اردو
Wednesday 1st of May 2024
0
نفر 0

رہبر كى اطاعت كى حدود

ولايت فقيہ پر مبنى نظام ميں لوگ كن امور ميں رہبر كى اطاعت كرنے كے پابند ہيں اور ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ كس حد تك ہے؟ كيا بعض امور ميں اس كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اور كيا اس كے فيصلے يا نظريئے كو رد كرسكتے ہيں؟اس سوال كے جواب سے پہلے دو تمہيدى مطالب كى طرف توجہ دينا ضرورى ہے_ پہلا يہ كہ ولايت فقيہ پر مبتنى سياسى نظام ميں رہبر كا كيا مقام ہے؟ اس كى وضاحت كى جائے_ اس كے بعد مختلف قسم كى مخالفتوں اور عدم اتباع كى تحقيق كى جائے_

نظام ولايت ميں رہبر كا مقام

قرآن كريم ميں اللہ تعالى خود كو ولى يكتا اور يگانہ و بلا اختلاف حاكم قرار ديتا ہے_ وہ انسانوں پر حقيقى ولايت ركھتا ہے، اور قانون گذارى اور امر و نہى كا حق فقط اسى كو حاصل ہے ارشاد خداوندى ہے:

''فاللہ ہو الولي''(1)

پس خدا ہى ولى ہے_

''ان الحكم الا للہ''(2)

حكم فقط خدا كى طرف سے ہے_

''ما لكم من دون اللہ من وليّ'' (3)

اللہ كے سواتمہارا كوئي ولى نہيں ہے_

''انما وليكم اللہ'' (4)

تمھارا ولى فقط خدا ہے_

''الا لہ الخلق و الامر'' (5)

خبرداراسى كيلئے خلق اور امرہے_

ان مطالب كو اگر ''اصل عدم ولايت ''كے ساتھ ملا كر ديكھيں تو يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ كوئي شخص بھى كسى دوسرے پر ولايت نہيں ركھتا ، اور اسے حكم دينے يا اس كيلئے قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا_ يہ مقام و منزلت فقط خدا كو حاصل ہے_ ہاںاگر حقيقى ولايت كا مالك يعنى خدا ايك يا چند افراد كو يہ ولايت بخش دے اور حق اطاعت عطا كردے تو پھر ان مقرر كردہ افراد كى ولايت بھى معتبر اور مشروع ہوگى _ قرآن و احاديث كى رو سے اللہ تعالى نے يہ ولايت معصومين كو عطا كى ہے_ اور ''ولايت انتصابي'' كى ادلّہ كے لحاظ سے ائمہ معصومين كى طرف سے عادل فقہا اس ولايت كے حامل ہيں_لہذا زمانہ غيبت ميں علماء كے اوامر و نواہى قابل اعتبار و قابل اطاعت ہيں_ اس لحاظ سے فقيہ كى ولايت رسولخدا (ص) اور ائمہ اہلبيت كى ولايت كى ايك كڑى ہے_ اور رسولخدا (ص) اور ائمہ كى ولايت كا سرچشمہ خداوند كريم كى ولايت و حاكميت ہے_

--------------------------------------------------------------------------------

1) (سورہ شورى آيت 9)_

2) (سورہ انعام آيت 57)_

3) (سورہ بقرہ آيت 107)_

4) (سورہ مائدہ آيت 55)_

5) (سورہ اعراف آيت54)_

ولايت فقيہ كى نصوص اور ادلّہ كا نتيجہ يہ ہے كہ '' فقيہ عادل ''حكومت كرنے كا حق ركھتا ہے اور سياسى ولايت كا حامل ہونے اور ائمہ معصومين كى طرف سے منصوب ہونے كى وجہ سے امر و نہى اور مسلم معاشرہ كے اجتماعى اورعمومى قوانين بنانے كا حق ركھتا ہے اور اس كے فرامين كى اطاعت واجب ہے_

