تیرہ صدیوں سے صحیفہ سجادیہ زاہدین و صالحین کا مونس و انیس اور مشاہیر علماء و مصنفین کا مرجع و ملجأ رہا ہے۔ روحانیت و معنویت کے اس خزانے کی معرفت کی غرض سے ہم اپنی بحث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے پیش کررہے ہیں:
الف) صحیفہ سجادیہ کی سند کیا ہے؟
سند کے لحاظ سے تواتر کی حد سے بھی بالاتر ہے؛ شیخ آقا بزرگ تہرانی رقمطراز ہیں: «الصحیفة الاولی المنتهی سندها الی الامام زین العابدین۔۔۔ و هی من المتواترات عند الاصحاب لاختصاصها بالاجازة والروایة فی كل طبقة و عصر۔۔۔ ؛ (8)
صحیفہ اولی – جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام تک جاپہنچتی ہے، علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات [اور قطعیات] میں سے ہے؛ کیوں کہ اس کہ خصوصیت یہ ہے [كہ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے] تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار و اعصار میں اس کی نقل و روایت کی اجازت دیتے ہو ئے حاصل کرکے اسے نقل کیا ہے»۔ صحیفہ کی شہرت کا درجہ اس قدر اونچا ہے کہ (علامہ محمد باقر مجلسی صاحب بحار الانوار کے والد ماجد) مرحوم علامہ محمد تقی مجلسی نے دعوی کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ کی نقل و روایت کے حوالے سے 10 لاکھ اسناد و ثبوت موجود ہیں۔ (9) اسی طرح شیخ محمد بن محمد بن نعمان «شیخ مفید» (متوفی 413) نے «ارشاد» میں اور ان کے علاوہ شیخ صدوق بن بابویہ قمی کے شاگرد علی بن محمد خزاز قمی (متوفی 381) اور احمد بن عیاشی (متوفی 401) اور ابوالفضل شیبانی، وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے۔۔۔،
علماء اہل سنت نے بھی صحیفہ سجادیہ کی روایت کی ہے۔ مثال کے طور پر ابن جوزی نے خصائص الائمۃ میں اور حافط سلیمان بن ابراہیم القندوزی (متوفی 1294) نے ینابیع المودة میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کیا ہے اور اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں۔ (10)
ابوالفضل شیبانی کی سند:
ہمارے لئے عامر بن عیسی بن عامر سیرافی نے سنہ 381 کو مكہ میں روایت کی؛ کہ میرے لئے ابو محمد حسن بن محمد بن یحیی بن حسن بن جعفر بن عبیداللہ بن حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السلام، نے روایت کی کہ میرے لئے میرے والد نے عمیر بن متوكل سے نقل کرتے ہوئے روایت کی، انہوں نے اپنے والد متوكل بن ہارون سے اور متوکل بن ہارون نے یحیی بن زید سے روایت کی کہ جبکہ یحیی اپنے والے زید بن علی بن الحسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد خراسان کی جانب رخت سفر باندھے ہوئے تھے اور میں نے ان کی عقل و دانش کے پائے کا کوئی مرد نہیں دیکھا۔ اور یحیی بن زید نے مجھے صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ دکھایا۔ (11)
تاریخی اور رجالی کتب کے علاوہ دعاؤں کی کوئی بھی معتبر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں صحیفہ سجادیہ کی دعائیں ثبت نہ ہوئی ہوں، جیسے:
1۔ «مصباح المتہجد» شیخ طوسی (385 - 460)۔
2۔ «سلوك الحزین » قطب الدین بن سعید بن ہبة اللہ راوندی (متوفی 573) ان کی کتاب «دعوات الراوندی » کے نام سے مشہور ہے۔
