وَ إِذَا قِیلَ لَهُمُ اتَّبِعُواْ مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْهِ ءَابَاءَنَا أَ وَ لَوْ کاَنَ ءَابَاؤُهُمْ لَا یَعْقِلُونَ شَیًْا وَ لَا یَهْتَدُونَ(170- بقره )
جب ان سے کہاجاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کو مانو تو کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کوپایا ہے. کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اورانہیں (خدا) کی ہدایت نہ ملی ہو۔
وَ إِن تُطِعْ أَكْثرََ مَن فىِ الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَ إِنْ هُمْ إِلَّا يخَْرُصُونَ(انعام 116)
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیںگے، یہ لوگ تو صرف وہم و گمان پر چلتے ہیں اور یہ صرف قیاس آرائیاں ہی کیا کرتے ہیں۔
جس طرح سے دینداری کی کچھ بنیادیں اور کچھ piller ہیں جن پر دین کی عمارت کھڑی ہوتی ہے اسی طرح بے دینی کے بھی کچھ بنیادی اصول اور piller ہیں۔ قرآن نے دینداری کے اصول اور بنیادیں بتانے سے پہلے بے دینی کی عمارت گرائی ہے۔ اور اس عمارت کو گرانے کے لئے اس نے بے دینی کے پلر گرائے ہیں۔
اوپر لکھی ہوئی دو آیتیں بے دینی کے دو پلر ہیں جنہیں قرآن نے ختم کیا ہے۔
پہلی آیت یہ بیان کررہی ہے کہ جب بھی نبی آکر لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچاتے تھے تو اگر چہ لوگوں کو ان کی باتیں اچھی اور سہی لگتی تھیں لیکن وہ کہتے تھے کہ ہم آپ کی بات نہیں مان سکتے کیونکہ ہم وہی کام کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے تھے۔ وہ صحیح کررہے تھے یا غلط ہمیں اس سے مطلب نہیں ہے لیکن ہم خدا کے راستہ پر چلنے کے بجائے انہی کے راستہ پر چلیں گے۔ خدا نے کہا کہ کیا یہ اپنے باپ دادا کی ہی باتیں مانیں گے چاہے وہ صحیح نہ رہے ہوں۔
اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں کسی بھی کام کی دلیل یہ نہیں دینا چاہئے کہ یہ کام ہمارے گھر اور خاندان میں ہوتا چلا آیا ہے، اتنے دنوں سے اب تک ہوتا چلا آیا ہے تو اب اسے کرنا ہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کا احترام اپنی جگہ ہے لیکن ضروری تو نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کرتے چلے آئے ہیں وہی صحیح رہا ہو۔ جبکہ بہت سے ایسے کام ہیں جسے ہمارے بزرگ کرتے تھے یا اسے خراب سمجھتے تھے لیکن ہم کہہتے ہیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ، اس زمانہ کی ضرورتیں دوسری ہیں اس لئے ہم ان کی طرح سے نہیں رہ سکتے ہیں اور وہ کام نہیں کرسکتے ہیں جو وہ کرتے تھے۔ لیکن عام طور سے شادی بیاہ، مرنے جینے اور وہ کام جنہیں ہم "دینی رسم و رواج" کا نام دیتے ہیں ان میں وہی کرنا ضروری سمجھتےہیں جو اب تک ہوتا چلا آیا ہو چاہے ہمیں معلوم ہوجائے کہ اب تک جو کچھ ہورہا تھا وہ غلط تھا۔
البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے یہاں جو کچھ ہوتا چلا آیا ہے وہ غلط ہی ہو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے گھر یا سماج میں کوئی اچھا اور نیک کام رائج ہوتا ہے لیکن ہمیں اس اچھا کام کے لئے بھی یہ نہیں کہنا چاہئے کہ چونکہ ہوتا چلا آیا ہے اس لئے کر رہے ہیں بلکہ وہ کام اس لئے کرنا چاہئے کہ وہ صحیح ہے۔
یعنی ہمیں کوئی بھی کام کرنے کا کرائٹیریا یہ نہیں بنانا چاہئے کہ اب تک جو کچھ ہوتا چلا آیا ہے وہی کیا جائے گا کیونکہ اس میں اچھا اور برا ، صحیح اور غلط دونوں طرح کے کام شامل ہیں۔
بے دینی کا دوسرا پلر "زیادہ تر لوگوں کا کوئی کام کرنا" ہے۔ کبھی کبھی ہم کسی کام یا نظریہ کے صحیح ہونے کا ریزن یہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں زیادہ تر لوگ یہی کام کررہے ہیں پھر آپ اسے کیسے غلط کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اس راستہ پر تو پوری دنیا چل رہی ہے تو اسے تو صحیح ماننا ہی پڑے گا۔ لیکن قرآن کی نگاہ میں یہ بھی بے دینی کا پلر ہے اس لئے اس نے ہمیں متوجہ کیا ہے کہ اگر ہم دنیا کی میجارٹی کی ہی بات مانیں گے اور اسے ہی صحیح سمجھیں گے تو ہم گمراہ ہوجائیں گے۔ مذہبی احکام کو تو جانے دیجئے صحت کے اصولوں اور کامن اخلاقی ویلیوز پر بھی دنیا کے زیادہ تر لوگ عمل نہیں کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہائجینک اصول ہیں دنیا کے زیادہ تر لوگ جن کی پابندی نہیں کرتے ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں یہ نہیں کہتے ہیں کہ چونکہ دنیا کے زیادہ تر لوگ اس اصول کی رعایت نہیں کررہےہیں اس لئے ہم بھی نہیں کریں گے بلکہ ہم تو اس لئے ان کی رعایت کرتے ہیں کہ وہ ہماری صحت کے لئے مفید ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ میجارٹی اچھا کام کررہی ہو لیکن ہمیں اس اچھے کام کا ریزن یہ نہیں دینا چاہئے کہ میجارٹی یہ کام کررہی ہے۔
قرآن کے مطابق یہ دو مشکلیں ہیں جن کا سامنا انبیاء کو کرناپڑتا تھا اور جو لوگ نبیوں سے یہ باتیں کہتے تھے وہ نبی کے پیغام اور خدا کے نازل کئے ہوئے قوانین سے محروم ہوجاتے تھے اسی طرح اگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم تک ہمارے نبی اور ائمہ کا پیغام پہنچے اوران کے بتائے ہوئے قوانین ہماری زندگی سنواریں تو ہمیں بھی ان دونوں پلر کو گرانا ہوگا ورنہ ہم بھی بہت سی امتوں کی طرح زندگی بنانے اور سنوارنے والے ان اصولوں سے محروم رہیں گے۔
source : http://www.alhaider.net