فقيہ كى ''ولايت انتصابي'' كى بنياد پر باقى حكومتى اداروں كى مشروعيت بھي'' ولى فقيہ'' كے حكم كى بنا پر ہوگي_ فقيہ كى سياسى ولايت كى مشروعيت حكومتى ڈھانچے كے باقى اداروں كى مشروعيت كا سرچشمہ ہے كيونكہ اگر ولى فقيہ كا نفوذ نہ ہو تو باقى تمام حكومتى اداروں اور وزارتوں كى '' مشروعيت'' بحران كا شكار ہوجائے گى _ مثال كے طور پر كچھ وزراء كا بينہ ميں كوئي قرار داد منظور كرتے ہيں، پارليمينٹ ميں كوئي قانون پاس كرتے ہيں، يا كسى معاملہ ميں اپنے اختيارات استعمال كرتے ہيںتو سوال يہ ہے كہ پارليمينٹ ميں منظور شدہ قانون كے ہم كيوں پابند ہوں ؟ كيوں حكومتى فرامين پر عمل كريں؟ كس بنياد پر ملك كے انتظامى اور قضائي قوانين كا احترام كريں؟ اور كس دليل كى رو سے ان كى اطاعت كريں؟

قرآنى آيات كى روسے قانون بنانے اور فرمان دينے كا حق خدا اور ان افراد كو حاصل ہے جو اس كى طرف سے ولايت ركھتے ہوں_

سورہ نساء كى آيت 59 ميں ارشاد خداوندى ہے_

''اطيعوا اللہ و اطيعوا الرسول و اولى الامر منكم ''

اللہ كى اطاعت كرو اور رسول اور جو تم ميں سے صاحبان امر ہيں ان كى اطاعت كرو_

لہذا ان كے علاوہ كوئي شخص امر و نہى كرنے اور قانون بنانے كا حق نہيں ركھتا_مگر جب اس كى ولايت اور اختيار ان امور ميں ثابت ہوجائے تو پھر اسے يہ اختيار حاصل ہوجائے گا_

پس كچھ لوگوں كا بعض افراد كى را ے سے پارليمينٹ ميں پہنچ جانا ان كے قانون وضع كرنے اور امر و نہى كرنے كو شرعى جواز عطا نہيں كرتا _ را ے دينے اور نہ دينے والوں كيلئے ان كى اطاعت اور ان كے بنائے ہوئے قوانين كو تسليم كرنے كيلئے كوئي شرعى وجوب نہيں ہے_ كيونكہ لوگوں كى را ے اس شخص كو حكمرانى كے امور ميں شرعى ولايت كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتي_ مگريہ كہ شرعى ولايت كا حامل شخص كسى كو قانون گذارى اور امر و نہى كا حق دے دے_

يہ بحث سياسى اقتدار كے سب اركان ميں جارى ہے_ مثلا عدليہ ميں اگر قاضى اس شخص كى طرف سے مقرر كيا گيا ہے جس كى ولايت مشروع ہے تو پھر اس قاضى كا فيصلہ بھى شرعى حيثيت ركھتا ہے_ اسى وجہ سے ہمارى روايات ميں اُن افراد كى حكومت اور ولايت كو'' ولايت جور اور ولايت طاغوت'' سے تعبير كيا گيا ہے جو اسلامى معاشرہ كى سرپرستى كى شرائط كے حامل نہيں ہيں اور ان كے حكّام اور عمّال كو ظالم اور طاغوت كے كارندے كہا گيا ہے_

بنابريں شيعوں كے سياسى نظام ميں ولايت فقيہ كو بہت بڑى اہميت حاصل ہے_ كيونكہ سياسى نظام كے تمام اركان كى مشروعيت كا سرچشمہ يہى ہے_ اسى نظريہ كى بناپر اسلامى جمہوريہ كے اساسى قانون ميں جو كہ ولايت فقيہ پر مبتنى ہے بنيادى قانون كى تصويب اور عوام كى را ے سے منتخب ہونے والے صدر كيلئے رہبر كى تائيد حاصل كرنا ضرورى ہے_ صرف يہ كہ كچھ افراد نے مل كر قانون بناديا اور لوگوں نے بھى اس كے متعلق مثبت را ے دے دى اس سے شرعى طور پر اس كى اطاعت كا لازم ہونا ثابت نہيں ہوتا _ مگر يہ كہ '' صاحب ولايت شرعي'' اس كى تائيد كردے اور اس كے شرعى ہونے كى گواہى دے دے_ اسى طرح صدر كے اوامر و نواہى كى مشروعيت رہبر كى تائيد سے مربوط ہے كيونكہ صدر كيلئے لوگوں كى را ے اسے شرعى ولايت عطا نہيں كرتي_