3۔ سید علی بن حسین بن باقی کی کتاب «اختیار المصباح »۔
4۔ سید رضی الدین علی بن طاؤس (متوفی 589) کی کتابیں «اقبال الاعمال»، «جمال الاسبوع» اور «فتح الابواب »۔
5۔ ابوالقاسم علی بن رضی الدین کی کتاب «زوائد الفوائد» ۔
6۔ ابراہیم بن علی كفعمی (متوفی 868) کی کتاب «البلد الامین » وغیرہ۔ ۔۔
ان سب کے علاوہ مرحوم آیت اللہ مرعشی نجفی کی روایت کے مطابق علامہ مجلسی اول، (مولی محمدتقی مجلسی) نے اپنی بہت سے اجازات میں اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیفہ سجادیہ کو بالمشافہہ اور بلاواسطہ حضرت حجة بن الحسن صاحب الزمان علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ علامہ مجلسی اول کہتے ہیں:
«میں خواب اور بیداری کی سی حالت میں تھا۔۔۔ دیکھ رہا تھا کہ گویا اصفہان کی جامع مسجد عتیق میں کھڑا ہوں اور حضرت مہدی علیہ السلام بھی کھڑے ہیں۔ میں نے وہ مسائل آپ علیہ السلام سے دریافت کئے جو میرے لئے مشکل اور دشوار تھے۔ آپ نے وہ مسائل بیان فرمائے۔
میں نے پوچھا: ایسی کوئی کتاب تجویز فرمائیں جس پر میں عمل کروں تو آپ نے مجھے "مولانا محمد التاج" کا حوالہ دیا۔ میں ان کے پاس چلاگیا اور ان سے ایک کتاب لی۔ مجھے ایسا لگاکہ وہ دعا کی کتاب تھی چنانچہ میں نے وہ کتاب چوم لی اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا لیکن اتنے میں وہ حالت ختم ہوئی اور میں پوری طرح جاگ اٹھا مگر جب دیکھا کہ وہ کتاب میرے ہاتھ میں نہیں ہے، تو صبح تک روتا رہا، دوسرے روز مولانا محمد تاج کو ڈھونڈنے نکلا۔ چلتے چلتے «دارالبطیخ »، پہنچا۔۔۔ وہاں مجھے ایک نیک و صالح مرد بنام آقا حسن «تاجا» نظر ائے۔ میں نے انہیں سلام کیا اور انھوں نے مجھے اپنے قریب بلایا اور اپنے کتب خانے میں لے گئے۔
انھوں نے جو پہلی کتاب مجھ تھمادی وہی کتاب تھی جو میں خواب میں دیکھ چکا تھا۔ میں رونے لگا اور ان سے کہا: یہی کتاب میرے لئے کافی ہے اور اس کے بعد شیخ محمد مدرس کی خدمت میں حاضر ہؤا اور ان کے پاس صحیفہ کے اس نسخے سے اپنے نسخے کا موازنہ کرایا جو ان کے پردادا نے شہید کے نسخے سے نقل کرکے لکھا تھا اور میں نے دیکھا کہ صاحب الزمان عجل اللہ تعالی فَرَجَہ الشریف نے مجھے عنایت فرمایا تھا شہید کے نسخے کے عین مطابق تھا۔ (12)
ب) صحیفہ سجادیہ کے نام
مشہور ہے کہ قرآن اور نہج البلاغہ کے بعد «صحیفہ سجادیہ » معارف اور حقائق الہی کا عظیم ترین سرچشمہ شمار کیا جاتا ہے اور شیخ آقا بزرگ تہرانی کے بقول «اخت القرآن »: یعنی قرآن کی بہن، «انجیل اہل بیت »، «زبور آل محمد» اور «صحیفہ كاملہ » بھی کہلاتا ہے (13) اور قندوزی نے بھی صحیفہ کے بارے میں یوں قلم فرسائی کی ہے:
«فی ایراد بعض الادعیة والمناجاة التی تكون فی الصحیفة الكاملة للامام الہمام زین العابدین۔۔۔ وہی زبور اہل البیت الطیبین علیہم السلام؛ (14) ان دعاؤں اورمناجاتوں کا بیان امام ہمام زین العابدین علیہ السلام کے صحیفہ کاملہ میں مندرج ہیں ۔۔۔ اور وہ زبور اہل بیت طیبین ہے»۔
اس کتاب کو اس لئے «صحیفہ كاملہ » کا نام دیا گیا ہے کہ زیدیہ فرقے کے پاس صحیفہ کا ایک نسخہ موجود ہے جو مکمل نہیں ہے بلکہ موجودہ صحیفے کے نصف کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے [اثنی عشری شیعوں کے پاس] موجودہ صحیفے کو صحیفہ كاملہ کہا گیا ہے۔ (15)
