اردو
Wednesday 27th of November 2024
0
نفر 0

بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں

موضوع بحث سے متعلق تحقیق شروع کرنے سے پہلے چند نقاط کی طرف توجہ ضروری نظر آتی ہے:۔

(الف) یہ بحث کثرت مشاغل اور رکاوٹوں کی بناپر صرف چند دنوں کے اندر تحریر کی گئی ہے لہذا اس میں تمام اسلامی نصوص ودلائل کا احاطہ ممکن نہ ہو سکا کہ یہ بحث مختلف جہات سے ایک کامل بحث کی شکل میں ڈھل کرسامنے آتی۔

(ب) دوسری طرف اس بحث میں جو نصوص واسناد درج کی گئی ہیں ان کے فنی اور خصوصی معیاروں پر توجہ دئیے بغیر جن کی فقہی مسائل میں رعایت کی جائی ہے خاص طور سے نصوص کی سندوں کی تحقیق اور فقہی بحثوں میں ان کے دوسرے مرسوم ورائج معیاروں کا جائزہ لئے بغیر انھیں فقط پیش کردیا گیا ہے اور شرح کردی گئی ہے۔

اسی بناپر اس بحث کو قابل نفاذ فقہی احکام صادر کرنے کے لئے کافی نہیں سمجھا جاسکتا مگر یہ فقہی مسائل کی تحقیق کے سلسلہ میں معلول اور رائج روش کی بنیاد پر اس پر نظر ثانی کی جائے اس کے بعد مراجع تقلید اور صاحبان فتویٰ سے ان سے متعلق فتویٰ حاصل کیا جائے تاکہ ان کے اجرا وعمل کے لئے ایک بنیاد اور شرعی دلیل ہاتھ آسکے۔

(ج)تیسرے یہ کہ اس بحث میں صرف ان ہی نصوص پر اکتفا نہیں کی گئی ہے جنھیں امامیہ نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے بلکہ ان سے آگے بڑھ کر غیر امامیہ کی روایات اس یقین کے ساتھ اس میں شامل کی گئی ہیں کہ ان روایات میں لائے جانے والے بیشتر موضوعات میں اگر تمام موارد میں نہ سہی تو اکثر موارد میں جعل یا دروغ کا کوئی محرک موجود نہیں ہے۔

اس وجہ سے ان موارد میں امامیہ کے طریقوں سے اگر کوئی روایت نہ مل پائی تو غیر امامیہ کی روایت پر خاص کر اس روایت پر جسے انھوں نے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے،انحصار و اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ امام صادق علیہ السلام کی اس حدیث پر عمل کے مترادف ہے جس میں حضرت فرماتے ہیں:

”اذا نزلت بکم حادثة لا تجدون حکمھا فیھا روی عنا فنظروا الیٰ ما رووہ عن علی علیہ السلام فاعملوبہ“ (۱)

”جب بھی کوئی ایسا اتفاق تمھیں پیش آئے جس کا حکم تمھیں ہم سے نقل شدہ روایات میں نہ ملتا ہوتو جو کچھ انھوں نے (عامہ) نے علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے اسے دیکھو اور اس پر عمل کرو “

شیخ طوسی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے اسی لئے ”حفص بن غیاث“ ”غیاث بن کلوب“”نوح بن دراج “”سکونی“نیز عامہ کے دوسرے راویوں نے ہمارے ائمہ علیہم السلام سے جو حدیثیں نقل کی ہیں،امامیہ فرقہ نے ان پر عمل کیا ہے۔نہ ان سے انکار کیاہے اور نہ (اپنی روایتوں میں)ان کے مفہوم کے خلاف کچھ پایا ہے ۔ (۲)

(د)زیر بحث موضوع جو اسلامی بازار کے نظم اور کنٹرول ،تجارت اور تاجروں کے تجارتی افعال پر حکومت کے تسلط سے متعلق ہے۔یہ بحث بڑی وسیع ہے اور بہت سے شعبوںمیں پھیلی ہوئی ہے ہم اس کے صرف چند پہلووٴں کی طرف ہی اشارہ کررہے ہیں اور موضوع کے تمام پہلووں کا دقت نظر اور گہرائی سے جائزہ لینے اور اس سے متعلق جامع ووسیع بحث کو صاحبان تفحص وتحقیق کے لئے چھوڑتے ہیں اور خداوند عالم سے دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں اپنی گفتار وکردار میں صداقت واستقامت سے ہمکنار کرے۔

