اے انسان غافل نہ ہواپنی موت اورقبر کویادکر
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔ترجمہ(اے محبوب)فرمادیجیے اے میرے وہ بندوجنہوں نے اپنی جانوں پرزیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامیدنہ ہوجانابیشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کومعاف فرمادے گابیشک وہ بخشنے والانہایت مہربان ہے ۔ (پارہ 24رکوع3)
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے توبہ کرنے کی فضیلت کوبیان فرمایااوریہ فرمایاجومجھ سے معافی مانگے میں اسکے گناہ معاف فرمادیتاہوں اورتم جوکچھ کرتے ہومیں دیکھ رہاہوں ۔
ہمارے آقاعلیہ الصَّلوٰة والسّلام کی اس دنیاپرتشریف آوری سے پہلے بنی اسرائیل کے لوگوں کے لئے بڑے سخت احکامات ہوتے تھے ان کااگر کپڑاپلیدہوجاتاتواس پلیدجگہ کوکاٹناپڑتاتھا۔اگرجسم کاکوئی عضو پلیدہوجاتاتواس عضوکوآگ سے داغاجاتامال کاچوتھائی حصہ زکوٰة اداکی جاتی۔ اگرکوئی آدمی گناہ کرتاتوانکے ماتھے پرلکھ دیاجاتااوراس کے گھرکی چوکھٹ پرلکھ دیاجاتاکہ اس شخص نے فلاں گناہ کیاہے جس سے اس گناہ گارکی ذلت ورسوائی ہوتی تھی اورگناہ کی پاداش میں بطورسزاحلال اشیاءان پرحرام کردی جاتی تھیں ۔اس بات کاقرآن پاک گواہ ہے کہ جب انہوں نے گائے کے بچھڑے کی پرستش کی توانکی توبہ کے لئے حکم ہوا۔
ترجمہ۔اے قوم!بے شک تم نے بچھڑے کو(خدابناکراپنی جانو پرظلم کیاپس تمہیں چاہیے کہ توبہ کرواپنے خالق کے حضورتوقتل کردواپنی جانوں کو۔
انکویہ سزااپنے کئے ہوئے کی ملی کہ انہوں نے خوداپنے ہاتھوں سے ایک دوسرے کوقتل کیااوربارگاہ رب العزت سے معافی مانگی۔
قربان جاﺅں اپنے آقاعلیہ الصّلوٰة والسّلام پرجنکی جلوہ گری سے ہم گناہ گاروں پراللہ تعالیٰ نے آسانیاں پیدا فرمادیںپانی کوہمارے لئے پاک کرنیوالابنادیاہمیں کپڑایاجسم پاک کرنے کے لئے اس کوکاٹنانہیں پڑتابلکہ اس پرپانی بہالیں تووہ پاک ہوجاتاہے۔ بنی اسرائیل صرف اپنی عبادت گاہوں میں ہی عبادت کرسکتے تھے ہماری لئے پوری زمیں کومسجدبنادیاگیا۔تاکہ نبی آخرالزماں کاامتی جہاں چاہے اپنافریضہ نماز ادا کرلے مال دارپرچوتھائی حصہ نہیں بلکہ چالیسواں حصہ زکوٰة واجب قرارپائی پہلی امتیں توایک گناہ کی وجہ سے ذلیل ورسواکردی جاتیں لیکن ہم تمام امتوں کے گناہ ایک دن میں کرتے ہیں نہ ہی ہمارے ماتھے پرلکھاجاتاہے نہ ہی ہمارے گھرکی چوکھٹ پرنہ ہی ہماری شکلیں بدلی جاتی ہیں گناہ کے سبب حلال چیزیںحرام نہیں کی جاتی ہیں۔یہ جتنابھی کرم ہم پرہوانبی علیہ الصّلٰوة والسّلام کے وسیلہ سے ہواہے ۔پہلی امتیں گناہ کا ارتکاب کرتی تھیں توانکی شکلیں مسخ ہوجایاکرتی تھیں۔بنی اسرائیل نے ہفتہ کادن جومقدس دن تھااسکی بے حرمتی کی تواللہ پاک نے فرمایا۔
ترجمہ: توہم نے انہیں حکم دیاکہ پھٹکارے ہوئے بندربن جاﺅ"۔
