اسلام چون کہ ابتدا سے غریب تھا اور غریب ہی رہ گیا .ابتدای اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور اس زمانے میں لوگ انحرافات اور گمراہی کے اسیر ہوچکے تھے ، رسول خدا ﷺ نے آکر انہیں نجات دلاد دی .جس پر قرآن گواہی دے رہا ہے : هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهُْمْ يَتْلُواْ عَلَيهِْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحِْكْمَةَ وَ إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِينٍ.(1 )
اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے .
یہ تعلیمات اسلامی کی خصوصیت تھی کہ انسان کو اس گمراہی سے نکال کر انسانیت کے بلند و بالا مقام تک پہنچایا.اور عقلوں پر تالے لگے ہوئے تھااسے کھول دیا .اور سارے انسانوں کو ایک ہی صف میں لاکر رکھ دیا . اور انسان کی فضیلت کیلئے تقوا کو معیار قرار دیتے ہوئے فرمایا : إِنَّ أَكْرَمَكمُ ْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَئكُمْ.(2 ) بے شک خدا کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت ترین شخص وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو .
اسی طرح ظالم وجابر بادشاہیں جو فقیر اور مستضعفوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہوئے زندگی کرتے تھے ، جب اس پیغام کو سنا تو وہ لوگ خاموش نہیں رہ سکے ؛ بلکہ اسلام کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوگئے .جس کی وجہ سے اسلام مظلوم اور غریب ہوا .
ابو طالب(ع) اور تقيہ
بعض نفسياتي خوہشات کے اسیر او ر ریاست طلب ،دین فروش اور درہم و دینار کے لالچی لوگوں نے ظالموں کے ساتھ گھٹ جوڑ کرکے اپنی کتابوں میں ابوطالب کے ایمان کو مشکوک ظاہر کرنا چاہا . نعوذ باللہ ! آپ شرک کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے ؛ جبکہ آپ کی شخصیت ، عظمت اور اسلام کے ساتھ محبت اور ایمان پر واضح دلائل موجود ہیں .ابوطالب(ع) کی ذات وہ ہے جسے پیامبر اسلام کی حمایت کا شرف حاصل ہے ؛ کہ آپ نے حضور ﷺ کو کفار قریش اور دوسرے دشمنوں کے مکر وفریب اور ظلم وستم سے بچاتے رہے ، جبکہ وہ لوگ آپﷺ کی جان کے درپے تھے .
اگر آپ کا اسلام اور پیامبر اسلام پر مکمل ایمان اور اعتقاد نہ ہوتا توکیسے دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر رسول خدا کو یوں خطاب کیا ؟!:
والله لن يصلوا اليك بجمعهم
حتي اوسد في التراب دفينا
فاصدع بامرك ما عليك غضاض
هوابشر بذاك وقرمنك عيونا
و دعوتي و علمت انتك ناصحي
ولقد دعوت و كنت ثم امينا
و لقد علمت بان دين محمد(ص)
من خير اديان البرية دينا .(3 )
ترجمہ:
اگر ابوطالب(ع) ايمان نہ لائے ہوتے تو ابولہب کی طرح وہ بھی پیامبر ﷺ کے چچا تھا ، خدا کی طرف سے مورد مذمت اور نفرین قرار پاتا ؛ لیکن ایمان ابوطالب (ع) ہمیں پیامبر اسلامﷺ اور ائمہ طاہرین (ع) کے فرامیں کے ذریعے واضح اور روشن ہے ، اور آپ کا رسول خدا ﷺ کی خدمت کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے . یہاں تک کہ ابن ابی الحدید نے اشعار کی شکل میں اس مطلب کو بیان کیا ہے :
لو لا ابو طالب و ابنه
لما مثل الدين شخصا فقاما
فهذا بمكة آوي و حامي
و هذا بيثرب جس الحماما .(4 )
اگر ابوطالب (ع) اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام بطور نمونہ برپا نہ ہوتے . پس ابوطالب (ع) نے مکہ میں رسول خدا ﷺ کو پناہ دی اور ان کے بیٹے نے مدینے میں آپ ﷺ کی جان بچانے کے خاطر اپنی جان کی بازی لگا دی . ..............
