اردو
Friday 1st of November 2024
0
نفر 0

پیغمبروں کی بھیجنے کے بارے میں

ہمارا عقیدہ ہے کہ نبوت اور پیغمبری ایک خدائی ذمے داری اور الوہی نمائندگی ہے اور خدا یہ منصب اپنے کامل، لائق اور نیک بندوں اور دوستوں میں سے منتخب لوگوں کو عطا فرماتا ہےاور ان کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کی بھلائی اور فائدے کے لیے انسانوں کی رہنمائی کریں۔

خدا اپنے پیغمبروں کو اس لیے بھیجتا ہے کہ وہ انسانوں کو بری عادتوں، خراب خصلتوں اور غلط رسموں سے بچائیں اور انہیں پاک بنائیں، عقل و شعور کی باتیں سکھائیں اور نیکی کی راہیں دکھائیں تاکہ انسان پیغمبروں کی رہنمائی میں انسانیت کے اس کمال تک پہنچ جائیں جو ان کے شایان شان ہے اور دنیا و آخرت کے بلند مقاموں اور درجوں پر فائز ہوں۔

ہمارے عقیدے کے مطابق مہربان خدا قانون ""کطف"" کے باعث (جس کی تشریح آگے کی جائے گی) انسانوں کی رہنمائی اور دنیا کی اصلاح کا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے پیغمبر بھیجتا ہے اور وہ پیغمبر خداءی منصب دار اور نمائندے ہوتے ہیں۔

ہمارے عقیدے کے مطابق یہ بھی ہے کہ خدا نے انسانوں کو اپنے لیے خود کوئی پیغمبر مقرر، پسند یا منتخب کرنے کا حق نہیں دیا۔ لوگوں سے اس بارے میں کوئی رائے نہیں لی جاتی بلکہ ان تمام باتوں کا اختیار صرف خدا کو ہے کیونکہ وہ قرآن میں فرماتا ہے :

اَللہُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسٰلَتَہُ :۔ خدا یہ بات سب سے بہتر طور پر جانتا ہے کہ رسالت کس کو عطا کرے۔ (سورہ انعام ۔ آیت ۱۲۵ کا جزو)

اسی طرح انسانوں کو چاہیے کہ وہ پیغمبروں کا حکم مانیں۔ انہیں یہ حق نہیں ہے کہ ان پیغمبروں پر اپنا حکم چلائیں (ان کی بات کے مقابلے میں کوئی دوسری بات کہیں) جن کو خدا نے نیک راہ دکھانے ، خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور وہ اس کے بھی مجاز نہیں ہیں کہ پیغمبروں کے احکام اور قوانین میں کوئی عذر اور تامل کریں۔

پیغمبروں کا بھیجنا لطف خداوندی ہے :۔

انسان عجیب و غریب مخلوق ہے ۔ اس کے حالات بھی حیرت انگیز ہیں اور اس کی پیدائش، اس کے جسم و روح اور سوچ بچار کے لحاظ سے بہت ہی مرموز، پر اسرار اور پیچیدہ ہے بلکہ ہر انسان اپنی صورت اور خصوصیات کے لحاظ سے منفرد پیدا ہوا ہے اور ایسی جبلتیں اور فطری نقاضے رکھتا ہے جو اسے بدی کی طرف لے جاتے ہیں اور ایسے محرکام کا بھی مالک ہے جونیکی کی طرف اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔

ایک طرف انسان جبلتوں اور جذبوں مثلاً خود غرضی، لالچ اور غرور کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشوں کا غلام ہے اور جارحیت ، توسیع پسندی دوسرں کو محکوم بنانے اور دنیا کا مال اور شان و شوکت حاصل کرنے کے لیے تلاش اور جدوجہد میں مبتلا ہے ، جیسا کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے :

اِنَّ الاِنسَانَ لَفِی خُسرٍ :۔ انسان گھاٹے میں ہے ۔ (سورہ عصر ۔ آیت ۲)

اور دوسرے مقام پر کہتا ہے کہ

اِنَّ الاِنسَان لَیَطغٰی ، اَن رَّاٰہُ استَغنٰی : جب انسان اپنے آپ کو مستغنی پاتا ہے ، تو بغاوت کر اٹھتا ہے ، (سورہ علق ۔ آیت ۶۔۷)

