ممکن ہے یہ سوال پیش آئے کہ شفاعت، خدا کا حق ہے اور ہم اس کو کسی دوسرے سے طلب کریں تو یہ اس کے امور میں دخالت کرنا ہے کیونکہ شفاعت اسی کے امور میں سے ہے اگر ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے شفاعت طلب کریں تو یہ شرک ہے ۔
سوال:کیا خداوند عالم کے خاص بندوں سے شفاعت طلب کرنا اس کے امور میں دخالت کرنا ہے ؟
جواب:ممکن ہے کہ بعض افراد کےلئے یہ سوال پیش آجائے کہ شفاعت، خدا کا حق ہے اور ہم اس کو کسی دوسرے سے طلب کریں تو یہ اس کے امور میں دخالت کرنا ہے کیونکہ شفاعت اسی کے امور میں سے ہے اگر ہم خدا کے علاوہ کسی اور سے شفاعت طلب کریں تو یہ شرک ہے ۔
ہم انکے جواب میں کہتے ہیں کہ اگر چہ شفاعت ، خداکا حق ہے اور وہ چیزجوخدا کا حق ہے اس کا غیر خدا سے طلب کرنا کیوں شرک ہو جائےگا ؟شرک کس چیز میں ہے ؟شرک یا تو افعال میں ہے یا عبادات میں سے اور کسی چیز کا طلب کرنا عبادت تو نہیں ہے ؟
حد اکثر ایک چیز تو کہ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ فعل لغو ہے ،مثال کے طو رپر ایک کام جو زید کی شایان شان ہے جو وہی کر سکتا ہے لیکن ہم اسکو عمرو سے طلب کریں تو یہ کام حد اکثر بےھودہ اور لغو ہو سکتا ہے لیکن شرک نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح مسئلے شفاعت میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لغو بھی نہیں ہے اس لئے کہ کوئی بھی مسلمان جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا اولیاء الہی سے شفاعت طلب کرتا ہے تو وہ یہ اعتقاد نہیں رکھتا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) خدا کی اجازت کے بغیر ہماری شفاعت کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب شفاعت کا حق ، پیغمبر یا ولی خدا یا صالح افراد یا دیگر ملائکہ کو عطا کیا گیا ہے اور ہم ان سے کہیں کہ خداوند عالم نے آپ کو یہ حق دیا ہے لہذا اپنے اس حق سے ہم کو بھی بہره مند کر دیجئے تو اس میں کیا اشکال لازم آتا ہے ؟اور کس طریقے سے یہ مطلب مطابق شرک ہوگا ؟ہم تو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے چاہتے ہیں اور ان سے مانگتے ہیں کہ وہ حق جو انکو دیا گیا ہے اس کے واسطے میں ہم گناہگاروں کی شفاعت کریں، شفاعت کرنے کی اجازت اور اختیار رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ہاتھ میں ہے اور وہ مجبور نہیں ہیں کہ سب کی شفاعت کریں ۔ شفاعت ایک منظم طریقے سے ہوتی ہے یعنی ان لوگوں کی شفاعت ہوگی جن میں شفاعت کے مخصوص شرائط پائے جائیں گے اور اللہ کی طرف سے بھی انکے لئے اذن شفاعت ہو چکا ہوگا ۔ اگر ہم رسول خدا سے کہیں کہ ہم کو بھی ان کے ساتھ کر دیجئے تو اس میں کیوں شرک لازم آتا ہے ۔
شفاعت توحید کے منافی نہیں ہے
سوال:کیا غیر خدا سے شفاعت طلب کرنا غیر خداکی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے اور کیا یہ توحید کی ضدنہیں ہے ؟
جواب:بعض لوگوں نے اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے کہا ہے: جو چیز ہر مسلمان پر واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ صرف خدا کی طرف متوجہ رہے اور اسی کو اپنے مد نظر رکھے اور اسی پر توکل کرے حق عبودیت کو انجام دے اس طرح کرنے والا شخص اگرموحد اس دنیا سے جائے تو خدا وند عالم اپنے پیغمبر کو اس کے لئے شفیع قرا ر دے گا، اس شخص کے برخلاف جو وظیفہ عبودیت کو ترک کر دے اور خدا کے مقابلے پر اتر آئے اور بہت سے امور کو خدا کے علاوہ انجام دے غیر خدا سے توکل رکھے اور اس غیر خدا پر امید قائم رکھے جبکہ وہ کام خدا کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا اور اس طرح غیر خدا سے مدد لینا، پناہ مانگنا اور یہ مشرکوں کے اعمال اور ان کے عقاید ہیں ۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ طلب شفاعت کو توحید کی ضد اور شرک کے مساوی قرار دیا ہے اس بیان کے ساتھ کہ اگر شفاعت خدا کے ہاتھ میں ہے تو خدا موحد کی شفاعت کرے گا اور جو خدا کے علاوہ کسی اور سے شفاعت کی درخواست کرے وہ موحد نہیں ہے بلکہ وہ مشرک ہے اور شفاعت اسکو نہیں مل سکتی۔
