عید کا دن خشیت الہٰی اور محبت رسول کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسروں کے دکھ، درد اور تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور ویسے بھی آقائے کونین کا ارشاد گرامی ہے کہ امت مسلمہ ایک جسد واحد کی مانند ہے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے گی تو سارا بدن تکلیف محسوس کریگا۔ اور ان تعلیمات کا حقیقی عکس سرکا ر دو عالم کی حیات مبارکہ میں جا بجا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اور بظاہر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے مگر تاریخ انسانیت اور آبرو آدمیت کی پیشانی پر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وہ آخری برگزیدہ نبی پاک جو کل جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور کارکنان قضا و قدر جس کے اشارہ آبرو کے منتظر رہتے تھے اور قدسیان فلک جن کے دیدار کی خواہش لیے ازل سے چشم براہ تھے اورحورو ملائک کی بزم آرائیاں اور قدرت کی جلوہ آرائیاں جن کی ذات کی بدولت استیادہ و آراستہ تھیں۔ آ پ نماز عید کی ادائیگی کے لیے نکلے تو صحابہ کرام کے علاوہ آپ کے دونوں نواسے سیدنا اما م حسن اور سیدنا امام حسین بھی ہمراہ تھے۔ دفعتاً نظر رحمت ایک ایسے بچے پر پڑی جو والدین کے سایہ شفقت سے محروم تھا اور بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھا اور آنکھوں میں آنسو لیے حسرت ویاس کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ رحمت عالم کی نگاہ رحمت پڑی تو آنکھوں کے سامنے اپنا دور یتیمی آ گیا۔ آنکھوں سے آنسو موتیوں کی لڑی کی مانند گرنے لگے۔ آپ نے اپنی بابرکت چادر مبارک سے اس بچے کے آنسو پونچھے اور اس کو اپنے سایہ عاطفت میں لے کر کاشانہ نبوت پر تشریف لائے اور اس بچے کو ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے سپرد کیا اور فرمایا کہ اس کو نہلا کر اچھے اور نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ پھر جب تک وہ بچہ تیار ہوتا رہا وہ ہستی پاک جن کے نام کی برکت سے نبض ہستی تپش آمدہ اور خیمہ افلاک ایستادہ ہے آپ محو انتظار رہے اور پھر اس بچے کی انگلی پکڑ کر اسے اپنے ساتھ عید گاہ لے کر گئے۔
احساس جوابدہی اور پرسش احوال کا خیال ہمارے دل و دماغ سے رخصت ہوتا جا رہا ہے ۔ ہمارا ہر قدم نمائشی اور ہر عمل آرائشی ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہمارا تعلق بندگی دن بہ دن کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔
عید کا دن ہو یا سال بھر کے دوسرے دن ہمیں ہر لمحہ رب العزت کی رضا کے حصول کے لیے کمر بستہ رہنا چاہیے۔ ہمی اپنے کردار کو مضبوط بنانا چاہیے کیونکہ یہی وہ حوالہ ہے جو انسان کو کبھی بھی طاق نسیان کی نذر نہیں ہونے دیتا اور انسان آنے والے زمانے کے لیے نشان منزل مینارہ نور اور ایک مثال بن جاتا ہے۔
عظمتوں کے تمام سر چشمے اور کبریائی کی تمام صورتیں رب العزت کی بارگاہ کے شایان شان ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات میں اخلاص اور بندگی کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے ۔ تحمل و بردباری کو زندگی میں اہم جگہ دینی چاہیے ۔ افق روھانیت کے نیر و تاباں حضرت با یزید بسطامی نماز عید کی ادائیگی کے لیے کپڑے پہن کر عید گاہ کی طرف جا رہے تھے کہ کسی نے نادانستگی میں گھر کی چھت سے بہت سی راکھ نیچے پھینک دی اس راکھ سے آپ کا عمامہ ، چہرہ ، ریش مبارک اور تمام کپڑے آلودہ ہو گئے۔ تحمل اور صبر کا اندازہ لگائیں کہ آپ راکھ کو چہرے پر ملتے جاتے اور زبان سے بارگاہ ربوبیت میں شکر ادا کرتے جاتے کہ با یزید تو تو دوزخ کے قابل ہے، ذرا سی راکھ سے منہ کیوں بنائے اورآج ہم ہیں کہ ذرا سی مزاج کے خلاف بات ہو جائے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ اپنی بات پر معمولی سا اختلاف بھی ہماری انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
source : http://www.tebyan.net