تجارت کی اہمیت 

یہ بات واضحات میں سے ہے کہ اسلام نے تجارت کاحکم اور اس کی طرف تشویق دلائی ہے ۔ (۳)

نیز اسے عقل خرد میں اضافہ کا سبب اور اسے ترک کرنے کو عقل کی کمی (۴) اور اس میں روزی کا ۹/۱۰ یعنی دس میں سے ۹ حصہ معین کیا ہے (۵) اور اسے انسان کی عزت و سر بلندی قرار دیا ہے ،یہاں تک کہ امام صادق علیہ السلام اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں ”اغد الیٰ عزک“ (۶) یعنی اپنی عزت و بزرگی (یعنی کار و بار و تجارت ) کی طرف قدم بڑھاؤ۔

وہ روایات جو تجارت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں اور اس کی طرف تشویق و ترغیب دلاتی ہیں ،بہت ہیں ․یہاں ہم ان سب کی تحقیق کے در پے نہیں ہیں ․انشاء اللہ آگے تجارت اور تاجر کی اہمیت کے سلسلہ میں مالک اشتر کے عہد نامہ کے تحت حضرت امیر المو٘منین علیہ السلام کا کلام نقل کیا جائے گا۔

احکام اور قواعد و ضوابط 

اب جب کہ اسلام تجارت کو اتنی قدروا ہمیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور دوسری طرف تجارت کی بہت سی شاخیں ہیں نیز اس کی راہ میں بڑی مشکلیں در پیش ہیںاور اسے در پیش آنے والا کسی بھی طرح کا خلل معاشرہ میں سیع پیمانہ پر تیزی کے ساتھ اپنے مثبت یا منفی اثرات مرتب کرتا ہے لہٰذا فطری بات ہے کہ اسلام نے اس کے لئے دقیق قواعد و ضوابط اور احکام و قوانین بیان کئے ہوں گے جو اس کے مختلف شعبوں کو نزدیک کریں اس کے متفرقات کو باہم یکجا کریں اور اسے ہر خطا وخلل نیز تجارت میں خلل واقع ہونے کی وجہ سے امکانی طور پر پیدا ہونے والے نا پسندیدہ اثرات کی روک تھام کریں ،تاکہ یہ قوانین و ضوابط واحکام ،تجارت کو انسانی خدمت کی راہ میں نیز انسانیت کے تحفظ اور اس کی عزت و عظمت فراہم کرنے کا ذریعہ بنائیں ،جیسا کہ خدا وند عالم چاہتا ہے ۔

بہت سی قرانی آیات اور سیکڑوں بلکہ ہزاروں روایات ان احکام کو بیان اور ان کی تفصیل پیش کرتی ہیں اور چوں کہ وہ ان سے مربوط احادیث کی کتابوں میں درج اور لوگوں کی دست رس میں ہیں لہٰذا یہاں انھیں نقل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔

نفاذ اور اجراء 

لیکن ظاہر ہے کہ صرف قانون کا بنانا اور حکم وضع کرنا کہ اس پر عمل کیا جائے کافی نہیں ہے بلکہ اسے عملی شکل دینے کے لئے حالات و شرائط کا وجود میں لانا بھی ضروری ہے․ ایسے اقدامات کئے جائیں جو عملی طور پر قانون اور حکم کے نفاذ میں مدد گار ہو سکیں اب ہم دیکھیں کہ اسلام نے اس سلسلہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ؟یہ جائزہ خود اس سوال کا جواب ہوگا ․اس سلسلہ میں ضمانتوں اور اسلام کے اجرائی قوانین کو دو قسموں میں باٹا جا سکتا ہے ․ ایک:ذاتی (باطنی)ضمانتیں اور دوسرے حکومتی ضمانتیں۔