کسی قوم پربجلیاں گریں کسی قوم پرپتھروں کی بارشیں ہوئیں تیزآندھیاں چلیں جنکی وجہ سے وہ اجڑے ہوئے کھیتوں کی طرح نیست ونابود ہوگئے کسی قوم کوپانی کے عذاب نے آگھیراجس سے وہ غرق ہوئے۔مگراب نبی کریم سے لیکرقیامت تک کوئی ایساعذاب نہیں آئے گااس لئے نہیں آئے گاکہ اللہ رب العزت نے وعدہ قرآن پاک میں فرمادیاہے ۔
ترجمہ! " اللہ پاک ان پرعذاب نہیں کریگااورجب تک تم(اے محبوب) ان میں تشریف فرماہو"
ترجمہ:اوروہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اورگناہوں سے درگزرفرماتاہے اورجانتاہے جوکچھ تم کرتے ہو۔ (پارہ 25رکوع4)
حضورکے طفیل اللہ تعالیٰ نے ہم گناہ گاروں کے لئے باب کرم کھول دیاہے ہمیں پہلی قوموں کی طرح ذلیل ورسوانہیں کیاگیاہماری بخشش کوآسان بنادیا۔ہم اللہ کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ کرلیں تووہ ہمارے گناہوں کومعاف فرمادیتاہے ۔
علماءکرام فرماتے ہیں ہرگناہ سے توبہ کرنا واجب ہے اگرگناہ کاتعلق بندے اوراللہ تعالیٰ کے درمیان ہواورکسی انسان کاحق اس سے متعلق نہ ہوتو اسکے لئے تین شرائط ہیں ۔
پہلی شرط یہ ہے وہ اس گناہ سے لاتعلق ہوجائے،دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اسکے ارتکاب پرنادم ہو،تیسری شرط یہ ہے وہ اس بات کاپختہ ارادہ کرے کہ دوبارہ کبھی اس گناہ کاارتکاب نہیں کرے گااگران تین میںسے کوئی ایک بھی شرط موجودنہ ہوئی توتوبہ درست نہیں ہوگی اگرگناہ کاتعلق کسی آدمی کے ساتھ ہوتواسکی شرائط چارہوں گی ان (مذکورہ بالا)تین شرائط (کے ہمراہ چوتھی شرط یہ ہے )کہ آدمی اس حقدارکے حق سے بری الذمہ ہویعنی اگرمال وغیرہ تھاتواسے وہ واپس کردے اوراگرحدقذف وغیرہ کامعاملہ ہوتواپنے آپکواسکے حوالے کرے یااس سے معافی مانگے اوراگرغیبت ہوتواسے بھی معاف کرائے ۔تمام گناہوں سے توبہ کرناواجب ہے اگرکوئی شخص بعض گناہوں سے توبہ کرلیتاہے تواہل حق کے نزدیک ان مخصوص گناہوں سے اسکی توبہ درست ہوگی اورباقی (گناہوںسے توبہ کرنا)اسکے ذمے باقی رہ جائے گا ۔
حضرت علی المرتضٰی شیرخدا سے منقول ہے کہ توبہ کے لئے چھ شرائط ہیں۔
گزرے ہوئے زمانے میں جتنے گناہ ہوچکے ہیں ان پرنادم ہونا،اورلوٹانے کے ساتھ ساتھ فرائض کے نقصان کوپوراکرنا،مظلوموں سے معافی مانگنا،اورنفس کواطاعت میں اسطرح پگھلاناکہ جس طرح کہ اس نے گناہوں میں اپنے آپکوپروان چڑھایااورنفس کواطاعت کاکڑوامزہ چکھانا جسطرح کہ اس بے گناہوں کی حلاوت کوچکھااورجہاں جہاں نفس نے ہنسی کی اسکے بدلے ہرجگہ پررونااورآہ وزاری کرنایہ توبہ کی چھ شرائط ہیں۔سیدناابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا"جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدافرمانے کاارادہ کیاتوایک تحریرلکھی جورب تعالیٰ کے پاس عرش کے اوپرہے کہ میری رحمت میرے غضب پرغالب ہے .
