قرآن مجید اورمتواتر احادیث اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ بغیر استثناء و تخصیص کے عمومی طور پر تمام گناہ جو انسان سے سر زد ہوتے ہیں ندامت و توبہ کے بعد قابل بخشش ہیں۔ اور یہ کہنا غلط ہے کہ فلاں گناہ توبہ و انابہ کے بعد بھی بخشنے کے قابل نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوبَةَ وَیَغفُوْ عَنِ السَّیِئَاتِ وَیَعْلَمُ مَاتَفْعَلُوْنَ
(سورہ ۴۲۔آیت۲۵)
"اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور تم جو بھی کرتے ہو اُسے جانتا ہے۔"
اللہ نے اپنا نام تَوَّابٌ توبہ قبول کرنے والا غَفَّارٌ بخشش کرنے والا غَفُوْرٌ زیادہ مغفرت کرنے والا غَافِرُ الذَّنْبِ گناہوں سے در گزر کرنے والا قَابِلُ التََّّوْبِ توبہ قبول کرنے والا، رکھا ہے۔
خدا وند عالم نے بغیر استثناء گناہ گاروں کو اپنی طرف پلٹنے کی عمومی دعوت دی ہے اور ان کو توبہ کا حکم دیا ہے۔ اس بارے میں سورہٴ مبارکہٴ الزمر کی ۵۴ ویں آیت کے مفہوم پر اگر غور کیا جائے تو اس صورت میں گناہ گاروں کی نا امیدی دور ہو جاتی ہے۔ اِسے آیت رحمت بھی کہتے ہیں۔
قُلْ یَاعِبَادیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمْ۔
"اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) تم کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے (گناہ کبیرہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں (یعنی افراط کر کے حد سے گزر گئے ہیں) تم لوگ خدا سے نا امید نہ ہونا بے شک خدا (تمہارے) سارے گناہوں کو بخش دے گا۔ بے شک خدا بڑا بخشنے والا ہے اور (بندوں پر) مہربان ہے۔"
لطیف نکات
اس آیہ ٴ شریفہ میں چند نکات قابل ملاحظہ ہیں: اول یہ کہ فرمایا "یَاعِبَادِیْ" اے میرے بندو، یہ نہیں فرمایا "یَا اَیُّھَاالْعُصَاةُ" اے گناہ گارو۔ اگر چہ گناہوں میں ملّوث ہیں۔ پھر بھی عبد کو اپنی طرف نسبت دیتا ہے تا کہ کمال لطف و مرحمت کے اظہار سے بندے کی ناامیدی ، امید میں بدل جائے۔ دوئم یہ کہ "اَسْرَفُوْا" فرمایا ۔ اس خطاب میں نرمی اور عنایت کا پہلو ملتا ہے اور نہیں فرمایا "اَخْطَئُوْا" یعنی (اے خطا کارو) تاکہ بندہٴ گناہ گار کی دل شکنی نہ ہو اور نہ وہ مایوس ہو جائے۔
نا امیدی حرام ہے
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گناہوں میں مرتکب افراد سے فرمایا "لا تَقْنَطُوا" تم لوگ رحمت خدا سے نا امید نہ ہونا۔ یہاں صیغہ نہی استعمال ہوا ہے۔ یہ بات واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ رحمت خدا سے مایوس ہونا ممنوع اور مغفرت سے نا امید ہونا حرام ہے۔
چوتھا نکتہ یہ کہ "لا تَقْنَطُوا" کی تسلّی کافی تھی۔ اس کے باوجود تاکید کے طور پر ایک جملہ اور اضافہ فرمایا اِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اللہ تعالیٰ بلا استثناء تمام گناہوں کی مغفرت کے لیے عمومی اعلان کرتا ہے۔
پانچواں نکتہ کلمہٴ "جَمِیْعاً" سے یہ مطلب روشن ہوتا ہے کہ مغفرتِ خداوندی کسی خاص گناہ کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہے۔
چھٹا نکتہ دوسری مرتبہ "اِنَّہُ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمِ" کہہ کر تاکید میں شدت کا اظہار فرمایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخشنے والا مہربان ہے۔
پیغمبر کے قاتل کی بھی توبہ قبول ہوتی ہے
