نبی اکرم ۰ کے اس دنيا سے رخصت ہونے کے بعد حکومت نے اپنے مشيروں کے مشورے سےفيصلہ کيا کہ فدک' جو کہ آباد اور اچھي فصل دينے والا باغ تھا' اسے جنابزہراٴ سے لے ليا جائے تاکہ بقولِ خود اس کي آمدن کو جنگ کے اخراجات ميںخرچ کرسکيں۔ کيونکہ نبي اکرم ۰ نے اپني زندگي کے آخري ايام ميں افواج کواسلامي سرحدوں کي جانب روانہ کرنے پر بہت اصرار کيا تھا نيز اسلامي سرزمينکے بعض علاقوں ميں بھي کچھ گروہوں نے سر اٹھايا ہوا تھا۔ لہذا فوج کےاخراجات کا انتظام کرنا ضروري تھا اور فدک اس مقصد کے لئے بہت موزوں ہے۔
ليکن درحقيقت جناب زہراٴ اور حضرت عليٴ کو دنياوي مال و متاع سے تہي دستکرنا تھا تاکہ وہ بے دست و پا ہوجائيں اور نئي حکومت کے لئے کسي قسم کاخطرہ نہ بن سکيں اور ان کي حکومت اطمينانِ خاطر کے ساتھ اپني جڑوں کومضبوط کرسکے۔
عوام کو بھي لوگوں کے باطن کا علم نہيں ہوتا، وہ توبظاہر يہي ديکھتے ہيںکہ نئي حکومت متعدد مسائل سے دوچار ہے اور اسے ماليتعاون کي اشد ضرورت ہے اور دوسري طرف حضرت عليٴ و زہراٴ کا خاندان ايکزاہد، قناعت پسند اور محنتي خاندان ہے کہ جنہيں مالِ دنيا سے جيبوں کوبھرنے کي نہ صرف يہ کہ کوئي آرزو نہيں ہے بلکہ وہ تو اس سے بيزار ہي ہيں۔
جناب زہراٴ کا تعلق ايک ايسے خاندان سے ہے جس نے اسلام کي خاطر سب سےزيادہ قربانياں دي ہيں۔ طبيعي طور پر لوگوں کو يہي توقع ہوتي ہے کہ اب بھيويسي ہي بلکہ اس سے بھي بڑھ کر قربانياں ديں گے اور نہ صرف يہ کہ نئيحکومت سے کسي مال کا مطالبہ نہيں کريں گے بلکہ اپنا مال بھي ماضي کي طرحبلکہ اس سے بھي بڑھ کر اسلامي حکومت کے حوالے کر ديں گے اور اسلامي نظامکو انحطاط سے بچانے اور سامراجي اور طاقتور حکومتوں کو مدينہ پر حملہ کرنےسے روکنے کے لئے خليفہ کي مدد بھي کريں گے۔ اس صورتحال ميں اگر وہانحرافات کو بيان کرنا چاہيں تو اس پر کوئي توجہ نہ دے گا اور ان کي باتوںکو دوسرے معاملات پر حمل کيا جائے گا خصوصاً اگر پروپيگنڈہ مشنري دوسروںکے ہاتھوں ميں ہو۔
ايسي فضا ميں صراطِ مستقيم سے حکومتي انحراف کوبيان کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ کيونکہ عوام نہ صرف يہ کہ تشخيص نہيں دےسکتے کہ حکومت صراطِ مستقيم سے منحرف ہوچکي ہے بلکہ وہ تو حاکم کي مخالفتکو زميني حالات سے ناواقفيت، روم و ايران کي سلطنتوں کي سازشوں سے غفلتاور موقع پرست نومسلموں کي موقع پرستي سے چشم پوشي اور منافقوں کي ريشہدوانيوں سے لاپرواہي شمار کرتے ہيں۔