سیّدناحضرت ابوالعباس عبداللہ ابن عباس بن عبدالمطلب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا"بے شک اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اورگناہ تحریرفرمادئیے ہیں اورپھرانکوواضح کردیاہے ۔جوشخص نیکی کاارادہ کرے اوراس پرعمل نہ کرے تواللہ تعالیٰ اُسے اپنے ہاں ایک پوری نیکی نوٹ کرلیتاہے۔پھرارادہ کے ساتھ اگرعمل کرے تواسے اپنے پاس سے دس گناسے لیکرسات سوگناتک بلکہ اس سے بھی نیکیاں زیادہ لکھ لیتاہے اورجوگناہ کاارادہ کرے پھرگناہ نہ کرے تواس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے پھراگرگناہ کاارادہ کرے اورپھرگناہ کربھی لے تواسے اللہ تعالیٰ ایک گناہ لکھ لیتاہے۔(بخاری،مشکوٰة 207)
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ میں نے حضورنبی کافرمان سناکہ بے شک ہربیماری کاعلاج ہے اورگناہوں کاعلاج بخشش طلب کرناہے
حضور نے ارشادفرمایاکہ جوشخص دن میں دومرتبہ بخشش طلب نہیں کرتاتحقیق اُس نے اپنی جان پرظلم کیا۔
حضرت ابوحمزہ انس بن مالک انصاری جونبی کریم کے خادم ہیں بیان کرتے ہیں نبی کریم نے ارشادفرمایاہے "اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتاہے جواپنے اونٹ کوپالے جبکہ وہ اسے ایک جنگل میں گم کرچکاہو۔مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے جب وہ بندہ اسکی بارگاہ میں توبہ کرتاہے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتاہے جواپنی سواری پرکسی جنگل میں موجودہو اورپھروہ سواری اسے چھوڑکرچلی جائے اس سواری پراسکے کھانے اورپینے کاسامان ہواوروہ شخص اس سواری سے مایوس ہوکردرخت کے پاس آئے اوراسکے سائے میں لیٹ جائے جبکہ وہ اس سواری سے مایوس ہوچکاہو۔ابھی وہ اس حالت میں ہوکہ وہ سواری اسکے پاس کھڑی ہوتووہ اسکی لگام پکڑکرکہے خوشی کی شدت کی وجہ سے یہ کہے اے اللہ!تومیرابندہ ہے اورمیں تیراپروردگارہوں،یعنی خوشی کی شدت کی وجہ سے غلط (الفاظ)بول دے۔
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ،اے ابن آدم !جب تک تومجھ سے مانگتارہے گااورمجھ سے امیدرکھے گامیں تیری بخشش کرتارہوں گاخواہ تیرے اعمال کیسے ہوں میں پرواہ نہیں کرتا۔اے ابن آدم اگرتیرے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچ جائیں پھربھی تومجھ سے بخشش مانگے تومیں بخش دونگامجھے پرواہ نہیں اے ابن آدم!اگرتومجھ سے اس حال میں ملے کہ تیرے گناہوں سے ساری زمین بھری پڑی ہواورتونے میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرایاہوتومیں تیرے تمام کے تمام گناہ معاف کرکے تیری بخشش کرودنگا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدمصطفیٰ کی امت کوچارکرامتوں سے سرفرازفرمایاہے ۔