" غدیر " ایک اسلامی موضوع ہے جو صرف شیعوں سے تعلق نہیں رکھتا۔ تاریخ اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) نے ایک دن ایک بات کہی اور ایک عمل انجام دیا ہے یہ بات اور یہ عمل کئی پہلوؤں کا حامل ہے اس میں کئی سبق آموز مطالب پائے جاتے ہیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ " غدیر" اور " حدیث غدیر" سے صرف شیعوں کو فائدہ اٹھانے کا حق ہے یا وہ مالامال مطالب جو نبی اکرم(ص) کے اس کلام شریف میں ہیں کسی خاص دور سے تعلق رکھتے ہیں کہ ان سے بقیہ مسلمان فائدہ نہ اٹھائیں ۔البتہ غدیر کے واقعے میں چونکہ امیرالمؤمنین کو امامت و ولایت کے لئے منصوب کیا گيا ہے ، شیعوں کو اس دن اور اس واقعے سے ایک گونہ زیادہ دلچسپی ہے۔۔۔جہاں تک غدیر کے اصل واقعہ کا تعلق ہے کیا اچھا ہو کہ تاریخ اسلام سے دلچسپی رکھنے والے سبھی لوگ جان لیں کہ غدیر ایک مسلمہ واقعہ ہے اس کے وقوع میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا، شیعوں نے بھی اور سنی محدثین نے بھی دوراول ، دور وسطی اور اس کے بعد کے زمانوں میں بھی تواتر سے اس واقعے کو نقل کیا ہے، وہ تمام واقعات جو پیغمبر اسلام (ص) کے حجۃ الوداع کے بعد دوران سفر غدیر خم میں پیش آئے ہیں ۔۔۔ بعض نے نوے ہزار ، بعض نے ایک لاکھ اور بعض نے ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوں کا مجمع لکھا ہے ، گرمی کے موسم میں جزیرۃ العرب کے رہنے والے، کہ جن میں بہت سے لوگ صحراؤں اور دیہاتوں کے رہنے والے تھے اور گرمی کے عادی تھے مگر دہکتی ہوئی گرم ریت پر کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تھی اپنی عبائیں پاؤں کے نیچے رکھے ہوئے تھے، خود اہلسنت کی روایتوں میں ملتا ہے کہ ایسے سخت حالات پیغمبر اکرم (ص) نے امیرالمؤمنین کو زمین سے اٹھایا اور لوگوں کے سامنے بلند کرنے فرمایا: " الا من کنت مولاہ فہذا علیّ مولاہ ، اللّہم و ال من والاہ و عاد من اعداہ "البتہ اس کے قبل و بعد طویل جملے ہیں لیکن اہم ترین حصہ یہی ہے جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے ولایت یعنی اسلامی حکمرانی کے مسئلے کو قانونی حیثیت سے صاف و صریح انداز میں بیان کیا ہے اور امیرالمؤمنین کا ایک ایسے ہی ( ولی و حکمراں ) کے عنوان سے تعارف کرایا ہے۔یہ بات ہمارے اہلسنت بھائیوں نے بھی اپنی دسیوں معتبر کتابوں میں نقل کی ہے جسے علامہ امینی نے اپنی کتاب ( الغدیر) میں جمع کردیا ہے۔۔۔ بنابرایں اولا" یہ " روز ولایت " ہے ثانیا" روز ولایت امیرالمؤمنین" ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے اس جملے میں " ولایت " کا مطلب کیا ہے ؟رہبر معظم فرماتے ہیں " مروجہ اسلامی اصطلاح میں حکومت کو ہی ولایت کہتے ہیں" یہ " ولایت" کس طرح کی حکومت ہے ؟ جواب میں رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں : ولایت وہ حکومت ہے جس میں حاکم ، ایک ایک فرد سے محبت پر استوار فکری، ایمانی اور جذباتی رشتہ رکھتا ہے۔ وہ حکومت جو عوام پر زبردست تھوپی گئی ہو ، وہ حکومت جو فوجی بغاوت کے ذریعے قائم ہوئی ہو ، وہ حکومت جس میں حاکم عوام کے اعتقادات کو قبول نہ کرتا ہو، وہ حکومت جس میں حکمراں عوامی جذبات و احساسات کی قدر نہ کرتا ہو ، وہ حکومت جس میں حاکم ، حتی دنیا میں رائج حکومتوں کی مانند عوام کی زبان میں خصوصی مراعات ، وسائل و امکانات اور امتیازات کا حامل ہو، یا اس کی ضروریات کی تکمیل کے لئے خصوصی علاقے وقف ہوں یہ سب " ولائی حکومت " نہیں ہوسکتی۔ ان میں " ولایت " کا مفہوم نہیں پایا جاتا ۔ولایت وہ حکومت ہے جس میں حاکم اور عوام کے تعلقات فکری ، ایمانی اور جذباتی دائروں میں محبت آمیز انسانی بنیادوں پر استوار ہوں ۔ عوام اور حکمراں عشق کے رشتوں میں جڑے ہوئے ہوں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں، پورا نظام اپنی ذمہ داریوں کا سرچشمہ خدا کو سمجھتا ہو اور خود کو خدا عبد اور بندہ خیال کرتا ہو ۔رہبر معظم فرماتے ہیں: وہ حکومت جو اسلام نے پیش کی ہے دنیا میں رائج" جمہوریاؤں " سے زیادہ عوامی ہے عوام کے دلوں ، دماغوں ، جذبوں اور مذہبی و نظریاتی ضرورتوں کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ولایت وہ حکومت ہے جو الہی بنیادوں پر عوام کی خدمت کے لئے ہے ۔ولی امر مسلمین کے الفاظ میں " مادی پہلوؤں سے بھی " ولائي حکومت خود ولی امر یا دیگر ارکان حکومت اور حکومتی اداروں کے لئے " لذیذ لقمہ " نہیں ہے اگر اسلامی حکومت کا سربراہ حکومت کے لئے ، اپنی ذات کے لئے یا اپنے مقام و منصب کے لئے کہ جس پر وہ فائز ہے، یا ہونا چاہتا ہے مادی وسائل استعمال کرے تو وہ " ولی " یا مولا نہیں ہوسکتا اور اس کی حکومت ، ولایت نہیں کہی جا سکتی ۔ اسلامی حکومت میں حاکم قانون کے لحاظ سے دوسروں کے ساتھ یکساں ہے اگرچہ اس کو حق ہے بہت سے اہم اور بڑے کام عوام ملک اور اسلام و مسلمین کے مفاد کے لئے انجام دے مگر وہ غدیر میں ولایت کا مسئلہ ایک " قانونی امر " کی حیثیت سے پیغمبر اسلام (ص) نے بیان کیا اور امیرالمؤمنین (ع) کو ایک مصداق کے عنوان سے معین کیا ہے اس سلسلے میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور مفید بھی ہیں۔۔۔ اگر آج دنیا کے مسلمان اور اسلامی ملکوں کی ملتیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو ملت اسلامیہ کی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور مفید بھی ہیں ۔۔۔ اگر آج دنیا کے مسلمان اور اسلامی ملکوں کی ملتیں اسلامی ولایت کا نعرہ لگائیں تو ملت اسلامیہ کی بہت سی بند راہیں کھل جائیں گی اور اسلامی ملکوں کی بہت سی مشکلیں حل ہوجائیں گي ۔بعض ممالک جبر و استبداد اور ڈکٹیٹرشپ سے دوچار ہیں، بعض بدعنوانی کا شکار ہیں ، بعض کمزور ہیں ، بعض بیگانوں کے ایجنٹ ہیں اب اگر حقیقی معنی میں اسلامی حکومت یعنی یہی " ولائي حکومت " مسلمانوں کے درمیان ایک " نعرے" کی شکل اختیار کرلے تو ان کی ناتوانی کا علاج ہوجائے گا۔اقتصاد کا بھی علاج ہوجائے گا، دوسروں کی غلامی ختم ہوجائے گی اور ڈکٹیٹرشپ کا مرض بھی دور ہوجائے گا ۔ بنابراین پرچم ولایت پرچم اسلام ہے، میں تمام مسلمان بھائیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ غدیر کے موضوع کو اس زاویۂ نظر سے دیکھیں ۔ اور برادران اہلسنت بھی ہماری طرح غدیر کے دن عید منائیں " ولایت کی عید" اس لئے کہ خود " اصول ولایت" کے ظہور کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے۔جیسا کہ ولایت امیرالمؤمنین (ع) کو اہمیت حاصل ہے، اور یہ ولایت ہمارے اور اہلسنت کے درمیان مشترک ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں بھی میرا یہی خیال رہا ہے کہ اب شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلافات ختم ہوجانا چاہئے دونوں مشترکات پر توجہ دیں اور دونوں میں مشترک ایک " مسئلہ ولایت " بھی ہے ۔ آج دنیا بڑی کوششوں میں ہے کہ دونوں میں اختلاف پیدا کرے۔ یقینا" جو لوگ فکر وتجزیے کی صلاحیت رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ سامراج اس سے فائدہ اٹھارہا ہے وہ ایران کو اسلامی ملکوں کے " مجموعے سے الگ اور ایران کے اسلامی انقلاب کو ایران میں محدود کردینے کے درپے ہے ، ایران کا خوف دوسرے ملکوں کے دلوں میں پیدا کردینا چاہتے ہیں تا کہ دوسری قومیں ملت ایران سے سبق اور جذبہ حاصل نہ کرنے پائيں ۔ہم کو بھی بالکل اس کے خلاف عمل کرنا چاہئے جو بھی، سنیوں کی آبادی میں رہتا ہو یا شیعوں کی، دونوں کے درمیان دوستانہ تعلقات ہم دلی اور یکجہتی میں مدد کرے اس نے گویا اسلام اور انقلاب کے مفاد اور ملت اسلامیہ کے مقاصد کے لئے کام کیا ہے۔ مجھے خبر ہے بعض ، دوسروں کے اہداف و مقاصد کی تکمیل کرنے والی تجور یوں میں پیسے انڈیل رہے ہیں اور اختلاف کو ہوا دینے کے لئے خرچ کررہے ہیں خاص طور پر شیعوں کے خلاف، شیعہ عقائد اور شیعہ تاریخ کے خلاف کتابیں لکھوارہے ہیں کہ اسلامی دنیا میں تقسیم کریں، کیا یہ لوگ مذہب تسنن کے دوست ہیں جی نہیں یہ لوگ چاہتے ہیں نہ سنی باقی رہیں نہ شیعہ، یہ نہ شیعوں کے دوست ہیں نہ سنیوں کے، آج چونکہ پرچم انقلاب شیعوں کے ہاتھ میں ہے یہ لوگ شیعوں کے خلاف اگل رہے ہیں اور ان سے پر سرپیکار ہیں تا کہ اسلام کی سیاسی حکمرانی دوسری قوموں تک نہ پہنچے۔ کسی کو اس خیانت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ کوئی وہ کام نہ کرے جو سامراج چاہتا ہے وہ چاہتا ہے مسلمانوں میں جدائی اور تفرقہ ایجاد کرے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شیعہ سنی ہوجائیں یا سنی شیعہ ہوجائیں یا اپنی قوت و توانائي کے مطابق اپنے عقائد کی راہ میں علمی کام نہ کریں، علمی کام بے حد مفید ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ، علمی ماحول میں علمی کتابیں لکھئے مگر وہ بھی نامناسب لب و لہجے میں نہ ہوں، اگر کوئی اپنی فکر و منطق ثابت کرسکتا ہے تو کرے ہم میں سے کسی کو اس کے کام میں جارح ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کوئی اپنی بات ، عمل یا طورطریقوں سے اختلاف پھیلائے تو ہم سمجھتے ہیں وہ دشمن کا آلۂ کار ہے ۔رہبر انقلاب اسلامی نے ولایت کے پرچم کو قومی یکجہتی کا پرچم قراردیا اور فرمایا: " اگر ڈیڑھ ارب کی آبادی اپنے بنیادی مسائل میں متحد ہوجائے تو آپ دیکھیں گے کہ کیسی عظیم دنیا وجود میں آتی ہے .
source : www.abna.ir