عَنْ جَابِر اَنَّہُ قَالَ جَائَت اِمْرَاةٌ النَّبِیّ (ص)فَقَالَتْ یَانَبِیَّ اللّٰہِ اِنِ امرَاَةٌ قَتَلَتْ وَلَدَھَا بِیَدِھَا ھَلْ لَھَا مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ لَھَا وَالَّذِیْ نَفْسَ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ اَنَّھَا قَتَلَتْ سَبْعِیْنَ نَبِیّاً ثُمَّ تابَتْ وَنَدِمَتْ وَیَعْرِفُ اللّٰہُ مِنْ قِبْلِھَا اَنَّھَا لَا تَرْجِعُ اِلٰی الْمعْصِیةِ اَبَداً لَقَبَّلَ اللّٰہُ تَوْبَتَھَا وَعَفیٰ عَنْھَا فَاِنَّ بَابِ التَّوْبَةِ مَفْتُوْحٌ مَّا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَاَنَّ التَّائِبَ من الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہ (الی الاخبار۔ باب۳۔ص۲۳)
"جابربن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ انھوں نے کہاایک عورت حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی اگر کوئی عورت اپنے ہاتھ سے اپنے بچے کو قتل کرے تو کیا اس کے لیے توبہ ہے ؟ آپ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جان ہے اگر اس عورت نے سترپیمغبروں کو بھی قتل کیا ہو اور وہ نادم ہو کر توبہ کرے اور خدا ئے تعالیٰ اس کی سچائی اور خلوص کو جانتا ہو ، بایں معنی کہ دوبارہ معصیت نہیں کرے گی اس صورت میں ضرور اس توبہ قبول کر لی جائے گی اور اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے بے شک توبہ کا دروازہ مشرق سے مغرب تک کھلا ہے اور یقینا گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جسے اس نے سرے سے گناہ کیا ہی نہ ہو ۔
قبولیت دعاء میں بھی ناامیدی غلط ہے
اگر کوئی شخص شرعی حاجت یا اخروی مطالب کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے لیکن وہ دعا قبولیت حاصل نہ کر سکے اور سائل مایوس ہو جائے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اَوَّلاً جاننا چاہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اس سے وعدہ خلافی ہر گز نہیں ہوتی کیونکہ وہ عمومی طور پر دعا کا حکم فرماتا ہے اور قبولیت کا وعدہ بھی کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :
وَاِذا سَالَکَ عِبَادِیْ عِنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوا لِیط (سورہ۲ آیت۱۸۶)
(اے رسول ) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہہ دو کہ)میں ان کے پاس ہی ہوں ۔اور جب کوئی مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں اور (جب بھی مناسب ہو ) اجابت کرتا ہوں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے :
قَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ
اورتمہارا پروردگار ارشاد فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ خداوند ِ علیم و حکیم کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر دعا کی قبولیت میں تاخیر بھی کر سکتا ہے۔ اس لئے جلد نا امید نہ ہونا چاہیئے۔
گناہوں کے باعث دعا قبول نہیں ہوتی
کبھی گناہوں کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی در حقیقت دعا کی قبول ِ درگاہ ہونے میں تاخیر اس لئے ہوتی ہے کہ خدا وند ِ عالم اپنا لطف و کرم اس کے شامل کرنا چاہتا ہے اور بار بار توفیق ِ دعا دے کر اسے اپنے مطالب میں کامیاب کرنا چاہتا ہے اور تاخیر کی مدت میں مسلسل توفیق ِ دعا ء دینا اپنی جگہ ایک بزرگ نعمت ِ الٰہی ہے ۔
دوسرا قابل ِ توجہ نقطہ یہ ہے کہ تسلسل ِ دعا ء کے نتیجے آخر کار اس کی دعا ء کو وہ مستجاب کرنا چاہتا ہے اور بندے کی آواز بار بار سننا چاہتا ہے ۔
قبولیت ِدعاء میں تاخیر باعث قربت ہے
کبھی دعاء قبول ِ درگاہ ہونے میں اس لئے تاخیر ہوتی ہے کہ دعاء بزرگ ترین عبادت ہے ۔اور اس کو ہمیشہ برقرار رکھنا رحمت ِ خدا وندی سے قریب تر ہونے کا سبب بنتا ہے اس لئے جسے وہ چاہتا ہے کہ خیرو خوبی کی توفیق دے اور لطف و عنایت سے نوازے تو اس کی دعاء قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہے ۔