جوکہ صرف اسی امت کوعطاہوئیںفرماتے ہیں کہ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے میری توبہ مکہ شریف میں قبول فرمائی جبکہ حضورنبی کریم کی امت کے لوگ ہرجگہ توبہ کرسکتے ہیں اوراللہ پاک انکی توبہ قبول فرماتاہے اوردوسری کرامت یہ ہے کہ میں نے لباس زیب تن کیاہواتھاجب شجرممنوعہ کے پاس گیاتومجھے بغیرلباس کے کردیاگیااورحضرت محمدکی امت ننگے ہوکرگناہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انکولباس عطافرمادیتاہے اورتیسری کرامت یہ ہے جب مجھ سے غلطی سرزدہوئی تومیرے اورمیری بیوی کے درمیان جدائی کردی گئی لیکن امت محمدیہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتی ہے مگرانکے اورانکے اہل کے درمیان جدائی نہیں کی جاتی ۔اورچوتھی کرامت یہ ہے کہ حضرت آدم نے فرمایاکہ میںنے جنت میں غلطی کی تومجھے وہاں سے نکال دیاگیا جبکہ امت محمدیہ کے لوگ جنت سے باہرگناہ کرتے ہیں لیکن جب وہ توبہ کرلیں گے تواللہ تعالیٰ انکوجنت میں داخل فرمادیگا۔
حضرت امام زندوستی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام ابومحمدعبداللہ بن فضل کویہ فرماتے ہوئے سناوہ فرماتے تھے کہ حکماءنے فرمایاکہ جس کوچارچیزیں مل جائیں وہ دوسری چارچیزوں کامستحق بن جاتاہے پہلی یہ کہ جس آدمی کودعاکرنے کی توفیق مل جائے وہ دعاکے قبول ہونے سے محروم نہیں ہوتاجیساکہ اللہ رب العزت نے فرمایا۔"مجھ سے دعاکرومیں قبول کرونگا"۔
اوردوسری یہ کہ جسکوبخشش طلب کرنے کی توفیق مل جائے وہ مغفرت سے محروم نہیں رہتاجیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے"وہ بڑامعاف فرمانے والاہے"اورتیسری یہ کہ جس کوشکرکرنے کی توفیق مل جائے وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں رہتاجیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا"اگر احسان مانوگے تومیں تمہیں اوردونگا"اورچوتھی یہ کہ جس کوتوبہ کرنے کی توفیق مل جائے وہ اس لئے توبہ کے قبول ہونے سے محروم نہیں رہتاجیسا کہ رب ذالجلال نے فرمایا"اوروہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتاہے اورگناہوں سے درگزرفرماتاہے"
حضرت عامرالروحہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی کریم کی بارگاہ اقدس میں حاضرتھے اچانک ایک شخص آیاجس پرایک کمبل تھااوراسکے ہاتھ میں کوئی چیزتھی جس پرکمبل لپیٹاہواتھااس نے آکر عرض کی یارسول اللہ میں ایک جھاڑی کے پاس سے گزراتومیں نے اس جھاڑی میں چڑیاکے بچوں کے رونے کی آوازسنی میں نے ان بچوں کوپکڑلیااوراپنے کمبل میں چھپالیااتنے میں ان بچوں کی ماں آگئی وہ میرے سرپرچکرکاٹنے لگی میں نے اسکے سامنے وہ بچے کھول دیے۔انکی والدہ ان بچوں پرگرپڑی تومیں نے ان سب کواپنے کمبل میں لپیٹ لیاوہ سب میرے پاس ہیں آپنے فرمایاتم انہیں زمین پررکھ دومیں نے انہیں رکھ دیاتوانکی ماں ان بچوں سے چمٹی رہی ۔رسول اللہ نے فرمایاکیاتم ان چوزوں کی ماں کی اپنے بچوں سے اس قدرمحبت پرتعجب کرتے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ (محمدکو) مبعوث فرمایااللہ تعالیٰ اپنے بندوں پراس سے زیادہ مہربان ہے جتنی بچوں کی ماں چوزوں پرمہربان ہے"۔اسکے بعدآقاعلیہ الصّلوٰة والسّلام نے اس صحابی سے فرمایاکہ جاﺅجس مقام سے لاﺅہووہیں پرانکوچھوڑکرآﺅ۔ (ابوداﺅد،مشکوٰة)
