جیسا کہ احتجاج میں مرحوم طبرسی نے نقل کیا ہے کہ ماہ صفر ۴۱۰ ھ ق میں شیخ مفید ایک خط امام زمانہ (عج) کی جانب سے دریافت کرتے ہیں کہ جس کا ایک حصہ یہ ہے :
” و انا غیر مہملین لمراعاتکم و لا ناسین لذکرکم و لولا ذالک لنزل بکم البلاء “ (۱) ہم تمھاری رعایت و مراعات کی نسبت بے توجہ نہیں ہیں اور نہ تمہارے ذکر کو بھلانے والے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر بلاء نازل ہوجاتی ۔
” مراعات “ مصدر میمی ہے بمعنائے رعایت ، اور یہاں پر ” مراعاتکم “ یعنی ” رعایتکم “ مراد ہے ۔ حضرت امام زمانہ (عج) شیخ مفید (۲) کے نام اپنے اس خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
” ہم تمھاری نسبت اہمال ( بے توجہی ) نہیں کرتے “ معلوم ہونا چاہئے کہ اہمال اور ترک کے درمیان فرق ہے ، ترک کا معنیٰ اہمال سے اعم ہے ، امام (عج) نے فرمایا ہے کہ : ” اہمال نہیں کرتے “ یعنی اگر ہم نے رعایت نہ کی تو اہمال ( بے توجہی ) ہماری طرف سے نہیں ہے بلکہ خود تمہاری جانب سے ہے ۔
دوسرے جملے میں : ” و لا ناسین لذکرکم “ نسیان ( بھلانے ) کی عام و مطلق کی صورت میں نفی کر رہے ہیں ، اس معنیٰ میں کہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہم تمھیں یاد رکھتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو تم پر بلا نازل ہوجاتی ۔
حضرت امام زمانہ (عج) ہمارے زندہ امام ہیں اور دوسرے ائمہ (ع) اس دنیا سے شہید ہوکر جاچکے ہیں ، اگر چہ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ امام معصوم کا حاضر و غائب ہونا اور زندہ و مردہ ہونا کوئی فرق نہیں رکھتا ، لہٰذا ہم زیارت ناموں میں پڑھتے ہیں :
” اشہد انک تشہد مقامی و تسمع کلامی و ترد سلامی “ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں اور میرا کلام سن رہے ہیں اور میرے سلام کا جواب دے رہے ہیں ، یہ مسئلہ قطعی و یقینی ہے اور اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ، لیکن آج شیعہ حضرت امام زمانہ (عج) سے منسوب ہیں اور زمام امور آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔
البتہ حضرت امام زمانہ (عج) تمام ہستی و وجود ” ما سوی اللہ “ کے امام ہیں ، یہ مباحث اصول دین کے مباحث میں سے ہیں کہ اپنی جگہ پر ان سے متعلق تفصیل کے ساتھ بحثیں کی گئی ہیں اور ان کی دلیلیں تحقیق کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ۔
معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
” ہلّلنا فھلّت الملائکۃ ، سبحنا فسبّحت الملائکۃ ، کنّا معلّقین بالعرش نسبّح و لم یخلق اللہ شیئاً غیرنا “ ۔ (۳)
جس وقت خدا نے مخلوقات میں سے کسی کو خلق نہیں کیا تھا ہم خدا کی تہلیل و تسبیح کرتے تھے۔
مرحوم علامہ مجلسی نے اس موضوع سے متعلق روایتوں کو بخوبی جمع کیا ہے اور ان کو اصول دین اور اسی طرح احوال معصومین علیہم السلام کے ابواب میں ذکر کیا ہے۔
شیخ مفید کا مرتبہ
