسے جنت ميں لے جائے گا اور جس نے قرآن کو پس پشت ڈال ديا وہ ايسے شخص کو جہنم ميں پہنچا دے گا۔ وہ بہترين راستے کا رہنما ہے۔

’’وہ ايسي کتاب ہے جس ميں تفصيل و تشريح اور نتيجہ خيزي ہے۔ و حتمي و قطعي فيصلہ کن کتاب ہے، غير سنجیدہ چيز نہيں۔ اس کا ظاہر ہے، اس کا باطن ہے۔ اس کا ظاہر حکم (فيصلہ) ہے اس کا باطن علم ہے، اس کا ظاہر خوش نما اور اس کا باطن بہت ہي عميق ہے۔ اس کے عجائبات بے حساب ہيں اور اس کے غرائب اور ندرتوں پر کہنگي اپنا اثر دکھاتي ۔ اس ميں ہدايت کے چراغ اور حکمتوں کے مينار ہيں۔‘‘

’’نظر دوڑانے والے کو اسے ديکھنا چاہئے اور نگاہ کو اس کي صفات تک رسائي حاصل کرنا ضروري ہے۔ قرآن متلائے ہلاکت کو نجات اور مشکلوں ميں پھنسے ہوئے کو خلاصي دلاتا ہے۔‘‘

حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا:

’’ واعلموا ان ہذا القرآن ہو الناصح الذي لا يغش والہادي الذي لايضل...

’’ياد رکھو!يہ قرآن (مجيد) وہ خير خواہ ناصح ہے جو کبھي دھوکا نيہں ديتا۔ وہ رہنما ہے جو کبھي گمراہ نہيں کرتا، وہ سخن گوہے جو کبھي جھوٹ نہيں بولتا۔ جو بھي قرآن کا ہم نشين ہوا وہ ہدايت کو بڑھا کر اور گمراہي کوگھٹا کر جاتا ہے۔‘‘

پيغمبر اسلام۰ نے قرآن مجيد کا جس طرح تعارف فرمايا وہ آج امت اسلاميہ کے لئے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔جس قسم کي تہہ در تہہ تاريکياں اور سياہ بادل آج مسلمانوں کي زندگي پرچھائے ہوئے ہيں اس سے پہلے کبھي نہ تھے۔ يہ درست ہے کہ اس صورتحال کي ابتداء اس وقت ہوئي جب اسلامي خلافت کي جگہ، طاغوتي سلطنت نے لے لي۔ قرآن کريم سے رشتہ ايک تکلف اور رسم کي حيثيت سے باقي رہ گيا، وہ مسلمانوں کي زندگي سے باہر ہوگيا۔ ليکن آج بيسويں صدي کے عہد جاہليت ميں سياسي پيچ و خم اور پروپيگنڈے کے ايسے مرحلے ميں داخل کر ديا گيا ہے جو پہلے سے کہيں زيادہ خطرناک اور کہيں زيادہ فکرمند کر دينے والي بات ہے۔

سب سے بڑا ذريعہ اور موثر ترين حيلہ جس سے اسلام کو ايک گوشے ميں دھکيلا جا سکتا تھا يہي تھا کہ مسلمان عوام کے دل و دماغ سے قرآن کو نکال ديا جائے۔ اسلامي ممالک ميں استعماري طاقتوں کے تہي اس کام کو نقطہ مرکزي بنا ليا گيا اور بيروني اقتدار طلب لوگوں کا ايک اہم کام بن گيا، اور اس کے لئے طرح طرح کے طور طريقے اختيار کئے گئے۔قرآن کريم، جسے خود اسي کتاب مقدس ميں نور، ہدايت حق کو باطل سے جدا کرنے والا، زندگي، ميزان، شفا اور ذکر جيسے نام ديئے گئے ہيں اسي وقت ان خصوصيات کا مظہر ہو سکے گا جب پہلے مرحلے ميں مرکز فکر و فہم اوردوسرے مرحلے ميں محور عمل قرار پائے۔