ذاتی و باطنی ضمانت اور اس کی بنیادیں

اسلام نے ذاتی و باطنی طور پر عملی ضمانت کے سلسلہ میں بہت اہتمام کیا ہے اور اسے تشریع و قانون سازی کی بنیاد واساس مانا ہے ․صرف ضرورت کے وقت اور ان حالات و شرئط میں جب کہ باطنی ضمانت کوئی قابل توجہ اثر نہیں رکھتی ان کے علاوہ وہ کبھی حکومتی (ظاہر و جبری)ضمانتوں کو بروئے کار نہیں لاتا ۔

ذاتی (باطنی)ضمانت سے ہماری مراد کیا ہے اسے واضح کرنے کے لئے ہم ایک مختصر سے اشارہ میں یہ کہیں گے کہ :باطنی ضمانت کا مطلب ”ایسی روکنے والی یا دفاعی قوت جو انسان کی ذات اور اس کے وجدان سے سر چشمہ حاصل کرتی ہے “․اس قسم کی ضمانت دو بنیادوں پر استوار ہوتی ہے جن میں سے ہر ایک دوسری کی طرف پلٹتی ہے ۔

اول :اس بات پر ایمان و اعتقاد کہ جو کچھ کائنات میں موجود ہے نہ صرف خدا وند عالم کے ارادہ و قدرت سے باہر نہیں ہے بلکہ سب اسی کی ملک ہے اور انسان کی اس کے سوا خود اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ وہ خد کی ملک میں اس کا جانشین ہے ․پس ضروری ہے کہ پوری امانتداری اور ہوشیاری ہی سے اپنے ذمہ داری پر عمل کرے ،اسے اپنے خالق اور اس حقیقی مالک کے بنائے ہوئے قوانین و حدود سے آگے بڑھنے کا حق حاصل نہیں ہے ،جیسا کہ جب خدا وند عالم رازق قادر ہے (اس مقدار سے زیادہ جتنا خدا نے اس کے لئے مقرر کیا ہے )مال کے حصول کے سلسلہ میں انسان کی سعی و کوشش اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اس کی حیثیت کو کم یا زیادہ نہیں کرتی ․آخری نتیجہ یہ ہے کہ جو کچھ اسے صحیح طریقہ سے اور اجر و ثواب کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے تھا ،اس نے غلط راہ سے عذاب و گناہ کے ساتھ حاصل کیا ․حسب ذیل آیتیں ہمارے مدعا کی بہترین شاہد ہیں:

”وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ “ (حدید/۷)

”خدا وند عالم نے جس میں تمھیں اپنا جانشین بنایا ہے اس میں سے انفاق کرو“

”وآتوا ھم من مال اللہ الذی آتاکم “(نور/۳۳)

”انھیں مال خدا میں سے دو جو اس نے تمھیں بخشا ہے“

”فامشوا فی مناکبھا و کلوا من رزقہ “(ملک /۱۵)

”زمین کے سینے پر چلو پھرو اور خدا کے روزی میں سے کھاؤ پیئو“

”و اذا قضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وبتغوا من فضل اللہ “(جمعہ/۱۰) 

”پس جب نماز تمام ہو تو خدا کی زمین پر منتشر ہو جاؤ اور خدا کے فضل سے فائدہ اٹھاؤ“ 

”قل من یرزقکم من السموٰت والارض قل اللہ “(سبا/۲۴)

”کہو !کون تمھیں آسمانوں اور زمین سے روزی دیتا ہے ؟کہو اللہ“

”ولا تقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم وایاھم “(انعام /۱۵۱)

”اپنی اولادوں کو بھوک سے قتل نہ کرو ہم تمھیں اور انھیں روزی دیتے ہیں“

”ان اللہ ہو الرزاق ذو القوة “(ذاریات/۵۸)

”فقط خدا روزی دینے والا صاحب قدرت ہے“

ان کے علاوہ اس سلسلہ میں دوسری آیتیں اور بہت سی حدیثیں پیغمبر اسلام (ص) اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ۔

دوم:باطنی ضمانت سے مراد محاسبہ نفس اور اپنی جانچ پرکھ ہے ․اس بنیاد پر قانون کی حد سے آگے بڑھنے کا مطلب خدا کے خلاف بغاوت اور اس کے روبرو جسارت و گستاخی ہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ :

اسلام ایسا دین ہے جو انسان کے تمام اقوال و افعال کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں تک کہ اس نے آدم کے ذہن میں اٹھنے والے افکار و خیالات کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور ان کے لئے قوانین و ضوابط مقرر کئے ہیں اس نے اعتقادی امور میں انسان پر قطعی اور واضح عقلی دلیلوں کے ذریعہ قطع و یقین حاصل کرنا لازمی قرار دیا ہے ․اس نے خدا وند عالم کی معرفت اس کی قدرت ،عدل و حکمت اور دوسرے صفات کی معرفت نیز اس کے انبیاء کی نبوت ،اس کے اولیا کی امامت ،حشر و نشر دین اور قرآن کی معرفت سے مربوط مسائل میں گمان و تقلید کو کافی نہیں جانا ہے اسی طرح اس نے انسان کو سمجھایا ہے کہ وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اپنے تمام گناہان صغیرہ و کبیرہ کے سلسلے میں سب سے زیادہ صاحب علم اور تیز حساب کرنے والے کی طرف سے اس کا محاسبہ کیا جائے گا اور اگروہ دنیوی سزا سے چھٹکارا پا بھی جائے تو آخرت کی سزا سے نجات نہیں پا سکتا ۔

اس بنیاد پر انسان کی عقل اسے اپنے نفس کے محاسبہ اور اپنے اعمال کی نگرانی اورکنٹرول پر مائل کر تی ہے ۔نتیجہ میںانسان اپنے نفس کانگہبان اور محاسب ہوتاہے اور یہ فطری سی بات ہے باطنی نگراں و نگہبان ہر طرح کے ظاہری و بیرونی نگہبان سے زیادہ دقیق اور کارآمد ہوتا ہے کیوں کہ انسان زیادہ تر اپنے آپ پر نگراں ہے وہ خود کو دوست رکھتا ہے اور رنج و زیاں ،مشکلات وبدبختی کے اسباب سے خود کو دور رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرتا ہے بالکل یوں ہی جیسے وہ اپنے منافع کے حصول اور اپنی آرزوؤں تک پہنچنے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ حریص ہے ۔

ہماری موجودہ بحث میں اسلام نے ایک مسلمان کے مالی افعال کو بھی شرعی احکام کے تابع یعنی ثواب و عقاب کے تحت قرار دیا ہے اس نے تجارت میں غش یعنی ملاوٹ یا دھوکے دہی کو حرام اور ایسے شخص کو مسلمانوں کی جماعت سے خارج قرار دیا ہے :”من غشنا فلیس منا“‘ تول اور مقدار میں کمی کرنے نیز دوسروں کے مال میں خیانت کرنے وغیرہ سے منع کیا ہے اور اسے خدا ترسی ، سچائی اور مد مقابل کے تجارت سے منصرف ہونے کی صورت میں معاملہ منسوخ کرنے ،دوسروں کا حق دینے اور اپنا حق لینے وغیرہ کا حکم دیا ہے ․نافرمان کو سزا اور فرمانبردار کو جزا اور ثواب دینے کا وعدہ کیا ہے ۔

یہ اور اس طرح کے امور انسانی ارادوں اور اس کے باطنی دباؤ کے تحت اس کے اعمال کو خدا سے مربوط کرنے میں موٴثر مددگار ثابت ہوتے ہیں ․ان موارد میں جہاں بیرونی ضمانت و تسلط کے ذریعہ بہت تھوڑے سے مواقع کے علاوہ الٰہی احکام کا اجرااور اپنے مقاصد کا حصول عملی نہیں ہے․یعنی بڑے وسیع پیمانے پر خارجی و بیرونی ضمانتیں بے اثر نظر آتی ہیں اور غرض پر ست افراد بیرونی ضمانتوں کی دسترس سے دور معاشرہ اور انسانیت کے خلاف اپنی خطر ناک قانون شکنیوں کو جاری رکھ سکتے ہیں لیکن خدا پر ایمان ایک مسلمان کو قوانین و احکام کی مخالفت سے روکے رکھتا ہے ۔