حضرت امام زمانہ (عج) نے غیبت صغریٰ کے زمانے میں اسی طرح غیبت کبریٰ میں بھی بہت سے خطوط و توقیعات شیعوں اور بزرگان شیعہ کے لئے تحریر فرمائی ہیں ، اسی طرح حضرت (عج) اپنے نمائندوں کو خطوط تحریر فرماتے تھے ، اور کبھی کبھی بعض افراد کو جواب لکھتے تھے ، البتہ افسوس ہے کہ ان خطوط و توقیعات میں سے کچھ ہی ہمارے ہاتھوں تک پہونچی ہیں ، لیکن جو عبارتیں شیخ مفید کے متعلق اس خط میں آئی ہیں وہ کسی دوسرے کے متعلق نہیں آئی ہیں شاید ان تمام خطوط میں جو حضرت نے تحریر فرمائے ہیں کسی کی اس حد تک تعریف و تائید نہیں فرمائی ہے ۔ جیسا کہ ایک دوسرے خط میں جو کہ حضرت (عج) کی جانب سے شیخ مفید کو پہونچا ہے ، تحریر فرمایا ہے کہ :
” ادام اللہ توفیقک لنصرۃ الحق و اجزل مثوبتک علیٰ نطقک عنا بالصدق “ (۴) اس خط کا لفظ لفظ مفصل بحث کا طالب ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) نے شیخ مفید کے علاوہ کسی اور کے لئے اس انداز سے اخلاص کی شہادت نہیں دی ہے ، حضرت شیخ مفید سے فرماتے ہیں کہ : ” اللہ نصرت حق کے لئے تمہاری توفیق کو قائم و دائم رکھے ، اور جو کچھ ہم سے روایت کی ہے سچ کہا ہے ، خداوند تعالیٰ تمہاری باتوں کے سبب تمہارے ثواب کو زیادہ کرے “ ۔
ایک وقت ایک عام شخص کسی دوسرے کے صالح و نیک ہونے کی گواہی دیتا ہے ، اور ایک وقت امام معصوم ایسی گواہی دیتے ہیں اس بات کی قیمت و عظمت تمام دنیا کی قیمت و عظمت سے زیادہ ہے ، کیونکہ دنیا تمام ہوجائے گی لیکن یہ قیمت و عظمت تمام ہونے والی نہیں ہے ۔ شیخ مفید کے انتقال کو ہزار سال سے زیادہ ہوگئے لیکن روز بروز پہلے سے زیادہ زندہ ہوتے جارہے ہیں ۔ آپ علامہ اقبال کے اس شعر کے مصداق کامل تھے :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس مرتبہ و منزلت کے باوجود کوئی جگہ ایسی نہیں ملتی کہ شیخ مفید حضرت امام زمانہ (عج) کی خدمت با برکت میں پہونچے ہوں لیکن اپنے وظائف کو اسی طرح انجام دیتے تھے جیسا کہ امام چاہتے تھے اور اسی وجہ سے حضرت (عج) ان پر عنایت فرماتے تھے۔
شیخ مفید غیبت صغریٰ کے ختم ہونے کے بعد غیبت کبریٰ کے زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں ، غیبت صغریٰ ۳۲۷ ھ ق یا ۳۲۹ ھ ق میں ختم ہوئی اور شیخ مفید ۳۳۶ ھ ق یا ۳۳۷ ھ ق میں پیدا ہوئے ہیں ، اور کسی وقت کوئی خط بھی حضرت امام زمانہ (عج) کو نہیں لکھا ہے بلکہ خود حضرت (عج) نے ایسا خط تحریر فرمایا ہے ، اور وہ بھی اس تفصیل کے ساتھ ایسا خط ، کہ جس سے یہ نتیجہ سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت امام زمانہ (عج) شیخ مفید سے کلام و گفتگو کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ کتابوں میں نقل ہوا ہے اس کی بناپر حضرت (عج) نے تین خطوط شیخ مفید کو تحریر فرمائے ہیں کہ ان میں سے دو خط دستیاب ہیں ، اور گویا تیسرا خط ظاہرا کتب خانوں کے جلانے کے واقعہ میں ناپدید ہوگیا ہے۔
شیخ مفید کون ہیں ؟
