انّما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطہرکم تطہیراً [١]
''خدا یہ چاہتا ہے کہ اے اہل بیت رسول !تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔''
تفسیر آیہ:
ابن ابی شیبہ، احمد، ابن جریر، ابن المنذر ،ابن ابی حاتم طبرانی ،حاکم اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں واثلہ ابن الاسقع سے روایت کی ہے،انہوں نے کہا:
جاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الیٰ فاطمۃ (ع) ومعہ حسن (ع)و حسین (ع) و علی (ع) حتیٰ دخل فادنیٰ علیاً و فاطمۃ فاجلسھما بین یدیہ و اجلس حسناً وحسیناً کل واحد منھما علیٰ فخذہ ثم لفّ علیہم ثوبہ وانا مستندیرہم ثم تلا ہٰذہ الآیۃ :انما یرید اللہ.....[٢]
پیغمبراسلام (ص) حسنین(ع)اور حضرت علی -کے ہمراہ حضرت فاطمہ زہرا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضرت (ص)نے گھر میں داخل ہونے کے بعد حضرت زہرا = اور حضرت علی - کو بلا کراپنے قریب بٹھایا اور حسن - و حسین- میں سے ہر ایک کو اپنے زانوئے مبارک پر بٹھایا پھر سب پر ایک چادر اوڑھائی اس کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
دور حاضرعلم و معرفت کے حوالے سے ترقی و پیشرفت کا دور ہے،لہٰذا پڑھے لکھے لوگوں کو چاہئے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے مفسرین کی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں ، کیونکہ اہل بیت کی معرفت،ان سے دوستی رکھنا ہر بشر کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا اہل سنت کی تفسیروں میں اس آیت کریمہ کی شان نزول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :
پیغمبر اسلام (ص) ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے کہ اتنے میں پیغمبر اکرم (ص) نے پنجتن پاک پر ایک بڑی چادر اوڑھا دی،پھر آ پ ؐنے اس آیت کی تلاوت فرمائی، ام سلمہ اؑم المومنین کی حیثیت سے ان کے ساتھ چادر میں جانے کی درخوا ست کرنے لگیں توپیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا تو نیکی پر ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔
پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے خدا ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔
آنحضرت (ص) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد چالیس دن تک نماز کے اوقات میں اہل بیت سے سفارش کرتے رہے کہ اے اہل بیت نماز کا وقت ہے،نماز کی حفاظت کرو۔[3]
نیز ابن جریر ،حاکم اور ابن مردویہ نے سعد -سے روایت کی ہے:
قال نزل علیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الوحی فادخل علیاً و فاطمۃ و ابنیھما تحت ثوبہ قال اللہم ہٰؤلآء اہلی و اہل بیتی[4]
سعد -نے کہا:جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر وحی[یعنی آیت کریمہ]نازل ہوئی تو آپنے حضرت علی -، فاطمہ = اور ان کے بیٹوں [حسن- و حسین-] کو کسائ[چادر]کے اندر داخل کیا،پھر خدا سے دعا کی :پروردگارا!یہ میرے گھر والے ہیں،یہ میرے اہل بیت ہیں،ان کو ہر برائی سے دور رکھ۔اس حدیث کے آخر سے ایک جملے کو حذف کیا گیا ہے۔لہٰذا ہم نے ترجمہ کرکے اس حذف شدہ جملے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