واضح ہے کہ یہاں پر بھی غلط بیانی سے کام لیا گیا ہے کیونکہ دلیل کو مدعا بناکر پیش کیا گیا ہے تا کہ سامنے والا شخص دھوکہ کھا جائے جبکہ سوال یہ ہے کہ اس طرح کا شخص کیونکر مشرک ہے ؟اصل میں ہماری بحث یہی ہے کہ اگر کوئی شفاعت کرے تو کیا وہ مشرک ہے یا نہیں ؟پھر موضوع کو مسلم طور پر ثابت کرے اور دلیل کے طور پرپیش کرے کہ اگر کوئی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے مخاطب ہو کر یہ کہے: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میری شفاعت کر دیجئے یا پھر عربی زبان میں اس طریقہ سے کہے : یا رسول اللہ ادع لی یا استغفر لی۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) میرے لئے دعا کیجئے یا میری لئے استغفار کر دیجئے تو اس میں کیا مضائقہ ہے ؟
جبکہ خود پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی زندگی میں لوگ آپ کی خدمت میں آتے تھے اور آپ سے استغفارکی درخواست کرتے تھے اور یہ بات قرآن مجید میں صاف طور پر ذکر ہوئی ہے ”ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جاوٴک فاستغفرو اللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوااللہ توابا رحیما“(۱) یہ آیہ کریمہ تنہا رسول اسلام سے طلب استغفار کو غلط نہیں کہتی بلکہ رسول سے طلب استغفا ر کی تشویق دلاتی ہے ۔
جناب یعقوب کے بیٹے آپ کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں”یا ابانا استغفر لنا ذنوبنا“ (۲) ۔ بابا جان ہمارے لئے خداوند عالم سے استغفار کی دعا کرو، اور انہوں نے بھی کہا ” سوف استغفر لکم“(۳) عنقرےب میں تمہارے لئے استغفار کروں گا ۔ شفاعت طلب کرنے کے معنی اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا آئمہ ( علیھم السلام) یا اولیاء الہی یا صلحاء سے درخواست کریں کہ روز قیامت ہمارے لئے دعا و استغفار کریں یا ملائکہ سے درخواست کریں کہ ہمارے لئے طلب مغفرت کریں کیونکہ ملائکہ بھی مومنین کے لئے استغفار کرتے ہیں کیا یہ غیر اللہ کے سامنے جھکنا یا توکل کرنا ہے اس لئے کہ اگر کوئی پیغمبر اسلام یا اولیاء خدا سے حاجت یا شفاعت طلب کرے تو یہ خداوند عالم سے اعراض اور غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے ، اگر کوئی پیغمبر اسلام سے درخواست کرے کہ ہمارے لئے دعا کریں تو یہ شخص گویا خود اللہ کی طرف متوجہ ہے اور اللہ ہی سے شفاعت طلب کر رہا ہے صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے کہہ رہاہے یا رسول اللہ !آپ ہمارے لئے استغفار و دعا کر دیجئے ۔
۱۔سورہ نساء ، آیت۶۴۔
۲۔ سورہ یوسف ۔۹۷۔۹۸۔
شفاعت کا طلب کرنا لغو نہیں ہے
سوال:کیا غیر خدا سے شفاعت طلب کرنا لغو اور بیہودہ فعل ہے اور موجب شرک ہے ؟
جواب:کبھی اس بات سے فتنہ و فساد ہو جاتا ہے کہ جب شفاعت خدا کا حق ہے اور خدا سے مربوط ہے اور شفاعت فقط اس کے اذن سے ہوتی ہے اور ان لوگوں سے مربوط ہے جن سے خدا راضی ہے تو اس کو غیر خدا سے درخواست کرنا لغو اور بیہودہ ہے مثال کے طور پر اگر آپ کسی چیز کی مسئولیت رکھتے ہیں اور وہ کام فقط آپ ہی سے مربوط ہے تو آپ کے علاوہ کسی دوسرے سے درخواست کرنالغو ہے کیونکہ آپ کے علاوہ کسی اور سے درخواست کی ہے پٍ جو بھی خدا کے کام کو غیر خدا سے طلب کرے تو وہ لغو کام کا مرتکب ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس نے شرک اختیار کیا ہے ۔