شیخ مفید ایک عام جوان تھے کہ آپ کے والد بزرگوار تل عکبری میں ( جو کہ بغداد سے دس فرسخ کے فاصلہ پر واقع ہے ) درس دیتے ، اور اسی وجہ سے آپ کو لوگ ” ابن المعلم “ کہتے تھے ، اس کے بعد آپ کے والد آپ کو بغداد درس حاصل کرنے کے لئے لے آئے ، دھیرے دھیرے اس مرتبہ تک پہونچ گئے کہ آپ کی وفات کے دن با وجود یکہ اہل بغداد کی اکثریت شیعہ نہ تھی آپ کی تشییع جنازہ نہایت شان و شوکت کے ساتھ ہوئی اور مؤرخین کے نقل کرنے کی بناپر آپ کی تشییع جنازہ تاریخ میں اس زمانہ تک بے نظیر و بے مثال تھی ۔ شیخ مفید کا مرتبہ اتنا رفیع و بلند ہے کہ حتیٰ آپ کے ناصبی دشمن بھی آپ کی تحسین و تعریف کرتے تھے اور اہل سنت کے بزرگ علماء آپ کی مجلس درس میں حاضر ہوتے تھے ۔ یافعی (۵) صاحب کتاب ” ابواب الجنان “ (۶) کہ جس میں بہت سارے جھوٹ نقل کئے ہیں لکھتا ہے کہ :
شیعہ کربلا کو ” حائر “ بھی کہتے ہیں اس لئے کہ جس وقت حضرت سید الشہدا علیہ السلام کی قبر تک پانی لایا گیا تا کہ اسے مٹادیں ، تو پانی حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی قبر مطہر کے نزدیک تک بڑھا ، لیکن جب مرقد شریف کے قریب پہونچا تو پھر آگے نہ بڑھا اور اپنا راستہ بدل دیا ، اسی وجہ سے کہتے ہیں :
” حار الماء “ یعنی پانی حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے حرم مطہر کے مقابل متحیر ہوگیا اور آگے نہ بڑھا “ ۔
یافعی اپنی کتاب میں اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد شیعوں کا مذاق اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا پانی بھی انسانوں کے مانند تکلیف رکھتا ہے ، یا یہ کہ فرشتہ ہے جو درک و فہم رکھتا ہو ؟ لیکن یہی یافعی جب احمد بن حنبل (۷) کی بات کرتا ہے تو کہتا ہے :
” ایک دو سال دریائے دجلہ میں سیلاب آگیا اور تمام گھروں میں پانی پہونچ گیا ، لیکن جیسے ہی پانی احمد بن حنبل کی قبر تک پہونچا واپس آگیا اور قبر کے نزدیک نہ گیا اور بعد میں لوگوں نے دکھا کہ جو چٹائی اس کی قبر میں ہے ابھی گرد و خاک اس پر موجود ہے اور تر بھی نہ ہوئی ہے “ ۔ یہی پانی جب حضرت امام حسین علیہ السلام تک پہونچتا ہے تو بے عقل ہے ، لیکن احمد بن حنبل کے لئے عاقل ہوجاتا ہے ۔ یافعی شیعوں کے ساتھ اتنی شماتت و دشمنی رکھنے کے باوجود شیخ مفید کی تعریف کرتا ہے ۔
شیخ مفید کی رحلت کے بعد سنی علماء کے ایک گروہ نے کہا : ” اٴراحنا اللہ منہ “ یعنی خدا نے ہم کو ان سے راحت دی ۔ اور یہاں تک کہ ایک سنی نے شیخ مفید کی وفات کی مناسبت سے اپنے گھر کے در و دیوار کو سجایا اور جشن منایا ۔ لیکن بہر حال سنیوں نے بھی قدر دانی کی ہے ۔
حضرت امام زمانہ (عج) کی نظر میں شیخ مفید کا مرتبہ
شیخ مفید کا مرتبہ و منزلت اس حد تک بلند ہے کہ حضرت ولی عصر (عج) آپ کی وفات پر مرثیہ پڑھتے ہیں :
لا صوت الناعی بفقدک انہ
یوم علیٰ آل الرسول عظیم (۸)
یعنی تمہاری وفات کی مصیبت آل رسول (ص) کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے ۔
