اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ

تمام شیعہ مجتہدین نے فقہ سے متعلق اپنی استدلالی یا غیر استدلالی کتابوں میں اس بات کو صراحت کیساتھ بیان کیا ہے کہ ولایت علی ـ کی شہادت اذان اور اقامت کا جزء نہیں ہے اور کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ولایت علی کی شہادت کو اذان اور اقامت کا جزء سمجھ کر زبان پر جاری کرے.

٢۔ قرآن مجید کی نگاہ میں حضرت علی ـ ولی خدا ہیں اور خداوندعالم نے اس آیت میں مومنین پرحضرت علی ـ کی ولایت کو بیان کیا ہے:

( ِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ)(١)سورہ مائدہ آیت :٥٥.

ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں .

اہل سنت کی صحیح اور مسندکتابوںنے بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہ آیۂ شریفہ حضرت علی ـ کی شان میں اس وقت نازل ہوئی تھی جب آپ نے اپنی انگشتر مبارک حالت رکوع میں فقیر کو عطا کی تھی (١)جب یہ آیت حضرت امیرالمومنین ـ کی شان میں نازل ہوئی تو شاعر اہل بیت ٪ حسان بن ثابت نے اس واقعے کو اس طرح اپنے اشعار میں ڈھالا تھا:

آپ وہ ہیں کہ جنہوں نے حالت رکوع میں بخشش کی اے بہترین رکوع کرنے والے آپ پر تمام قوم کی جانیں نثار ہوجائیں.

خداوندکریم کی ذات نے آپ کے حق میں بہترین ولایت نازل کی ہے اور اسے شریعتوں کے خلل ناپذیر احکام میں بیان کیا ہے.

(١)اس سلسلے میںکہ یہ آیة حضرت علی ـ کی شان میں نازل ہوئی ہے بہت سی کتابیں موجود ہیں لیکن ان تمام

کتابوں کا یہاں تذکرہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

١۔ تفسیر طبری جلد ٦ ص ١٨٦.

٢۔احکام القرآن(تفسیر جصاص) جلد٢ ص ٥٤٢.

٣۔ تفسیرالبیضاوی جلد ١ ص ٣٤٥.

٤۔ تفسیر الدرالمنثور جلد ٢ ص ٢٩٣.

٣۔ پیغمبر گرامی اسلام ۖ نے فرمایا''اِنّما الأعمال بالنیّات''

''بے شک اعمال کا دارمدار نیتوں پر ہے '.'

اس بنا پرجب ''ولایت علی '' ان اصولوں میں سے ایک ہے کہ جنہیں قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، اور دوسری طرف سے اس جملہ (اشھد ان علیاً ول اللّہ) کو اذان کا جزء سمجھ کر نہ کہا جائے تو پھر ہمارے لئے رسالت پیغمبر ۖ کی گواہی کے ہمراہ ولایت علی کا بھی اعلان کرنے میں کیا حرج ہے ؟ یہاں پرایک نکتہ کا ذکر ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگر اذان میں کسی جملے کا اضافہ کرنا مناسب نہیں ہے اور اس کے ذریعہ شیعوں پراعتراض کیا جاتا ہے تو ذیل میں بیان ہونے والی ان دو باتوں کی کس طرح توجیہ کی جائے گی :

١۔معتبر تاریخ گواہ ہے کہ یہ جملہ ''حّ علیٰ خیر العمل'' اذان کا جزء تھا (١) لیکن خلیفہ دوم نے اپنی خلافت کے زمانے میں یہ تصور کیا کہ کہیں لوگ اس جملے کو اذان میں سن کر یہ گمان نہ کر بیٹھیں کہ تمام اعمال کے درمیان صرف نماز ہی بہترین عمل ہے اور پھر جہاد پر جانا چھوڑ دیں گے لہذا اس جملے کو اذان سے حذف کردیا اور پھر

(١) کتاب کنزالعمال، کتاب الصلوة جلد ٤ ص ٢٦٦ طبرانی سے منقول ہے:'' کان بلال یؤذن بالصبح

فیقول : حی علی خیر العمل.''بلال جب اذان صبح دیتے تھے تو کہتے تھے حّ علیٰ خیر العمل .اور سنن بیہقی جلد ١ ص ٤٢٤ اور ص ٤٢٥ اور مؤطا جلد ١ ص ٩٣ میںبھی یہ بات درج ہے.