ابتدائے اسلام ميں، اسلامي حکومت کے دور ميں قرآن ہي حرف آخر اور فيصلہ کن حکم تھا۔ حد يہ ہے کہ خود کلام پيغمبر اکرم کو اسي کي بنياد پر پرکھا جاتا تھا۔ معاشرے ميں علمائے قرآن صحيح قدرومنزلت کے حامل تھے۔ حضور نے لوگوں کو سمجھايا تھا۔

’’اشرف امتي اصحاب الليل وحملۃ القرآن‘‘

ميري امت کے معزز لوگ شب بيداري اور حاملين قرآن ہيں۔

حمل قرآن کريم کو سيکھنا، اسے سمجھنا اس پر عمل کرنا ہے۔ ان دنوں يہ صفت معاشرے ميں ايک فضيلت سمجھي جاتي تھي۔ زندگي کي ہر مشکل ميں قرآن کي طرف رجوع کيا جاتا تھا۔ ہر بات کو ماننے نہ ماننے، ہر دعوے کو پرکھنے اور ہرروش کو قبول کرنے نہ کرنے کا معيار قرآن کريم تھا۔ وہ لوگ حق و باطل کو قرآن کے ذريعے پہچانتے تھے۔ اس کے بعد زندگي کے ميدان ميں اس کے نمونے ديکھتے اور معين کرتے تھے۔

جب سے اسلامي معاشروں پر مسلط ہونے والي قوتيں اسلامي اقدار سے محروم اور دور ہونے لگيں اسي وقت سے انھوں نے قرآن کو جو حق و باطل ميں تميز کا پيمانہ ہے، اپنے لئے رکاوٹ سمجھنا شروع کرديا۔ پھر اس مہم کا غاز ہوا کہ کالم الٰہي کو زندگي کے ميدان سے نکال ديا جائے۔

اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ دين معاشرتي زندگي سے جدا اور دنيا و آخرت سے الگ ہوگئي اور حقيقي دينداروں اور دنيا طلب قدرت مندوں ميں ٹھن گئي۔ زندگي کے ميدانوں اور مسلمانوں کے معاشرے سے اسلام کو انتظامي منصب سے ہٹا ديا گيا، اسلام کا تعلق صرف عبادت گاہوں، مسجدوں اور گوشہ ہائے دل سے سمجھ ليا گيا۔ يوں حيات اجتماعي اور دين کے درميان ايک طويل جدائي رونمائي ہوئي۔