نیز ابن جریر،ابن ابی حاتم اور طبرانی، ابوسعید الخدری -سے روایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:نزلت ہٰذہ الآیۃ فی خمسۃ فیّ،وفی علی و فی فاطمۃ و حسن وحسین انما یرید اللہ لیذہب.........[5]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کہ یہ آیت شریفہ پانچ ہستیوں کی شان میں نازل ہوئی ہے،ان میں،میں علی -،فاطمہ =، حسن -اور حسین - شامل ہیں۔
اسی طرح ابن مردویہ اور قطبیب نے ابی سعید الخدری -سے روایت کی ہے:
قال :کان یوم ام سلمۃ ام المومنین لقی اللہ علیہا فنزل جبرئیل علیہ السلام علیٰ رسول اللہ ہٰذہ الآیۃ:انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطھیراً،قال فدعا رسول اللہ بحسن وحسین و فاطمۃ و علی فضّمھم الیہ و نشر علیہم الثوب و الحجاب علیٰ ام سلمۃ مضروب ثم قال اللہم ہٰؤلآء اہل بیتی اللہم اذہب عنھم الرجس و طھرھم تطھیراً قالت ام سلمۃ فانا معھم یا نبی اللہ؟ قال: انت علیٰ مکانک و انک علیٰ خیرٍ[6]
ابی سعید الخدری -نے کہا کہ ایک دن حضرت رسول اسلام (ص) حضرت ام ّالمومنین ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے اتنے میں ''انما یرید اللہ'' کی آیت لے کر جبرئیل امین -نازل ہوئے،پیغمبر اکرم (ص)نے حسن- وحسین - اور فاطمہ = و علی - کو اپنے پاس بلالیا اور ان کے اوپر ایک چادر اوڑھادی اور حضرت ام سلمہ اور ان کے درمیان ایک محکم پردہ نصب کیا پھر آنحضرت (ص)نے فرمایا:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں،ان سے ہر برائی کو دور رکھ اور انہیں اس طرح پاک و پاکیزہ قرار دے جو پاک و پاکیزہ قرار دینے کا حق ہے۔یہ سن کر جناب ام سلمہ نے درخواست کی : اے خدا کے نبی! کیا میں ان کے ساتھ ہوجاؤں؟آنحضرت (ص)نے فرمایا :تم بہترین خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔
تحلیل
اگرچہ محققین و مفسرین نے آیت تطہیر کے بارے میں مفصل کتابیں لکھی ہیں جن میں آیت تطہیر سے متعلق مفصل گفتگو اور اس آیت پر ہونے والے اعتراضات کا جواب بھی بہتر طریقے سے دیا گیا ہے۔لیکن اہل سنت کے مفسرین نے آیت تطہیر کی شان نزول اور اس کے مصداق کو اہل بیت قرار دیا ہے۔اور اہل سنت کی کتابوں میں اس طرح کی روایات بہت زیادہ نظر آتی ہیں کہ زوجات پیغمبر (ص)میںسے ام سلمہ نے پیغمبر (ص)سے اہل بیت کے ساتھ ہونے کی کوشش کی لیکن پیغمبر (ص)نے اہل بیت کے مصداق معین کرتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم نیک خاتون ہو لیکن ان کے ساتھ نہیں ہوسکتی۔جس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت اور اہل بیت رسول میں بڑا فرق ہے۔اہل بیت (ع)خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں جبکہ اہل بیت رسول میں سے جو اہل بیت (ع)کے مصداق نہیں ہے وہ حجت خدا نہیں ہے۔لہٰذا امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی، قرآن و سنت کی بالا دستی اور اسلام کی حفاظت کی خاطر فریقین کی کتابوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
نیز ترمذی نے اپنی گراں بہا کتاب اور ابن جریر،ابن المنذر اور حاکم ، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے اپنی کتابوں میں ام المومنین ام سلمہ سے روایت کی ہے:
قالت نزلت ہٰذہ الآیۃ :انما یرید اللہ...وفی البیت سبعۃ:جبرئیل و میکائیل علیہما السلام و علی (ع) و فاطمۃ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) وانا علیٰ باب البیت قلت یا رسو ل اللہ الست من اہل البیت قال انک علیٰ خیر انک من ازواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم[7]