ج) صحیفہ کی شرحیں
مرحوم علامہ «شیخ آقا بزرگ تہرانی » كتاب «الذریعة الی تصانیف الشیعة» میں تراجم کے علاوہ صحیفہ سجادیہ کے پچاس شرحوں کا تعارف کرایا ہے۔ (16)
ان شروح کے سوا ماضی اور حال کے بہت سے علماء نے اس کے متعدد تراجم کئے ہیں (17)، اور یہاں ان میں سے بعض شرحوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
1۔ «الازھار اللطیفة فی شرح مفردات الصحیفة »، تألیف سید علامہ محمد رضا اعرجی حسینی۔
2۔ شرح میرزا محمد مشہدی جمال الدین طوسی صاحب دقائق التنزیل۔
3۔ شرح محمد علی بن محمد نصیر چہاردہی رشتی (متوفی 1334)، صاحب كتاب «شرح الوقت و القبلة »۔
4۔ شرح سید افصح الدین محمد شیرازی۔
5۔ شرح مولا تاج الدین المعروف (تاجا)۔
6۔ شرح مفتی، میر محمد عباس جزائری (متوفی 1306)۔
7۔ شرح مولی حبیب اللہ كاشانی۔
8۔ شرح ابن مفتاح ابوالحسن عبداللہ بن ابی القاسم بن مفتاح الزیدی الیمنی۔
9۔ شرح مولی خلیل قزوینی۔
10۔ شرح آقا ہادی ابن مولا صالح مازندرانی۔
11۔ شرح مولا محمد طاہر بن حسین شیرازی۔
12۔ تیرہویں صدی ہجری کے زیدی عالم دین سیدمحسن بن قاسم بن اسحاق صنعانی یمنی۔
13۔ شرح سید محسن بن احمد شامی حسنی یمنی زیدی (متوفی 1251)۔
14۔ شرح سید جمال الدین كوكبانی یمنی نژاد مقیم ہند (متوفی 1339)۔ (18)
د) مستدركات صحیفہ
بعض علماء اور دانشوران نے صحیفہ پر مستدركات لکھے ہیں۔
مستدرکات صحیفہ سے مراد امام سجاد علیہ السلام کی وہ دعائیں ہیں جو صحیفہ میں درج نہیں ہوئی ہیں۔
صحیفہ کے بعض مستدرکات:
1۔ «صحیفہ ثانیہ »، تألیف شیخ محمد بن حسن الحر العاملی، صاحب وسائل الشیعہ۔
2۔ «صحیفہ ثالثہ »، تألیف مشہور مورخ و دانائے رجال معروف، میرزا عبداللہ افندی، صاحب كتاب ریاض العلمأ۔
3۔ «صحیفہ رابعہ »، تألیف محدث میرزا حسین نوری طبرسی۔
4۔ «صحیفہ خامسہ »، علامہ محسن امین حسینی عاملی۔
5۔ «صحیفہ سادسہ »، تألیف شیخ محمد باقر بن محمد حسن بیرجندی قائینی۔
6۔ «صحیفہ سابعہ » تألیف شیخ ہادی بن عباس آل كاشف الغطأ نجفی، صاحب كتاب المستدرك۔
7۔ «صحیفہ ثامنہ »، تألیف حاج میرزا علی حسینی مرعشی شہرستانی حائری۔
8۔ «ملحقات صحیفہ »، مؤلف : مرحوم شیخ بہائی کے نامور شاگرد «شیخ محمد، المعروف «تقی زیابادی قزوینی» انہوں ملحقات کو سنہ 1023 ہجری میں مکمل کیا ہے۔ (19)
ہ)۔ علماء کے نزدیک صحیفہ کا مقام و مرتبہ
صحیفہ کی دعائیں حسن بلاغت اور کمال فصاحت کے ساتھ ساتھ علوم الہیہ اور معارف یقینیہ کا مجموعہ ہیں جن کے سامنے انسانی عقل سرتسلیم خم کئے رہتی ہے اور عظیم ترین علماء اور دانشور خضوع کے طور پر کرنش بجالاتے ہیں۔
صحیفہ پر حقیقت بیں صاحبان دل کی ایک نگاہ سے ایک حقیقت کے چہرے سے پردے ہٹ جاتے ہیں کیونکہ صحیفہ کی عبارات خود ہی اس حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے؛ چنانچہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے بھی برتر و بالاتر ہے اور علماء اور دانشوروں نے بھی اس کی جانب شدید توجہ کی ہے اور اس کی تعریف و تحسین کے مواقع ضائع نہیں ہونے دیئے ہیں۔ کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
