اہل اسلام کے اس دور ترقی اور موجودہ تہذیب یورپ کے درمیان جو اصولی اور بنیادی فرق معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان کی ترقی کی بنا خداپرستی اور اطاعات خداوندی پر رکھی گئی تھی اور موجودہ تہذیب وترقیات کی تہ میں مادہ پرستی، شکم پروری، اور اطاعت نفس کارفرما ہے، ان کا منتہائے مقصد رضائے الٰہی اور خدمت خلق تھا، وہ دنیاوی طاقتوں کی تسخیر احکام الٰہی اور قوانین قرآن کے ماتحت کرتے تھے، وہ کائنات کے ہر ذرہ میں، اور ہر ذرہ کی کائنات میں آیاتِ الٰہیہ کا سراغ لگاتے تھے، انھوں نے دنیا یا دنیا کی کسی چیز کو مقصود بالذات نہیں بنایا، ان کی حکومت ودولت، ان کا جاہ وجلال، ان کے علوم وفنون اسباب وذرائع تھے معرفت کردگار اور عبادت پرودرگار کے بخلاف اس کے مغربی تہذیب وتمدن کی بنیاد چونکہ مادہ پرستی پر رکھی گئی تھی، اس لئے الحاد ودہریت افراد جماعت کے رگ وپے میں سرائت کرگئی ہے، اس قسم کی تہذیب کا لازمی اور قدرتی نتیجہ قوانین فطرت سے جنگ، خالق ومالک سے بغاوت اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ مسلمان جب تک اسلام کی صاف اور سیدھی راہ پر چلتے رہے یعنی احکام الٰہی اور تعلیمات نبوی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے رکھا اس وقت تک ظاہری ومعنوی ہر طرح کی سربلندیوں اور سرافرازیوں سے خود بھی مالامال ہوتے رہے، اور نوع انسان بھی ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہوتی رہی، جب انھوں نے دین کا دامن چھوڑا تو فضل الٰہی نے ان کا ساتھ چھوڑا، برکتوں اور عزتوں نے ان سے منہ موڑا، اور ان کے علوم وفنون، ان کی زبردست طاقتیں، اور فلک بوس عمارتیں، ان کے جاہ وجلال اور ان کے مال ومنال کچھ کام نہ آئے، ان سے چھین لئے گئے۔
مذکورہ بالا موازنہ سے اہم نتیجہ یہ ہاتھ آیا کہ مسلمانوں کو دین کے بغیر نہ دولت وثروت سرنگوں ہونے سے بچاسکتی ہے، نہ طاقت وحکومت، نہ دین کے ہوتے ہوئے فقر وفاقہ انھیں سربلند ہونے سے روک سکتے ہیں، نہ بے سروسامانی وبے بسی، نہ ہی اکثریت واقلیت کا مسئلہ ان کی راہ میں حائل ہوسکتا ہے۔
بالفاظ دیگر مسلمانوں کے لئے دارین کی فلاح وبہبود گی، کامیابی وکامرانی کی اگر کوئی چیز حقیقی ضامن اور اصلی ذریعہ بن سکتی ہے تو وہ صرف اسلام ہے، جو نہ صرف مسلمانوں ہی کیلئے بلکہ ان کے ذریعہ ساری انسانیت کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین رہبر اور مکمل دستور حیات بننے کی صلاحیت رکھتا ہے جیساکہ ہر ملک ومذہب کے ہر زمان و ہر زبان کے بڑے بڑے نامور اور انصاف پسند مدبروں اور موٴرخوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، اور آئے دن کرتے رہتے ہیں، اقوام عالم کی ممتاز ہستیاں اسلام کی زندہ وجاوید تعلیمات کو فطرت انسانی کے مطابق بتاتی رہیں، اور جس ایمان افروز انداز میں اسلام کے اصولوں کو خراج تحسین ادا کرتی رہی ہیں ان سے کتابوں کی کتابیں بھری پڑی ہیں، مثال کے طور پر یہاں چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں، ممتاز روسی فیلسوف کاؤنٹ ٹالسٹائی اپنی کتاب "دی لائٹ آف ریلیجن" میں ایک جگہ رقمطراز ہے۔
"قرآن مسلمانوں کی ایک مذہبی کتاب ہے، جس کی نسبت ان کا یہ خیال ہے کہ اس کو خدا نے نازل کیا ہے، یہ کتاب عالمِ انسانی کی رہنمائی کے لئے ایک بہترین رہبر ہے، اس میں تہذیب ہے شائستگی ہے، تمدن ہے، معاشرت ہے، اور اخلاقی اصلاح کے لئے ہدایت ہے،اگر صرف یہی کتاب دنیا کے سامنے ہوتی اور کوئی ریفارمر (مصلح) پیدا نہ ہوتا تو یہ عالم انسانی کی رہنمائی کے لئے کافی تھی، ان فائدوں کے ساتھ ہی جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہ کتاب ایسے وقت میں دنیاکے سامنے پیش کی گئی جبکہ ہر طرف آتش فساد کے شرارے بلند تھے، خون ریزی اور قتل وغارتگری کا دور دورہ تھا، اور فحش کاری عام تھی، توہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی کہ اس مقدس کتاب نے معجزانہ طور پر ان تمام گمراہیوں کا خاتمہ کردیا۔"
