بندہ ''لا الٰہ الا اللہ'' کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ دل سے اس کی تصدیق کرے اس کی عظمت کا اعتراف کرے، اس عقیدہ سے لذت محسوس کرے اس کی حرمت کا خیال رکھے اگر''لا الٰہ الا اللہ'' اور اس کی عظمت کا اعتراف نہیں کرے گا تو بدعتی ہے
بندہ ''لا الٰہ الا اللہ'' کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ دل سے اس کی تصدیق کرے اس کی عظمت کا اعتراف کرے، اس عقیدہ سے لذت محسوس کرے اس کی حرمت کا خیال رکھے اگر''لا الٰہ الا اللہ'' اور اس کی عظمت کا اعتراف نہیں کرے گا تو بدعتی ہے اور اگر اس عقیدہ میں لذت نہیں محسوس کرے گا تو ریاکار ہے اوراگر اس کی حرمت کا خیال نہیں رکھے گا تو فاسق ہے ۔(١)
١۔بحار الانوار ج٢ ص ٩٤، الکفایة، ابو المفضل شیبانی نے احمد بن مطرق بن سوار سے انہوں نے مغیرہ بن محمد بن مہلب سے انہوں نے عبد الغفار بن کثیر سے انہوں نے ابراہیم بن حمید سے انہوں نے ابو ہاشم سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام نعثل تھا اس نے کہا: اے محمد! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کرونگا اس کی وجہ سے میں ایک زمانہ سے پریشان ہوں اگر آپ نے ان کا جواب دیدیا تو میں اسلام قبول کرلوں گا ۔ آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمایا: اے ابو عمار جو چاہو پوچھ لو اس نے کہا: آپ اپنے رب کا تعارف کرائیں تو آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) نے بہترین انداز میں توصیف الٰہی بیان کی مگر وہ ایمان نہ لایا ۔
رحمتِ خد
بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے ایک بڑا عبادت گزار اور دوسرا گناہگار ۔ ایک روز عبادت گزارنے گناہگار سے کہا: کم گناہ کیا کرو۔ اس نے کہا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ، یہاں تک کہ ایک روز عابد نے اسے گناہ کرتے ہوئے دیکھ لیا اس بنا پر اسے بڑا افسوس ہوا، اور کہنے لگا: بس کرو! اس نے جواب دیا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ۔ کیا تم کو میرا نگراں بنا کر بھیجاگیا ہے ؟ عابد نے کہا: خدا کی قسم خدا تمہیں معاف نہیں کرے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا ۔ خدا نے دونوں کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اس نے دونوں کی روحوں کو قبض کیا دونوں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئے گناہگار سے کہا گیا تم جنت میں چلے جائو، اور عابد سے ارشاد ہوا کیا تم میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر سکتے ہو؟ عرض کیا: نہیں؛ ارشاد ہوا: اسے جہنم میں لے جائو۔
نہ جبر نہ اختیار
جبراً خدا کی اطاعت نہیں کی جاتی، اوراگر اس کی معصیت کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور اپنی مملکت کے لوگوںکو اس نے بیکار نہیں چھوڑا ہے ۔ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر بندوں کو قدرت دی ہے اور اس چیز کا مالک ہے جس کا انہیں مالک بنایا ہے پھر اگر بندے اس کی اطاعت کریں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور نہ اس سے انہیں کوئی روک سکتا ہے اور اگر لوگ اس کی معصیت کریں تو وہ انہیں معصیت سے روک سکتا ہے لیکن اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو خدا اور اس کے فعل کے درمیان حائل ہو جائے اور وہ اس کام کو انجام دے جس کو وہ چاہتا تھا اور وہ اس کے فعل پر مجبو ر جائے۔(١)
..............
