اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

اسلام میں عورت کا حق وراثت

اسلام ميں عورت کو  بہت ہي عزت و احترام  دينے کے  علاوہ ان کے دوسرے بہت سے حقوق کا خيال رکھنے کي تاکيد دي گئي ہے - انہي  حقوق ميں سے ايک وراثت کاحق بھي ہے جو عورت کو حاصل ہے - ارشاد رباني ہے کہ

لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا

’’ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے ميں خواہ وہ تھوڑا ہو يا زيادہ لڑکوں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتے داروں کے ترکے ميں خواہ وہ تھوڑا ہو يا زيادہ لڑکيوں کا بھي حصہ ہے اور يہ حصے خدا کي طرف سے مقررہ ہيں‘‘

القرآن، النساء، 4 : 7

يعني اُصولي طور پر لڑکا اور لڑکي دونوں وراثت ميں اپنا اپنا مقررہ حصہ لينے کے حقدار ہيں اور کوئي شخص انہيں ان کے اس حق سے محروم نہيں کرسکتا-

والدين کے مالِ وراثت ميں حق

قرآن مجيد ميں بڑي وضاحت کے ساتھ عورت اور مرد کے حقوق کا تعين کيا گيا ہے اور عورتوں کے حق وراثت کو بڑي تفصيل کے ساتھ بيان کيا ہے -

ارشاد باري تعالي ہے کہ

يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ.

’’تمہاري اولاد سے متعلق اللہ کا يہ تاکيدي حکم ہے کہ ترکے ميں لڑکے کے لئے دو لڑکيوں کے برابر حصہ ہے- اگر اکيلي لڑکي ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا اور (ميت کے) ماں باپ ميں سے ہر ايک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطيکہ وہ اپنے پيچھے اولاد بھي چھوڑے، اگر اس کے کوئي اولاد نہ ہو اور وارث ماں باپ ہي ہوں تو ماں کے لئے ايک تہائي (ماں باپ کے ساتھ) بھائي بہن بھي ہوں تو اس کي ماں کا چھٹا حصہ ہوگا-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

اس آيہ مبارکہ ميں يہ امر قابلِ غور ہے کہ تقسيم کي اکائي لڑکي کا حصہ قرار ديا گيا ہے، يعني سب کے حصے لڑکي کے حصے سے گنے جائيں گے- گويا تمام تقسيم اس محور کے گرد گھومے گي- جاہليت ميں لڑکيوں کو ترکے ميں حصہ نہيں ديا جاتا تھا- جيسا کہ اکثر دوسرے مذاہب ميں اب بھي ہے ليکن اسلام کي نظر ميں لڑکي کو ترکے کا حصہ دينا کتنا ضروري ہے، وہ اس سے ظاہر ہے کہ پہلے تو تقسيم وراثت کي عمارت کي بنياد ہي لڑکي کے حصے پر رکھي پھر يوصيکم اï·² کہہ کر فرمايا کہ يہ اللہ تعاليٰ کا نہايت تاکيدي حکم ہے-

اس آيت مبارکہ سے تقسيم کے يہ اصول معلوم ہوئے :

(1) اگر اولاد ميں لڑکے اور لڑکياں ہوں تو ايک لڑکے کو ايک لڑکي سے دگنا ملے گا اور اسي اصول پر سب ترکہ لڑکوں اور لڑکيوں ميں تقسيم ہوگا، صرف لڑکوں کا ذکر نہيں کيا، کيونکہ اس صورت ميں ظاہر ہے کہ وہ سب برابر کے حصے دار ہوں گے-

(2) اگر اولاد ميں لڑکا کوئي نہ ہو اور دو يا دو سے زيادہ لڑکياں ہوں- تو ان کو بھي دو تہائي ہي ملے گا-

حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے ان معنوں کي تائيد ہوتي ہے- ايک صحابي سعد بن ربيع غزوہ احد ميں شہيد ہوگئے- انہوں نے اولاد ميں صرف دو لڑکياں چھوڑ ديں- سعد کے بھائي نے سارے ترکے پر قبضہ کر ليا اور لڑکيوں کو کچھ نہ ديا- اس پر سعد کي بيوہ آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي خدمت ميں حاضر ہوئي اور شکايت کي کہ سعد کي دو لڑکياں موجود ہيں، ليکن ان کے چچا نے انہيں ان کے باپ کے ترکے ميں سے ايک جبہ بھي نہيں ديا اس پر يہ آيت نازل ہوئي- آپ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے سعد کے بھائي کو بلوايا اور اسے حکم ديا کہ مرحوم کي دونوں بيٹيوں کو اس کے ترکے ميں سے دو تہائي اور بيوہ کو آٹھواں حصہ دے دو اور بقيہ خود رکھ لو-

1. ترمذي، السنن، کتاب الفرائض، باب ما جاء في الميراث البنات، 4 : 414، رقم : 2092

2. ابوداؤد، السنن، کتاب الفرائض، باب ماجاء في الميراث، 3 : 120، رقم : 2891

(3) اگر اولاد ميں صرف ايک لڑکي ہو تواسے ترکے کا نصف ملے گا اور باقي نصف دوسرے رشتہ داروں ميں تقسيم ہوگا-

(4) اگر اولاد کے ساتھ ميت کے ماں باپ بھي زندہ ہوں تو پہلے ان دونوں ميں سے ہر ايک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور باقي دو تہائي مندرجہ بالا شرح سے اولاد کو ملے گا-

(5) اگر متوفي کے اولاد کوئي نہ ہو، صرف ماں باپ ہوں، تو اس صورت ميں ترکے کا تہائي ماں کو اور باقي باپ کو ملے گا-

(6) آخري صورت يہ بيان کي کہ اگر متوفي کے ورثا ميں ماں باپ کے ساتھ بھائي بہن بھي ہوں، تو ماں کا حصہ چھٹا ہوگا-

ممکن تھا کہ کوئي شخص ماں باپ کو اولاد کا وارث قرار دينے پر اعتراض کرتا، کيونکہ اس سے پہلے دنيا کے تمام مذاہب ميں صرف اولاد ہي وارث قرار دي گئي تھي- اس لئے فرمايا :

آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

’’تمہارے باپ دادا (بھي ہيں) اور اولاد بھي، ليکن تم نہيں جانتے کہ ان ميں سے نفع رساني کے لحاظ سے کون تمہارے زيادہ قريب ہے- (يہ حصے) اللہ نے مقرر کئے ہيں- بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

يعني يہ اعتراض کہ باپ دادا کيوں وارث بنائے گئے ناداني کي بات ہے- اس حکم کي حکمت اللہ تعاليٰ ہي جانتا ہے کہ انسان کے لئے اوپر کے رشتے دار زيادہ اچھے ہيں يا نيچے کے- ہماري فلاح اللہ تعاليٰ کے احکام پر عمل کرنے ميں ہي مضمر ہے-

شوہر کے مالِ وراثت ميں حق

قرآن حکيم نے شوہر يا بيوي ميں سے کسي کے بھي انتقال کي صورت ميں اس کے مال وراثت ميں سے دوسرے فريق کا حصہ بالتفصيل بيان کيا ہے- بيوي کے انتقال کي صورت ميں خاوند کا حصہ بيان کرتے ہوئے کہا :

وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

’’تمہاري بيويوں کے ترکے ميں سے تمہارے لئے نصف ہے، اگر ان کے کوئي اولاد نہ ہو، اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اُنہوں نے جو ترکہ چھوڑا ہے اس کا ايک چوتھائي ہے (يہ تقسيم) ان کي وصيت (کي تعميل) اور ان کے قرض (کي ادائيگي) کے بعد ہو گي-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 12

اور شوہر کي وفات کي صورت ميں بتايا :

وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.