آپ کے لئے اس سے بڑھ کر فخر کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ حضرت امام مہدی (عج) آپ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں :
” سلام علیک ایہا العبد الصالح الناصر للحق الداعی بکلمۃ الصدق “ سلام ہو تم پر اے خدا کے نیک بندے ، حق کی مدد کرنے والے اور راہ راست کی طرف دعوت دینے والے۔
شیخ مفید کا نمونہ
یہ جملے امام معصوم کی طرف سے ایک غیر معصوم شخص کے لئے بہت اہم ہیں ، شیخ مفید کیا کام کرتے تھے کہ حضرت امام زمانہ (عج) کی طرف سے ان جملون کے ساتھ توصیف کے لائق ہوگئے ؟ ۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس خطبہ میں کہ جس کا ایک حصہ حضرت رسول اکرم (ص) کی تعریف و توصیف میں ہے ، اس بات کے بیان میں کہ حضرت رسول خدا (ص) کے آخری زمانہ حیات میں حالات کیسے پیدا ہوگئے کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوگئے اور بقول قرآن ” و راٴیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجاً “ (۹) آپ نے دیکھا کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں ، ارشاد فرماتے ہیں :
” وثقوا بالقائد فاتّبعوہ “ یعنی لوگوں نے پیغمبر اسلام (ص) پر اعتماد و اطمینان پیدا کرلیا پس ان کی پیروی کی ۔
شیخ مفید نے اس نکتہ کو درک کیا تھا اور ایسا کام کیا کہ لوگ ان پر اعتماد و اطمینان پیدا کریں ، جو لوگ ، لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں انہیں اس نکتہ سے غافل نہ ہونا چاہئے اور دوسروں کے لئے قابل اعتماد و اطمینان ہونا چاہئے ۔
شیخ مفید اور امام زمانہ (عج) کا خط دریافت کرنا
سید بحر العلوم (۱۰) اس بحث کے ضمن میں کہ شیخ مفید نے حضرت امام زمانہ (عج) کو نہیں دیکھا تھا اور اس زمانے میں کوئی نائب بھی نہ تھا کہ یہ خط اس کے واسطے سے شیخ مفید کے ہاتھ میں پہونچے پس یہ خط کیسے شیخ مفید کے ہاتھ میں پہونچا ہے ؟ کہتے ہیں :
” چونکہ خط دریافت کرنے کا زمانہ غیبت کبریٰ کا زمانہ تھا ، اور طے نہیں تھا کہ اس زمانہ میں کوئی شخص واسطہ اور خاص نائب کے عنوان سے حضرت امام زمانہ (عج) کی خدمت میں پہونچے اور جس شخص نے خط شیخ مفید کو دیا ہے اس نے بھی نہیں کہا کہ امام زمانہ (عج) نے یہ خط مجھے دیا ہے ، ان تمام اوضاع و احوال کے ساتھ شیخ مفید کا مرتبہ باعث ہوا کہ یہ استثناء ( فضیلت ) انہیں کے بارے میں صورت پذیر ہو “ ۔
خلاصہ یہ کہ شیخ مفید امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب حضرت رسول اکرم (ص) کے وصف کے حامل تھے ، وہ یہ کہ ” آپ سچے اور امین و معتمد تھے “
ایک سنی عالم جو کہ شیخ مفید سے بہت خار رکھتا تھا ، کہتا ہے کہ:
با وجودیکہ شیخ مفید کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ بادشاہ ، تاجر افراد اور مختلف شخصیتیں ان کے سامنے تواضع کرتی تھیں اور ان کے دیدار کی کوشش کرتی تھیں ، پھر بھی ” کان یلبس الخشن “ شیخ مفید ہمیشہ خشن اور موٹے لباس زیب تن کرتے تھے ۔ مشہور ہے کہ جملہٴ فعلیہ استمرار میں ظہور رکھتا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ایک بار یا دوبار دکھاوے کے طور پر موٹے لباس پہن لیں ، بلکہ وہ ہمیشہ ایسا ہی پہنتے تھے ۔
امیر المؤمنین حضرت علی (ع) شیخ مفید کے مقتدیٰ
جی ہاں ! شیخ مفید اس صفت کے مالک تھے کہ لوگوں کے اعتماد کو اپنے اعمال و اخلاق سے متاٴثر کرلیں ، یہاں تک کہ دوست و دشمن سبھی آپ کی تعریف و تحسین کرتے تھے ، یہ فضیلت آپ کو معصومین علیہم السلام کی اقتدا سے حاصل ہوئی تھی ۔
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
” و اللہ ما کذبت کذبۃ “ (۱۱) قسم بخدا میں نے ایک جھوٹ بھی نہیں بولا ہے ۔ اور یہ دعویٰ تاریخ کی گواہی سے ثابت ہے ، کیونکہ کبھی کسی جگہ کوئی جھوٹ حضرت علی علیہ السلام سے نہیں سنا گیا ، حتیٰ اس موقع پر بھی کہ ایک چھوٹے سے جھوٹ کے ذریعہ تیرہ سال پہلے ہی روئے زمین کی سب سے بڑی حکومت پر حکمرانی کرتے ، کیونکہ عمر نے اپنے بعد خلیفہ کی تعیین کے لئے چھ افراد کی شوریٰ ( کمیٹی ) بنائی تھی ، عثمان اور امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام بھی ان کے درمیان تھے ، اور اس نے وصیت کی کہ میرے بعد ان چھ افراد کے درمیان سے ایک خلیفہ ہو ، اور اگر دو شخص برابر ووٹ حاصل کریں تو خلیفہ وہ شخص ہوگا جس کو عبد الرحمان بن عوف ووٹ دے ، سب کے ووٹ دینے کے بعد عبد الرحمان باقی رہا ، کہ ان میں سے جس کو بھی رای اور ووٹ دیتا وہ خلیفہ ہوجاتا ۔ عبد الرحمان بن عوف نے امیر المومنین علیہ السلام سے عرض کیا:
” اٴبایعک علیٰ کتاب اللہ و سنۃ رسولہ و سیرۃ الشیخین “ میں تم سے بیعت کروں گا کتاب خدا و سنت رسول (ص) اور شیخین ( ابوبکر و عمر ) کی سیرت پر ۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرما یا :
” کتاب اللہ و سنۃ رسولہ “ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) قبول ہے ، لیکن سیرت شیخین قبول نہیں کرتا ، کیونکہ میں خود مجتہد ہوں اور اپنی رائے پر عمل کروں گا ۔
پھر عبد الرحمان بن عوف نے یہی بات عثمان سے کہی ، اور اس نے سیرت شیخین کو قبول کرلیا اور خلیفہ بن بیٹھا ، البتہ بعد میں اس نے کسی ایک پر بھی عمل نہ کیا اور مسلمانوں کے ہاتھوں ماراگیا ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اس حد تک تیار نہ ہوئے کہ ایک لفظ بھی اپنے عقیدہ کے برخلاف اور جھوٹ زبان پر لائیں اور اسی کام نے حضرت (ع) کو تیرہ سال پھر خلافت سے دور کردیا ، بہت سے لوگوں نے حضرت (ع) سے عرض کیا کہ ٹھیک ہے کہ آپ سیرت شیخین کو قبول نہ کرتے اور اس پر عمل نہ کرتے لیکن اس وقت قبول کرلینا چاہئے تھا ۔ لیکن علی علیہ السلام وہ شخص نہیں ہیں کہ اتنا سا بھی حقیقت سے فاصلہ اختیار کریں ۔
حضرت امام زمانہ (عج) کی امید شیعوں سے
