اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ یہ تو ساری امت کے یے ایک نمونہ و اسوہ اور دستور العمل ہے کیو نکہ
اولاََ: اس طولانی مبارزہ کے طویل زمانہ میں، جو بہت زیادہ سالوں تک جاری رہا(تقریباََ بیس سال) اور مسلمانوں نے بہت سخت اور درد ناک دن گزارے،بعض اوقات تو حاد ثات ایسے پیچیدہ ہو جاتے تھے کہ جانیں لبوں تک پہنچ جاتی تھیں اور بعض لوگوں کے افکار میں خدائی وعدوں کے بارے میںبُرے گمان پیدا ہو جاتے تھے، جیسا کہ قرآن جنگ” احزاب“ کے بارے میں فرماتا ہے:وبلغت القلوب الحناجر وتظنون باللہ الظنون:”اور دل گلے تک آ گئے اور تم اللہ کے بارے میں(نا مناسب) گمان کر نے لگے۔(احزاب۱۰
اب جب کہ کامیابی حاصل ہو گئی ہے تو وہ اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ وہ سب بد گما نیاں اور بے تا بیاں غلط تھیں، لہٰذا انہیں استغفار کر نا چا ہیئے
ثا نیاََ: انسان چا ہے جتنی بھی خدا کی حمدو ثنا کرے، پھر بھی وہ اس کے شکر کا حق ادا نہیں کر سکتا ، لہٰذا اُسے حمد و ثنا کے آخر میں اپنی تقصیر و کو تا ہی کی بناء پر” خدا کی بارگاہ میں“ استغفار کر نا چا ہیئے
ثا لثاََ: عام طور پرکا میابیوں کے بعد شیطانی وسوسے شروع ہو جاتے ہیںاور ایک طرف ” غرور“ اور دوسری طرف” تندورئی اور انتقام جوئی“ کی حالت پیدا ہو جاتی ہےلہٰذا اس موقع پر خدا کو یاد رکھنا چا ہیئے اور مسلسل استغفار کرتے رہنا چا ہیئے، تاکہ ان میں سے کوئی سی حالت بھی پیدا نہ ہو یا اگر پیدا بھی ہو تو بر طرف ہو جائے۔
رابعاََ: جیسا کہ ہم نے سورہ کے آغاز میں بیان کیا ہے اس کامیابی کا اعلان تقریباََ پیغمبر کی ما موریت کے اختتام اور آنحضرت کی عمر کے پورا ہونے اور لقائے محبوب کے لیے جانے کے اعلان کے معنی میں ہے اور یہ حالت”تسبیح و”حمد و”استغفار“ سے منا سبت رکھتی ہے اسی لیے روایات میں آیا ہے کہ اس سورہ کے نازل ہو نے کے بعدپیغمبر اکرم ا س جملہ کا بہت زیادہ تکرار فر ماتے تھے:
” سبحانک اللھم وبحمدک، اللھم اغفرلی انک انت التواب الرحیم:”خدا وندا!تو پاک و منزّہ ہے ، اور میں تیری حمد و ثنا کرتا ہوں۔ خد وندا! مجھے بخش دے کہ تو بہت ہی تو بہ کو قبو ل کرنے والا اور مہر بان ہے
source : http://urdu.makarem.ir