لہذ اجناب فاطمہٴ جو کہ اس فضا کوتوڑنا چاہتي ہيں' کے لئے ضروري تھا کہ سب سے پہلے اپنا علمي و ادراکيمقام، عقل و درايت اور اپنے جذبات پر کنٹرول کي صلاحيت کو لوگوں کے سامنےثابت کريں۔ موجودہ اور گذشتہ حالات کو عقل و درايت کے ساتھ لوگوں کوبتائيں تاکہ کوئي ان پر زميني حالات سے بے خبري کي تہمت نہ لگا سکے۔ توحيدو نبوت وغيرہ کي وضاحت کريں اور اپنا مقصد بيان کريں تاکہ لوگ آپ کو دنياپرست نہ سمجھيں۔ اسي کے ضمن ميں انحرافات کا بھي ذکر کريں اور اس پر اصرارکريں تاکہ لوگ اس جانب متوجہ ہوجائيں۔
لہذا مسجد کي جانب جانے کيآپٴ کي کيفيت مخصوص تھي۔ لباس کا انداز، مسجد ميں داخلے کي کيفيت، آپٴ کيگريہ و زاري، آپٴ کے خطبہ کا انداز، ان سب ميں ايک خاص روش نظر آتي ہےتاکہ اس ايک خطبے کے ذريعے وہ عظيم مقصد حاصل ہو جائے جو آپٴ کے پيشِ نظرتھا۔ اگرچہ اس زمانے ميں وہ مقاصد حاصل نہ ہوئے ليکن وقت گذرنے کے ساتھساتھ بي بيٴ کي سچائي اور حاکموں کا انحراف ثابت ہوگيا۔
آپٴ کا چلنے کا انداز:
آپٴ نے اس وقار کے ساتھ راستہ طے کيا کہ لوگوں نے کہا: آپٴ کا چلنا رسولاللہ ۰ کي چال سے کسي طرح کم نہ تھا۔ گويا يہ نبي اکرم۰ تھے جو پورے وقارکے ساتھ، کسي اضطراب کے بغير اور بھرپور اطمينان کے ساتھ قدم اٹھا رہےتھے۔ جب آپٴ مسجد ميں پہنچيں تو وہاں خليفہ وقت مسلمان مہاجرين و انصار کےدرميان موجود تھے۔ بي بي زہراٴ تنہا وہاں نہيں پہنچيں کہ جس سے آپٴ کا يہعمل ايک جذباتي عمل محسوس ہو بلکہ خاندان کي بعض عورتوں کے ساتھ مسجد ميںداخل ہوئيں ۔ آپٴ کا لباس اتنا لمبا تھا کہ پير بھي چھپے ہوئے تھے يہاں تککہ چلتے ہوئے دامن قدموں تلے آجاتا تھا۔
اس طرح چلنے کا مقصد يہ تھاکہ آپٴ يہ بتا ديں کہ آپٴ کا نکلنا او رمسجدميں آنا بابا کي جدائي کےہيجان اور جذبات کي بنياد پر نہيں ہے بلکہ شعور و آگہي کے ساتھ اور ايکخاص مقصد کے تحت ہے اور کسي اہم بات کے بيان کے لئے آپٴ تشريف لائي ہيں۔
طبيعي طور پر غمزدہ لوگوں نے جب بي بي فاطمہٴ اور دوسري عورتوں کو مسجدميں آتے ہوئے ديکھا تو ان کے لئے ايک مخصوص جگہ خالي کردي اور سفيد پردہتان ديا تاکہ عورتيں غم منا سکيں۔ ليکن مسلمانوں کے ذہن ميں يہ سوال پيداہوا کہ يہ کونسا وقت ہے کہ جب بي بي فاطمہٴ مسجدميں تشريف لائي ہيں؟ کيابابا کي وفات کا غم آپٴ کو يہاں کھينچ لايا ہے؟ کيا بابا کا کوئي واقعہ ياکوئي جملہ آپٴ کو ياد آگيا ہے؟ آپٴ کيوں خاموشي سے، کسي شور و فغاں کےبغير حتيٰ کہ جذبات و احساسات کي شدت اور گريہ و زاري کے بغير جو کہ عامطور پر تمام عورتوں کا خاصہ ہے، مسجد ميں آئي ہيں ؟ اتنے وقار کے ساتھاپنے بابا کے سے انداز ميں کيوں تشريف لائي ہيں؟