بہت سے شیعہ یہ سوچتے ہیں کہ امام زمانہ (عج) کی خدمت میں کیسے پہنچا جاسکتا ہے اور کیسے حضرت سے ملاقات کی جاسکتی ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) سے ملاقات ایک خاص مسئلہ ہے اور اس سے متعلق کتابوں میں ان افراد کے واقعات ذکر ہوئے ہیں جنہوں نے حضرت سے ملاقات کی ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) سے ملاقات کرنے والوں میں عالم و عوام ، بوڑھے اور جوان ، مرد و عورت سبھی دکھائی دیتے ہیں ، لیکن آیا امام زمانہ (عج) نے شیعوں سے یہ چاہا ہے کہ غیبت کے زمانہ میں یہ کوشش کریں ؟ یا نہیں ، بلکہ وظیفہ کوئی دوسری چیز ہے ؟ اور آیا ہم اس سے زیادہ اہم وظیفہ نہیں رکھتے ∙∙∙ ؟
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ حضرت امام زمانہ (عج) سے تقرب کاسب سے زیادہ اہم وسیلہ خود اپنے وظیفہ انجام دینا ہے ، وہی چیز کہ جس کے لئے خداوند تعالیٰ نے حضرت کو امامت کو مرتبہ عطا فرمایا ہے ، وہی چیز کہ جس کے لئے حضرت رسول خدا (ص) تشریف لائے ہیں ۔
شیخ مفید کا وظیفہ انجام دینا
مرحوم آیت اللہ نجفی مرعشی رحمۃ اللہ علیہ جو کہ ایک محقق عالم تھے ، فرماتے تھے کہ:
” شیخ مفید نے خود کو مباحثہ و مناظرہ کے لئے وقف کر رکھا تھا اور مختلف مناظرے دوسرے تمام ادیان و مذاہب کے علماء سے انجام دیتے تھے ، یہاں تک کہ ایک بار ایک گروہ مناظرہ کے لئے آیا اور شیخ مفید سے وقت مانگا ، شیخ مفید نے فرمایا : ” میرے پاس وقت نہیں ہے “ ۔ ان لوگوں نے کہا: اے شیخ ! ہم بڑی دور سے آئے ہیں اور واپس جانا چاہتے ہیں ، شیخ مفید نے تھوڑاسا سوچ کر کہا : ” میرے پاس صرف صبح کی اذان سے پہلے دوگھنٹے وقت ہے اور اس وقت جتنے دن بھی چاہو آسکتے ہو ، ان لوگوں نے بھی کہا کہ کوئی چارہ نہیں ہے ، دن میں سوئیں گے اور رات میں مناظرے کے لئے آئیں گے ۔
کیا شیخ مفید سوتے نہ تھے ؟
آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کی مجلس درس میں ابو العلاء معرّی ( جو کہ اہل سنت کے علماء میں سے ہے ) سے لیکر صوفیوں تک شرکت کرتے تھے آپ اس قدر حضور ذہن اور حاضر جوابی کے مالک تھے کہ خاص و عام کے لئے ضرب المثل تھے ، کسی وقت جلسہٴ درس میں کتاب سے شاہد و دلیل نہ لاتے تھے اور کبھی کبھی جو لغوی استدلالات آپ سے نقل ہوئے ہیں کسی لغوی کتاب میں پائے نہیں جاتے ۔ خلاصہ یہ کہ اپنی عمر اہل بیت (ع) کے نقش قدم پر گزاری اور آیہ ” یہدون باٴمرنا “ (۱۲) یعنی ” وہ لوگ ہماری طرف ہدایت کرتے ہیں “ کا نمونہ عمل تھے ، اور ائمہ علیہم السلام کی تمام روایتیں بھی اسی محور ” یھدون “ ( ہدایت بسوئے حق ) کے اردگرد گھومتی ہیں ۔
عالم کی فضیلت عابد پر
ایک روایت معاویہ بن عمار سے نقل ہوئی ہے کہ :
” قلت لاٴبی عبد اللہ علیہ السلام رجل راویۃ لحدیثکم یبث ذالک فی الناس و یشدہ فی قلوبھم و قلوب شیعتکم و لعلّ عابداً من شیعتکم لیست لہ ہٰذہ الراویۃ اٴیھا افضل قال الرّاویۃ لحدیثنا یشدّ بہ قلوب شیعتنا افضل من اٴلف عابد “ (۱۳) راوی نے امام علیہ السلام سے عرض کیا :
