کسی امر کے بارے میں خواب سے حقیقت تک کس قدر فاصلہ ہوتا ہے ؟کبھی پلک جھپکنے کا کبھی برسوں اور کبھی صدیوں کا جو خون و اشک و آہوں سے بھری ہوتی ہیں اور یہ فاصلہ کبھی طے نہیں ہوتا بہرحال ایسے بہت سے خواب مل جائیں گے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوۓ لیکن کوئی ایسی حقیقت نہیں ہے جس نے خواب سے جنم نہ لیا ہو ۔
پائو لو کوئلیو برازیل کے فلسفی مصنف اور ناول نگار نے اپنی مشہور فلسفی ناول کیماگر میں لکھا ہے کہ ہر فرد کی زندگی اس وقت معنی دار ہوتی ہے جب وہ اپنی زندگي کا مقصد اور اس مقصد کے حصول کے لۓ کوششیں شروع کرتا ہے ان کا خیال ہے کہ مقصد کو صحیح طرح سے پہچاننے اور اس کے حصول کے لۓ خلوص سے کوشش کرنے سے سارا عالم ہستی اس کی مدد کرتاہے تا کہ وہ اپنا مقصد پالے وہ لکھتے ہیں کہ انسانی مقصد کا حصول وہ واحد امر ہے جس میں اس دنیا کے سارے عوامل انسان کی مدد کرتے ہیں تاکہ انسان اپنا مقصد حاصل کرلے انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تہا کہ مقصد کے حصول کی کوششیں ہی انسان کو روزمرہ کی یک نواخت زندگی سے الگ کرتی ہیں ۔
راقم الحروف کی نظر میں جس طرح سے ہر انسان کی ایک آرزو اور مقصد ہوتا ہے اور وہ اسے پہچاننے اور پورا کرنے کی فکر میں رہتا ہے اسی طرح سے ہر معاشرے کا بھی مقصد ہوتا ہے جس کے حصول کی اسے کوشش کرنا چاہیے اگر یہ صحیح ہے تو مسلمانوں کا مقصد اتحاد قرار دیا جاسکتا ہے۔
کسی امر کے بارے میں خواب سے حقیقت تک کس قدر فاصلہ ہوتا ہے ؟کبھی پلک جھپکنے کا کبھی برسوں اور کبھی صدیوں کا جو خون و اشک و آہوں سے بھری ہوتی ہیں اور یہ فاصلہ کبھی طے نہیں ہوتا بہرحال ایسے بہت سے خواب مل جائیں گے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوۓ لیکن کوئی ایسی حقیقت نہیں ہے جس نے خواب سے جنم نہ لیا ہو ۔
پائو لو کوئلیو برازیل کے فلسفی مصنف اور ناول نگار نے اپنی مشہور فلسفی ناول کیماگر میں لکھا ہے کہ ہر فرد کی زندگی اس وقت معنی دار ہوتی ہے جب وہ اپنی زندگي کا مقصد اور اس مقصد کے حصول کے لۓ کوششیں شروع کرتا ہے ان کا خیال ہے کہ مقصد کو صحیح طرح سے پہچاننے اور اس کے حصول کے لۓ خلوص سے کوشش کرنے سے سارا عالم ہستی اس کی مدد کرتاہے تا کہ وہ اپنا مقصد پالے وہ لکھتے ہیں کہ انسانی مقصد کا حصول وہ واحد امر ہے جس میں اس دنیا کے سارے عوامل انسان کی مدد کرتے ہیں تاکہ انسان اپنا مقصد حاصل کرلے انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تہا کہ مقصد کے حصول کی کوششیں ہی انسان کو روزمرہ کی یک نواخت زندگی سے الگ کرتی ہیں ۔
راقم الحروف کی نظر میں جس طرح سے ہر انسان کی ایک آرزو اور مقصد ہوتا ہے اور وہ اسے پہچاننے اور پورا کرنے کی فکر میں رہتا ہے اسی طرح سے ہر معاشرے کا بھی مقصد ہوتا ہے جس کے حصول کی اسے کوشش کرنا چاہیے اگر یہ صحیح ہے تو مسلمانوں کا مقصد اتحاد قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسلامی امت کا اہم ترین مقصد کہ جس پر دیگر تمام اھداف جیسے ساری انسانیت کی ھدایت ،اسلامی شریعت کا نفاذ ،ثقافتی بالندگي،سماجی انصاف کا نفاذ ،اور سیاسی و اقتصادی لحاظ سے مسلم معاشرے کی سر بلندی منحصر ہے وہ اتحاد ہے یہ مقصد یا خواب یعنی اتحاد جس پر قرآن و سنت اور عقل بشمول جدید عقلیت پسندی نے تاکید کی ہے اس کے حصول کے لۓ امت کے افراد یا کم از کم امت کے بااثر لوگوں نے کتنا کام کیا ہے ؟
