علم کلام کی اہمیت بیان کرنے سے پہلے آیات و روایات کی روشنی میں علم ، عالم اور حصول علم کی فضلیت کے سلسلے میں چند نکات کا بیان کرنا ضروری ہے :
۱۔ پیغمبر گرامی اور ائمہ طاہرین ٪ کے فرمودات میں حصول علم پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔جیسا کہ رسول اکرم کا فرمان ہے :
”طلب العلم فریضة علی کل علم الا ان اللہ یحب بخاة العلم“(۱)
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے یاد رکھو اللہ تعالیٰ علم کی تلاش کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
۲۔اسلام نے حصول علم کا وقت معین نہیں کیا لہٰذا انسان کو فقرو غنی، صلح و جنگ، صحت و بیماری اور جوانی وبڑھاپے کسی حالت میں بھی تحصیل علم سے غافل نہیں ہوناچاہئے۔کیونکہ علم ”نور“ اور” کمال “ ہے اور نور و کمال کا حاصل کرنا کسی وقت اور حالت کے ساتھ مختص نہیں ہے۔جیساکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے :
”طلب العلم فریضة علی کل حال“(۲)
علم کا حاصل کرنا ہر حالت میں فرض ہے ۔
۳۔حصول علم کسی جگہ یا مکان میں منحصر نہیں ہے ۔ بلکہ اگر کسی جگہ پر علم کا حاصل کرنا ممکن نہ ہو تو انسان کو واجب کفائی کے طور پر ہجرت کا حکم دیا گیا ہے ۔جیسا کہ رسول اکرم کا فرمان ہے :
”اُطلبوا العلم و لو بالصین“(۳)
علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔
۴۔علم دین کا حاصل کرنا اسقدر اہمیت کا حامل ہے کہ صادقین علیہما السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں :
”لو اُوتیتُ بشابٍ من شباب الشیحة لا یتقفہ لا دبتہ“(۴)
امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام میں سے ہر ایک امام کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر میرے سامنے شیعہ جوانوں میں سے ایک ایسا جوان لایا جائے جو دینی مسائل کے سمجھنے میں کوتاہی سے کام لے رہا ہو تو میں اس کی سرزنش کروں گا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں صادق آل محمد علیہ السلام اپنی آروز کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
”․․․․․لیت السیاط علی روٴوس اصحابی حتی یتفقہوا فی الحلال و الحرام“(۵
کاش ! میرے اصحاب کے سر پر کوئی تازیانہ لے کر کھڑا ہوتا جو انہیں حلال و حرام کے سیکھنے پر مجبور کرتا ۔
یا ایک اور حدیث میں رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے :
”اُف لکل مسلم لایجعل فی کل جمعة یوما یتفقہ فیہ امر دینہ و یسال عن دینہ “(۶)
اس مسلمان پر افسوس ہے جو پورے ہفتے میں سے ایک دن اپنے دینی امور میں غور وفکر اور اپنے دین کے بارے میں سوال کرنے کے لیے مختص نہیں کرتا ۔
مذکورہ بالا احادیث و روایات کے علاوہ اور بھی بہت ساری احادیث علم و تحصیل علم کی فضیلت میں بیان کی جاسکتی ہیں لیکن اس مقام پر ہم انہی روایات پر اکتفاء کرتے ہوئے قرآن کی روشنی میں علم اور حصول علم کی فضلیت کو بیان کرتے ہیں :
قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر علم ، عالم اور حصول علم کی فضلیت کو بیان کیا گیا ہے ۔جیسا کہ سورہ مبارکہ انعام میں ارشاد خداوندی ہے :
﴿أَ وَ مَنْ کانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْناہُ وَ جَعَلْنا لَہُ نُورًا یَمْشی بِہِ فِی النّاسِ کَمَنْ مَثَلُہُ فِی الظُّلُماتِ لَیْسَ بِخارِجٍ مِنْہا کَذلِکَ زُیِّنَ لِلْکافِرینَ ما کانُوا یَعْمَلُون﴾(۷)
”کیا وہ شخص جو مردہ تھا ، پھر ہم نے اسے زندہ کردیا اور اسے روشنی بخشی جس کی بدولت و ہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے ۔اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو ۔ یوں کافروں کے لیے ان کے اعمال خوش نمابنا دے گئے ۔“