اس مذکورہ وسیع سطح پر کوئی ایسی بیرونی و خارجی طاقت نہیں ہے جو انسانی اعمال و کردار پر تسلط اور کنٹرول رکھ سکے یہ طاقت صرف ایک ذاتی عملی ضمانت اور ذاتی وجدان سے سرچشمہ حاصل کرنے والے باطن کے دباؤ میں ہے جو مبداء و معاو اور جزا و سزا پر ایمان و یقین کی بنا پر استوار ہے ․ایسی طاقت کے ہوتے ہوئے مبدا و معاد پر ایمان رکھنے والا انسان اس کے علاوہ کوئی اور راہ نہیں پاتا کہ خود کو اپنے اعتقادات نیز اپنے مستقبل کے تحفظ وسلامتی کا پابند قرار دے ۔

بیرونی۔جبری ضمانتیں 

بیرونی ،جبری یا تسلطی ضمانتوں سے مراد حکومت و سلطنت یا ہر اس شخص کی طرف سے جو تسلط کا حق رکھتا ہے مثلا ًخاندان میں باپ یا اپنے اختیارات کے دائرہ میں کسی کارخانہ کے مالک کی طرف سے قانون پر صحیح عمل کی راہ میں کیا جانے والا اقدام و کوشش ہے․وہ اقدام و کوشش جو کاموں کو صحیح راہ پر آگے بڑھانے میں مدد دے۔

یہاں جو چیز ہمارے پیش نظر ہے اس سے مراد حکومت شرع کا جسے ”اسلامی حکومت “سے تعبیر کیا جاتا ہے ،معاشرہ میں بازار اور تجارتی نقل و حرکت پر کنٹرول ہے ․ جب ہم بیرونی اور حکومتی ضمانت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یہ فرموش نہ کرنا چاہئے کہ اس ضمانت کی طاقت و توانائی کا ایک بڑا حصہ باطنی ضمانت اور اس کی بنیادوں سے سرچشمہ حاصل کرتا ہے کیوں کہ لا محالہ مسلمان حاکم اور ولی فقیہ کا تسلط بھی اعتقادی پہلوؤں کی طرف پلٹتا ہے اور الٰہی و شرعی فریضہ سے جا کر جڑ جاتا ہے ۔

اگر چہ ابتداء میں اس خیال کے تحت کہ حکومت و سلطنت کی اجرائی و عملی ضمانت اور بازار کا اس کی نگرانی کے سلسلہ میں کافی نصوص موجود نہیں لہٰذا ایسا نظر آتا ہے کہ اس بارے میں بحث و اسلامی حکومت کے بازار پر تسلط پیدا کرنے سے متعلق ایک جامع تصور پیش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے لیکن موضوع پر ہلکی سی تحقیق اور چھان بین نے ہی یہ بات پوری طرح واضح کر دی کہ اس سلسلہ میں روایت کے ایک بڑے حصہ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ․ہم آئندہ ان روایات و نصوص کا ایک حصہ پیش کریں گے تاکہ وہ ہمارے مدعا پر زندہ شاہد گواہ رہیں اور فقط مورد نظر نصوص نقل کرتے ہوئے سیاق بحث کے ساتھ ان کے مطالب کو سرسری طور پر اشارةہی ذکر کریں گے۔

ایک ضروری یاد دہانی

اصل بحث میں وارد ہونے سے پہلے ہم قارئین کرام کویہ یاد دہانی کرنا چاہتے ہیںکہ اس بحث میں نقل ہونے والی روایات و نصوص دو قسم کی ہیں: 

اول۔وہ روایتیں جو یہ بتاتی ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) یاا مام ﷼الہٰی احکام کو ․جو اپنے موضوعات کے لئے اوّلی یا ثانوی اعتبار سے وضع ہوئے ہیں․کسی قسم کے دخل یا تصرف کے بغیر نافذ کریں یعنی وہ روایتیں صرف اتنا بتاتیں ہیں کہ یہ حضرات احکام الہٰی کے نفاذ کی صلاحیت اور اس کا اختیاررکھتے ہیں ۔