بي بي زہراٴ کا گريہ کرنا اور خاموشي اختيار کرنا:
پردہ تان ديئے جانے کے بعد يکايک بي بي نے جانسوز آہ بھري، جس سے پوريمسجد آہ و فغاں سے لرز اٹھي۔ سب لوگ بے اختيار رونے لگے۔ اس کے بعد آپٴ نےکچھ دير سکوت اختيار کيا يہاں تک کہ لوگ خاموش ہوگئے اس کے بعد آپٴ نےخطبے کا آغاز کيا۔
قابلِ توجہ نکتہ يہ ہے کہ بي بي نے مسجد ميں داخلہوتے وقت گريہ کيوں نہيں کيا؟ پردہ ڈالتے وقت آپٴ کيوں خاموش تھيں؟ اوردرد بھري آہ بھرنے کے بعد آپٴ خاموش کيوں ہوگئيں؟ جب کہ مہاجرين و انصاراس وقت گريہ کر رہے تھے۔ ياد رہے کہ عورتوں کي طبيعت نازک ہوتي ہے اور ايکعورت کو تو دوسروں سے زيادہ گريہ کرنا چاہئے جب کہ آپٴ تو آنحضور۰ کي دخترتھيں لہذا آپٴ کا گريہ تو سب سے زيادہ اور سب سے طويل تر ہونا چاہئے تھا۔پھر کيوں آپٴ نے يکايک خاموشي اختيار کرلي اور اس کے بعد کافي دير تک سکوتاختيار کيا يہاں تک کہ دوسرے لوگ خاموش ہوگئے؟ يہ سب کس لئے تھا؟
ايسامعلوم ہوتا ہے کہ بي بي فاطمہٴ اپني اس متوازن چال ڈھال اور اختياري گريہو سکوت کے ذريعے سے جذبات پر اپنے کنٹرول کي نشاندہي کرنا چاہتي ہيں اوربتانا چاہتي ہيں کہ اگرچہ آپٴ نے ايسے عظيم باپ کو کھويا ہے جس کے غم ميںپوري کائنات نوحہ کناں ہے، حالانکہ خود آپٴ ہي دوسري جگہ فرماتي ہيں کہ ''مجھ پر زمانے نے ايسے ستم ڈھائے ہيں کہ اگر روشن دنوں پر پڑتے تو وہسياہ راتوں ميں تبديل ہوجاتے''، اگرچہ کہ آپٴ ايک عورت ہيں اور مشکلات ومصائب کو برداشت کرنا عورتوں کے لئے زيادہ دشوار ہے، اور يہ کہ گريہ وزاري اختياري نہيں ہوتا ليکن وہ چاہتي ہيں کہ شجاعت، شہامت اور اپنے جذباتپر کنٹرول کا مظاہرہ کريں اور بتا ديں کہ ہم سب غمزدہ ہيں ليکن ميں ايکلمحے ميں رو سکتي ہوں اور اگلے لمحے ميں سکوت اختيار کر سکتي ہوں۔ ميںپورے وقار اور شان کے ساتھ قدم اٹھا سکتي ہوں اور جب دوسرے لوگوں کا گريہپورے عروج پر ہو تو ميں خاموش ہو سکتي ہوں۔
خطبے کے آغاز ميں پرجوش کلمات کا انتخاب:
اس کے بعد آپٴ نے خطبے کا آغاز کيا۔ ليکن ايسا خطبہ کہ جو گريہ و اشک کےساتھ نہيں ہے۔ ايسا خطبہ کہ جس ميں آواز ميں اضطراب نہيں ہے بلکہ پاٹ داراور مضبوط ہے۔ استعمال ہونے والے الفاظ کا لہجہ جوشيلے انداز کي غمازيکرتا ہے۔ عام طورپر جب کوئي سوز و گداز کے ساتھ خطبہ دينا چاہے تو ايسےکلمات کا انتخاب کرتا ہے جس کے حروف کھينچے جاسکيں مثلاً ايسے کلمات جو''ين'' يا ''ون'' پر ختم ہو رہے ہوں۔ مثال کے طور پر ''الحمد للّٰہ ربالعالمين، باري ئ الخلائق اجمعين، مالک يوم الدين، مبير الظالمين'' تاکہاگر کہيں آواز بھرا جائے اور آنسو اس کے گلے ميں رکاوٹ پيدا کرديں تو وہحروف مد ('و' اور 'ي' ) کو کھينچ کر اس کي تلافي کر سکے۔ اور اگر کسي کومعلوم نہ ہو کہ آگے اس کي کيا کيفيت ہوگي تو وہ بھي احتياطاً ايسے ہيکلمات کا انتخاب کرتا ہے ليکن جناب زہرائے مرضيہ نے ايسے کلمات کا انتخابکيا کہ جس ميں معمولي سي لرزش اور اضطراب کا اثر بھي واضح نظر آتا ہے۔چنانچہ بلند آواز سے فرمايا:
الحمد للّٰہ عليٰ ما الہمْ، و لہ الشکرعليٰ ما انعمْ، و الثنائ بما قدّمْ، من عموم نعمۃ ابتدآھا، و سبوغ آلائاسدادھا، و تمام مِنن اولاھا، جمّ عن الاحصائ عددھا و نآيٰ عن الجزائامدھا و تفاوت عن الادراک ابدُھا، و ندبھم لاستزادتھا بالشکر لاتصالھا واستحمد الي الخلائق باجزالھا و ثنيٰ بالندب اليٰ امثالھا۔۔۔
ان الفاظکے معاني کي گہرائياں جاننے کے لئے شرح کا مطالعہ کيا جاسکتا ہے في الوقتہمارا مقصد کلمات کي ہم آہنگي ، ان کي ترتيب اور ان کے آخري حروف ہيں کہجن پر يہ کلمات ختم ہوتے ہيں۔ ہر قاري ان کلمات کو روتے ہوئے، بھرائي ہوئياور گلوگير آواز ميں خود پڑھ کر ديکھ سکتا ہے کہ يہ کلمات ان حالتوں ميںپڑھنے کے لئے نہيں ہيں۔ لہذا قطعاً بي بي زہراٴ اس خطاب کے وقت گريہ وزاري نہيں کر رہي تھيں بلکہ ايک شعلہ بياں، پُرجوش اور فصيح و بليغ مقررکي طرح ان کلمات اور ان جملوں کو پے در پے بلند آواز سے ادا کر رہي تھيں۔
بزرگ اديب اور اس خطبہ کا مقدمہ:
بہت جلد قوم کے بزرگ، صاحبانِ علم و دانش اور جو لوگ اجتماعي اور روحيمعاملات کي سوجھ بوجھ رکھتے تھے، وہ سمجھ گئے کہ بي بي ايک عام شخصيت نہيںہيں؛ يہ وہ غمزدہ عورت نہيں ہيں جسے باپ کي موت نے بدحواس کر ديا ہو اوروہ اپنے آپ پر قابو نہ پارہي ہو اور خود کو رونے سے نہ روک سکتي ہو بلکہيہ وہ خاتون ہيں جو شعوري طور پر ايسے کلمات کا انتخاب کرتي ہيں جو جوش وخروش کي حالت ميں انساني ذہن سے ابھرتے ہيں۔ آپٴ کے خطاب کو ايک دانشوراور صاحبِ حکمت انسان کا کلام سمجھنا چاہئے اور انہيں دل و جان سے سماعتکرنا چاہئے۔
جناب زہراٴ نے ان حرکات و سکنات کے ذريعے اور فراز و نشيبکو اختيار کر کے ابتدائ ہي ميں يہ ثابت کر ديا کہ يہ خانداني جذبات واحساسات نہيں تھے جو انہيں مسجد ميں کھينچ لائے ہوں اور انہيں خطبہ دينےپر مجبور کر ديا ہو، بلکہ اس سے اہم کوئي اور مقصد ہے جس کا بيان ہوناضروري ہے۔ آپٴ کا مسجد ميں داخل ہونے کا انداز اور خطبہ شروع کرنے کاطريقہ اور ابتدائي کلمات نے اس طرح سب کو فريفتہ کرليا ہے کہ ابن ابيالحديد معتزلي نے اپني شرحِ نہج البلاغہ ميں حضرت عليٴ کے خط نمبر ٤٥ کيشرح ميں، جو آپٴ نے عثمان بن حنيف کو لکھا تھا اور اس ميں فدک کا ذکر آياہے، بي بي کے خطبے کا کچھ حصہ نقل کيا ہے اور اس سے پہلے آپٴ کے مسجد ميںداخل ہونے کا انداز، گريہ و زاري، سکوت و ابتدائي کلمات کا ذکر کيا ہے اوراس کے بعد فدک کے بارے ميں امامٴ کے جملات کي تشريح کي ہے۔
