وسوسئہ ابليس اور آدم كے جنت سے نكلنے كے حكم جيسے واقعات كے بعد آدم متوجہ ہوئے كہ واقعاً انہوں نے اپنے اوپر ظلم كيا ہے اور اس اطمينان بخش اور نعمتوں سے مالا مال جنت سے شيطانى فريب كى وجہ سے نكلنا پڑا اور اب زحمت مشقت سے بھرى ہوئي زمين ميں رہيں گے اس وقت آدم اپنى غلطى كى تلافى كى فكر ميں پڑے اور مكمل جان ودل سے پروردگار كى طرف متوجہ ہوئے ايسى توجہ جو ندامت وحسرت كا ايك پہاڑساتھ لئے ہوئے تھى اس وقت خداكا لطف وكرم بھى ان كى مدد كے لئے آگے بڑھا اورجيسا كہ قرآن ميں خدا وندعالم كہتا ہے:
'' آدم نے اپنے پروردگار سے كچھ كلمات حاصل كئے جو بہت مو ثر اور انقلاب خيز تھے ،ان كے ساتھ توبہ كى خدا نے بھى ان كى توبہ قبول كرلى كيونكہ وہ تواب والرّحيم ہے ''_(1)
يہ صحيح ہے كہ حضرت آدم نے حقيقت ميں كوئي فعل حرا م انجام نہيں ديا تھا ليكن يہى ترك اولى ان كےلئے نافرمانى شمار ہوتا ہے، حضرت ادم فوراً اپنى كيفيت وحالت كى طرف متوجہ ہوئے اوراپنے پروردگار كى طرف پلٹے _
بہرحال جو كچھ نہيں ہونا چاہئے تھايا ہونا چاہئے تھا وہ ہو اور باوجود يكہ آدم كى توبہ قبول ہوگئي ليكن اس كا اثروضعى يعنى زمين كى طرف اترنايہ متغير نہ ہوا _
(1)سورہ بقرہ ايت 37
source : http://www.maaref-foundation.com