” آیا جو عابد حضرات اہل بیت علیہم السلام سے روایت نہیں کرتا ( آپ حضرات کی روایتیں نقل کرنے کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ) وہ افضل و برتر ہے یا جو آپ حضرات کی روایات کو نقل کرتا ہے اور اس کے ذریعہ آپ کے شیعوں کے قلوب و عقائد کو محکم و مضبوط کرتا ہے ؟ حضرت نے فرمایا کہ ہماری احادیث کا راوی ہزار عابد سے افضل و برتر ہے “ ۔
یہ روایت معاویہ بن عمار سے نقل ہوئی ہے جو کہ زرارہ اور محمد بن مسلم کے مانند اصحاب ائمہ علیہم السلام کے بزرگوں میں سے اوثقات میں سے ہیں ۔
حضرت امام زمانہ (عج) شیعوں سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے کوشش کریں ، البتہ اس کام کے چند مقدمات ہیں جن میں سے ایک حسن معاشرت ( سماج کے ساتھ اچھا برتاؤ ) اور زیادہ علم کا ہونا ہے ۔ اور پختہ ارادہ رکھیں کہ دوست و دشمن کے ساتھ نرمی و مداوا کریں ۔
ان خطوط میں کئی مرتبہ حضرت امام زمانہ (عج) نے لفظ ” صدق “ ( سچ ) شیخ مفید کو خطاب کرکے استعمال کیا ہے ، وہ ایک ایسا لفظ ہے کہ ہم جیسوں پر صادق آنے کے لئے کئی سال گزر جاتے ہیں ۔
اگر ” میں “ یعنی غرور ختم ہوگیا اور ملاک و معیار ” یہدون باٴمرنا “ ( ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں ) رہا تو پھر خشن اور غیر خشن لباس ، لذیذ اور سادہ غذا انسان کے لئے کوئی فرق نہیں رکھتا ، واقعاً شیخ مفید ہونا بہت مشکل ہے۔
شیخ مفید یہ سوچتے تھے کہ حضرت امام زمانہ (عج) ان سے کیا چاہتے ہیں اور اس کو انجام دیا۔
آج علماء پر وثوق و اعتماد حاصل نہ ہونے کے سبب بہت سے یہودی اور عیسائی ہیں ، یا یہ کہ شیعہ ہیں لیکن غفلت میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
عالم اگر ثقہ و معتمد ہو تو لوگوں کو فوج در فوج دین خدا میں داخل کرسکتا ہے لیکن ( انسان اس قدر بے معتبر ہوجائے ) یہاں تک کہ اس کے بیوی بچے بھی اس پر اطمینان نہ رکھتے ہوں تو کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ۔
اب ہم سب کو چاہئے کہ حضرت ولی عصر (عج) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے یہ دو کام انجام دینے کی کوشش کریں :
۱۔ حضرت امام زمانہ (عج) سے عہد باندھیں کہ ہم ایسے ہوں ۔
۲۔ خود حضرت امام زمانہ (عج) سے مدد طلب کریں کہ حضرت (عج) ہمارے لئے دعا کریں اور ہماری کمک فرمائیں کہ ہم ایسے ہی بنیں۔
اور ان کی بنیاد تین چیزیں ہیں :
۱۔ بہت زیادہ تعلیم و تعلم ، اور ہم جانتے ہیں کہ اس مہینے ( ماہ شعبان ) کے بعد ماہ مبارک رمضان ، ماہ عبادت ہے اور سب سے زیادہ بڑی عبادت تعلیم و تعلم ہے۔
۲۔ انسان کو چاہئے کہ اس ” میں ہونے “ یعنی غرور و انانیت پر خط کھینچ دے اور اسے ترک کردے۔
۳۔ ہم کوشش کریں کہ حدیث کے ” راویۃ “ ہوں ، وہ راویہ جو کہ ” یشد بہ قلوب شیعتنا “ کا مصداق ہو ، یعنی جو راویت حدیث کے ذریعہ ہمارے شیعوں کے قلوب و عقائد کو محکم کرے ۔ ” الرّاویۃ “ کی تاء ، تاءِ مبالغہ ہے یعنی بہت زیادہ روایت کرنے والا۔