١۔بحار الانوار ج٧٧ ص ١٤٠۔
خاتمیت
٢۔ بیشک خدا کی اطاعت زبردستی نہیں کی جاتی اور نافرمانی سے وہ مغلوب نہیں ہوتا ہے اور بندوں کی سر پرستی سے دست بردار نہیں ہوتا ہے ، خدا ان تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے جن چیزوں پر بندوں کو قدرت دی ہے اور جو چیز ان کی ملکیت میں دیدی تھی وہ اس کا مالک ہے ۔ اگر سارے بندے مسلسل اس کی عبادت کرتے رہیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہوگا اور اگر اس کی نافرمانی کریں گے تو وہ انہیں نافرمانی سے باز رکھ سکتا ہے اور انہیں اس کی انجام دہی سے روک سکتا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کے اور اس کے کام کے درمیان حائل ہو جائے اور اسے کام انجام نہ دینے دے بلکہ خود اسے انجام دے۔
چھہ چیزوں میں مجھے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ، مجھے جوامع الکلم عطا ہوئے ہیں۔ رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ، غنا ئم کو میرے لئے حلال کیا گیا ہے اور زمین کو میرے لئے جائے سجدہ اور طہارت کاذریعہ قرار دیا گیا ہے ، مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور مجھ پر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کیا گیا ہے۔(١)
خدا نے مجھے برگزیدہ کیا ہے
خدا وند عالم نے اولاد ابراہیم میں سے جناب اسماعیل کو منتخب کیا اور اولادِ اسماعیل میں سے بنی کنانہ کو چنا اور بنی کنانہ میں سے قریش کا انتخاب کیا اور قریش میں بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ کیا ۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:(لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف الرحیم)(٢)
یقینا تمہارے پاس وہ رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کی حرص رکھتا ہے اور مومنوں پر مہربان و رحیم ہے ۔
..............
١۔بحار الانوارج١٦ص٣٢٤۔
٢۔کلمة رسول الاعظم ص ٣٥، بحار الانوار ج١٦ ص ٣٢٣۔
میری مثال بادل کی سی ہے
میرے رب نے مجھے ویسے ہی مبعوث کیا ہے جیسے کسی سرزمین پر برسنے والا بادل کہ اس زمین کا پاک و صاف حصہ پانی کو جذب کر لیتا ہے جس کے نتیجہ میں ہریالی اگ آتی ہے اور اس کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے کہ جس میں روئیدگی نہیں ہوتی وہ پانی روک لیتا ہے اس کے ذریعہ خدا لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ اس سے پانی پیتے ہیں اور کھیتیوں کو سیراب کرتے ہیں اور کچھ حصہ وہ ہوتا ہے اس پر بارش ہوتی ہے لیکن نہ اس پر سبزہ اُگتا ہے اور نہ وہ پانی کو روکتا ہے ۔ بالکل یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے دین خدا کو سمجھا اور جو میںخدا کی طرف سے لایا ہوں اسے تسلیم کیا وہ خود بھی صاحب علم ہو گیا اور دوسروں کو بھی سکھا دیا اور جو اس کے ذریعہ سے سر بلند نہیںہوا در اصل اس نے خدا کی اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔(١)
رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) کے بعد امام
اے عمار میرے بعد مصیبت آئیگی یہاں تک کہ لوگوں میں تلوار کھنچ جائیگی وہ ایک دوسرے کو قتل کریں گے۔ وہ ایک دوسرے سے نفرت کریں گے پس جب تم ایسے حالات دیکھو تو تم اس اصل یعنی علی بن ابی طالب کے ساتھ ہو جانا ،چاہے سارے لوگ کسی وادی کو طے کریں اور علی تنہا دوسری وادی کو اختیار کریں تم لوگوں کو چھوڑ کر علی والی وادی کو اختیار کرنا ۔
اے عمار! علی تمہیں ہدایت سے نہیں ہٹائیں گے اور پستی میں نہیں گرائیں گے ۔
اے عمار! علی کی اطاعت میری اطاعت ہے اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔
اے عمار! جس نے میری اس جانشینی کے سلسلہ میں میری وفات کے بعد علی پر ظلم کیا تو گویا اس نے میری نبوت کا انکار کر دیا اور مجھ سے پہلے والے انبیاء کی نبوت کو قبول نہیں کیا ۔
..............