ابن ابيالحديد کا ان چيزوں کو بيان کرنا يہ بتاتا ہے کہ يہ باتيں اس کي نظر ميںبھي بہت اہميت کي حامل ہيں بصورتِ ديگر وہ ان مقدمات کا ذکر نہ کرتا اوربراہِ راست فدک سے متعلق گفتگو کو نقل کرتا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہاديبوں اور دانشوروں کي نگاہ سے بي بي کا ان حرکات و سکنات سے جو مقصد تھاوہ پوشيدہ نہيں رہا ہے اگرچہ عوام الناس اس وقت آپٴ کے مقصد کو نہ سمجھپائي ہو۔ بنابريں، جناب فاطمہٴ نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنا مقصد حاصل کرلياہے اور وہ يہ تھا کہ اپني شخصيت کے مختلف پہلووں پر روشني ڈاليں اورانحرافاتِ دربار سے پردہ اٹھائيں۔
خطبہ جنابِ زہراٴ کا جائزہ:
چونکہ في الوقت ہم جناب زہراٴ کے خطبے کي شرح نہيں کرنا چاہتے اور ہمارينگاہ اس خطبے کے فلسفے اور مقصد کي طرف مرکوز ہيں اور ہم يہ بيان کرناچاہتے ہيں کہ بي بي نے اس خطبے کے ذريعے اپني شناخت کروائي اور اپنے علم وشعور اور مہارت کو ثابت کيا اور واضح کيا کہ رسول اللہ ۰ کا يہ فرمانا کہ''فاطمۃ بضعۃ مِنّي'' يا ''فداھا ابوہا'' رشتہ داري کي بنياد پر نہيں تھابلکہ آپٴ کي ذات ايک ايسا گوہر گرانمايہ تھي جسے کسي نے نہ پہچانا اور اسخطبے ميں صرف اس کا ايک پہلو سامنے آيا ہے اور يہ کلام آپٴ کے نور کي ايکمعمولي تجلي گاہ بن گيا ہے، اس لئے ہم اس خطبے کے ضمني پہلووں کي طرف توجہديں گے۔
يہ خطبہ تقريباً ١٢٠ سطروں پر مشتمل ہے جس کا دس فيصد حمدباري تعاليٰ، دس فيصد توصيفِ رسالت مآب۰، پانچ فيصد توصيفِ قرآن، تقريباًدس فيصد فلسفہ احکام کا بيان ہے۔ اس حصے ميں دين اسلام کے ٢٠ بنياديموضوعات اور ارکانِ اسلام کي حکمت اور ان کا فلسفہ بيان ہوا ہے۔ اس کے دسفيصد حصے کو رسول اللہ ۰ کے کاموں سے مختص کيا ہے تاکہ يہ بتائيں کہ لوگوںکو کہاں سے کہاں پہنچايا اور پانچ فيصد ميں حضرت عليٴ کي قربانيوں کاتذکرہ ہے جب کہ دوسرے لوگ تن آساني ميں مشغول تھے۔ يہاں تک خطبہ نصفہوجاتا ہے۔
يہاں سے بي بي معاشرے کے انحرافات کا ذکر چھيڑتي ہيں اورشيطان کي سازشوں نيز انحرافات کے تلخ اثرات کا بيان کرتي ہيں جس سے لوگجلد دوچار ہونے والے ہيں۔ يہ بھي خطبے کا دس فيصد حصہ ہے۔ اس کے بعد فدککا بيان شروع کرتي ہيں جس ميں دلائل ہيں اور قرآن مجيد کي پانچ آيتوں کےساتھ يہ حصہ بھي دس فيصد ہو جاتا ہے۔