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ آخری شخص جوجنت میں داخل ہوگاوہ کبھی چلے گاکبھی گرے گااورکبھی اسے آگ جھلسائے گی پھروہ آدمی جب اس (آگ)سے آگے نکل جائے گاتواس کی طرف دیکھے گااورکہے گامبارک ہے وہ(ذات) جس نے مجھے تجھ سے نجات دی ۔اللہ رب العزت نے مجھے وہ کچھ عطاکیاہے وہ مجھ سے اگلے پچھلوں کوعطانہ کیاہوگاپھراسکے سامنے ایک درخت پیش کیا جائے گاوہ کہے گااے میرے رب!مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اسکاسایہ لوں اوراسکاپانی پیوںتواللہ رب العزت فرمائے گااے ابن آدم ممکن ہے کہ اگرمیں تجھے اس کے قریب کردوںتوتُومجھ سے اسکے علاوہ اوربھی طلب کرے گا۔وہ عرض کرےگااے اللہ نہیں اوراللہ پاک سے وعدہ کرے گاکہ وہ اسکے علاوہ کچھ نہ مانگے گااسکارب تعالیٰ اسے معذورجانے گاکیونکہ وہ ایسی چیزدیکھ رہاہوگاجس پرصبرنہیں کیاجاسکتا تو اللہ پاک اسے اس درخت کے پاس کردیگاوہ اسکاسایہ لے گااوراسکاپانی پیئے گا۔پھردوسرادرخت اسکے سامنے ظاہرکیاجائے گاجوپہلے سے بہترہوگا تووہ کہے گااے میرے رب !مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اسکاپانی پی لوں اوراسکاسایہ لے لوں ۔اورکہے گایااللہ میں اس کے سوااورکچھ نہ مانگوں گاتورب تعالیٰ فرمائے گااے ابن آدم کیاتونے مجھ سے وعدہ نہ کیاتھاکہ تواسکے علاوہ اورمجھ سے طلب نہ کریگاپھراللہ پاک فرمائے گاممکن ہے اگرمیں تجھے اسکے قریب کردں توتوُمجھ سے اسکے علاوہ اورطلب کرے گاوہ پھراللہ پاک سے وعدہ کریگاکہ اسکے سوااور نہ مانگے گااوراسکارب اسے معذورجانے گاکیونکہ وہ ایسی چیزدیکھے گاجس پرصبرنہیں کیاجاسکتاہے اب اسے اس درخت کے قریب کردے گاوہ اسکاسایہ لے گااسکاپانی پیئے گا پھراسکے سامنے جنت کے دروازے کے پاس سے ایک درخت ظاہرہوگاجوپہلے دونوں سے اچھاہوگاتووہ کہے گااے میرے پروردگار!اب مجھے اس درخت کے قریب کردے تاکہ میں اس درخت کاسایہ لوں اوراسکاپانی پیوں اوروہ آدمی کہے گااسکے سوامیرااللہ میں کچھ نہیں مانگوں گااللہ پاک فرمائے گااے ابن آدم!کہاتونے مجھ سے یہ وعدہ نہ کیاتھاکہ تومجھے سے اسکے سواکچھ نہ مانگے گاوہ آدمی عرض کریگاہاں میرے اللہ!یہی آخری سوال ہے اسکے علاوہ تجھ اورکچھ نہ مانگوں گااوراسکارب تعالیٰ اسے معذورسمجھے گااس لئے کہ وہ ایسی چیزدیکھے گا جس پراسے صبرنہ ہوگاتواللہ پاک اسکواسکے قریب کردے گاتووہ جنتیوں کی آوازیں سنے گاتوعرض کرے گااے رب تعالیٰ مجھے اس میں داخل فرما۔رب تعالیٰ ! فرمائے گااے ابن آدم!مجھے تجھ سے فراغت نہیں ہوتی کیاتجھے یہ بات راضی کرے گی کہ میں تجھے دنیااوردنیاکی مثل اسکے ساتھ اوردوں وہ آدمی عرض کرے گااے رب تعالیٰ تومجھ سے مذاق فرماتاہے توتورب العالمین ہے ۔