١۔ بحار الانوار ج١ ص ١٨٤۔
حضرت علی کی فضیلت
اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تمہارے بارے میں بعض لوگ وہی کہنے لگیں گے جو عیسیٰ کے بارے میں نصاریٰ کہتے ہیں تو آج میں تمہارے بارے میں ایک بات کہتا اور پھر ان میں سے جو بھی سر بر آوردہ گزرتا وہ تمہاری خاکِ پاکو برکت کے لئے ضرور اٹھاتا ۔
رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) کے بعد ائمہ
میرے بعد میری عترت سے اتنے ہی امام ہونگے جتنے بنی اسرائیل کے نقباء اور عیسی کے حواری تھے پھر جو شخص ان سے محبت کرے گا وہ مومن ہے اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ منافق ہے ، خدا کی خلقت میں یہ اس کی حجت ہیں اور اسکی مخلوق میں اس کی نشانیاں ہیں۔
ائمہ حق
اے علی ! تم میرے بعد امام و خلیفہ ہو اور مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھتے ہو اور تمہارے بعد تمہارے بیٹے حسن مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور حسن کے بعد حسین مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور حسین کے بعد ان کے بیٹے علی بن الحسین مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور ان کے بعد ان کے فرزند محمد مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور ان کے اُٹھ جانے کے بعد ان کے پسر جعفر مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور ان کے بعد ان کے بیٹے موسیٰ مومنوںکی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور ان کے بعد ان کے فرزند علی مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے۔ ان کے بعد ان کے پسر محمد مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے ان کے بعد ان کے بیٹے علی مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور ان کے بعد ان کے فرزند حسن مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے اور ان کے بعد ان کے لخت جگر قائم مہدی مومنوں کی جانوں پر خود ان سے زیادہ تصرف کا حق رکھیں گے۔ ان کے ہاتھ پر خدا مشرق و مغرب کو فتح کرے گا، یہی ائمہ حق اور صداقت کی زبان ہیں۔ جوان کی مدد کرے گا اس کی مدد کی جائے گی اور جو ان کو چھوڑ دے گا اسے چھوڑ دیا جائے گا ۔
رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) نے حضرت مہدی کی بشارت دی
احمد نے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) نے فرمایا: قیامت برپا نہیں ہوگی یہاں تک کہ زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی پھر میری عترت میںسے ایک شخص قیام کرے گا جو اسے عدل و انصاف سے بھر دے گا..۔(١)
عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ جنگ خیبر میں رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) نے حضرت علی کو علم دیا اور خدا نے ان کے ذریعہ سے فتح نصیب کی۔ پھر غدیر خم میں لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ علی ہر مومن و مومنہ کے مولا ہیں، پوری حدیث بیان کی اور علی و فاطمہ اورحسن و حسین کے فضائل بیان کئے پھر فرمایا: مجھے جبریل نے خبر دی ہے کہ میرے بعد ان پر ظلم کیا جائے گا او ران کے قائم کے ظہور تک ان پر ظلم ہوتا رہے گا پھر ان کا بول بالا ہوگا امت ان کی محبت پر جمع ہو جائیگی، ان کے دشمن کم ہونگے اور ان سے نفرت کرنے والا ذلیل ہوگا اور ان کی مدح کرنے والوںکی کثرت ہو گی اور یہ اس وقت ہوگا جب شہروں کے حالات بدل جائیں گے، خدا کے بندوں کو کمزور کر دیا جائے گا اور کشائش سے لوگ مایوس ہو جائیں گے اس وقت میرے بیٹے قائم مہدی کا ایک قوم میں ظہور ہوگا کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو ظاہرو کامیاب کرے گا اور ان کی تلواروں سے باطل کو مٹا دے گا-سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فرمایا-اے لوگو! میں تمہیں کشائش کی بشارت دیتا ہوں، کیونکہ خدا کا وعدہ حق ہے اس کے خلاف نہیں ہو سکتا اور اس کے فیصلہ کو ٹالا نہیں جا سکتا وہ حکیم و خبیر ہے بیشک خدا کی نصرت قریب ہے ۔(٢)
ام سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میںنے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ۔
مہدی ، میری عترت سے اور اولادِ فاطمہ سے ہوں گے۔(٣)
..............
١۔مسند احمد ج٣ ص ٤٢٥، حدیث ١٠٩٢٠۔
٢۔ ینابیع المودة ص ٤٤٠۔
٣۔ ینابیع المودة ص ٤٣٠، سنن ابی دائود ج٤ ص ٨٧۔
حذیفہ بن یمان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور قیامت تک کے حالات بیان کئے پھر فرمایا: اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہے گا تو خدا اس دن کو طولانی کر دے گا یہاں تک کہ خدا میری اولاد میں سے اس شخص کو بھیجے گا کہ جس کا نام میرے نام پر ہوگا ۔
یہ سن کر سلمان اٹھے اور عرض کی اے اللہ کے رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)! وہ آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) کے کس بیٹے کی نسل سے ہوں گے؟آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) نے حسین کے شانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا میرے اس بیٹے کی نسل سے۔(١)
١۔ البیان فی اخبار صاحب الزمان، حافظ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بن محمد نوفلی ص ١٢٩۔
source : http://taghrib.ir