بالفاظِ ديگر اس خطبے ميں فدک پراپنے حق کا دفاع کرنے کے لئے نصف حصہ مختص فرمايا جس ميں حمدِ خدا اورتوصيفِ نبي۰ بھي شامل ہے۔ شايد بي بي کو يہ برحق توقع تھي کہ خطبے کے اتنےحصے سے حاکم اپني غلطي کو سمجھ لے اور خود کو اس مقام سے ہٹا لے جس کاپہلا ہي قدم غلط اٹھا تھا يا مسلمان اس کو برطرف کرنے کا سوچيں ليکن جبآپٴ نے ديکھا کہ ايسا نہيں ہوا تو اگلي تيس سطروں ميں انصار سے خطاب کياجس ميں ان کي قربانيوں اور اسلام ميں ان کا سابقہ دہرايا اور ان سے کہا کہوہ اٹھ کھڑے ہوں اور جو ظلم آپٴ پر ہوا ہے اس کا دفاع کريں۔ ليکن ايسا بھينہيں ہوا اور وہ بي بي پر ہونے والے ظلم کے خلاف مہرِ سکوت توڑنے پر بھيرضامند نہ ہوئے۔ اور اس طرح خطبے کا دوسرا نصف حصہ بھي پورا ہوا۔
شايديا حتمي طور پر يہ کہا جاسکتا ہے کہ اس زمانے کے بہت سے لوگ بي بي فاطمہزہراٴ کے کلمات کے استعمال پر دقتِ نظر سے غافل تھے اور اسے ايک اتفاقسمجھ رہے تھے ليکن آج جب اس خطبے کي تحرير اپنے سامنے رکھتے ہيں تو اسخطبے ميں پوري تدبير اور تنظيم نظر آتي ہے کہ آپٴ ايک چوتھائي حصے کو اپنےحق کے دفاع اور موجودہ حالات کي وضاحت طلبي کے لئے کافي سمجھتي تھيں ليکنجب کوئي اثر نہ ہوا تو سب لوگوں کو اور خصوصاً انصار کو موردِ عتاب قرارديا اور اپنے کلام کا تازيانہ ان کے ذہن و فکر پر برسايا اور بتايا کہاسلام کي نئي حکومت کي حفاظت کا کام اسي سوسائٹي ميں موجود ايک فرد پر ظلمکر کے انجام نہيں ديا جاسکتا اور ايسي اسلامي حکومت پر دل کو مطمئن نہيںکيا جاسکتا کہ جس ميں ايک شخصيت (بنامِ فاطمہٴ) پر ظلم ہوا اور دوسرےخاموش رہے اور يہ خاموشي اس لئے نہيں تھي کہ اس ميں مصلحت اور خدا کيخوشنودي کے طالب تھے بلکہ يہ ان کي تن آساني اور موقع پرستي تھي۔ ہاں جبکسي سوسائٹي ميں حضرت زہراٴ و امام عليٴ جيسي مشہور شخصيات پر ظلم ہوتارہے جو کہ ايثار و قرباني اور قيام و استقامت کا مظہر ہيں، تو مسلمہ طورپر دوسروں پر ظلم ہوگا اور ايسے معاشرے کو خدا کا پسنديدہ اور رسول۰ کےلئے قابلِ قبول سوسائٹي قرار نہيں ديا جاسکتا۔
خطبہ فدک کا اصلي ہدف:
اگرچہ جناب زہراٴ کي مدد کے لئے کوئي نہيں اٹھا اور ان کے کلمہ حق کو ياورو انصار نصيب نہيں ہوئے اور حاکمِ وقت نے بظاہر تسليم کرتے ہوئے يہ خطاعام مسلمانوں کے سر ڈال دي اور انہيں بھي اپنے ساتھ شريک گردانا اور جنابزہراٴ کا احترام بجا لاکر معاملات و حالات کو ٹھيک کرنے کي کوشش کي ليکنجو کچھ معلوم ہونا چاہئے تھا وہ ہوگيا۔ جو بات بي بي کي تقرير سے روزِروشن کي طرح عياں تھي، وہ يہ تھي کہ فدک کو جناب فاطمہٴ کے قبضے سے چھينناقرآن مجيد کي پانچ آيتوں کي صريح مخالفت ہے۔ اگر کوئي حاکم اپني حکومت کےابتدائي ايام ميں، جو کہ سنہري ايام ہيں اور رسول اللہ ۰ کي وفات کو بھيزيادہ عرصہ نہيں گزرا ہے اور سب لوگ يہ سمجھ چکے ہيں کہ موت کا ذائقہ ہرايک کو چکھنا ہے اور اس کے باوجود قرآن کي اس طرح مخالفت کرے اور جب سب سےپہلا مظلوم اتني مشہور، ايثارگر اور رسول اللہ ۰ کي اکلوتي اولاد ہو ، توايسي حکومت مضبوط ہوجانے کے بعد اور اپنے جڑيں مضبوط کر لينے کے بعد عاماور غير معروف لوگوں کے ساتھ کيا سلوک روا رکھے گي۔۔ ؟! اور جب قرآن کيمحکم اور واضح آيات کي جو کہ امہات کتاب ہيں، عمداً يا سہواً مخالفت کيجائے تو پھر کتاب خدا ميں سے اور کيا رہ جائے گا۔۔؟!
اگر مخاطب نےکلامِ کي گہرائي کو سمجھ ليا ہوتا اور دل ميں اخلاص ہوتا تو فوراً کنارہکشي اختيار کر لي جاتي اور اگر لوگ آپٴ کي گفتگو کي حقيقت کو جان ليتے توخود قدم اٹھاتے۔ جناب زہراٴ کو بھي اسي بات کا انتظار تھا چنانچہ جب گھرواپس لوٹيں تو حضرت عليٴ سے فرمايا: ميں اس حال ميں گھر سے نکلي تھي کہ''خرجت کاظمۃ و عدتُ راغمۃ'' ۔
بنابريں جناب زہراٴ کي جو تعريف جوابميں کي گئي اسے سنجيدہ نہيں لينا چاہئے کہ پہلے تو بي بي سے اشارتاً کہاکہ آپ کے بابا کافروں پر سخت اور مومنوں پر رحيم تھے لہذا آپ کو بھي ہم پررحيم ہونا چاہئے اور شمشير زبان کو دشمن پر چلانا چاہئے نيز يہ کہ بي بيکا عمل رسول اللہ ۰ کے عمل سے (نعوذ باللہ) مختلف تھا۔ اور اس کے بعد آپکي تعريف کرنا شروع کي کہ آپ تو صديقہ ہيں، حق اور جنت کي جانب ہماريراہنما ہيں، آپ کي عقل و دانش کسي پر پوشيدہ نہيں وغيرہ۔
پھر اس سوالکے جواب ميں کہ اگر ايسا ہے تو ميرا حق کيوں غصب کيا ہے؟ فدک کے بارے ميںميري بات کو اہميت کيوں نہيں دي جارہي؟ اور فرمانِ خدا و رسول۰ جو کہ بہشتکي طرف راہنما ہيں، کي مخالفت کيوں کي جارہي ہے؟ يہ کہا:خدا کي قسم ميں نےرسول۰ کي رائے سے تجاوز نہيں کيا ہے۔ جو کچھ کيا وہ انہي کي اجازت سے تھا۔اور قافلہ سالار کبھي اپنے ساتھيوں سے جھوٹ نہيں بولتا۔ ميں خدا کو گواہٹھہراتا ہوں اور اس کي گواہي کافي ہے کہ ميں نے رسول خدا کو سنا کہ آپ نےفرمايا: ''ہم گروہِ انبيائ سونا چاندي، گھر اور زمين وراثت نہيں چھوڑتےبلکہ صرف کتاب، حکمت، علم اور نبوت کي ميراث چھوڑتے ہيں اور جو کچھ ہمارےبعد باقي بچے وہ ہمارے بعد آنے والے ولي امر کے اختيار ميں ہوتا ہے وہ جسطرح مصلحت سمجھے تصرف کر سکتا ہے۔''