اگر علی نہ ہوتے تو ابوطالب سید سادات المسلمین والسابقین الاولین ہوتے .جابر بن عبداللہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ﷺ سے امیر المؤمنین(ع) کی ولادت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی ، یہاں تک کہ ابوطالب (ع)کے بارے میں عرض کیا :
قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ النَّاسُ يَقُولُونَ [إِنَ ] أَبَا طَالِبٍ مَاتَ كَافِراً قَالَ يَا جَابِرُ اللَّهُ أَعْلَمُ بِالْغَيْبِ إِنَّهُ لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا إِلَى السَّمَاءِ انْتَهَيْتُ إِلَى الْعَرْشِ فَرَأَيْتُ أَرْبَعَةَ أَنْوَارٍ فَقُلْتُ إِلَهِي مَا هَذِهِ الْأَنْوَارُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَذَا عَبْدُالْمُطَّلِبِ وَ هَذَا أَبُو طَالِبٍ وَ هَذَا أَبُوكَ عَبْدُ اللَّهِ وَ هَذَا أَخُوكَ طَالِبٌ فَقُلْتُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي فَبِمَا نَالُوا هَذِهِ الدَّرَجَةَ قَالَ بِكِتْمَانِهِمُ الْإِيمَانَ وَ إِظْهَارِهِمُ الْكُفْرَ وَ صَبْرِهِمْ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى مَاتُوا .(5 )
جابر بن عبد اللہ انصاری نےعرض کیا : یا رسول اللہ ! خدا بہت بڑا ہے ؛ لوگ کہتے ہیں کہ ابوطالب حالت کفر میں اس دنیا سے رحلت کر گئے! فرمایا: اے جابر خداوند سب سے زیادہ جاننے والا ہے علم غیب کا مالک ہے ، جس رات کو مجھے معراج پر لے گئے اور عرش پر پہنچےتو چار نور دیکھنے میں آیا ، میں سے سوال کیا : خدایا یہ چار نور کن کے ہیں ؟!تو الله تعالي کی طرف سے جواب آیا : اے محمد!ﷺ یہ عبدالمطلب ، ابوطالب،تیرے والد عبداللہ اور تیرے بھائی طالب کے ہیں.میں نے کہا : اے میرے الله اے میرے آقا ! یہ لوگ کیسے اس مرتبے پر پہنچے ؟ خدا تعالی کی طرف سے جواب آیا : ایمان کے چھپانے اور کافروں کے مقابلے میں کفر کے اظہار اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے پہنچے ہیں.
يونس بن نباته نے امام صادق(ع) سے روايت کی ہے : قال(ع) يا يونس ما يقول الناس في ايمان ابو طالب(ع) قلت جعلت فداك ، يقولون «هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه». فقال كذب اعداءالله ، ان اباطالب(ع) من رفقاء النبيين و الصديقين و الشهداء و الصالحين و حسن اولئك رفيقا.(6 )
چنانچہ محمد بن یونس نے اپنے والد سے انہوں نے امام صادق(ع) سے نقل کيا هے کہ آنحضرت نے ہم سے کہا: اے یونس ! لوگ ابوطالب کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا ، مولیٰ میں آپ پر قربان ہو جاؤں ؛ لوگ کہتے ہیں : هو في ضحضاح من نار و في رجليه نعلان من نار تغلى منهما امّ رأسه.