ام سلمہ نے کہا کہ'' انمایرید اللہ'' کی آیت میرے گھر میں اس وقت نازل ہوئی جس وقت گھر میں سات افراد موجود تھے:جبرائیل -،میکائیل - علی -فاطمہ =،حسین - ، حسین - اوررسول گرامی اسلام (ص) تشریف فرما تھے۔جبکہ میں گھر کے دروازے پر تھی،میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا یا رسول اللہ(ص)! کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپنے فرمایا : تم پیغمبر اکرم (ص)کی ازواج میں سے ایک بہترین خاتون ہو۔
اہم نکات:
زآیت تطہیر سے اہل بیت کی عصمت کے ساتھ ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے دور ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
ز نیز اہل بیت کائنات میں خدا کی طرف سے امین ترین ہستیاں ہونے کا علم ہوتا ہے۔
ز اگر ہم اہل سنت کی قدیم ترین تفاسیر اورکتب احادیث کا مطالعہ کریں اور ان میں منقول روایات کے بارے میں غور کریں تو بہت سارے نکات اہل بیت کے بارے میں واضح ہوجاتے ہیں۔
اہل بیت کا معنی،ٰ لغت کے حوالے سے وسیع اور عام ہے،جس میں ہر وہ فرد داخل ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ان کے عیال کی حیثیت سے زندگی گذارتا تھا۔لیکن قرآن مجیدجو آیات اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرتی ہیں ان میں یقیناً سارے اہل بیت داخل نہیں ہیں بلکہ قرآن مجیدکی ان آیات کے مصداق صرف اہل بیت اطہار ہیں کیونکہ پیغمبر اسلام (ص)نے کئی مقامات پران آیات کے مصادیق کو بیان فرمایا ہے۔یعنی آیت مباہلہ[8]
،آیت تطہیر[9]،آیت مودّت[10]،آیت اہل الذکر[11]، وغیرہ کے نزول کے وقت ان کے مصادیق اہل بیت کو معین فرما کر کہا:اے اللہ!ہر نبی کے اہل بیت ہوا کرتے ہیں،لیکن میرے اہل بیت یہی ہستیاں ہیں ان کو ہر قسم کی پلیدی اور شر سے بچائے رکھ۔کبھی اہل بیت کو معین کرکے ان پر چادر ڈال دیتے تھے جس کا فلسفہ یہ تھا کہ دنیا والے اہل بیت (ع)میںازواج رسول (ص) اور دیگر ذرّیت کو شامل کرکے آیت تطہیر اور آیت مباہلہ جیسی آیات ان پر تطبیق نہ کرسکیں۔
لہٰذااگر ہم سیرت طیبہ رسول (ص) کا بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ہمارے زمانے میں پیش آنے والے شبہات اور توہمات کا کس اچھے انداز میں جواب دیا ہے۔غور کیجئے!اہل بیت کو کساء کے نیچے داخل کرنے کا مطلب کیا تھا؟یہ جواب تھا اس شبہہ کا جو آج پیش آرہاہے یعنی ازواج رسول (ص)کے بھی اہل بیت میں داخل ہونے کے اس توہم کا عملی جواب تھا۔سادہ لفظوں میں کہا جائے کہ رسول اسلام (ص)یہ بتانا چاہتے تھے کہ دنیا والو! خدا نے جن افراد سے ''رجس ''کو دور رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ مخصوص افراد ہیں،اس خام خیالی میں نہ رہو کہ جو بھی اہل بیت رسول (ص) کہلائے وہ اس آیت کے مصادیق ہیں،ایسا ہرگز نہیں۔
اگر سنن ترمذی، در منثور ، شواہد التنزیل و صواعق محرقہ جیسی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بہت سارے شبہات کا جواب بآسانی مل سکتا ہے۔اور اہل بیت ؑ[کہ جن کی عظمت کو خدا نے''من جاء بالحسنۃ''،آیت مباہلہ،یا''فتلقیٰ آدم من ربّہ کلمات'' یا''کونوا مع الصادقین'' یا ''مع الشہدائ'' یا ''اطیعوا''کی شکل میں ذکر کیا ہے]کی کمیت اور تعدادبخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ حضرت عائشہ اورحضرت ام سلمہ ام المومنین ،ابی سعید الخدری -سے،وہ انس ابن مالک اور برابن عاذب اور جابر بن عبد اللہ - وغیرہ سے روایت نقل کرتے ہیں:
''انس بن مالک نے کہا:جس وقت آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) چھ ماہ تک نماز صبح کے وقت حضرت زہرا =کے گھر تشریف لاتے رہے اور آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے رہے،اورساتھ ہی فرماتے تھے:اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔اے میرے اہل بیت ! نماز کا وقت ہوچکا ہے نماز کی حفاظت کرو۔[12]
ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حقیقی اسلام کے محافظ اہل بیت ہی ہیں،چونکہ پیغمبر اکرم (ص)کا چھ ماہ تک مسلسل حضرت زہراء = کے گھر پر تشریف لے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقی محافظ وہی ہستیاں ہیں۔
نیز جابر -سے یہ روایت کی گئی ہے:پیغمبر اکرم (ص)نے حضرت علی -
ئ حضرت فاطمہ زہرا =اور امام حسن -و حسین- کو اپنے قریب بلا کر ان پر ایک بڑی چادر ڈال دی،پھر فرمایا:
اللہم ہٰؤلآء اہل بیتی۔
خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان کو ہر برائی سے دور رکھ اور ان کو اچھی طرح پاک و پاکیزہ قرار دے۔[13]
پنجتن پاک کو الگ کرکے ایک چادر میں داخل کرنے کا فلسفہ اور حقیقت یہ ہے کہ آنے والے لوگ یہ توہم نہ کریں کہ اہل بیت میں دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔
نیز حضرت عائشہ سے روایت ہے:
قالت عائشہ:خرج رسول اللہ غداۃً و علیہ مرط رحل من شعر اسود فجاء الحسن بن علی فادخلہ ثم جاء الحسین فدخل
معہ ثم جائت فاطمۃ فادخلہا ثم جاء علی فادخلہ ثم قال:انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس......''[14]
حضرت عائشہ نے کہا:ایک دن پیغمبر اکرم (ص) اپنے دوش پر ایک اون سے بنی ہوئی کالی چادررکھ کرگھرسے نکلے اور حسن- اور حسین- اور حضرت فاطمہ= اور حضرت علی - کو اپنے پاس بلایا جب وہ حضرات آپکے قریب آگئے تو انہیں ایک چادر کے اندر داخل کردیا اور پھر فرمایا:انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس....
اس روایت میں بھی اہل بیت کو ایک چادر میں داخل کرنے کی بات ہوئی ہے۔
پس بخوبی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کو الگ کرکے رسول اسلام (ص) یہ بتلا گئے کہ دنیا والو ان کی طہارت اور پاکیزگی پر شک نہ کرنا،کیونکہ یہ اہل بیت رسول ہیں اور ان سے ہر پلیدی کو دور رکھا گیا ہے،اور ان کی تعداد میں بھی کسی کو شک کرنے یا کسی غیر کو داخل کرکے تعدادبڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
شیعہئ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت میں پورے چودہ معصومین شامل ہیں،اس کی دلیل وہ روایات ہیں جن کو خود اہل سنت کے علماء نے رسول اسلام (ص)سے نقل کیا ہے اور ان کو ہم انشاء اللہ بعد میں سنت کی بحث میں بیان کرینگے۔
پیغمبر اکرم (ص)کا اہل بیت کو ایک جگہ جمع کرکے ان پر چادر ڈالنے اور خدا سے دعا مانگنے کا مقصد و فلسفہ یہی تھا کہ لوگ کتاب و سنت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں۔
[١]۔الاحزاب /٣٣
[٢]۔در منثورج٦،ص٦٠٥
[3]شواہد التنزیل ج٢ص٢٠حدیث٦٥٥
[4]۔در منثور ج٦،ص٦٠٥
[5]۔در منثور ج٦،ص٦٠٤۔
[6]۔در منثور ج٦،ص٦٠٤۔
[7]۔در منثور ج٦،ص ٦٠٤وسنن ترمذی،ج٢ص١١٣۔
[8]آل عمران آیت٦١
[9]الأحزاب آیت٣٣
[10]الشوری آیت٢٣
[11]النحل آیت٤
[12]۔در منثورج٧ص٢١٤،شواہد التنزیل ج ٢ ص١٢حدیث٦٣٨
[13]۔شواہد التنزیل ج ٢ ص١٦حدیث٦٤٧
[14]۔شواہد التنزیل ج٢ ص ٣٣حدیث ٦٧٦
source : http://shiastudies.net