میں دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی عصر (عج) کی برکت سے خداوند تعالیٰ ہم سب پر لطف فرمائے اور ہم سب کو ان تین کاموں کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( آمین )
و صلی اللہ علیٰ سیدنا محمد و آلہ الطاہرین
(0) ۔ الاحتجاج : ج/۲ ، ص/ ۴۹۷ و ۴۹۸
(۲) ۔ محمد بن محمد بن نعمان ( ۳۳۶ ۔ ۴۱۳ ھ ق ) آپ شیخ مفید کے نام سے مشہور ہیں ، آپ عظیم شیعہ فقیہ ، متکلم اور محدث ہیں ، آپ کے اساتذہ ابن قولویہ ، شیخ صدوق ، اور ابوغالب رازی ہیں ، اور آپ نے بہت شاگردوں کی جیسے سید رضی ، سید مرتضیٰ ، شیخ طوسی ، اور سلار بن عبد العزیز دیلمی و غیرہ کی تربیت کی ہے ، شیخ مفید بہت زیادہ حاضر جواب تھے اور کا مناظرہ قاضی عبد الجبار معتزلی کے ساتھ مشہور ہے ، ریحانۃ الادب : ج/۵ ، ص/۳۶۱ و ۳۶۵ ۔ الاعلام زرکلی : ج/۷ ، ص/۲۱
(۳) ۔ یہ حدیث تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بحار الانوار : ج/۲۴ ، ص/۱۸۸ ۔ اور ج/۲۵ ، ص/ ۲۴ میں مذکور ہے
(۴) ۔ بحار الانوار : ج/۵۳ ، ص/ ۱۷۴ ۔ باب ماخرج عن توقیعاتہ
(۵) ۔ عبد اللہ بن اسعد یافعی (۶۹۸ ، ۷۶۸ ھ ق ) مشائخ و صوفیہ میں سے اور شافعی مذہب تھا ۔ ریحانۃ الادب : ج/۶ ، ص/۳۸۶ و ۳۸۷
(۶) ۔ ظاہراً مقصود کتاب ” مرآۃ الجنان و عبرۃ الیقظان فی معرفۃ ما یعتبر من حوادث الزمان و تقلب احوال الانسان “ہے جو کہ تاریخ یافعی کے نام سے مشہور ہے
(۷) ۔ احمد بن حنبل اہل سنت کے چار فرقوں میں سے فرقہٴ حنبلی کا رئیس ہے
(۸) ۔ بحار الانوار : ج/۵۳ ، ص/۲۵۶ میں اس طرح آیا ہے : پچیسویں حکایت ، القاضی سید نور اللہ الشوشتری ( ۹۵۶ ۔ ۱۰۱۹ ق ) نے مجالس المومنین میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ اشعار حضرت صاحب الامر (عج) کے ساتھ شیخ مفید کی قبر پر لکھے ہوئے پائے گئے :
لا صوت الناعی بفقدک انہ ۔ یوم علیٰ آل الرسول عظیم
سنانی سنانے والے نے تمہاری سنانی سنائی ۔ یقناً یہ دن آل رسول (ص) پر بہت بڑی مصیبت کا دن ہے
ان کنت قد غیبت فی جدث الثریٰ ۔ فالعدل و التوحید فیک مقیم
اگر تم قبر کی خاک نمناک کے اندر چھپ گئے ۔ تو عدل و توحید تیرے اندر قیام پذیر ہیں
و القائم المہدی یفرح کلما ۔ تلیت علیک من الدروس علوم
اور قائم مہدی کو خوشی ہوگی جب بھی ۔ تم پر دروس و علوم کی تلاوت کی جائے گی
(۹) ۔ نصر آیہ ۲
(۱۰) ۔ سید محمد مہدی بن مرتضیٰ بحر العلوم ( ۱۱۵۵ ۔ ۱۲۱۲ ق ) شیخ یوسف بحرانی ، سید حسین قزوینی اور آقا محمد باقر ہزارجریبی کے شاگردوں میں سے ہیں ، ستاون سال کی عمر میں دارِ دنیا کو وداع کہا اور آپ کو نجف اشرف میں شیخ مفید کے پاس سپرد خاک کیا گیا ( ریحانۃ الادب ج/۱ ، ص/۲۳۵ )
(۱۱) ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج/۱ ، ص/۲۷۲
(۱۲) ۔ انبیاء آیہ ۷۳
(۱۳) ۔ اصول کافی ، ج/۱ ، ص/۳۳ ، باب صفۃ العلم و فضلہ و فضل العلماء
source : http://quranoitrat.org