اذان اسی حالت پر باقی رہی. (١)

٢۔''الصلاة خیر من النوم''یہ جملہ رسول اکرمۖ کے زمانے میں اذان کا جزء نہیں تھا بعد میں یہ جملہ اذان میں بڑھا یا گیاہے(٢)

اسی وجہ سے امام شافعی نے اپنی کتاب ''الامّ'' میں کہا ہے :

''أکرہ ف الأذان الصلاة خیر من النوم لأن أبا مخدورہ لم یذکرہ''(٣)

اذان میں الصلوة خیر من النوم کہنا مجھے پسند نہیں ہے کیونکہ ابو مخدورہ (جو کہ ایک راوی اور محدث ہیں) نے اس جملے کا (اپنی حدیث میں) ذکر نہیں کیا ہے۔

(١) کنزالعرفان جلد ٢ ص ١٥٨ اور کتاب ''الصراط المستقیم'' وجواہر الاخبار والآثار اور شرح تجرید (قوشچی)

ص ٤٨٤ میں ہے کہ : صعد المنبر و قال: أیھاالناس ثلاث کنّ علی عھد رسول اللّہ أنا أنھیٰ عنھنّ و أحرمھن و أُعاقب علیھن و ھ متعة النساء و متعة الحج و حّ علیٰ خیر العمل.''

(٢) کنزالعمال ، کتاب الصلوة جلد ٤ ص ٢٧٠

(٣)دلائل الصدق جلد ٣ القسم الثانی ص ٩٧ سے ماخوذ.

آٹھواں سوال

مہدی آل محمدعلیہ السلام کون ہیںاور انکا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟

جواب: کچھ امور ایسے ہیں جن کے سلسلے میں تمام آسمانی شریعتیں اتفاق نظر رکھتی ہیں ان میں سے ایک امر عالمی مصلح کا وجود بھی ہے جو کہ آخری زمانہ میں ظہور کرے گا اس سلسلے میں صرف مسلمان نہیں بلکہ یہودی اور عیسائی بھی اس کی آمد کے منتظر ہیں جو پوری دنیا میں عدل و انصاف قائم کریگااسکے لئے اگر کتاب عہد عتیق اور عہد جدید کا مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واضح ہوجائے گی. (١)

اس سلسلہ میں پیغمبرخداۖ کی حدیث بھی موجود ہے کہ جسے مسلمان محدثین نے نقل کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں :

''لولم یبق من الدھر اِلا یوم لبعث اللّہ رجلاًمن

.............

(١) عہد عتیق : مز امیر داؤد ، مز مور ٩٧ ۔ ٩٦ اور کتاب دانیال نبی باب ١٢ عہد جدید : انجیل متی باب ٢٤ انجیل

مرقوس باب ١٣ انجیل لوقا باب ٢١ (جہاں اس موعود کے بارے میں بیان ہوا ہے جس کے انتظار میں دنیا ہے .)

أھل بیت یملأ ھا عدلا کما ملئت جوراً''(١)

اگر زمانے کا صرف ایک ہی دن باقی بچے گا تب بھی خداوندعالم میرے خاندان میں سے ایک فرد کو مبعوث کرے گا جوکہ اس جہان کو اسی طرح سے عدالت سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھرا ہوا ہوگا.

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں ایک مصلح کے آنے کا عقیدہ تمام آسمانی شریعتوں میں موجود ہے اسی طرح اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میں بھی امام مھدی عج کے بارے میں بہت سی روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان دونوں(شیعہ اور سنی) اسلامی فرقوں کے محدثین اور محققین نے امام زمانہ عج کے بارے میں بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں. (٢)

روایات کے اس مجموعے میں انکی وہ خصوصیات اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں جو صرف شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری ـ کے بلافصل فرزند ہی میںپائی جاتی ہیں(٣)ان روایات کے مطابق امام مہدی ـ پیغمبر اکرمۖ کے ہم نام ہیں(٤)۔

.............