’’ اور تمہارے ترکے ميں سے تمہاري بيويوں کا ايک چوتھائي حصہ ہے- اگر تمہارے کوئي اولاد نہيں- اگر تمہاري اولاد بھي ہو، تو تمہارے ترکے ميں سے ان کا حصہ آٹھواں ہے- (يہ تقسيم) تمہاري وصيت کي تعميل اور تمہارے قرض (کي ادائيگي) کے بعد ہو گي-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 12

کلالہ کے مالِ وراثت ميں حق

کلالہ اس ميت کو کہتے ہيں جس کے والدين ہوں نہ اولاد- ايسي عورت يا مرد فوت ہو جائے اور اس کے پيچھے نہ اس کا باپ ہو، نہ بيٹا، تو اس کي جائيداد کي تقسيم کي تين صورتيں ہو سکتي ہيں :

اس کے اعياني يعني سگے بھائي بہن ہوں -

علاتي بھائي بہن ہوں، يعني باپ ايک اور مائيں الگ الگ ہوں-

اخيافي بھائي بہن ہوں، ماں ايک اور باپ عليحدہ عليحدہ ہوں-

ان تينوں کے احکام الگ الگ ہيں :

(1) اگر پہلي صورت يعني سگے بھائي بہن موجود ہيں تو حکم ديا :

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ.

’’لوگ آپ سے فتويٰ (يعني شرعي حکم) دريافت کرتے ہيں- فرما ديجئے کہ اللہ تمہيں (بغير اولاد اور بغير والدين کے فوت ہونے والے) کلالہ (کي وراثت) کے بارے ميں يہ حکم ديتا ہے کہ اگر کوئي ايسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کي ايک بہن ہو تو اس کے لئے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کي صورت ميں اس کا) بھائي اس (بہن) کا وارث (کامل) ہو گا اگر اس (بہن) کي کوئي اولاد نہ ہو-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 176

ظاہرہے کہ اگر بہنيں دو سے زيادہ ہوں تو وہ سب اس دوتہائي ميں برابر کي شريک ہوں گي-

(2) دوسري صورت يہ ہے کہ علاتي بھائي بہن ہوں، يعني باپ ايک ہو اور مائيں الگ الگ ہوں تو اس صورت ميں حکم ديا :

وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

’’اور اگر بہت سے بھائي بہن ہوں تو پھر (تقسيم يوں ہو گي کہ) ايک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 176

يعني جيسے اولاد کے درميان ترکے کي تقسيم کا اُصول ہے- - - ايک لڑکے کا حصہ دو لڑکيوں کے برابر- - - وہي يہاں بھي استعمال ہو گا-

(3) تيسري اور آخري صورت يہ ہے کہ اخيافي بھائي بہن ہوں يعني عورت نے ايک خاوند کي وفات کے بعد کسي دوسرے شخص سے نکاح کر ليا اور دونوں سے اولاد ہو- اگر ان ميں سے کوئي مرجائے اور کلالہ ہو :

وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.

’’اور اگر کسي ايسے مرد يا عورت کي وراثت تقسيم کي جا رہي ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئي اولاد اور اس کا ماں کي طرف سے ايک بھائي يا ايک بہن ہو (يعني اخيافي بھائي يا بہن) تو ان دونوں ميں سے ہر ايک کے لئے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائي بہن ايک سے زيادہ ہوں تو سب ايک تہائي ميں شريک ہوں گے (يہ تقسيم بھي) اس وصيت کے بعد (ہو گي) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغير کي گئي ہو يا قرض (کي ادائيگي) کے بعد-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 12

يعني کلالہ کي وراثت کي تقسيم کے احکام ميں بھي عورت کو حق وراثت کا مستحق قرار ديا گيا اور اس کے واضح احکام بيان کئے گئے جن کا خلاصہ ہم درج ذيل پانچ اُصولوں ميں بيان کر سکتے ہيں :