اس آیت مجیدہ میں علم کو نور اور روشنی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ مبارکہ مجادلہ میں ارشاد ربانی ہے کہ مومنین علم و دانش کے مطابق درجات پائیں گے یعنی روز قیامت مومنوں کے درجات پانے کا معیار اور ملاک ان کا علم و دانش ہے ۔
﴿․․․ وَ الَّذینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجاتٍ ․․․﴾(۸)
”وہ جنہیں علم دیا گیا ان کے درجات کو اللہ بلند فرمائے گا۔“
اسی طرح سورہ مبارکہ فاطر میں علماء کو ہی خدا سے ڈرنے والا کہا گیا ہے :
﴿․․․ إِنَّما یَخْشَی اللّہَ مِنْ عِبادِہِ الْعُلَمؤُا ․․․﴾(۹
اللہ کے بندوں میں سے صرف اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں۔
اسی طرح سورہ مبارکہ زمر میں ارشاد خداوند ی ہے :
﴿․․․قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذینَ یَعْلَمُونَ وَ الَّذینَ لا یَعْلَمُونَ إِنَّما یَتَذَکَّرُ أُولُوا اْلأَلْباب﴾(۱۰)
کہہ دیجئے :کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے ہیں ۔بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق علم سے بڑھ کر کوئی خزانہ نہیں ہے ۔جیساکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہماالسلام فرماتے ہیں:
”لاکنز انفع من العلم “(۱۱)
کوئی خزانہ علم سے زیادہ مفید نہیں ہے ۔
اشکال
اس مقام پر اگر کوئی شخص اشکا ل کرے کہ مذکورہ آیات و روایات میں علم کلام اور عقائد دینی کانام تک نہیں آیا پس کس طرح یہ آیات اور روایات علم کلام کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں؟
جواب
اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے علماء علم کلام کہتے ہیں کہ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ مذکورہ بالا آیات و روایات میں مطلق علم کی فضلیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوران میں سے علم کلام و عقائد کا خصوصی طور پر نام نہیں آیا ۔ لیکن یہ آیات و روایات مفہوم اولویت کے ذریعے علم کلام کی اہمیت پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ جس کی چند ایک صورتیں یہاں پر ذکر کرتے ہیں:
الف) انسان کی قدروقیمت کا معیار قرب خداوند کا ہے یعنی جتنا جتنا انسان خدا کے قریب ہوتا ہے ۔ اتنا ہی اس کی قدرو قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔اور قرب خداوند اس ذات کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور دوسری طرف صرف علم انسان کی سعادت اور قرب الٰہی کا ضامن نہیں ۔کیونکہ معرفت اور بصیرت کے بغیر عمل نہ صرف قرب الٰہی کا باعث نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے فرمان کیروشنی میں بعد اور دوری کا سبب ہے ۔جب کہ آپ نے فرمایا:
”العامل علی غیر بغیر ة کا لشائر علی غیر الطریق و لا یزیدہ سرعة السیر من الطرق الا بعدا“(۱۲)
وہ شخص جو بصیر تکے بغیر عمل کرتا ہے اس کی مثال راستے پر نہ چلنے والے آدمی کی سی ہے ۔اور ایسا شخص راستے سے ہٹ کر جتنا تیز چلے گا تاتنا ہی راستے سے دور ہوتا چلا جائے گا۔دینی علوم میں سے علم کلام ہی ہے جو خداوند متعال کی ذات اور صفات کے بارے میں بحث کرتا ہے اور معرفت خداوند ی کا سامان مہیا کرتا ہے ۔پس جو علم معرفت کی راہ کو ہموار کرتا ہے علم کی اہمیت پر دلالت کرنے والی آیات و روایات ایسے علم کی اہمیت پر بدرجہ اولیٰ دلالت کرتی ہیں۔
ب) یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ کسی بھی علم کی اہمیت اس علم کے موضوع اور اس پر مترتب ہونے والے آثار کے اعتبار سے ہے یعنی جس قدر علم کا موضوع اور اس علم پر مترتب ہونے والے اہداف اہمیت کے حامل ہوں گے ۔ اتنا ہی وہ علم اہمیت کا حامل ہوگا۔
خواجہ نصری الدین طوسی اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ حیوان کے چمڑوں کو رنگنے کا علم بھی ایک علم ہے اورطب بھی ایک علم ہے ۔ پہلے علم میں حیوانوں کے چمڑوں کی اصلاح کی جاتی ہے اور انہیں قابل استفادہ بنایا جاتا ہے ۔جبکہ دوسرے علم میں انسان کا علاج و معالجہ کیا جاتا ہے لہٰذا کبھی بھی ایک چمڑا رنگنے والا طبیب جیسا نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کا کام طباطت کی برابری کرسکتا ہے ۔(۱۳)