مغربي تسلط اور صليبي وصہيوني ہمہ جہت حملوں سے پہلے اگرچہ حقيقي معنوں ميں قرآن زندگي کے ميدان سے غائب تھا مگر يہ ضرور ہے کہ مسلمانوں کے دل و دماغ پر کم و بيش اس کا ايک اثر باقي تھا اور صليبي اور صہيوني حملہ آور اسے بھي برداشت نہ کرسکے۔
جس قرآن کا واضح حکم يہ ہے کہ ان کے مقابلے کے لئے جتني قوت اور جتنے رہواروں کي طاقت تم سے جمع ہوسکے جمع کرو۔ (سورہ انفال)
جو قرآن فرماتا ہے کہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غلبہ نہيں دے گا (سورہ نساء)
اور جو قرآن مومنوں کو ايک دوسرے کا بھائي، دشمنوں پر سخت گراں اور غضبناک ديکھنا پسند کرتا ہے( ماخوذ از سورہ فتح)
وہ قرآن ايسے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت تھا جو مسلمانوں کے معاملات کي باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لے کر۔ان پر تسلط حاصل کرکے ان کا سب سے کچھ بتاہ کرنا چاہتے تھے۔يہ اقتدار حاصل کرنے والے اچھي طرح سمجھ چکے تھے کہ عوام کي اپني زندگي ميں قرآن سے تھوڑي سي بھي وابستگي ان کے اقتدار اور اثرو نفوز کے راستے کو ناہموار بنا دے گي۔ لہٰذا انھوں نے قرآن کو يکسر مٹا دينے کا منصوبہ بنايا۔ ليکن يہ منصوبہ کسي صورت عملي جامہ نہ پہن سکے گا۔ خدا نے امت اسلاميہ سے قرآن کي دائمي حفاظت کا وعدہ فرمايا ہے۔ اس کے باوجود دشمنوں کے اس مقصد کو انجام تک پہنچانے کے ارادے اور اس کے نتائج واثرات کو نظرانداز نہيں کرنا چاہئے۔
آج مسلمانوں کي زندگي پر ايک نظر ڈالئے، قرآن کہاں نظر آتا ہے؟ کيا سرکاري اداروں ميں ہے؟ کيا اقتصادي نظام ميں ہے کيا روابط کے نظم و نسق اور عوام کے باہمي تعلقات ميں ہے؟ اسکولوں اور يونيورسٹيوں ميں ہے؟ خارجہ سياست يا حکومتوں سے تعلقات ميں ہے؟ قومي سرمائے کي تقسيم ميں ہے؟ اسلامي معاشرے کے سربراہوں کے عادت و خصائل ميں، اقوام و ملل کے مختلف طبقات ميں جن کے کم و بيش اثرات ہيں، کہيں قرآن نظر آتا ہے۔
مسلمان عوام کي انفرادي رفتار ميں، زن ومرد کے روابط ميں،خوراک ولباس ميں کہيں قرآني تعليمات کي کوئي جھلک نظر آتي ہے؟ اقتدار کے ايوانوں ميں، امانتوں اور بينک ڈاپازٹ ميں، انسانوں کي عوامي اور سماجي تحريکات ميں قرآن کريم کہا ہے؟
زندگي کے اتنے ميدان ہيں۔ مسجدوں اور ميناروں، عوام فريبي اور رياکاري کے لئے ريڈيو کے چند پروگراموں ميں البتہ قرآن دکھائي ديتا ہے۔ مگر کيا قرآن فقط اسي لئے ہے؟سيد جمال الدين سو برس پہلے اس بات پر روئے تھے، انھوں نے رلايا تھا کہ قرآن ہديہ دينے اور آرائش و زينت، قبرستان ميں تلاوت کرنے، طاقوں ميں رکھنے کے لئے رہ گيا ہے۔
بتائے کيا ان سو سالوں ميں کوئي فرق پڑا ہے؟ کيا امت قرآن کي حالت پريشان کن نہيں ہے؟
بات يہ ہے کہ قرآن انساني زندگي کي کتاب ہے اور انسان کي کوئي حد تک ہے۔ انسان مسلسل ترقي کي حالت ميں ہے۔ انسان کي بہت سي جہتيں ہيں۔ وہ انسان جس کي ترقي پذيري کي حد اور سرحد نہيں، ہر زمانے ميں قرآن اس کا رہنما، معلم اور دستگير ہے۔ انسان کو ايک مہذب اور مطلوب زندگي فقط قرآن ہي کے ذريعے سکھائي جا سکتي ہے۔ ظلم، نسلي امتياز، فتنہ وفساد، جھگڑے، سرکشي، ناروائي، رسوائي، خيانت جو انساني تاريخ کے طويل درو ميں ہوئي اور انسان کي نشونما اور ترقي ميں رکاوٹ بني ہے، اسے قرآن ہي کے ذريعہ دور کيا جا سکتا ہے۔ قرآني ہدايت اور رہنماہي انساني زندگي کا منشور بناتي ہے۔
قرآن کي طرف رجوع انسان کي مطلوب اور پسنديدہ زندگي کي طرف رجوع ہے۔ اس عمل کي ذمہ داري قرآن پرايمان رکھنے والوں پر عموماً اور قرآن شناس حضرات پر بالخصوص عائد ہوتي ہے۔ يہ علماء اور خطباء کي ذمہ داري ہے۔
قرآن کي طرف رجوع ايک نعرہ ہے، يہ نعرہ اگر حقيقت کا روپ اختيار کر لے تو يہ حقيقت حق و باطل کو جدا کردے۔ جو قوتيں قرآن کي طرف بازگشت کو برداشت نہيں کرسکتيں، مسلمانوں کو چاہئے کہ ايسي قوتوں کو بر داشت نہ کريں۔
 