دوم :۔وہ نصوص جو ان کے اوامر تدبیری اقدامات کی اس اعتبار سے حکایت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) یا امام ﷼ولی امر اور حاکم مسلمین ہونے کی حیثیت سے انھیں صادر کرتے یا انجام دیتے رہے ہیں ، پیغمبر (ص) و امام ﷼ہونے کی حیثیت سے نہیں کہ وہ ثابت و معین احکام کو جو اپنے موضوعات کے لئے مرتب اور لوگوں کے لئے ڈھالے گئے ہیں (۷) ، لوگوں تک پہنچائیں یا ان کی تعلیم دیں اگر چہ انشاء اللہ بعد میں ہم اس طرح کے اوامر پر بھی روشنی ڈالیں گے ۔

۱)۔عدة الاصول،شیخ طوسی ۔ج/۱ص/۳۷۹،الفوئد الرجالیہ کجوری ص/۷۲ 

۲)۔عدة الاصول،شیخ طوسی ۔ج/۱ص/۳۸۰

۳)۔ملاحظہ ہو:تہذیب شیخ طوسی ،ج ۷،ص ۳،۲۔وسائل الشیعہ ،ج۱۲،ابواب التجارة ،اور حاشیہ میں اس کے منابع ۔

۴)۔ کافی ،ج/۵،ص/۱۴۸،تہذیب ،ج/۷ ،ص/۲اورص/۴،من لا یحضر الفقیہ،ج/۳ص/۱۹۱اورص/۱۹۲،وسائل الشیعہ ج/۱۲ و ۶و۱۰ص۴و۵․

۵)۔خصائل: ج۲ ،ص۴۴۵؛کافی : ج۵،ص۱۴۸؛ من لا یحضر الفقیہ:ج۳ ،ص۱۹۲و ص۲۳۳؛ تہذیب :ج۷، ص۳؛ وسائل اشیعہ :ج۱۲،ص۳و۴؛بحار الانوار: ج۱۰۰ ،ص۵ و ۱۲․

۶)۔کافی ،ج/۵ ص/۱۲۹،من لا یحضر الفقیہ،ج/۳ ص/۱۹۲،تہذیب ج/۷ ص/۳و۴وسائل اشیعہ ج/۱۲ ص/۳،۴،۵

۷)۔ واضح ہے کہ احکام دو طرح کے ہیں: 

(الف )وہ احکام جن کا موضوع کسی خاص مخاطب کی طرف سے ایک خاص عمل ہے مثلا نماز، جھوٹ ،شراب خوری یا اسی طرح کے امور جن کا مخاطب ایک معین فرد ہے․

(ب) وہ احکام جن کا موضوع مطلق عمل ہے اس میں کوئی خاص و معین مخاطب نہیں ہے مثلا واجب کفائی اور اجتماعی احکام جن پر معاشرہ کی فلاح ،استحکام اور پائداری منحصر ہے ․حاکم اور مسلط ہونے کی حیثیت سے ولی امر کا فریضہ ایسے احکام جاری کرانا ہے جن کا کوئی مخصوص مخاطب نہ ہو مثلا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہ یہ خدا وند کا منشاء ہے کہ لوگوں کی ایک جماعت ،”ایک امت “ معاشرہ کا ایک طبقہ اس کا ذمہ دار ہو ”ولتکن منکم امة یدعون الیٰ الخیر یاٴمرون بالمعروف و ینہون عن المنکر“ (آل عمران /۱۰۴) اسی طرح معاشرے کی امور کی تدبیر ،اس کی اصلاح اور عمومی نظم و ضبط قائم کرنا وغیرہ اس کے فرائض میں سے ہے بالکل یوں ہی جیسے ہر شخص اپنے گھر کی دیکھ بھال اس کی نگرانی ،اہل خانہ کے افعال پر نگاہ رکھنے اور اسے منظم رکھنے کا ذمہ دار ہے․


source : http://www.mahdimission.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
خطبہ ۲ اچھے گھر سے مراد مکہ اور برے ہمسایوں سے ...
دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!
حضرت فاطمہ (س)کی شہادت افسانہ نہیں ہے
ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی
اسلام میں جھادکے اسباب
حضرت زینب (س)عفت و حیا کی پیکر
خمس اھل سنت کی نظر میں
قرآنِ کریم میں "حجاب" سے متعلق آیات
آئمہ اطہار(علیہم السلام) اور سیاسی حکمت عملی

 
user comment