مخالفت كى اقسام

اسلام كے سياسى نظام ميں رہبرى اور ولايت كے اعلى مقام كى وضاحت كے بعد اس نكتہ كى تحقيق ضرورى ہے كہ كونسے موارد ميں رہبر كى اطاعت واجب ہے؟ اور كونسے موارد ميں ولى فقيہ كى مخالفت كى جاسكتى ہے؟ اس سے پہلے يہ جان لينا ضرورى ہے كہ مخالفت دو طرح كى ہوتى ہے :

الف : مخالفت عملى ب : مخالفت نظري

مخالفت عملي: سے مراد يہ ہے كہ حكومت كے فرامين اور قوانين پر عمل نہ كرنا _ جو شخص كسى حكومت كى عملا مخالفت كرتا ہے وہ در حقيقت ملكى مجرم ہے اور عملاً اس حكومت كے سياسى اقتدار كے ساتھ بر سر پيكار ہے_

مخالفت نظرى :كا تعلق اعتقاد ، را ے اور نظر و فكر سے ہے_ وہ شخص جسے حكومت كے بعض قوانين اور منصوبوں پر اعتراض ہے اورانہيں صحيح نہيں سمجھتا ليكن عملى طور پر مخالفت بھى نہيں كرتا اسے نظرى مخالف كہا جاتا ہے_ ايسے شخص كوقانون شكن يا ملكى مجرم نہيں كہتے بلكہ بعض منصوبوں كے متعلق اس كى را ے حكومت كى را ے سے مختلف ہوتى ہے_

ولى فقيہ كى مخالفت كا امكان

ان دو تمہيدى نكات يعنى رہبرى اور ولايت كا مقام اور اس كى مخالفت كى اقسام كے ذكر كرنے كے بعد اس سبق كے اصلى سوال كے جواب كى بارى آتى ہے_سوال يہ تھا كہ نظام ولايت ميں ولى فقيہ كى اطاعت واجب محض ہے يعنى كسى بھى صورت ميں اسكى مخالفت نہيں كى جاسكتى نہ عملى نہ نظرى يا شرعاً اس كى مخالفت ممكن ہے؟

وہ احكام يا فرامين جوولى فقيہ صادر كرتا ہے دوسرے سياسى نظاموں كے صاحبان اقتدار كے فرامين كى 

252 طرح دو اركان پر مشتمل ہوتے ہيں_

الف: موضوع كى شناخت _

ب : اس موضوع كے مناسب حل كى تشخيص يعنى حكم كى شناخت _

حالات اور موضوع كى دقيق اور گہرى شناخت ہر قسم كے فيصلے اور حكم كيلئے ضرورى ہے_ مخصوصاً وہ موضوعات جن كا تعلق ملك كے اجتماعى مسائل سے ہو اور جو عوام كى تقدير پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہوں مثلا وہ مسائل جن كا تعلق ملك كے امن و امان ، ثقافت اور اقتصاد سے ہے_ اس قسم كے اہم اور بنيادى موضوعات ميں بہت كم ايسے موارد ملتے ہيں جن ميں تمام صاحبان نظر كى آراء مكمل طور پر ايك دوسرے سے ملتى ہوں _ اس قسم كے كسى مسئلہ ميں اگر ولى فقيہ كوئيحكم صادر كرے توممكن ہے اس نے جو موضوعات كى تشخيص دى ہے وہ دوسرے صاحبان نظر كى رائے كے مخالف ہو _ كيا اس بات پر كوئي دليل ہے كہ ولى فقيہ كى تشخيص ،كلى طور پر تمام موارد ميں دوسرے موضوع شناس افراد كى تشخيص پر ترجيح ركھتى ہے ؟ اور نتيجتاً اس موضوع كى شناخت كا قبول كرنا تمام افراد پر واجب ہے _ اور وہ اس كى مخالفت ميں اپنى را ے كے اظہار كا حق نہيں ركھتے؟