یا اِنَّ النَّفسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوٓءِ :۔ انسان کا نفس اسے ہمیشہ بدی کا حکم دیتا ہے (سورہ یوسف ۔ آیت ۵۳)

اسی طرح دوسری آیتیں بھی بڑی وضاحت سے یہ بات بتاتی ہیں کہ انسان سرکش جذبات اور رجحانات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ۔

دوسری طرف خدا نے انسان میں عقل کی طاقت بھی رکھی ہے جو نیکی اور اصلاح کی طرف انسان کی رہنمائی کرتی ہے اور اسے ملامت کرنے والا نفس اور ضمیر بھی دیا ہے جو اسے برائیوں اور ظلموں سے روکتا ہے ، برے اور ناپسندیدہ کاموں کے برے نتیجے سے خبردار اور آگاہ کرتا رہتا ہے۔

انسان کے وجود میں ہمیشہ نفسانی خواہشات اور میلانات کا عقل اور سوچ کی قوت سے جھگڑا رہتا ہے جو شخص اپنی عقل کو جذبات پر غالب رکھتا ہے وہ بلند مقام پر فاءز اور ان لوگوں کی صف میں مشار ہوتا ہے جو شرافت اور اخلاق کی راہ میں قدم رکھتے ہیں اور روحانیت میں درجہ کمال کو پہنچ گئے ہیں اور جو شخص اپنے نفسانی میلانات اور خواہشات کو عقل اور فکر پر مسلط کرلیتا ہے وہ گھٹیا اور انسانیت کی راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے زمرے میں آتا ہے اور جانوروں کی صف میں جگہ پاتا ہے۔

ان دو مخالف فریقوں میں سے جو ہمیشہ انسان کے اندر لڑتے رہتے ہیں نفسانی خواہشات اور ان کی فوج کا فریق انسانی طبیعت پر غالب آنے کے لیے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے چنانچہ نفسانی خواہشات کی پیروی میں اور دلی جذبات کو تسکین دینے کی وجہ سے زیادہ تر انسان گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور ہدایت کے راستے سے دور ہوگئے ہیں جیسا کہ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :

وَمَآ اَکثَرُ النّاسِ وَلَو حَرَصتَ بِمُئومِنِینَ :۔ اے پیغمبر ! اگرچہ لوگوں کے ایمان لانے کی آپ کو بہت فکر ہے لیکن ان میں سے بیشتر ایمان نہیں لائیں گے۔ (سورہ یوسف ؑ آیت ۱۰۳)

اس کے علاوہ ان چیزوں کے متعلق جو انسان کو گھیرے ہوئے ہیں یا جنہیں وہ خود بناتا ہے اس کی معلومات کی کمی اور ان کے تمام رازوں اور پوشیدہ حقیقتوں سے اس کی ناواقفیت کی وجہ سے وہ اس قابل نہیں ہے کہ نفع نقصان کے اسباب پہچان سکے اور اپنی خوش بختی اور بدبختی کی وجوہ سمجھ سکے۔ نہ وہ ایسی باتیں اور معاملے سمجھ سکتا ہے جو صرف اس سے مخصوص ہیں، نہ وہ جو تمام انسانوں اور ان کے سماج کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ انسان ہمیشہ اپنے معاملات میں بے خبر رہتا ہے اور قدرتی معاملات اور مادی مظاہر کو پہچاننے کے لیے جتنا آگے بڑھتا ہے اس کی ناواقفیت بھی بڑھتی جاتی ہے اور وہ اپنے علم کی کمی کو زیادہ محسوس کرنے لگتا ہے۔

اس بنا پر انسان نیکی کے بلند درجے حاصل کرنے کے لیے ان لوگوں کا سخت محتاج ہے جو اسے نیکی اور ہدایت کا روسن راستا دکھائیں تاکہ ان کی رہنمائی کے سائے میں وہ اپنی عقل کی قوت کو مستحکم بنا کر نفس جیسے ڈھیٹ دشمن پر اس وقت فتح حاصل کرے جب کہ وہ اپنے آپ کو عقل اور خواہشات کے درمیان سخت مقابلے کی صورت حال پھنسا ہوا پاتا ہے ۔