(١) صحیح ابی داؤد جلد ٢ ص ٢٠٧ طبع مصر مطبعہ تازیہ ، ینابیع المودة ص ٤٣٢اور کتاب نور الابصار باب ٢ ص ١٥٤.

(٢) جیسے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف بن الکنجی الشافعی ہے اور اسی طرح کتاب البرھان فی علامات مھدی آخر الزمان تالیف علی بن حسام الدین جو کہ متقی ھندی کے نام سے مشہور ہیں اور اسی طرح کتاب المہدی والمہدویت تالیف احمد امین مصری ہے البتہ شیعہ علماء نے اس بارے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں جنہیں شمار کرنا آسان کام نہیں ہے جیسے کتاب الملاحم والفتن وغیرہ .

(٣) ینابیع المودة باب ٧٦، مناقب میں جابر بن عبداللہ انصاری کی روایت ہے.

(٤) صحیح ترمذی ،مطبوعہ دہلی ١٣٤٢ ،جلد ٢ ص ٤٦ اور مسند احمدمطبوعہ مصر ١٣١٣

یہاں اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ اس قسم کی طولانی عمر نہ تو علم اور دانش کے خلاف ہے اور نہ ہی منطق وحی سے تضاد رکھتی ہے آج کی علمی دنیا انسانوں کی طبیعی عمر کو بڑھانا چاہ رہی ہے صاحبان علم اور سائنسدانوں کا یہ یقین ہے کہ ہر انسان کے اندر لمبی عمر گذارنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگراسے بعض آفتوں اور بیماریوں سے بچالیا جائے تو قوی امکان ہے کہ اس کی عمر بڑھ جائیگی.

تاریخ نے بھی اپنے دامن میں ایسے افراد کے نام محفوظ کئے ہیں جنہوں نے اس دنیا میں طولانی عمر پائی ہے .

قرآن مجیدحضرت نوح ـ کے بارے میں فرماتا ہے:

(فَلَبِثَ فِیہِمْ َلْفَ سَنَةٍ ِلاَّ خَمْسِینَ عَامًا)(١)

اور (نوح)اپنی قوم کے درمیان نوسوپچاس سال رہے .

اور اسی طرح قرآن مجید حضرت یونس ـ کے بارے میں فرماتا ہے :

( فَلَوْلا أنّہُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِ بَطْنِہِ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ)(٢)

پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہتے.

اسی طرح قرآن مجیداور تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مطابق حضرت خضر ـ اور حضرت عیسیٰ ـ ابھی تک باحیات ہیں اور زندگی گذار رہے ہیں۔

.............

(١) سورہ عنکبوت آیت ١٤

(٢) سورہ صافات آیت ١٤٤

نواں سوال

اگر شیعہ حق پر ہیںتو وہ اقلیت میں کیوں ہیں؟ اور دنیا کے اکثر مسلمانوں نے ان کو کیوں نہیں ماناہے؟

جواب: کبھی بھی حق اور باطل کی شناخت ماننے والوں کی تعداد میں کمی یا زیادتی کے ذریعہ نہیں ہوتی.آج اس دنیا میں مسلمانوں کی تعداد اسلام قبول نہ کرنے والوں کی بہ نسبت ایک پنجم یا ایک ششم ہے جبکہ مشرق بعید میں رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو بت اور گائے کی پوجا کرتے ہیں یا ماورائے طبیعت کا انکار کرتے ہیں.

چین جس کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے کیمونیزم کا مرکز ہے اور ہندوستان جس کی آبادی تقریباًایک ارب ہے اسکی اکثریت ایسے افراد کی ہے جو گائے اور بتوں کی پوجا کرتی ہے اسی طرح یہ ضروری نہیں ہے کہ اکثریت میں ہونا حقانیت کی علامت ہو قرآن مجید نے اکثر و بیشتر اکثریت کی مذمت کی ہے اور بعض اوقات اقلیت کی تعریف کی ہے اس سلسلے میں ہم چند آیات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:

١۔ (وَلا تَجِدُ َکْثَرَہُمْ شَاکِرِین)(١)

اور تم اکثریت کو شکر گزار نہ پاؤگے.