اگر ولى فقيہ نے صدور حكم اور اپنے فيصلہ كو آخر ى شكل نہيں دى تو پھر اس موضوع كے سلسلہ ميں صاحبان نظر كيلئے نقد و تنقيد اور تحقيق و بررسى كا دروازہ كھلا ہے_ اور ولى فقيہ كے نظريہ كامعلوم ہوجانا اس بحث و تحقيق ميں ركاوٹ نہيں بن سكتا _اولياء دين كى عملى سيرت گواہ ہے كہ انہوں نے اپنے دوستوں كو اجازت دے ركھى تھى كہ وہ ان موضوعات و مسائل ميں اپنى را ے دے سكتے ہيں ، چاہے وہ ان كى را ے كے مخالف ہى كيوں نہ ہو _ ان كا مسلمانوں اور اپنے دوستوں سے مشورہ لينا اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ '' شناخت موضوع'' ميں ان كى اطاعت ضرورى نہيں ہے_

ليكن جس وقت ولى فقيہ اور اسلامى معاشرہ كا حاكم كسى موضوع كو آخرى شكل دے دے اور ايك حكم صادر كردے تو تمام افراد پر اس حكم كا اتباع كرنا واجب ہے اور كسى كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ شناخت موضوع ميں اختلاف نظر كے بہانے اس الزامى حكم كى مخالفت كرے اور ملكى مجرم بنے_ بنابريں ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى اطاعت ضرورى ہے اگر چہ شناخت موضوع ميں ايسا نہيں ہے_

ولى فقيہ كے احكام كى اطاعت كے وجوب كى فقہى دليل مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى بعض روايات ہيں كہ جن ميں حاكم كے حكم كى مخالفت كو حكم خدا كے خفيف سمجھنے،مخالفت اہلبيت اور خدا كے حكم سے روگردانى كرنے كے مترادف قرار ديا گيا ہے_

''فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانّما استخف بحكم اللہ و علينا ردّ و الرادّ علينا الراد على الله ''(1)

ممكن ہے كوئي يہ تصور كرے كہ اس روايت ميں انكار اور عدم جواز ردّ سے مراد حكم قاضى كا رد كرنا ہے اور حاكم شرع اور ولى فقيہ كا حكومتى حكم اس ميں شامل نہيں ہے _ يہ تصور اس غفلت كا نتيجہ ہے كہ قضاوت بھى جامع الشرائط فقيہ كى ولايت كا ايك شعبہ ہے_ جب ايك مخصوص جزئي نزاع ميں فقيہ كے حكم كى مخالفت نہيں كى جاسكتى تو فقيہ كے اس سے بڑے منصب ميںجو كہ اسلامى معاشرہ كا نظام چلانا ہے، اور حكومتى احكام صادر كرنا ہے ميں يقيناً اس كے فرامين كى مخالفت جائز نہيں ہے_ علاوہ ازيں امام صادق نے يہ جملہ فقيہ كو منصب حكومت پر فائز كرنے كے بعد فرمايا ہے پس يہ حديث حاكم كى مخالفت كے متعلق ہے اورصرف قاضى كى مخالفت ميں منحصر نہيں ہے_

 

--------------------------------------------------------------------------------

1) وسائل الشيعہ، ج 27، ص 136، 137_ باب 11، ابواب صفات قاضى ح 1_ ترجمہ پہلے گزر چكا ہے_

حاكم اور ولى امر كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے ليكن نظر اور را ے ميں اس كا ساتھ دينا ضرورى نہيں ہے_ يعنى مومنوں پر واجب نہيں ہے كہ وہ اعتقاد اور نظر ميں بھى حاكم كے ہم را ے اور ہم خيال ہوں بلكہ ان سے فقط يہ كہا گيا ہے كہ عملاًاس كے مطيع ہوں اور اختلال نظام كے اسباب پيدا نہ كريں اسى وجہ سے بعض فقہاء نے اگر چہ حكم حاكم كى مخالفت اور ردّ كرنے كو حرام قرار ديا ہے ، ليكن اس كے متعلق بحث كو حرام قرار نہيں ديا_(1)