یہ حیرت دو چند ہوجاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک نبی امّی نے عرب جیسی جاہل مطلق قوم کو زمین کے تہ خانوں سے نکال کر فلک الافلاک پر پہنچادیا، عرب کے خانہ بدوش چرواہوں کے سرپر دنیا کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا، اور یاد رہے کہ یہ عظیم الشان انقلاب کل ۲۳ سال کی مختصر سی مدت میں کردکھایا، اور ان ہی قرآنی تعلیمات کے زیراثر عالم اسلام میں ایسی جلیل القدر شخصیتیں اور الوالعزم ہستیاں رونما ہوئیں کہ دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایسی عدیم النظیر مثالیں پیش کی ہیں نہ قیامت تک پیش کرسکتی ہے۔ عرب کے ریگستان سے نکل کر عرب کے شتربان دیکھتے ہی دیکھتے اقصائے عالم میں پھیل گئے،اور جہاں کہیں پہنچے وہاں قرآن کے نور ہدایت اور علم وحکمت سے اس خطہ کو اوراس آبادی کو منور کردیا، علوم وفنون کی بڑی بڑی درسگاہیں قائم کیں، بڑے بڑے متمدن شہر آباد کئے، جن کی ترقی وعروج کی یہ شان تھی کہ آج جس طرح طلبہ ممالک یورپ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے ہیں کسی زمانے میں ممالک یورپ سے بلاد اسلامیہ کی طرف علم وحکمت کے موتیوں سے اپنے دامن مراد بھرنے کے لئے آتے تھے۔
مسٹر اسٹینلی لین پول اپنی تصنیف "گارڈ نس آف ہولی قرآن" میں کس بصیرت افروز اور فصیح انداز میں اظہارضمیر کررہے ہیں:
"قرآن کو حضرت محمد (ص) نے ایسے نازک وقت میں دنیا کے سامنے پیش فرمایا جبکہ ہر طرف تاریکی وجہالت کی حکمرانی تھی، اخلاق انسانی کا جنازہ نکل چکا تھا، اور بت پرستی کا ہرطرف زور تھا، قرآن نے ان تمام گمراہیوں کو مٹایا، جو دنیا پر کئی صدیوں سے چھائی ہوئی تھیں، قرآن نے دنیا کو اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی، دینیات کے اصول اور علوم وحقائق سکھائے، ظالموں کو رحم دل اور وحشیوں کو پرہیزگار بنایا، اگر یہ کتاب شائع نہ ہوتی تو انسانی اخلاق تباہ ہوجاتے،اور دنیا کے باشندے برائے نام ہی انسان رہ جاتے۔"
غیرقوموں کے مفکرین دین اسلام کے گہرے اور سنجیدہ مطالعہ کے بعد مسلمانوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ خدارا وہ اسلامی اصولوں کے آئینہ دار بن کر زندگی کے میدان میں آئیں،اور بے چین وپریشان حال انسانیت کے لئے عالمگیر امن وسکون کا، راست بازی وصداقت کا، اور اخلاص وہمدردی کا خدائی پیغام پہنچائیں۔
ہندوستان کے ایک مایہ ناز اور صلح جو سپوت مسٹر جے پرکاش نرائن کس یقین اور درد بھرے انداز میں فرماتے ہیں:
"اگر آج بھی دنیا بھر کے مسلمان غفلت کے پردے چاک کرکے کھلے میدان میں آئیں اور اسلام کے اصولوں پر عمل کریں تو ساری دنیا کا مذہب اسلام ہوسکتا ہے، صحرائے عرب میں جو ہیرا چمکا تھا اس نے نگاہوں کو خیرہ کردیا تھا، آج اس کے چمکتے دمکتے اصولوں پر گرد وغبار جم گیا ہے اگر اس گرد وغبار کو دور کردیا جائے تو وہ اپنی چمک سے سارے عالم کو مسحور کرسکتا ہے، اور ساری دنیا اس کے سامنے اپنی آنکھیں بچھاسکتی ہے۔"
اور وہ حقیقی اسلام جس کی آج ساری دنیا متلاشی اور محتاج ہے وہ اگر کہیں موجود ہے تو قرآن کریم میں، احادیث نبوی(ص) اور سرورکائنات کی سیرت طیبہ میں، لہٰذا اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان قرآن کریم کو سمجھیں، اور اس پر عمل کریں، احادیث نبویہ کا بغور مطالعہ کریں، سیرت طیبہ سے مستفیض ہوں ۔
source : http://rizvia.net