علامہ مجلسی حیات القلوب میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر سے یہ صحیح و مستند حدیث روایت ہے کہ حضرت ابراہیم آبادیوں اور صحراوٴں میں اس لئے پھرتے تھے کہ مخلوقات ِ پروردگار سے عبرت حاصل کریں ۔انھوں نے ایک دن کسی میدان میں ایک شخص کونمازپڑھتے ہوئے دیکھا اس کے کپڑے بالوں سے بنائے ہوئے ہیں اورفضا اس کی آواز سے گونج رہی ہے۔حضرت ابراہیم کواس حالت سے تعجب ہوا اور اس کے نزدیک جاکربیٹھ گئے یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا۔
حضرت ابراہیم نے فرمایاکہ مجھے تمھاری یہ روش پسند آئی۔چاہتا ہوں کہ تیرے ساتھ دوستی کروں بتاؤ تمھارا گھر کہاں ہے تاکہ جب چاہوں تم سے ملاقات کر سکوں ۔
اس نے عرض کی جہاں سے میں گزرتا ہوں وہاں سے تو عبور نہیں کر سکتا۔
فرمایا کیوں ؟
اس نے کہا میں پانی کہ اوپر چلتا ہوں۔
آپ نے فرمایا وہ خدا جس نے تم کو پانی کے اوپر چلنے کی قدرت دی ہے وہی خدا میرے لئے پانی کو مسخّر بھی کر سکتا ہے ۔اٹھو!ہم دونوں ایک ساتھ چلیں گے اورآج رات میں تمھارے گھر ٹھہروں گا۔
جب دریا کہ نزدیک پہنچے تواس شخص نے بسم اللہ کہہ کر دریا کوپار کر لیاحضرت ابراہیم نے بھی بسم اللہ پڑھ کر دریاعبورکرلیا۔اس شخص کو حیرت ہوئی ۔اس کے بعددونوں گھرمیں داخل ہوگئے حضرت ابراہیم نے اس شخص سے دریافت کیاکہ کونسا دن تمام دنوں سے زیادہ سخت ہے۔
عابد نے کہا وہ دن سخت ترین ہوگا جب اللہ اپنے بندوں کو اعمال کی جزاء دے گا۔
حضرت ابراہیم نے کہا آؤ ہم دونوں مل کر دعاء کریں کہ خدا ہم کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھے۔
دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خلیل اللہ نے فرمایا آؤ ہم دونوں ملکر گنہگارمومنین کیلئے دعاء کریں۔
عابد نے کہا میں دعاء نہیں کروں گاکیونکہ میں اللہ تعالیٰ سے ایک حاجت کیلئے تیس سال سے مسلسل دعاء کررہا ہوں ، مگر وہ اب تک پوری نہیں ہوئی تو دوسری حاجت کی گنجائش کہاں،لہٰذا میں اس سے مطالبہ ہی نہیں کروں گا ۔
حضرت ابراہیم نے فرمایا :اے عابد جب بھی اللہ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کی دعاء روک لیتا ہے تاکہ وہ بندہ اپنے معبود سے بار بار ازونیازکرے اور طلب کرے ۔اور جب اللہ کسی بندہ سے دشمنی رکھتا ہے تو اسکی دعاء فوراً مستجاب ہو جاتی ہے یا اس کے دل میں مایو سی ڈ ال دیتا ہے تاکہ وہ دعاء نہ کرے۔
آپ نے عابد سے پوچھا بتاؤ تمھاری کیا حاجت تھی جو قبول نہیں ہوئی
عرض کیا: ایک دن اسی جگہ جہاں میں نماز پڑھ رہا تھا ایک ایسے بچے کو دیکھا جس کے حسن و جمال سے نورانی چہرہ چمک رہا تھا۔ وہ گائے بھیڑ اور بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ سب کس کے جانور ہیں؟ جواب دیا کہ یہ سب میری ملکیت ہے۔ میں نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں خلیل خدا ابراہیم (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں اسماعیل۔ اس وقت سے میں دعا کر رہا ہوں کہ : اپنے دوست ابراہیم (علیہ السلام) کی زیارت کروا دے اور اسے پہنچوا دے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: اب تیری دعا قبول ہوئی۔ وہ ابراہیم (علیہ السلام) میں ہی ہوں۔ پس عابد خوش ہو گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے گلے سے لگایا۔ سر ،آنکھوں اور ہاتھوں کو چومنے لگا اور شکر خدا بجا لایا۔ اس کے بعد دونوں نے مل کر مومنین و مومنات کے حق میں دعا کی source : http://shiastudies.net/
0
0%
(نفر0)