1۔ ابن شہر آشوب (متوفی 588 ہجری) اپنی کتاب «المناقب» میں لکھتے ہیں: «بصرہ میں ایک مرد بلیغ و ادیب کی موجودگی میں صحیفہ کاملہ کی فصاحت و شائستگی و حسن بیان کا حوالہ دیا گیا کہنے لگا: میں بھی اسی قسم کا صحیفہ املاء اور بیان کرسکتا ہوں اور خود بھی لکھ سکتا ہوں! چنانچہ قلم و قرطاس لےکر لکھنے بیٹھ گیا سرجھکائے بیٹھا رہا اور ایک جملہ بھی نہ لکھ سکا اور نہ بیان کرسکا اور شرمندگی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہؤا»۔ (20)
2۔ سنہ 1353 ہجری میں مرحوم آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ نے صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے عالم و دانشور اور «تفسیر طنطاوی» کے مؤلف «مفتی اسكندریہ» «علامہ طنطاوی کے نام «قاہرہ » روانہ کیا۔ طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواباً تحریر کیا: «یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہاء اور علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ – جو انبیاء کی میراث ہے – اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا، میں جتنا بھی اس میں غور کرتا ہوں دیکھتا ہوں کہ یہ کلام، کلام خالق سے کمتر اور کلام مخلوق سے برتر و بالاتر ہے»۔ (21)
البتہ ہمیں اس معاصر مفسر پر حیرت ہے جنہوں نے حتی اہل سنت ہے کے مصادر ومنابع تک میں غور نہیں کیا ہے؛ حالانکہ قندوزی حنفی جیسے کئی سنی علماء نے اس کتاب کے کچھ حصے اپنی تألیفات میں نقل کئے ہیں۔(22)
3۔ «میرزا ہادی مشہدی "ذاكر"» سے نقل ہؤا کہ ابن جوزی نے «خصائص الائمة » میں لکھا ہے: «اگر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نہ ہوتے، مسلمانوں کی توحید اور ان کے عقائد مکمل نہ ہوتے؛ کیونکہ جو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ اصول عقائد اور دین کے اہم فروعات ہیں مگر عقائد کی باریکیاں اور دقائق [جیسے صفات ذات و فعل، صفات کا عین ذات ہونا] ایسے مسائل ہیں جن کے سلسلے میں مسلمان امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مرہون منت اور آپ کے خوان علم و دانش کے ریزہ خوار اور شاگرد ہیں۔۔۔»،
اس کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں: «علی بن الحسین زین العابدین املاء و انشاء، خدا کے ساتھ بات کرنے اور کلام و خطاب کرنے کے کیفیت و روش کے حوالے سے مسلمانوں پر استادی کا حق رکھتے ہیں؛ انہوں نے ہمیں اپنی حاجت خدا کے سامنے رکھنے کا سلیقہ سکھایا؛ کیونکہ اگر امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو مسلمان خدا کے ساتھ بات اور مناجات کرنے اور اپنی حاجات بارگاہ قدس الہی میں پیش کرنے کی روش سے محروم رہتے؛ امام سجاد علیہ السلام نے لوگوں کو سکھایا کہ وہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح بات کریں اور بارش کی درخواست کرتے وقت کس زبان اور کس لب و لہجے میں خدا سے نزول باران کی درخواست کریں، اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح خدا سے پناہ مانگیں اور کس طرح دشمنوں کے شر کو دفع کرنے کی التجا کریں۔۔۔ (23) »
و) صحیفه کی دعاؤں پر ایک نظر
صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہاء خزانہ ہے جس میں اعتقادی، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی امور اور بعض قوانین فطرت اور احکام شرعیہ بھی بیان ہوئے ہیں۔ ہاں مگر ان سب کو دعاء اور مناجات کے سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔۔۔ [ستمگر گروہ کی حاکمیت اور دنیائے اسلام کے حالات کے پیش نظر یہی روش مناسب ترین تھی] ۔
خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات و ارتباط کے باب میں ایسی دعائیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ پڑھی جاتی ہیں جیسے دعائے عرفہ اور ماہ رمضان کی دعائے وداع؛ بعض دعائیں مہینے میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے: دعائے رؤیت ہلال؛ بعض ہفتہ وار ہیں اور بعض دعائیں ہر شب و روز کے لئے ہیں۔
ح) صحیفہ کے سمندر کا ایک قطرہ
عرض ہؤا کہ صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور اعتقادی پہلو بھی ہیں۔ امام علیہ السلام نے دعاؤں کے ضمن میں سیاسی امور – خاص طور پر امامت اور امت کی رہبری کے امور – بھی موضوع سخن بنائے ہیں:
1۔ امام سجاد علیہ السلام دعاء نمبر 20 (یعنی دعائے مكارم الاخلاق) میں فرماتے ہیں:
«خدایا! محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر درود بھیج اور مجھے ان لوگوں کے مقابل طاقت و قوت عطاکر جو مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف برہان و زبان عطا کر جو میرے ساتھ نزاع اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل فتح و کامرانی عطا فرما جو میرے ساتھ عناد و عداوت برتتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل راہ و تدبیر عطا کر جو میرے بداندیش ہیں اور میرے خلاف حیلہ گری اور مکر کاسہارا لیتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل مجھے طاقت و قدرت عطا فرما جو مجھے آزار پہنچاتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل قوت تردید عطا فرما جو میری عیب جوئی کرتے ہیں اور دشنام طرازی کرتے ہیں [تا کہ میں ان کی تہمتوں کو جھٹلا سکوں] اور دشمنوں کے خطرات کے مقابل مجھے امن و سلامتی عطا فرما۔۔۔» (24)
دعاء کا یہ حصہ در حقیقت اموی حکومت اور عبدالملک کے عُمّال، خاص طور پر مدینہ کے والی «ہشام بن اسماعیل مخزومی » کے ظلم و تشدد اور اس کی دھمکیوں کے مقابل امام علیہ السلام کی شکایت پر مشتمل ہے؛ یہی اس دعاء کا سیاسی پہلو ہے۔
2۔ صحیفہ سجادیہ کی اڑتالیسویں دعاء – جو عیدالاضحی اور روز جمعہ کی دعاء ہے – کچھ یوں ہے:
«بار خدایا! یہ مقام و منزلت [یعنی خلافت اور امت کی امامت جو نماز جمعہ اور نماز عید اور اس کے خطبات پڑھنا بھی اس عہدے سے وابستہ ہے اور امام و خلیفہ ہی کو مختص ہے] تیرے خاص جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لئے ہے اور یہ مراکز اور ادارے تیرے امناء کے لئے مخصوص ہیں؛ [جن کو تو نے مقام اعلی عطاء کیا ہے مگر [اموی خلفاء جیسے] ستمگروں اور ظالموں نے غیر حق ان پر قبضہ جما رکھا ہے اور انہیں غصب کر رکھا ہے ۔۔۔» یہاں تک کہ فرماتے ہیں: «تیرے برگزیدہ بندے اور خلفاء مغلوب و مقہور ہوچکے ہیں [ور خاموشی پر مجبور ہوچکے ہیں] جبکہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردئیے گئے ہیں؛ تیری کتاب معاشرے کے روزمرہ امور سے باہر کرکے رکھ دی گئی ہے؛ تیرے فرائض اور واجبات تحریف کا شکار ہوچکے ہیں اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سنت و سیرت ترک کردی گئی ہے۔