سب سے زیادہ سخت وقت، جب انسان ان کی رہنمائی کا محتاج ہوتا ہے وہ ہے جب نفسانی خواہشات اور جذبات حقائق کو الٹ کر دکھاتے اور دھوکا دیتےہیں اور چونکہ یہی اتفاق زیادہ پیش آتا ہے کہ ہمارے نفسانی رجحانات برے کاموں اور غلط رویوں کو دلکش اور دلفریب بنا کر دکھاتے ہیں اس لیے انسان ہر برائی کو اچھائی اور ہر اچھائی کو برائی سمجھنے لگتا ہے یہ نفسانی خواہشات خصوصاً ایسے وقت میں جب عقل کی قوت باسعادت اور بے سعادت کاموں کی پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ دھوکے بازی اور فریب سے کام لینے لگتی ہیں، ہم میں سے ہر شخص وہ چاہے نہ چاہے ، جذبات اور عقل کی کشمکش کا مارا ہوا ہے لیکن جسے خدا نے معصوم بنایا ہے وہ ہمیشہ اپنے جذبات پر غالب رہتا ہے ۔

تہذیب یافتہ اور دانش ور انسانوں کا تو ذکر ہی کیا، وحشی انسانوں کے لیے بھی یہ حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسانوں کی خوشحالی اور بھلائی کی راہ پر ڈالیں اور اپنے اور اپنے سماج کے بھی تمام دینوی اور اخروی فائدے اور نقصانات پہچانیں، ایک دوسرے کے خیالات سے مدد لیں اور کانفرنسیں ، کانگریسیں اور مشاورتی مجلسیں وغیرہ ترتیب دیں۔

اس بنا پر اور مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے خدا پر واجب ہے کہ وہ اپنے بندوں پر مہربانی، لطف و رحمت اور شفقت کے طور پر پیغمبر مقرر کرے تاکہ وہ انسانوں کو آیات الہٰی سنائیں، ان کی پلیدی سے پاک کریں، کتاب اور حکمت سکھائیں، تباہی اور بربادی سے ڈرائیں اور انسانی بھلائی کے کاموں اور نیکی کے انعامات کی خوش خبری سنائیں

(لَقَد مَنَّ عَلَی المُئومِنِینَ اَذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولاً مِن اَنفُسِہِم یَتلُوا عَلَیھِم اٰیَاتِہِ وَیُزَکِّھِم وَیُعَلِّمُھُمُ الکِتٰبَ وَالحِکمَۃَ : (سورہ آل عمران ۔ آیت ۱۶۴)

خدا پر لطف کے واجب ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ بندوں پر اس کی رحمت اور اس کے مطلق کمال کا تقاضا ہے اور وہ اپنے بندوں پر لطف اور رحمت رکھتے ہوئے سخاوت اور بخشش کرنے والا بھی ہے اس وقت جب کہ خدا کی فیض رسانی اور سخاوت کی شرطیں موجود ہوں تو ہرگز ہرگز وہ مہربانی سے دریغ نہیں کرے گا کیونکہ اس کی رحمت کے میدان میں کنجوسی نہیں ہے اور اس کی بخشش اور سخاوت کے دریا میں کوئی کمی نہیں ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی دھیان رکھیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا پر یہ لازم ہے کہ وہ لطف کرے تو اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے کسی نے اسے حکم دیا ہےجس کی فرماں برداری اس پر واجب ہو بلکہ اس بارے میں واجب ہونے کے معنیٰ بالکل اسی طرح کے ہیں جیسے ہم خدا کے بارے میں کہیں کہ خدا واجب الوجود یعنی ناممکن ہے کہ خدا سے وجود الگ ہوجائے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ خدا کا لطف و کرم اس سے جدا ہوجائے۔


source : http://wilayat.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسین (ع) کی حیات طیبہ پر ایک نظر
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
آیا واقعۂ غدیر ولایت کے اعلان کے لئے تھا؟
شب قدر
وحی کا ظھور
سادات کی ہجرت کے اسباب
حضرت معصومہ عليہا السلام کا مدينہ سے قم تک کا سفر
تشیع اسلام کا ہم عمر
حج، ایک عوامی اسلامی اجتماع
حضرت فاطمہ زہراء (س) کی خوشنودی میں پیغمبر اسلام ...

 
user comment