(1) جہاں صرف اولاد ہو، اورکوئي دوسرا وارث نہ ہو، اور اولاد ميں بھي تمام لڑکے ہوں، تو ترکہ ان لڑکوں ميں بحصہ مساوي تقسيم ہو گا- لڑکے اور لڑکياں دونوں ہوں تو ايک لڑکے کو دو لڑکيوں کے برابر حصہ ملے گا، اور اسي اُصول پر تمام ترکہ تقسيم ہو گا اگر لڑکا کوئي نہ ہو، صرف ايک لڑکي ہو، تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور اگر دو يا دو سے زيادہ لڑکياں ہوں، تواُنہيں دو تہائي ملے گا-

(2) جہاں اولاد ہو يا نہ ہو، ليکن ماں باپ موجود ہوں- اگر اولاد ہو تو ماں باپ ميں سے ہر ايک کو ترکے کا چھٹا حصہ اور باقي اولاد ميں نمبر (1) کے اُصول پر تقسيم ہو گا- اگر اولاد نہ ہو تو ماں کو ايک تہائي اور باقي دو تہائي باپ کو-

(3) اولاد نہ ہو، ليکن بھائي بہن ہوں، تو ماں کو ايک تہائي کي جگہ چھٹا حصہ ملے گا- يہاں پھر اختلاف ہے کہ ان بھائي بہنوں کو کتنا ملے گا- بعض کے نزديک ماں کو ايک چھٹا حصہ ملے گا، دوسرا چھٹا ان بھائي بہنوں ميں تقسيم ہو گا، اور باپ کو حسب سابق بقيہ دو تہائي- بعض کے نزديک يہاں بھي کلالہ کا اُصول جاري ہو گا، يعني اگر ايک بھائي يا ايک بہن ہے، تو اسے چھٹا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، اور باپ کو دو تہائي- اگر بھائي بہن ايک سے زيادہ ہوں تو ان سب کو ايک تہائي، ماں کو چھٹا حصہ اور باقي نصف باپ کو-

(4) زوجين کي صورت ميں، اگر بيوي اولاد چھوڑ کر مرے تو خاوند کو ترکے کا چوتھائي اور باقي تين چوتھائي اولاد ميں نمبر (1) کے اُصول پر تقسيم ہو گا- اگر اولاد نہ ہو، تو خاوند کو نصف اور بقيہ دوسرے رشتے داروں کو اُوپر کے قواعد کي رو سے- اگر خاوند اولاد چھوڑ کر مرے تو بيوي کا آٹھواں حصہ ہے- اگر اولاد نہ ہو، تو چوتھا اور بقيہ ترکہ دوسرے رشتہ داروں ميں تقسيم ہو گا-

(5) کلالہ جہاں اعياني يا علاتي يا اخيافي بھائي بہن ہوں جيسے کہ اُوپر بيان ہوا- تقسيم ميں يہ ترتيب مدنظر رکھي جائے گي- سب سے پہلے خاوند يا بيوي کو حصہ ملے گا، پھر والدين کو اور پھر اولاد کو- اگر اولاد نہ ہو يا اولاد يا والدين دونوں ميں سے کوئي بھي موجود نہ ہو، تو سب سے آخر ميں بھائي بہن حق دار ہوں گے-


source : http://www.tebyan.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی میں پریشانیاں گناہوں کی وجہ سے
اقوال حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
قرآن کی حفاظت
حضرت زهراء سلام الله علیها کی شخصیت کے کونسے ...
میاں بیوی کا ہم کفو ہونا
اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد ۔۔ امام جعفر ...
زبان قرآن کی شناخت
استشراق اور مستشرقین کا تعارف
دس رمضان حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہاکا یوم وفات
اخلاق کے اصول- پہلی فصل ہدایت کرنے والی نفسانی صفت

 
user comment