بارخدایا! اولین و آخرین میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کے دشمنوں اور ان کے اتباع اور پیروکاروں اور ان کے اعمال پر راضی و خوشنود ہونے والوں پر لعنت بھیج اور انہیں اپنی رحمت سے دور فرما۔۔۔۔» (25)
اس دعاء میں امام سجاد علیہ السلام صراحت کے ساتھ امامت اور امت کی رہبری کی بات کرتے ہیں جو کہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے لئے مختص ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ عہده ظالموں اور ستمگروں نے غصب کررکھا ہے اور اس طرح «بنو امیہ کی حکمرانی کی شرعی اور قانونی حیثیت کی نفی فرماتے ہیں حتی که اس دعاء میں دیگر خلفاء اولین کی مشروعیت پر بھی تنقید کرلیتے ہیں۔
3۔ دعائے عرفہ (سینتالیسویں دعاء﴾ میں فرماتے ہیں:
«پروردگارا! درود بھیج خاندان نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم﴾ کے پاک ترین افراد پر جنہیں تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کے نفاذ کے لئے منتخب کیا ہے اور انہیں تو نے اپنے علوم کے لئے خزانہ دار، اپنے دین کے لئے نگہبان، روئے زمین پر اپنا جانشین اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قراردیا ہے اور اپنی ہی مشیت سے انہیں ہر قسم کی پلیدی اور رجس سے یکبارگی کے ساتھ پاک و مطہر فرما دیا ہے۔۔۔
بارخدایا! تو نے ہر زمانے میں ایک امام کے ذریعے اپنے دین کی تائید فرمائی ہے اور اس کو تو نے اپنے بندوں کے لئے رہبر و پرچمدار اور کائنات میں مشعل ہدایت قرار دیا ہے، بعد از آں کہ تو نے اس کو غیب کے رابطے کے ذریعے اپنے آپ سے مرتبط و متصل کردیا ہے اور اپنی خوشنودی کا وسیلہ قراردیا ہے اور اس کی پیروی کو لوگوں پر واجب قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے اور خبردار کیا ہے اور تو نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اس کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کریں اور تو نے ہی مقرر فرمایا ہے کہ کوئی بھی ان سے سبقت نہ لے اور ان سے آگے نہ چلے، اور کوئی بھی ان کی پیروی میں پیچھے نہ رہے [اور ان کی حکم عدولی نہ کرے]۔۔۔»(26)
امام علیہ السلام نے اس دعاء میں رہبران الہی اور خاندان نبوت کے ائمہ کے کردار اور خاص مقام و منزلت سمیت ان کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت دقیق الفاظ اور جملات کے ذریعے اس زمانے کے حکمرانوں کی حاکمیت کی شرعی و قانونی حیثیت کو ہدف قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ حکومت کی مشروعیت [قانونی و شرعی جواز] اوند متعال کے انتخاب سے حاصل ہوتی ہے زور و طاقت کے ذریعے اور حتی که عوامی بیعت کے ذریعے نہیں۔۔۔
اس کلام مختصر کی حسن ختام کی عنوان سے سرحدوں کے محافظین کے لئے امام علیه السلام کی دعاء کے اقتباسات نقل کرتے ہیں جس میں امام علیہ السلام کی تنبیہات قابل غور ہیں:
4۔ ستائیسویں دعاء میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