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اول تو یہ کہ اگر لغو فرض بھی کرلیں تو شرک نہیں ہے کیونکہ لغویت اور شرک میں کافی فرق ہے دوسرے یہ کہ یہ فعل لغو بھی نہیں ہے کیونکہ شفاعت ہم نے کسی بےگانہ سے طلب نہیں کی ہے بلکہ اس سے شفاعت طلب کی ہے جس کو خدا وند عالم نے شفاعت کی اجازت دے رکھی ہے ۔
شفیع(شفاعت کرنے والے ) کو مستقل نہ سمجھنا
سوال:کیا غیر خدا سے شفاعت طلب کرناشفیع کو مستقل سمجھنے کی علامت نہیں ہے؟
جواب :یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ صرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا ائمہ ( علیھم السلام) سے بغیر کسی قید و شرط یا اذن الہی کے اس کی شفاعت ہو جائے اور اس طرح کی شفاعت کی درخواست نہیں کرتا اور اساسی طور پر اشفع لنا یا رسول اللہ ،اشفع لنا یا ولی الدین“ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ تم خدا کے مقابلہ میں مستقل ہو اور آپ خودخدا کے اذن کے بغیر ہماری شفاعت کر دیجئے یا ہمارے گناہوں کو معاف کر دیجئے اگر کوئی اس طرح کا عقیدہ رکھتا ہے تو ہم بھی اس کے لئے کہتے ہیں کہ وہ مشرک اور حد شرک میں ہے لیکن کون مسلمان اور موحد ایسا ہے کہ جو ایسا باطل عقیدہ رکھتا ہو ؟
غیر خدا سے شفاعت کا مقایسہ کرنا ۔یا بتوں سے شفاعت طلب کرنا ۔
سوال: سورہ زمر کی تیسری آیت (۱) اور سورہ یونس کی اٹھارویں (۲) کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا غیر خدا سے شفاعت طلب کرنابت پرستوں کے کام کی طرح نہیں ہے؟اورکیا یہ شرک نہیں ہے؟
جواب :ان کے شرک کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کہتے تھے کہ یہ ہماری شفاعت کرنے والے ہیں بلکہ انکا شرک یہ تھا کہ وہ بتوں کی پرستش کیا کر تے تھے مندرجہ بالا دو آیتیں جو سوال میں پیش کی گئی ہیں ان میں صرےحا اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اگر پرستش و عبادت درکارنہ ہو اورشفیع کی عبادت نہ کریں اور اس بات کے قائل ہیں کہ خداوند عالم سے اس کے ارتباط کی چشم پوشی کرتے ہوئے شفیع کوئی فائدہ اور نقصان نہیں پہنچاتابلکہ اس کا اپنا نفع و ضروربھی خود اس کے ہاتھ میں نہیں ہے لیکن وہ ایک ایسا موجود ہے جو کامل انسان اور مقرب بارگاہ الہی ہے مثلاوہ نبی مرسل ہے تو یہ شرک نہیں ہے اور اصلا یہ مشرکوں کے عمل سے مربوط نہیں ہے اورانکے فعل سے قابل مقائسہ بھی نہیں ہے ۔کیونکہ وہ شفیع کو خدا سمجھتے ہیں کبھی بتوں کو سجدہ کرتے ہیں کہتے ہیں یہ میرا خدا ہے یا پھر آیت ”والذین اتخذوا من اولیاء) کے مطابق انکو اپنا ولی قرار دیتے ہیں اور انکی عبادت کرتے ہیں اور انکے لئے قربانی کرتے ہیں اور قربانی کرتے وقت انکا نام اپنی زبان پر جاری کرتے ہیں اور انکے لئے ہر طرح کی عبادت انجام دیتے ہیں اور نیز اپنے دیگر امور کو انکے لئے انجام دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمارے شفیع یہی بت ہیں تو ایسا شخص قطعا مشرک ہے چونکہ شرک عبادت میں ہوتا ہے تو اس کو مقایسہ کریں کسی ایسے شخص کے ساتھ جو پیغمبر اسلام کو انسان اور خدا کی مخلوق میں سے ایک مخلوق سمجھتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا وند عالم نے انکو اذن شفاعت دے رکھاہے لہذا میں ان سے چاہتا ہوں کہ یہ میری بھی شفاعت کریں تو کیا یہ دونوں چیزیں مساوی ہو سکتی ہیں ؟