ولى فقيہ كى اطاعت كا دائرہ حكومتى احكام تك محدود ہے _ اگر ولى فقيہ كسى مورد ميں حكم نہيں ديتا بلكہ فقط ايك چيز كو ترجيح ديتا ہے يا مشورے كے طور پر اپنى رائے كا اظہار كرتا ہے ہے ،تو اس وقت اس كى اطاعت شرعاً واجب نہيں ہے_ اسى طرح ولى فقيہ كے حكومتى حكم كى اطاعت اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ ہر مسلمان مكلف حتى كہ صاحب فتوى مجتہد پر بھى اس حكومتى حكم كى اطاعت واجب ہے_(2)

آنے والے سبق ميں ہم حكومتى حكم كى حقيقت و ماہيت اور اس سے متعلقہ مباحث پر تفصيلى گفتگو كريں گے_ اسلامى معاشرہ كے رہبر كے حكم كے نفوذ اور اس كى عملى مخالفت كے عدم جواز پر اسلام كى تاكيد اور اصرار اس وجہ سے ہے كہ اسلامى حاكم امت مسلمہ كى عزت و اقتدار كا محور ہے، امت كى وحدت اور اس كى صفوںميں اتحاد عادل ، فقيہ، امين اور متقى رہبر كى عملى اطاعت اور ہمراہى ميں مضمر ہے _ اس كى عزت، امت مسلمہ كى حفظ حرمت اور احترام كا باعث بنتى ہے_ محمد ابن سنان نے جب امام رضا سے جنگ سے فرار ہونے كى حرمت

--------------------------------------------------------------------------------

1) جو اہر الكلام ،ج 40 ، ص 105_

2) فقہاء نے صريحاً كہا ہے كہ ولى فقيہ كى اطاعت شرعى كا دائرہ حكومتى حكم تك محدود ہے_ اور يہ اطاعت باقى تمام فقہاء پر واجب ہے_ العروة الوثقى كے باب اجتہاد و تقليد كے مسئلہ 57 ميں آيا ہے كہ جامع الشرائط حاكم كے حكم كى مخالفت جائز نہيں ہے _ حتى كہ دوسرے مجتہد كيلئے بھى ،مگر يہ كہ اس كا غلط ہونا ثابت ہوجائے _ آيت اللہ سيد كاظم حائرى اس سوال كا جواب ديتے ہوئے كہ جب ايك جامع الشرائط فقيہ( ولى فقيہ) كوئي حكم دے تو كيا اس شہر كے دوسرے فقہاء پر اس حكم كى اطاعت واجب ہے جواب ديتے ہيں ''ہاں''نيز اس سوال _ كہ كيا ان افراد پر ولى فقيہ كے اوامر كى اطاعت واجب ہے جو اس كے مقلد نہيں ہيں _كا جواب ديتے ہوئے كہتے ہيں كہ راہبر ولى امر ہونے كى حيثيت سے جو حكم ديتے ہيں سب پر اس كى اطاعت واجب ہے چاہے وہ اس كے مقلد نہ بھى ہوں _

ملاحظہ ہو: الفتاوى المنتخبہ ج 1 ، كتاب الاجتہاد و التقليد ،مسئلہ 36، 47_

كى وجہ پوچھى تو آپ نے فرمايا:

اللہ تعالى نے جنگ سے فرار كو اسلئے حرام قرار ديا ہے چونكہ يہ فرار دين كے ضعف و كمزورى اور انبياء كرام (ع) اورعادل ائمہ كو خفيف سمجھنے كا باعث بنتا ہے اور دشمن كے مقابلہ ميں ان كى نصرت كے ترك كرنے كا موجب بنتا ہے_ اور يہ كام مسلمانوں كے خلاف دشمن كى جرا ت ميں اضافہ كرتا ہے_(1)

امام صادق رسولخدا (ص) سے نقل كرتے ہيں : مسلمان كيلئے جائز نہيں ہے كہ وہ ايسى مجلس ميں حاضر ہو جس ميں امام كو برا بھلا كہا جاتا ہو _ حديث يہ ہے:

''قال رسول الله (ص) من كان يؤمن باللہ و اليوم الاخر فلا يجلس فى مجلس يسبّ فيہ امام ... ''(2)

آنحضرت فرماتے ہيں جو خدا اور روز قيامت پر ايمان ركھتا ہے اس كيلئے جائز نہيں ہے كہ ايسى مجلس ميں حاضر ہو جس ميں امام كو برا بھلا كہا جاتا ہو_

