جناب مختارِ ثقفی جلیل القدر صحابی رسول خدا حضرت ابوعبید ثقفی کے بیٹے تھے، وہ ہجرت کے پہلے سال (بمطابق ٦٢٢ عیسوی) شہر ِطائف میں پیدا ہوئے، اُن کی کنیت ‘‘ابو اسحاق’’ اور مشہور لقب ‘‘کیِّس و کیسا ن’’ یعنی زیرک و تیز ہوش ہے، یہ لقب ‘‘کیِس’’ حضرت امیرالمومنین نے جناب مختار کو عطا کیا تھا۔
حضرت مختار کا جذبہ عقیدت اور اُن کے متعلق آئمہ طاہرین کی احادیث اور اقوال دیکھنے سے یہ امر روز ِروشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ جنابِ مختار
حضراتِ آلِ محمد سے بہت زیادہ محبت اور الفت رکھتے تھے اور اہل بیت سے ان کا جذبۂ عقیدت درجہ کمال پر پہنچا ہوا تھا، وہ اہل بیت کی محبت میں ہمہ وقت سرشار رہا کرتے تھے اور ان کی گفتار میں محبت کی بواور ان کے افعال میں اہل بیت پیغمبر کی تأسی کی خُو نمایاں ہوتی تھی۔ وہ کہتے تھے: ‘‘ہمارا دین اور عقیدہ اجازت نہیں دیتا کہ ہم کھائیں پیئں جبکہ سید الشہداء امام حسینکے قاتل زندہ ہوں۔’’ نیز یہ بھی کہتے تھے: ‘‘خدا کی قسم! اگر سہ چہارم (٤/٣) قریش (یعنی بنی اُمیہ) بھی قتل کر دیئے جائیں تو سید الشہداء کی انگشت مبارک کے ایک پورے کے برابر نہیں ہو سکتا۔’’
اُن کی زندگی کے مختلف ادوار پر نظر ڈالنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اُنہوں نے کسی بھی وقت آل محمد کے خلاف کوئی نظریہ قائم نہ کیا اور وہ عقیدہ و مذہب کے لحاظ سے کامل شیعہ تھے، یہی وجہ ہے کہ کسی شیعہ عالم کو ان کی شیعیت میں کبھی کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔ تواریخ میں ہے کہ حضرتِ مختار آلِ محمد سے کمالِ عقیدت کی وجہ سے واقعہ کربلا کا بدلہ لینے کے لیے سر سے کفن باندھ کر اٹھے اور خدا کے فضل سے اس مقصد میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔
علامہ محمد ابراہیم لکھنوی لکھتے ہیں کہ حضرتِ مختار کمالِ جذبۂ عقیدت کے ساتھ اٹھے اور ایک بادشاہ پُرشکوہ کی شان سے دشمنوں کے قلع و قمع کرنے کی طرف متوجہ ہوکر اس درجہ پر فائز ہوگئے جس پر عرب و عجم میں سے کوئی فائز نہیں ہوا۔ جنابِ مختار کے جذبۂ عقیدت اور حسن عقیدہ پر ایک عظیم شاہد بھی ہے اور وہ حضرتِ ابراہیم ابن مالک اشتر ؒ کی ذات ستودہ صفات کی کارِ مختار میں شرکت ہے جن کی آل محمد سے عقیدت اور مذہب شیعہ میں پختگی مہر نیمر وز سے بھی زیادہ روشن ہے۔ ١ علامہ حافظ عطا ء الدین حسام الواعظ رقمطراز ہیں: معلوم ہونا چاہیے کہ حضرتِ مختار اہلِ بیتِ پیغمبر کے مخلصوں میں سے ایک اہم مخلص تھے۔ ٢
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ جب حضرتِ مختار جنابِ ابرہیم بن مالک اشتر کو عبیداللہ بن زیاد کے قتل کی خاطر موصل روانہ کرنے لگے تو حضرتِ مختارؒ ان کو رخصت کرنے کے لیے کافی دور تک ان کے ہمراہ پیدل گئے۔ جنابِ ابراہیم نے راستے میں حضرتِ مختار سے کہا: آپ میرے ساتھ کیوں پیدل چل رہے ہیں بہتر ہے کہ آپ سوار ہو جائیں۔ تو حضرتِ مختارؒ نے جواب میں کہا کہ میں آپ کے ساتھ اس لیے پیدل چل رہا ہوں تاکہ مجھے زیادہ ثواب مل سکے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے قدم نصرت آل محمد میں گرد آلود ہوں۔ ٣ جب امام زین العابدین کی خدمت میں جنابِ مختار نے ابنِ زیاد اور عمر سعد کے سر بھیجے تو آپ نے سجدہ شکر ادا کیا اور فرمایا خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمارے دشمنوں سے بدلا لیااور خداوندعالم اس عمل کی مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کو جزائے خیر دے۔ ٤