حضرت ابن مسعود ہنس پڑے پھرفرمایاتم مجھ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ میں کس چیزسے ہنس رہاہوں ؟لوگوں نے عرض کیافرمائیے آپ کس چیزسے ہنس رہے ہیں ؟آپ نے فرمایاایسے ہی رسول اللہ ہنسے تھے صحابہ کرام نے عرض کیایارسول اللہ حضورآپ کسی چیزسے ہنستے ہیں آپ نے فرمایااللہ رب العزت ہنسے گااس بات سے جووہ بندہ کہے گاکہ کیاتومجھ سے مذاق فرماتاہے حالانکہ توتورب العالمین ہے اللہ پاک فرمائے گا۔اِنِّی لَااَستَھزِیئُ مِنکَ وَلٰکِنِّی عَلیٰ مَااَشَائُ قَدِیر’‘۔ میں تجھ سے استہزاءنہیں کرتالیکن میں اپنے ہرچاہے پرقدرت رکھتاہوں ۔ (مشکوٰة)
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ آقانے فرمایا"اللہ تعالیٰ ہررات اپنادست رحمت پھیلاتاہے کہ کوئی دن کاگناہ گارتوبہ کرلے اسی طرح ہردن اسکادست رحمت پھیلارہتاہے کہ کوئی رات کاگناہ گارتائب ہوجائے یہاں تک سورج مغرب سے طلوع ہوجائے ۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ آقانے ارشادفرمایاکہ گناہ سے توبہ کرنے والاایسا ہوجاتا ہے جیسے گناہ کیاہی نہ تھا ابن ماجہ
ابوہریرہ کہ میں رسول اللہ کویہ فرماتے ہوئے سنا"اللہ تعالیٰ کی قسم میں دن بھرمیں سترمرتبہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور استغفارکرتاہوں ۔ بخاری شریف
ایک اورروایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا!اے لوگواللہ پاک کی جانب توبہ کرواس سے مغفرت طلب کرومیں دن میں سومرتبہ توبہ کرتاہوں ۔ (مسلم شریف)
بنی اسرائیل میں ایک آدمی ایساتھاجس نے اپنی ساری زندگی فسق فجوراورمصیبت ہی میں بسرکی اوراسی حالت میں اسے موت کاپیام آگیاملک الموت عزرائیل علیہ السلام نے اسکی روح قبض کرلی تولوگوں نے اس کے مردوجسم کوکھینچ کرباہرگندگی کے ڈھیرپرپھینک دیاچنانچہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جبرائیل امین حاضرہوئے اورعرض کیااے کلیم اللہ اللہ تعالیٰ آپکوسلام کہتاہے اورحکم فرماتاہے کہ میراپیاراانتقال کرگیاہے لوگوں نے اسے گندگی کے ڈھیرپرڈال دیاہے اے کلیم اللہ تم جاﺅاوراسکووہاں سے اٹھاﺅاوراسکے کفن دفن کاانتظام کرواورجولوگ اسکی نمازہ جنازہ پڑھیں گے میں انے گناہ معاف کردوں گاچنانچہ موسیٰ نے اسکوگندگی کے ڈھیرسے اٹھواکراسکوغسل دلوایاکفن پہنایانمازہ جنازہ پڑھوائی اوردفنادیا
پھرموسیٰ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیایااللہ یہ توبہت مجرم تھااس نے سوسال تیری نافرمانی میں گزاراتھااللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملااے میرے پیارے کلیم !یہ واقعی بہت بڑاگناہ گارتھامگراس نے ایک رات تورات کھولی اوراس میں میرے پیارے محبوب کانام نامی دیکھا اورمحبت سے چوم لیااسکی یہ اداہم کواتنی پسندآئی کہ ہم نے اسکے سوسال کے گناہوں کومعاف کرکے مقربین میں داخل کرلیا۔