بار خدایا! محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم﴾ اور آپ کی آل پاک پر درود و رحمت بھیج اور اپنی عزت کے صدقے مسلمين کی سرحدوں کو ناقابل تسخیر بنا اور اپنی قدرت و طاقت کے ذریعے سرحدی محافظین کو تقویت پہنچادے اور قوی بنا اور ان کے عطایا کو اپنی توانگری اور بے نیازی کے صدقے دو چند کردے۔
بارالہا! محمد و آل محمد پر درود بھیج اور سرحدوں کے محافظین کی تعداد میں اضافہ فرما ان کے ہتھیاروں کو مؤثر، ان کی شمشیروں کو تیز اور بُرّان قرار دے، ان کی حدود کی حفاظت فرما اور ان کے محاذوں کے حساس نقطوں کو مستحکم فرما؛ ان کے درمیان الفت اور تعاون قرار دے اور ان کے امور کی اصلاح فرما اور ان کی مشکلات و مسائل اپنی نصرت سے حل فرما اور صبر و استقامت کے ذریعے ان کو تقویت عطا فرما اور [دشمنوں کی چالوں اور ان کی مکاریوں کے مقابلے میں] انہیں باریک بینانہ چارہ جوئیاں سکھادے؛ دشمن کے ساتھ تصادم کے دوران دنیا کی دلفریبیان ان کے دل و دماغ سے نکال دے اور مال اندوزی و دولت اندوزی کی سوچ ان کے قلب و ذہن سے دور فرما۔۔۔ اور آخرت و بہشت کا عشق ان کا ہمدم و مانوس قرار دے۔۔۔ (27) »
حوالہ جات:
1) محمد بن یعقوب كلینی، اصول كافی، (تهران، مكتبة الصدوق)، 1381 ه۔ ق، ج 1، ص 467، و شیخ مفید، الارشاد، (قم، مكتبة بصیرتی)، ص 256۔
2) سید محمد رضا حسینی جلالی، تدوین السنه الشریفه، (مكتب الاعلام الاسلامی، قم، 1418ق، ص 151)۔
3) علی بن شعبه، تحف العقول، (بیروت، مؤسسة الاعلمی، 1394ق)، ص 255۔
4) ابوالعباس نجاشی، رجال النجاشی، (قم، مكتبة الداوری)، ص 116۔
5) الكافی، (دارالكتب الاسلامیه، 1366)، ج 8، ص 17۔
6) رجال النجاشی، ص 157۔
7) رجال النجاشی، ص 115 - 116۔
8) آقا بزرگ تهرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، (تهران، المكتبة الاسلامیه)، ج 15، ص 18 - 19۔
9) صحیفہ سجادیہ، ترجمه سید صدرالدین بلاغی، با مقدمه ای از آیت الله مرعشی نجفی، (تهران، دارالكتب الاسلامیه)، ص 9 مقدمہ۔
10) ر۔ ك: سلیمان بن ابراهیم قندوزی، ینابیع المودة، (نجف، مكتبۃ الحیدریۃ، 1384 ه۔ 1965 م) ج 1 - 2، ص 599۔
11) مقدمه آیت الله مرعشی بر صحیفه سجادیہ، (وہای مأخذ)، ص 8 - 9، مقدمه۔ 12) وہی مأخذ، ص 27 - 29 بحارالانوار ج102 صفحه 114 و 115۔
13) الذریعه، وہی مأخذ، ج 15، ص 18 - 19۔
14) ینابیع المودة (وہی)، ص 599۔
15) مقدمه آیت الله مرعشی نجفی بر صحیفه، (وہی)، ص 46 مقدمه۔
16) الذریعه، (وہی)، ج 3، ص 345 - 359۔
17) جییسے ترجمه الهی قمشه ای، فیض الاسلام، ابوالحسن شعرانی، محمد آیتی، و ترجمه سید احمد فهری و حسین انصاریان و۔۔۔۔
18) وہی، ص 345 - 359 و ر۔ ك: مقدمه آیت الله مرعشی نجفی، (وہی) ص 33 - 35 مقدمه۔
19) وہی، ص 41 - 43۔
20) وہی، ص 13 مقدمه۔
21) وہی، ص 37 مقدمه، و ر۔ ك: مهدی پیشوایی، سیره پیشوایان، (قم، مؤسسه امام صادق علیه السلام)، ص 270 - 271۔
22) ینابیع المودة، (همان)، ص 599 - 630۔
23) مقدمه آیت الله مرعشی بر صحیفه، (وہی)، ص 43 - 45۔
24) صحیفه سجادیه، (وہی)، ص 102 - 103۔
25) وہی، ص 281 - 282۔
26) وہی، ص 254 - 256۔
27) وہی، ص 40 - 41، دعائے 41۔
source : http://www.ahl-ul-bayt.org