٢۔(ِنْ َوْلِیَاؤُہُ ِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ َکْثَرَہُمْ لایَعْلَمُونَ) (٢)

اس کے ولی صرف متقی اور پرہیزگار افراد ہیں لیکن ان کی اکثریت اس سے بھی بے خبر ہے.

٣۔ (وَقَلِیل مِنْ عِبَادِ الشَّکُورُ)(٣)

اور ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت کم ہیں.

لہذا کبھی بھی حقیقت کے متلاشی انسان کو اپنے آئین کی پیروی کرنے والوں کو اقلیت میں دیکھ کر گھبرانا نہیں چاہیئے اور اسی طرح اگر وہ اکثریت میں ہوجائیں تو فخر ومباہات نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بہتر یہ ہے کہ ہر انسان اپناچراغ عقل روشن کرے اور اس کی روشنی سے بہرہ مند ہو.

ایک شخص نے حضرت امیر المومنین علی ـ کی خدمت میں عرض کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ جنگ جمل میں آپ کے مخالفین اکثریت پر ہونے کے باوجود باطل پر ہوں؟

امام ـ نے فرمایا :

............

(١)سورہ اعراف آیت ١٧

(٢)سورہ انفال آیت ٣٤

(٣)سورہ سبا آیت ١٣

''اِنّ الحق والباطل لایعرفان بأقدارالرجال . اعرف الحق تعرف أھلہ . اعرف الباطل تعرف أھلہ۔ ''

حق اور باطل کی پہچان افراد کی تعداد سے نہیں کی جاتی بلکہ تم حق کو پہچان لو خود بخود اہل حق کو بھی پہچان لو گے اور باطل کو پہچان لوتو خودبخود اہل باطل کو بھی پہچان لوگے .

ایک مسلمان شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو علمی اور منطقی طریقے سے حل کرے اور اس آیۂ شریفہ (وَلاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْم )(١) کو چراغ کی مانند اپنے لئے مشعل راہ قرار دے اس سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اگرچہ اہل تشیع تعداد میں اہل سنت سے کم ہیں . لیکن اگر صحیح طور پر مردم شماری کی جائے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک چوتھائی افراد شیعہ ہیں جوکہ دنیا کے مختلف مسلمان نشین علاقوں میں زندگی بسر کرر ہے ہیں.(٢)

واضح رہے کہ ہر دور میںشیعوں کے بڑے بڑے علماء اور مشہور مولفین اور مصنفین رہے ہیںاور یہاں پریہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ اکثر اسلامی علوم کے موجد اور بانی شیعہ ہی تھے جن میں سے چند یہ ہیں :

علم نحو کے موجد ابوالاسود دئلی

.............

(١) سورہ اسراء آیت ٣٦

(٢)زیادہ وضاحت کیلئے ''اعیان الشیعہ''جلد ١بحث١٢اور صفحہ ١٩٤کی طرف مراجعہ کیا جائے.

علم عروض کے بانی خلیل بن احمدعلم صرف کے موجد معاذ بن مسلم بن ابی سارہ کوفیعلم بلاغت کو فروغ دینے والوں میں سے ایک ابوعبداللہ بن عمران کاتب خراسانی

(مرزبانی)(١)

شیعہ علماء اور دانشوروں کی کثیر تالیفات (جن کو شمار کرنا بہت دشوار کا م ہے) کی شناخت کے لئے کتاب (الذریعہ الی تصانیف الشیعہ) کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.

(١)اس بارے میں سید حسن صدر کی کتاب ''تاسیس الشیعہ '' کا مطالعہ کریں.

 


source : http://fazael.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

چالیس حدیثیں
غیبت کی قسمیں
حضرت زینب (س) سکوت شکن اسوہ
اسلام میں جھادکے اسباب
تفخیم و ترقیق
دس رمضان حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکا یوم وفات
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
ماہ خدا! خدا حافظ
حج وحدت کا عملی مظاہرہ
حق و باطل کی وسعت

 
user comment