عرفا ء ، حکماء اور دینی رہبروں کے اکثر اقوال میں اس عبارت کو اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ''خدا کی شناخت فطری ہے'' یا ' ' انسان فطرة ًخدا شناس ہے'' اس مطلب کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے فطر ت کے معنی سمجھنا ہوں گے۔
فطرت ایک عربی کلمہ اور ''نوع خلقت'' کے معنی میں ہے،اورانھیں امور کو فطری کہا جاتا ہے کہ جس کا ، خلقت و آفرینش تقاضا کرے، اسی وجہ سے اس کے لئے تین خصوصیات کا لحاظ کیا گیا ہے ۔
١۔ فطرت وہ موجود ہے جو نوع از موجودات کے تمام افراد میں، پائی جائے اگر چہ وہ کیفیت شدت و ضعف کے اعتبار سے متفادت ہوں۔
٢۔ فطری امور طول تاریخ میں ہمیشہ ثابت و مستحکم و نا قابل تبدیل رہے ہیں اور ایساکبھی بھی نہیں ہوسکتا کہ کسی نوع کی فطرت ایک زمانہ گذر جانے کے بعد اپنی اقتضا بدل دے اور اسی طرح زمانے کے بدلنے کی طرح اس کی اقتضا بدلتی رہے۔
(فِطرَتَ اللّہ الَّتِ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیہَا لَا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّہِ ،)
یہی خدا کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی خلق کی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ سو رہ روم۔ آیت/ ٣٠.
٣۔ فطری امور فطری ہونے کے لحاظ سے اور اقتضاء خلقت کے سبب اس کو سکھنے اور سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسے صحیح راستہ دکھانے اور قوت بخشنے کے لئے تعلیم کی ضرورت ہے۔
انسان کی فطریات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
الف: فطری معرفت کہ جو ہر انسان کے پاس تعلیم کے بغیر موجود ہے۔
ب: فطری میلانات اور رجحانات ہر فرد کی خلقت کا تقاضا و لارمہ ہیں، لہٰذا اگر ہر فطرت بشر کے لئے خدا کے سلسلہ میں ایک قسم کی شناخت ثابت ہو جائے کہ جس کے حصول کے لئے تعلیم و تعلم کی ضرورت نہ ہو تو اسے ''فطری خدا شناسی کا نام دیا جاسکتا ہے'' اور اگر تمام انسانوں میں خدا کی طرف توجہ اور اس کی پرستش کے میلانات ظاہر ہوجائیں تو اسے ( فطری خدا پرستی) کہا جاسکتا ہے۔
ہم نے دوسرے درس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ بہت سے صاحبان نظر کی رو سے دین اور خدا کی طرف توجہ پیدا کرنا انسان کی روحی خصوصیات کا تقاضا ہے کہ جسے ''حس مذہبی'' یا '' عاطفہ دینی '' کا نام دیا جاتا ہے، اب اس کے بعد ہم اس مطلب کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ خدا شناسی بھی انسانی فطرت کا تقاضہ ہے، لیکن جیسا کہ خدا پرستی کی فطرت ایک دیدہ و دانستہ میلان نہیں اسی طرح خدا شناسی کی فطرت بھی لاشعوری اور غیر دانستہ ہے اس لحاظ سے یہ فطرت عام افراد کو خدا شناسی کی عقلی جستجو و تلاش سے بے نیاز نہیں کر سکتی۔
لیکن اس نکتہ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ہر انسان معرفت حضوری کے ایک ادنی درجہ پر فائز ہے لہٰذا معمولی فکر و استدلال کے ذریعہ ،وجود خدا کو ثابت کرسکتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنیلا شعوری شناخت (مشاھدہ قلبی) کو قوی بنا سکتا ہے، اور آگاھانہ طور پر معرفت کے مدارج طے کرسکتا ہے۔
نتیجہ:
خدا شناسی کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا دل ووجود خدا سے آشنا ہے اور اس کی روح میں خدا شناسی کی فطرت موجود ہے جسے رشد و کمال دیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ فطرت عام افراد میں اس حالت میں نہیں ہے کہ انھیں کلی حثیت سے تفکر اورعقلی استدلالات سے بے نیاز کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) البتہ ایسے مشاھدات و انکشافات کے اھل افراد سے انکار نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے زمانہ طفولیت میں بھی ایسے شہودات کے مالک ہوا کرتے تھے یہاںتک کہ بعض ائمہ نے شکم مادر میں بھی ایسی شناخت کا ثبوت دیا ہے۔
منبع: آموزش عقائد، مصباح یزدی
source : http://www.ahlulbaytportal.com