آخر ميں اس نكتہ كا بيان كرنا ضرورى ہے كہ ہمارى بحث اس ميں تھى كہ شرعاً ولى امر كى اطاعت كا دائرہ كہاں تك ہے _ اور قانونى اطاعت ہمارى بحث سے خارج ہے_ كيونكہ ہر حكومت كے مختلف اداروں كے كچھ قوانين و ضوابط ہوتے ہيں كہ جن كا قانونى لحاظ سے اتباع واجب ہو تا ہے_اور ان كى خلاف ورزى كرنے والے كا محاكمہ ہوتا ہے_ ولايت فقيہ والے نظام ميں حكومتى احكام و فرامين كى قانونى اطاعت كے علاوہ شرعى اطاعت بھى واجب ہے _

1) وسائل الشيعہ، ج 15، ص 87 باب 29، ابواب جہاد العدو ح 2_

2) وسائل الشيعہ ج 16 ص 266 باب 38 ،ابواب امر و نہى ح 21_

نوٹ: وہ ممالك جو ولى فقيہ كے زير سايہ ہيں اس ميں رہنے والے مسلم و غير مسلم اسى طرح وہ ممالك جن پر ولى فقيہ كا كنٹرول نہيں ہے ميں بسنے والوں كيلئے ولى فقيہ كے حكم كى اطاعت كہاں تك واجب ہے _ اس كيلئے ضميمہ 2 و 3 كى طرف رجوع كريں_

خلاصہ :

1) اصل عدم ولايت اور اس كو ديكھتے ہوئے كہ ولى حقيقى فقط خدوند كريم كى ذات ہے_ ہر قسم كى ولايت كى مشروعيت كا سرچشمہ براہ راست يا بابلواسط تقرّر الہى ہے_

2)فقيہ كى ولايت انتصابى كى بنياد پر سياسى نظام كے تمام اركان اپنى مشروعيت اور جواز ''ولايت فقيہ''سے اخذ كرتے ہيں _ يہ امر اس منصب كے اعلى مقام كى نشاندہى كرتا ہے_

3)صرف عوام كى را ے كسى شخص كو قانون گذارى اور امر و نہى كے منصب كا حامل قرار نہيں ديتى _

4)سياسى صاحبان اقتدار كى مخالفت كى دو قسميں ہيں ، مخالفت عملى اور مخالفت نظري_

5) جرم عملى مخالفت كے ذريعہ ہوتا ہے_ البتہ كسى فرمان يا قانون كے صحيح نہ ہونے كااعتقاد ركھنا ملكى جرم كا باعث نہيں بنتا_

6) ولى فقيہ كے احكام اور فرامين كى عملى مخالفت جائز نہيں ہے _ جبكہ اس كى نظرى موافقت ضرورى نہيں ہے_

7) دوسرے نظاموں كے مقابلہ ميں نظام ولايت فقيہ كو يہ امتياز حاصل ہے كہ اس نظام ميں حكومتى قوانين كى عملى مخالفت جرم كے ساتھ ساتھ شرعى مخالفت بھى شمار ہوتى ہے_

8)فقيہ عادل كے حكومتى احكام كى اطاعت كا وجوب مقبولہ عمر ابن حنظلہ جيسى روايات سے ثابت ہوتا ہے_

9)ولى فقيہ كے حكومتى احكام كى اطاعت صرف اس كے مقلدين كے ساتھ مخصوص نہيں ہے _ بلكہ ہر مكلف چاہے وہ مجتہد و فقيہ ہى كيوں نہ ہو اس پر ان احكام كى اطاعت واجب ہے_


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیفیت حرکات
حضرت رقیہ بنت الحسین(ع) کے یوم شہادت کی مناسبت سے
اخلاق حسنہ
تفکر کی اہمیت اور غفلت سے بچنے کے عوامل کے تحفظ کی ...
انبیاءکرام اور غم حسین علیہ السلام
حضرت علی کی مشکلات‘ہمارے لیے عبرتیں
حضرت زہرا(س) کے معجزات
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
لعان
قرآن اور امامت علی ( ع)

 
user comment