جبکہ مشرک متعدد ارباب کے قائل ہیں اور ظاہری طور پر ہر نوع کے لئے ایک الگ رب اور ایک الگ مدبر کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ نوع انسان کا رب مثلا ایک مالک ہے کیونکہ ہر ایک چیز کا ایک رب ہونا ضروری ہے لیکن ہم اس روح و ملائکہ یا جن کو نہیں دےکھ سکتے اورنہ ہی ان تک پہنچ سکتے ہیں لہذا ان میں سے ہر ایک روح و ملائکہ اور جنوں کے لئے ایک تصویر بناتے تھے اور انکی ایک ایسی تمثیل بناتے تھے جوان کی نشانی ہو ، بعض مشرکین یہ بھی کہتے ہیں کہ ملائکہ خدا کی لڑکیاں ہیں اور وہ بے کار لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ وہ کام کرنے والی ایسی لڑکیاں ہیں کہ جنہوں نے خدا کے امورکو سنبھالا ہوا ہے اور خدا نے بھی اپنے تمام امور اور اپنے کام انکو دئے ہوئے ہیں اور قرآن کریم نے اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے (۳) ۔
لہذا اولا مشرکین بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور عبادت میں شرک کرتے تھے ۔دوسرے عبادت میں شرک کے علاوہ ربوبیت اور مدبریت میں بھی شرک کرتے تھے ۔
۱۔ والذین اتخذوا من دونہ اولیاء ما نعبدھم الا لیقربونا الی للہ زلفی۔
۲۔ و یعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم و لا ینفعھم و یقولون ھولا شفعاؤنا ۔
۳۔ سورہ نجم، آیت ۵۷۔ سورہ نحل، آیت ۵۷، سورہ صافات، آیت ۱۴۹۔
پیغمبر اسلام اور بتوں سے شفاعت طلب کرنے میں مقائسہ
سوال:کیابت پرستوں کابتوں سے شفاعت طلب کرنا اور پیغمبر اسلام سے شفاعت طلب کرنا برابر ہے؟
جواب: مسلمانوں کا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا اولیاء الہی (علیہم السلام) سے شفاعت طلب کرنے اور بتوں سے شفاعت طلب کرنے میںمقایسہ کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ظاہرامر یہ ہے کہ بت برست بتوں کو مستقل جانتے تھے اور وہ اس بات کے معتقد نہیں ہیں کہ خدا نے انکو اذن شفاعت دیا ہوا ہے جبکہ ہم لوگ شفاعت کے مسئلے میں اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اسلام خدا کے اذن سے ہماری شفاعت کرینگے لہذا اس طرح کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اور قرآن نے بھی اس بات کو بارھا تکرار کیا ہے کہ وہ موجودات کو اپنا شفیع تسلیم کرتے ہیںجو” لا ےضرھم ولاینفعھم“ان کو نہ تو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ضرر پہنچا سکتے ہیں اور اس کا اصلا مسلمانوں کی شفاعت سے بالکل مقایسہ نہیں کیا جا سکتا اور ہم یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ) یا اولیاء (علیہم السلام) کا خدا وند عالم کے نزدیک ایک مقام و منزلت ہے جب بھی خدا وند عالم انکو اذن شفاعت دےگا ہم ان سے ضرور شفاعت طلب کرینگے یہ بات بالکل بھی مقایسہ کے لائق نہیں ہے کہ اگر وہ شرک ہے تو یہ بھی شرک ہوگا ۔
قرآن مجید نے کلمہ اذن پر جو زیادہ تاکید کی ہے وہ سب مشرکوں اور کفاروں کے مقابلہ میں ہوئی ہے ورنہ کوئی مسلمان نہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے زمانہ میں اورنہ بعد کے زمانہ میں اور نہ کوئی بھی موحد اور متدین جبکہ کہ ا سکا دین تحریف شدہ نہ ہو اس نے اس طرح کا کوئی ادعانہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنی زبان پر ایسی کوئی بات جاری کی ہے کہ ہم اس طرح کا ایک شفاعت کرنے والا رکھتے ہیں کہ جو خدا کے اذن کے بغیر ہماری شفاعت کرتا ہے ، مسلمانوں کے اعتقاد کو کفاروں کے اعتقاد سے مقایسہ کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ خدا وند عالم اگر چاہے تو اپنے پیغمبر کی دعا کو ہر ایک کے حق میں مستجاب کرلے گا اور اس کی حاجت کو یا اس کے گناہوں کو معاف کردےگا لہذا اس طرح کا معاف کرنا اور دعا کا استجاب کرنا امر حتمی و یقینی نہیں ہے بلکہ اگر خدا مصلحت دےکھے گا تو دعاوں کو مستجاب بھی کر لےگا ۔
source : http://www.taghrib.ir/