اس سلسلے میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امت کی بااثر شخصیتوں نے اتحاد کی ضرورت کو پوری طرح درک نہیں کیا ہے جس کے نتیجے میں عوام بھی اسے درک کرنے سے عاجز ہیں اسی وجہ سے اتحاد قائم کرنے کے لۓ عوام سے کوئی امید رکھنا امر عبث ہے۔
سید جمال الدین اسدابادی سے لےکر امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے مثبت اثرات کے علاوہ انگشت شمار علماء کی کوششوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ سید نے جہاں سے کوششيں شروع کی تھیں وہاں سے بہت سے کام کۓ گۓ ہیں لیکن سید نے جہاں سے چھوڑا تہا اس راہ کو دو چار قدم چل کر چھوڑ دیا گیا ابھی یہ راہ طے کرنا باقی ہے ۔
اتحاد کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں سید نے پہچانا اور پہچنوایا وہ کبھی تنہا یا اپنے دو ایک مخلص ساتھیوں کے ہمراہ جنہوں نے اعلاء کلمہ حق کے لۓ اپنی زندگي وقف کردی تھی مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے انہوں نے اتحاد کے حصول کے لۓ نظریات سے ہٹ کر عملی راستے بھی ڈھونڈ نکالے تھے ۔
سید کے زمانے سے اتحاد کی راہ میں جو رکاوٹیں تھیں وہ اب بھی بدستور موجود ہیں بلکہ ان میں کچھ دور حا'ضر کی صورتحال کی بناپر مزید پیچیدہ شکل اختیار کر گئي ہیں ان میں اہم رکاوٹیں اس طرح ہیں
مذھبی تعصب اور فرعی عقائد پر اصرار جو تفرقہ انگیزی کا سبب ہیں
فرقے(فرقہ واریت ) اور قوم پرستی
ناخواندگي اور اس کے منفی اثرات
مسلم ملکوں کے سیاسی حالات
مغربی مکاتب فکر
اور سامراج کی جارحانہ پالیسیاں
ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کے لۓ کونسے اقدامات کۓ گۓ ہیں اور وہ کس قدر موثر واقع ہوے ہیں ان سوالات کا جواب اس مقالہ میں نہیں دیاجاسکتا لیکن ہم یہ وثوق سے کھ سکتے ہیں کہ آج کل اتحاد کے لۓ جو کوششیں کی جارہی ہیں ان میں بیشتر کوششیں نمائشی، غیر موثر، حالات سے مطابقت نہ رکھنے والی اور حقائق سے دور ہیں ،اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے نہ اتحاد کی مشترکہ تعریف کی ہے اور نہ جامع و کامل اتحاد تک پہنچنے کے لۓ مرحلہ بندی کی ہے اور نہ آج کے تقاضوں کے مطابق اہم اقدامات جیسے ایک کرنسی ،ایک مشترکہ منڈی اور ایک سٹیلایئٹ چینل اور ایک مشترکہ فوج اورمسلم ملکوں کے درمیان ویزا سسٹم ہٹا نے کا کوئی انتظام کیا ہے جبکہ دوسری طرف ہم دیکھیں تو یورپی ملکوں نے جہاں گذشتہ صدی میں انسانوں کا عظیم ترین قتل عام ہوا ہے وہاں ان ملکوں نے زمانے کے لحاظ سے اور منطق کے تقاضون کے مطابق اتحاد قائم کرکے اپنی مشکلات پر قابو پالیا ہے ۔
بہرحال ہمیں امید ہے کہ اتحاد المسلمین کا خواب بھی جلد یا بدیر پورا ہوگا لیکن اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے میں ابھی کافی فاصلہ ہے لیکن اگر امت اسلامی کو مخلص بااستقامت اور متقی رہنما مل گۓ تو اس خواب کو پورا ہونے میں کوئی دیر نہیں لگے گی بلکہ تمام مشکلوں کے باوجود ہم یہ کھ سکیں گے کہ صبح قریب ہے ۔
source : http://www.shiastudies.com