عزيز مسلمان بھائيو اور بہنو!
ہم بھي قرآن سے دور، قرآن دشمن عالمي منصوبے کا شکار تھے قرآن کي طرف بازگشت کي لذت اور لطف سے نا آشنا تھے۔ ايران کا پرشکوہ اسلامي انقلاب اور نظام جمہوري اسلامي کا قيام اس بازگشت کي ايک برکت کا اثر ہے۔ ج يہ قوم اپني حيات اجتماعي، معاشرتي تعلقات،حکومت کي تشکيل وہيئت، اپنے رہنما کے اخلاق وعادات ،سياست خارجہ، نظام تعليم وتربيت ميں قرآني تعليمات کے کچھ شرارے ديکھ رہي ہے۔ اب تک بہشت قرآن کي ايک نسيم کا جھونکا ہم تک آتا ہے ليکن اس حقيقي جنت کے اندر جانے کا راستہ کھلا ہے۔
ہميں فخر ہے کہ ہم نے اپنے گوش ہوش صدائے قرآن کے حوالے کرديئے ہيں۔ تمام اقوام کي ذمہ داري بھي يہي ہے، خصوصاً علماء دين، دانشوروں، خطيبوں، مصنفوں اور محققين پر يہ سب سے بڑا فريضہ ہے۔
اس کانفرنس نے اگر قرآن معارف پيش کئے اور معرفت قرآن کے موضوع کي طرف نئے قدم بڑھائے تو اس کا مطلب يہ ہوگا کہ اس نے اپنا مقصد حاصل کرليا۔ اس کانفرنس کے پروگرام ميں جو موضوع زير بحث آئيں وہ ذہنوں کو مطمئن کريں کہ زندہ انساني معاشرے کي گردش وحرکت کے لئے ہر چيز قرآن ميں موجود ہے۔ ذہني معلومات سے عملي اندازوں اور حرکت فريں رہنما اورنظام بخش عقيدے سے لے کر اجتماعي ومعاشرتي زندگي کے رنگارنگ نظام تشکيل نظام دينے والے معاملات تک اور گزشتہ تاريخ بشر کي تحليل و تجزئے سے مستقبل کي پيشين گوئيوں تک آج تمام فلسفے، تمام نظريات، مادي آئيڈيالوجي کے رنگارنگ پہلو، ذہني وعملي بھول بھليوں کي حيثيت اختيار کرچکے ہيں، وہ انساني قوتوں کو سميٹنے اور ايک دوسرے کو جذب کرنے سے عاجز ہو چکے ہيں۔
اب قرآن کي حاکميت کا دور ہے اب قرآن ہي انسان کے ذہني وعملي خلا کو پر کرے گا، وہ ل’’يظہرہ علي الدين کلہ‘‘ کي بشارت دے رہا ہے۔
بھائيو اور بہنو!
 علم سے عمل، تلاوت سے تفسير، قبول ذہني سے وجود خارجي تک اپني کوششوں کا محور قرآن کو قرارديجئے۔ اسي کا اتباع کيجئے۔ قرآن کي طرف رجوع وبازگشت کا نعرہ اپنے ملکوں اور اپنے عوام ميں لے جايئے اور اس نصب العين کو عملي بنانے کے لئے عوام کو قريب لائيے اور ان کي ہمت بڑھائيے۔
اس مبارک کوشش ميں مجھے اميد ہے کہ روح قرآن آپ کي مدد اور رہنمائي کرے گي۔


source : http://www.tebyan.net/i
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عید مبعث اور شب معراج ، رحمت اللعالمین کی رسالت ...
عورت کا مقام و مرتبہ
سول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اکلوتی ...
اطاعت و وفا کے پیکر علمدار کربلا کی ولادت با سعادت
قرآن و علم
فاطمہ، ماں کي خالي جگہ
خلاصہ خطبہ غدیر
امام علی(ع)اور آج کے مسلمانوں کے مسائل اور ان کا ...
امام رضا علیہ السلام کے فضائل کے چند گوشے
امام خمینی (رہ):غدیر کے پس منظر میں ہمارے فرائض

 
user comment