بنی اسرائیل میں ایک شخص تھاجس نے بیس سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اوربیس سال ہی رب ذوالجلال کی نافرمانی کی اورایک دن اس نے آئینہ میں اپنی شکل دیکھی اسے اپنی داڑھی میں ایک سفیدبال نظرآیایہ دیکھ کروہ غم زدہ ہوگیااورخالق کائنات کی بارگاہ میں عرض کیایااللہ میں نے بیس سال تک تیری عبادت کی اوربیس سال تیری نافرمانی میں گزارے کیاایساکرنے کے باوجودمیراتیری بارگاہ میں واپس آناممکن ہے یعنی تیرے دربارسے معافی مل سکتی ہے اس دوران اس نے ایک کہنے والے سے سناتھا،کہ ہم نے تیرے ساتھ محبت کی تونے ہمیں چھوڑدیاپس ہم نے بھی تجھے چھوڑدیاتونے ہماری نافرمانی کی اورہم نے تجھے مہلت دی تواس پرگنہگارعرض کرنے لگایااللہ اگرمیں تیری بارگاہ میں دوبارہ لوٹ آﺅں توکیاتیری رحمت مجھے قبول فرمالے گی توجواب ملااے سیاہ کاربندے گنہگاربندے ہم تجھے قبول فرمالیں گے۔
حضرت ابوسعیدسعدبن مالک بن سنان خدریبیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمنے ارشادفرمایاہے"تم سے پہلے (بنی اسرائیل)کے لوگوں میں ایک شخص تھاجس نے99قتل کیے تھے اس نے علاقے کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا،ایک راہب کی طرف اسکی راہنمائی کی گئی وہ اس راہب کے پاس آیااس نے (راہب)کوبتایاکہ اس نے99قتل کیے ہیں کیااس کےلئے توبہ کی گنجائش ہے ؟راہب نے جواب دیانہیں!اس شخص نے اس(راہب)کوبھی قتل کردیااس نے 100کی تعدادمکمل کرلی پھراس نے علاقے کے کسی بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا،تواسکی ایک عالم کی طرف رہنمائی کی گئی وہ شخص اس عالم کے پاس پہنچا اس شخص نے (اس عالم)کوبتایاکہ اس نے100قتل کیے ہیں ،کیااس کے لئے توبہ کی گنجائش ہے ؟اس عالم نے جواب دیاجی ہاں!اسکے اورتوبہ کے درمیان کیاچیزرکاوٹ ہوسکتی ہے ؟تم فلاں علاقے میں چلے جاﺅوہاں کچھ لوگ ہونگے جواللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے ہوں گے تم انکے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنااوراپنے علاقے میں واپس نہ آناکیونکہ وہ برائی کاعلاقہ ہے وہ شخص روانہ ہواجب وہ نصف راستے میں پہنچاتواسے موت آگئی اسکے بارے میں رحمت کے فرشتوں اورعذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا۔رحمت کے فرشتوں نے کہا!یہ توتوبہ کرتے ہوئے اوردل سے(یعنی خلوص سے)اللہ تعالیٰ کی طرف آرہاتھاعذاب کے فرشتوں نے کہا ؟اس نے کبھی کوئی نیکی کی ہی نہیں پھرایک فرشتہ انسانی شکل میں انکے پاس آیاان فرشتوں نے اسے اپنے درمیان ثالث بنالیاا س نے فیصلہ کیادونوں طرف کی زمین ناپ لو!یہ جس طرف زیادہ قریب ہوگاس طرف کاشمارہوگاان فرشتوں نے ناپی توانہوں نے اس شخص کواس زمین کے قریب پایاجہاں کااس نے ارادہ کیاتھاتورحمت کے فرشتوں نے اسے حاصل کرلیا"صحیح بخاری"کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں تووہ ایک پشت نیک بستی کے قریب تھاتواس نے اس شخص کوبستی والوں میں شامل کردیا"صحیح بخاری"کی ایک اورروایت میں یہ الفاظ موجودہیں "اللہ تعالیٰ نے اس زمین کے حصے کی طرف وحی کی(گھرکی طرف سے جتناسفرکیا) کہ تم دورہوجاﺅ اوراس(زمین کے حصے)کی طرف وحی کی(جواللہ والوں کی بستی تھی) کہ تم قریب ہوجاﺅپھراس نے حکم دیاکہ ا ن دونوں کے درمیان فاصلہ ناپاتوفرشتوں نے اس شخص کواس(نیک لوگوں کی بستی کے)ایک بالشت قریب پایاتواسکی مغفرت ہوگئی۔
source : http://rizvia.net