اس حديث کو جناب زہراٴ نے قرآنيآيات کي مدد سے غلط ثابت کر ديا تھا ليکن اس کے ذريعے سے وہ چاہتے تھے کہفدک کے ملکيتِ فاطمہٴ ميں ہونے کا انکار کریں اور پھر قسم بھي کھائي اورخدا کو گواہ بھي ٹھہرايا تاکہ مسجد ميں موجود لوگ جو کہ يقينا بي بي کےخطبے کے زيرِ اثر تھے، انہيں اپني جانب مائل کر ليا جائے اور وہ جان ليںکہ دين کے خلاف کوئي کام انجام نہيں پايا ہے اور فدک کي قرقي رسولِ اکرم۰کے حکم اور ان کي حديث کے مطابق ہے۔
اس کے بعد فدک کے استعمال کا ذکرکرتے ہيں اور کہتے ہيں کہ يہ بھي مسلمانوں کے اجماع کے مطابق ہے کہ اسےباطل کي راہ ميں خرچ نہيں کر رہے بلکہ کافروں اور مرتدوں کے خلاف استعمالکر رہے ہيں۔
اس موقع پر جناب صديقہٴ نے ايک ''سبحان اللہ'' کہہ کرتمام باتوں پر پاني پھير ديا اور فرمايا: سبحان اللہ! ميرے بابا رسول اللہنے کتاب خدا سے کبھي منہ نہيں موڑا اور نہ وہ اس کے احکام کے مخالف تھے۔
سبحان اللہ کا جملہ اس وقت استعمال کيا جاتا ہے جب کوئي بہت بے تکي تہمتکسي پر لگائے جس کے غلط ہونے کا سب کو اچھي طرح علم ہو۔ گويا يہ تہمت خداپر بھي جاتي ہو کہ اس نے ايسے غلط انسان کو پيدا کر کے کوئي معيوب کام کياہے۔
بہرصورت بي بي فاطمہٴ نے ايک سبحان اللہ کہہ کر سب کو يہ جتا دياکہ يہ سب باتيں غيرحقيقي ہيں اور پھر اپني بات کي وضاحت کرتي ہيں کہ کيارسول اللہ ۰ کلامِ الہي کے برخلاف حکم ديں گے؟! کيا وہ احکامِ الہي سےروگرداں تھے؟!
اس کے بعد دوبارہ اور مزيد تاکيد کے ساتھ اور قرآني آيات کي تلاوت کر کے حاکم کي دليلوں کو باطل ثابت کرتي ہيں۔
اس مرتبہ وہ يہ کہہ کر کہ ''خدا، رسول۰ اور ان کي بيٹي سچ فرماتي ہيں'' انکي تعريف کرتا ہے ليکن اپنے تمام اعمال کا گناہ مسلمانوں پر ڈالتے ہوئےکہتا ہے: يہ مسلمان ميرے اورآپ کے درميان فيصلہ کريں گے۔ انہوں نے حکومتميرے کاندھوں پر ڈالي ہے اور ميں نے ان کے اتفاق اور اجماع سے فدک پر قبضہکيا ہے۔
اس موقع پر آخري اتمامِ حجت کے لئے بي بي نے عام مسلمانوں سےخطاب کيا اور باطل امور کي قبوليت اور حق سے چشم پوشي نيز قرآن پر تدبر نہکرنے پر ان کي مذمت کي اور جب ديکھا کہ وہ کسي صورت بھي اپنے عمل سےدستبردار ہونے پر تيار نہيں ہيں اور کسي بھي وجہ سے ان کے حق کا دفاع نہيںکرنا چاہتے تو پدر بزرگوار کي قبر کي طرف رُخ کيا اور چند اشعار پڑھ کرمقامِ اہلبيتٴ اور مخالفوں کي بدعتوں کو طشت از بام کرنے کے بعد مسجد سےباہر نکل گئيں۔
source : http://shiastudies.ne