پس جس وقت کسی علم کی اہمیت کا معیار اس کا موضوع اور اس سے حاصل ہونے والے اہداف ہیں تو یقینا وہ علم جس کا موضوع ،ذات اور صفات خداوند ی ہوں افضل ترین علم میں سے ہوگا ۔کیونکہ کوئی علم بھی موضوع اور اہداف کے اعتبار سے علم کلام کی برابری نہیں کرسکتا ۔ کتنا فرق ہے ان دوچیزوں کے درمیان کہ ایک وقت انسان زمین ، درخت ، پتھر ، حیوانی یا کسی دوسرے انسان کے بارے میں تحقیق کرے اور ایک ؟؟؟ اس کا محور بحث ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفات ہوں۔
پس علم کلام موضوع اور اہداف کے لحاظ سے افضل ترین علوم سے ہے اور علم کی اہمیت پر دلالت کرنے والی آیات و روایات بطریق اولیٰ اس علم کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
ج) مومنوں کے درمیان ایمان اس کی معرفت کے مطابق ہیں۔ یعنی جس شخص کی ذات و صفات خدا ، نبوت ، امامت ، قیامت، خلقت و آثار خلقت اور دینی مسائل کے بارے میں معرفت جتنی زیادہ ہوگی اس کا ایمان اتنا ہی قوی ہوگا اور اس کی ذات باری کی طرف توجہ زیادہ سے زیادہ اور اس کا عمل خدا کے نزدیک پسندیدہ تر ہوگا۔
بہرحال ثواب و عقاب اور بلندی وپستی کا معیار انسان کی معرفت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روایات میں عالم کو عباد پر فضلیت دی گئی ہے۔
سلیمان دیلمی اپنے باپ سے نقل کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سلیمان کے باپ نے واقعہ بیان کیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں کسی شخص کے دین عبادت اور فضل و کمال کا تذکرہ کیا۔ آنحضرت نے فرمایا اس کی عقلی کسی ہے ؟ میں نے عرض کی مجھے معلوم
نہیں۔تو پھر امام نے فرمایا:ثواب کا معیار اور ملاک انسان کی عقل ہے ۔
”سلیمان الدیلمی عن ابیہ قال قلت لابی عبداللہ فلاناً من عبادیہ و دینہ و فضلہ ۔فقال کیف عقلہ؟ قلت لا ادری فقال: ان الثواب علی قدر العقل“
یہ اور اس قسم کے دیگر روایات کا معالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی عبادت کی قدرو قیمت کا معیار اس کی عقل و معرفت ہے اور اصول دین کی معرفت تمام معرفتوں کی اساس ہے اور یہ معرفت صرف اور صرف علم کلام کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے ۔
اس طرح علم کلام کی اہمیت کو چا ر چاند لگ جاتے ہیں۔اور وہ آیات و روایات جو علم کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس زاویے سے علم کلام کی اہمیت پر بدرجہ اولیٰ دلالت کرتی ہیں۔
د) تاریخ شاہد ہے کہ ائمہ علیہم السلام نے تمام حالات میں معارف دین با لخصوص معرفت خدا کے حصول پر خصوصی تاکید فرمائی ہے ۔ اور پھر اس کا علمی نمونہ پیش کیا ہے ۔مثال کے طور پر ایک شخص نے کسی مسئلہ توحید میں امام سے وضاحت طلب کی ۔دوسرے افراد نے جنگ کے اس حساس موقع پر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن امام علیہ السلام نے روکنے والوکو منع کیا اور فرمایا:”دعوہ فان الذی یریدہ الاعرابی ہو الذی یزید ہ من القوم“
اسے چھوڑ دعو (یعنی سوال کرنے دو) وہ چیز کہ جس کا یہ اعرابی طالب ہے ۔یہی وہ چیز ہے جو ہم اس قوم (لشکر مدمقابل) سے چاہتے ہیں۔
اس کے بعد امیرالمومنین علی بن ابی طالب سلام اللہ علیہما نے خدا کی وحدانیت کے بارے میں عظیم خطبہ دیا۔
۱۔بحارالانوار، ج ۱، ص ۱۷۲۔
۲۔بحارالانوار، ج ۱، ص ۱۷۲۔
۳۔بحارالانوار، ج ۱، ص ۱۷۲۔
۴۔ بحارالانوار ، ج ۱، ص ۲۱۴۔
۵۔ بحاالانوار ، ج ۱، ص ۲۱۳۔
۶۔بحارالانوار ، ج ۱، ص ۱۷۶۔
۷۔انعام(۵) آیت ۱۲۲۔
۸۔ مجادلہ ۱۱۔
۹:۔فاطرآیت ۲۸۔
۱۰:۔زمرآیت ۹۔
۱۱:(بحارالانوار، ج ۱، ص ۱۶۵۔
source : http://mahdicentre.com