حضرت امام محمد باقر ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی زنِ ہاشمیہ نے اُس وقت تک اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کی اور نہ ہی خضاب لگایا ہے جب تک مختار نے امام حسین ؑ کے قاتلوں کے سر نہیں بھیجے۔ ٥
دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں
واضح رہے کہ رجال کشی اور بعض دیگر کتابوں میں ایسی روایات بھی مندرج ہوگئی ہیں جن سے حضرت ِمختار کی مخالفت ظاہر ہوتی ہے، یہ روایات ضعیف اور غیر قابلِ اعتبار ہیں۔ علامہ دربندی فرماتے ہیں کہ ایسی روایات یا توتقیہ پر محمول ہیں یا ضعیف راویوں کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی چیزیں عامہ کے پروپیگنڈے سے اختراع ہوگئی ہیں اور یہ ہرگز قابلِ تسلیم نہیں ہیں۔ ٦
قاضی سید نوراللہ شوشتری تحریر فرماتے ہیں کہ لوگوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بعض لوگ حضرتِ مختار کی مذمّت کرنے لگے تو چونکہ وہ زمانہ حضرت امام محمد باقر ؑ کا تھا جب آپ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ مختار نے ہمارے قاتلوں کو قتل کیا ہے ہمارے شیعوں کی بیواؤں کی تزویج کرائی ہے اور بیت المال سے جوان کے دست تصرف میں تھا کافی مال بھیج کر امداد کی ہے۔ ٧
علامہ محمد ابراہیم لکھنوی تحریر کرتے ہیں کہ حضرتِ مختار کے بارے میں ایسی عبارات اور روایات دشمنانِ آل محمد کی وجہ سے شہرت پاگئی ہیں۔ جنابِ مختارؒ کا زمانہ، بنی اُمیہ کے بادشاہوں کا عہدِ حکومت تھا جو محمد وآل محمد کے شیعوں کے لیے انتہائی کٹھن دور تھا، حضرتِ مختار نے چونکہ بے شمار بنی اُمیہ اور ان کے حواریوں کو قتل کیا تھا اس لیے بنی اُمیہ کے ہواخواہوں نے ان کے خلاف ایسی چیزیں مشہور کردیں جو ان کے وثاقت اور ان کے وقار کو پامال کردیں اور ان سے یہ چیزیں بعید نہ تھیں کیونکہ ان لوگوں نے ایسی حرکتیں امیرالمومنین جیسی شخصیت کے خلاف بھی کی ہیں ۔۔۔ اور وہ روایات جو امام تک صحیح راستوں سے منتہی ہوتی ہیں، وہ قطعی طور پر تقیہ پر محمول ہیں کیونکہ بنی اُمیہ سے ان حضرات کے خطرات ظاہر ہیں ۔۔۔۔ ٨
شہادت و آرامگاہِ مختار
حضرت مختار١٤ رمضان المبارک ٦٧ ہجری قمری کو مصعب بن زبیر کے ہاتھوں درجہ شہادت پر فائز ہوئے، بڑے عرصہ تک اُن کی قبر مخفی رہنے کے بعد سید مہدی بحر العلومؒ کی تلاش و تحقیقات کے نتیجے میں دریافت ہوئی اور اس وقت حضرت مختار کی قبر مسجد ِکوفہ کے مشرقی حصہ میں روضۂ حضرت مسلم بن عقیل کے جنوب میں واقع ہے۔
١۔ نورالابصار، ص١٢
٢۔ رو ضۃ المجاہدین، ص٣
٣۔ جلاء العیون، علامہ مجلسی، ص٢٤٤؛ بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج١٠،ص٣٩٦
٤۔ رجال کشی، علامہ محمد بن عبدالعزیز الکشی، ص٨٥
٥۔ ایضاً، ص٨٤
٦۔ اسرار الشہادت، ص٥٦٨
٧۔ مجالس المومنین، قاضی نور اللہ شوشتری، ص٣٥٦
٨۔ نورالابصار، ص٧
source : http://rizvia.net