ابو طالب کھولتے ہوئے آگ میں پیروں میں آگ کے جوتے پہنائے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ان کا دماغ کھول رہا ہے . امام نے فرمایا: خدا کی قسم یہ خدا کے دشمن لوگ غلط کہہ رہے ہیں ! ابوطالب انبیا صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھیوں میں سے ہے اور وہ لوگ کتنے اچھے ساتھی ہیں .(7 )
كوتاه سخن اگر علمای اہل تسنن بھی تھوڑا انصاف سے کام لیتے تو ايمان ابو طالب(ع) کو درک کرلیتے کہ ایمان کے کتنے درجے پر آپ فائز ہیں .لیکن بعض خود غرض اور بغض اور کینہ دل میں رکھنے والے لوگوں نے ایک جعلی اور ضعیف روایت جو حدیث ضحضاح کے نام سے مشہور ہے کو دلیل بنا کر امير المؤمنين کے پدر گرامی اور پيامبر اكرم ﷺ کے چچا ابو طالب ايمان لائے بغیر اس دنیا سے چلے گئے ہیں .اگران لوگوں کو اہل بیت اور علی ابن ابی طالب سے دشمنی نہ ہوتی تو ان ساری صحیح اور معتبر حدیثوں میں سے صرف ایک ضعیف حدیث کو نہیں اپناتے . اور شيخ بطحا مؤمن قريش پيامبر اسلام ﷺکے بڑے حامى پر یہ تہمت نہ لگاتے .(8 )
محققین اور راويو ں نے اس حديث کی بررسى اور گہری تحقيق کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالے ہیں کہ یہ حدیث مورد اعتماد نہیں ہے . علمای اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو نقل کرنے والے جھوٹے ، بعض مجہول اور بعض علی اور اولاد علی (ع)سے بغض و کینہ رکھنے والے تھے . جن میں سے ایک مغيرة بن شعبہ ہے جو ایک فاسق و فاجر اور سرسخت دشمن اہل بیت تھا .اس بارے میں درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں :
1- اسنى المطالب في نجاة ابي طالب، سيد احمد زينى دحلان.
2- شيخ الأبطح او ابو طالب، سيد محمد علي آل شرف الدين.
3- الطرائف-ترجمه داود الهامى، ص: 461.
4- الشهاب الثاقب، لرجم كفر ابى طالب، شيخ نجم الدين.
5- ايمان ابى طالب، ابو على كوفى.
6- ايمان ابى طالب، مرحوم مفيد.
7- ايمان ابى طالب، ابن طاوس.
8- ايمان ابى طالب، احمد بن قاسم.
9- بغية الطالب ..، سيد محمد عباس تسترى .
10- موہاب الوہب في فضائل ابى طالب.
11- الحجة على الذاهب الى تكفير ابى طالب، سيد فخار.(9 )
امام کاظم (ع) سے روایت ہے: لووضع ایمان ابی طالب فی کفة وایمان الخلایق فی الکفة الاخری لرجح ایمان ابی طالب علی ایمانهم ... فکان والله امیرالمؤمنین یحجّ عن ابيه و امه وعن اب رسول الله حتی مضی ، ووصّی الحسن والحسین (ع) بمثل ذالک ، وکل امام منّا یفعل ذالک الی ان یظهر امره .(10 )
یعنی اگر ایمان ابوطالب(ع) کو ترازو کے ا یک پلڑے میں قرار دیدے ا ور دوسرے تمام مخلوقات کے ایمان کو دوسرے پلڑےمیں رکھ دئے جائیں تو ابوطالب(ع) کا ایمان دوسرے تمام مخلوقات کے ایمان سے زیادہ بھاری ہوگا ... خدا کی قسم امیر المؤمنین (ع) جب تک زندہ رہے اپنے باپ، ماں اور رسول خدا ﷺکی نیابت میں حج انجام دیتے رہے .اور حسن و حسین (ع) کو بھی وصیت کرگئے کہ وہ لوگ بھی اسی طرح ان کی نیابت میں حج انجام دیتے رہیں .اور ہم میں سے ہر امام اس سنت پر عمل کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آخری حجت کا ظہور ہوگا .
عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ أَبِي طَالِبٍ أَ كَانَ مُؤْمِناً فَقَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ هَاهُنَا قَوْماً يَزْعُمُونَ أَنَّهُ كَافِرٌ فَقَالَ وَا عَجَبہ أَ يَطْعَنُونَ عَلَى أَبِي طَالِبٍ أَوْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَ قَدْ نَهَاهُ اللَّهُ أَنْ يُقِرَّ مُؤْمِنَةً مَعَ كَافِرٍ فِي غَيْرِ آيَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ وَ لَا يَشُكُّ أَحَدٌ أَنَّ بِنْتَ أَسَدٍ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ السَّابِقَاتِ وَ أَنَّهَا لَمْ تَزَلْ تَحْتَ أَبِي طَالِبٍ حَتَّى مَاتَ أَبُو طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.(11 )
امام سجاد (ع) سے ایمان ابوطالب (ع) کے بارے میں سوال ہوا: کیا وہ مؤمن تھے ؟ تو فرمایا : ہاں .راوی نے عرض کیا : یہاں ایک قوم رہتی ہے جن کا عقیدہ ہے کہ ابوطالب حالت کفر میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں ! تو امام نے فرمایا : واعجبا ! کیا وہ لوگ ابوطالب پر طعنہ اور تہمت لگا رہے ہیں یا رسول خدا ﷺ پر ؟! جب کہ خدا تعالی نے قرآن مجید کی کئی آیات میں کفار کے ساتھ ازدواج کو ممنوع قرار دیا ہے؛ اور اس میں بھی کسی کو شک نہیں کہ فاطمہ بنت اسد مؤمنہ عورتوں میں سے تھی اور مرتے دم تک ابوطالب کی زوجیت میں رہی .
اور یہ دوسری دلیل ہے ایمان ابوطالب پر کہ مسلمان عورتوں کا کافروں کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے ؛ چنانچہ . جب زینب نے اسلام قبول کیا ، اور ابی العاص نے شریعت اسلام قبول نہیں کیا تو اسلام نے ابی العاص کے ایمان لانے تک ان کے درمیان فاصلہ ڈالا. اور جب اس نے ایمان لایا تو دوبارہ نکاح پڑھ کر ان کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا (12 )
لیکن حضرت فاطمه بنت اسد(س) وہ پہلی خاتون ہیں جس نے مکہ سے مدینے میں رسول خدا(ص) کی طرف ہجرت کی ہیں اور آپ پيامبر اسلام(ص) کیلئے مہربان ترین خاتون تھيز(13 ).
جب آپ رحلت کرگئی تو امير المؤمنين(ع) روتے ہوئے رسول خدا(ص) کی خدمت میں تشریف لائے . رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا : یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں فاطمہ اس نیا سے رحلت کر گئی ہے . فقال رسولالله(ص): امي والله! تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خدا کی قسم وہ میری ماں تھی . آپ ﷺ روتے ہوئے تشریف لائے اور تشییع جنازے میں شریک ہوئے ز(14 )
پس اگر فاطمه بنت اسد(س) مؤمنه تھی اور ابو طالب(ع) كافر، تو کیسے پيامبر اسلام(ص) نے ان کے درمیان جدائی نہیں ڈالی ؟!کیسے یہ تصور ممكن ہے كه پيامبر اسلام(ص) نے ایک مهمترين احكام اسلام سے چشم پوشي كرتے ہوئے اس حکم کو تعطيل كیا ہو؟!ز(15 )
..............
(1 ). سوره جمعه۲.
(2 ). سوره حجرات۱۳.
(3 ). الغدير، ج۷ ، ص۳۳۴.
(4 ) . شرح نهج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ج۱۴،ص۸۴.
(5 ) . بحار الانوار،ج۳۵، ص۱۶.
(6 ) . كنز الفوائد ،ص۸۰.
(7 ). الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص۴۴۸.
(8 ). الطرائف؛ترجمه داود الهامى؛ ايمان ابو طالب ص460.
(9 ) . ہمان، ص 461.
(10 ) . مستدرک الوسایل،ج۸،ص۷۰.
(11 ) . بحار ،ج ۳۵، ص ۱۱۷.
(12 ). تنقيح المقال في علم الرجال،ج۳،ص۷۹.
(13 ) . اصول كافي ،ج۱،باب امير المؤمنين .
(14 ) . ہمان .
(15 ) . بحار الانوار،ج۳۵،ص۱۱۵.
source : http://www.alhassanain.com