اردو
Wednesday 24th of July 2024
0
نفر 0

امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سء بکثرت احادیث نقل ہوئی اس کے باوجود ان کا کلام کسی کتاب کی صورت میں ظاہر نہیں ہے۔

 

اس سوال کا جواب دینے کے لئے، پھلے ان اماموں کے زمانہ کے لحاظ سے تفاوت اور دوسرے اسلامی مذاھب کے ان کے بارے میں نظریاتی اختلاف کو جاننا ضروری ھے اور اس کے بعد امام علی علیہ السلام کے لئے نھج البلاغہ تالیف کرنے کی دلیل اور دوسرے اماموں کے بارے میں اس کے مشابہ کتابیں تالیف نہ کرنے کی وجوھات کو جاننا چاھئے۔ اس بنا پر مندرجہ ذیل نکات قابل غور ھیں:

1۔ جیسا کہ ھم جانتے ھیں، کہ تنھا امام جو ایک مختصر مدت تک مسلمانوں کے خلیفہ اور حاکم کے عنوان سے اسلامی معاشرہ میں اپنی ذمہ داری نبھا سکے ھیں، وہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام تھے کہ انھوں نے ۵ سال تک مسلمانوں کی خلافت و حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ھے۔ قدرتی بات ھے کہ جب اس امام کے اختیار میں حکومت تھی،تو ان کے لئے طولانی خطبے اور دستور اور راھنمائیوں کو دوسروں کے اختیار میں دینے کی فرصت ملی تھی اور راوی اور کاتب آسانی کے ساتھ ان کے بیانات کو ثبت و ضبط کرکے دوسروں کے اختیار میں دیتے تھے۔ دوسری جانب ، تمام اسلامی فرقے، اگرچہ امام علی علیہ السلام کو شیعوں کے مانند خلیفہ بلا فصل نھیں جانتے تھے، لیکن بھرحال، حضرت {ع} کو خلفائے راشدین میں سے ایک جانتے ھوئے ان کے کلام کا اپنی کتابوں میں ذکر کرتے تھے۔[1]

۲۔ امام باقر اور امام صادق علیھما السلام کو معارف اسلامی اور اصول دین بیان کرنے کی فرصت اموی حکومت کے کمزور ھونے اور عباسیوں کو قدرت منتقل ھونے کے زمانہ میں ملی۔ اس کے باوجود کہ اس زمانہ میں ان دو اماموں کے لئے قدرے مناسب حالات پیدا ھوئے تھے کہ معارف اسلامی کو پھیلانے اور ھزاروں شاگردوں کی تربیت کا کام انجام دینے کا اقدام کریں، اور بھت سے اھل سنت دانشور بھی ان سے مستفید ھوئے ھیں، لیکن بھرحال، انھیں حضرت علی علیہ السلام کی جیسی فرصت نھیں ملی ھے اور انھیں قول و فعل میں احتیاط سے عمل کرنا پڑتا تھا، تاکہ ان کی زندگی اور ان کے شیعہ خطرات سے دوچار نہ ھو جائیں اور طرفین {امویوں اور عباسیوں} میں سے کسی ایک کی طرف سے کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ھو جائے! اس بناپر، وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے مانند طولانی خطبے کم بیان فرماتے تھے اور اکثر مواقع پر لوگوں کے صرف سوالات کا جواب دینے پر اکتفا کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ھے کہ امام باقر علیہ السلام بھت مواقع پر اپنی روایتوں کو حتی کہ جابر جیسے راویوں کے واسطہ سے قرار دینے کے بجائے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام سے براہ راست استناد کرتے تھے، تاکہ دوسرے اسلامی فرقے بھی انھیں آسانی کے ساتھ قبول کرلیں[2]!

3۔ قابل ذکر بات ھے کہ ان بزرگوار کے بیانات، خواہ امام علی علیہ السلام یا امام باقر و امام صادق {علیھما السلام}، یادوسرے ائمہ علیھم السلام کے ھوں ان کی زندگی میں کتابی صورت میں تدوین و تالیف نھیں ھوئے ھیں، بلکہ ھر راوی اور ھر مولف ان کے کلام کے ایک حصہ کو منعکس کرتا تھا۔ بعض راویوں نے، صرف اپنی روایتوں کو"اصل" نامی ایک کتاب میں جمع کرکے دوسروں کے اختیار میں دیا ھے جو " اصول اربعمائۃٰ کے نام سے تدوین ھوئے ھیں اور علامہ مجلسی نے ان میں سے بعض اصول کو اپنی کتاب "بحار الانوار" کی ابتداء میں ذکر کیا ھے۔ ان کتابوں اور اصولوں کو روایتوں کے ابتدائی مجموعہ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ھے جو بعد میں "کتاب اربعہ" کے عنوان سے تدوین ھوئے ھیں اور ان کتابوں کی احادیث صرف ان دو اماموں سے مخصوص نھیں ھیں بلکہ تمام اماموں کی احادیث پر مشتمل ھیں البتہ جیسا کہ آپ کے سوال میں بھی اس کی طرف اشارہ کیاگیا ھے، ان اصولوں میں درج اکثر روایتیں امام باقر اور امام صادق علیھما السلام سے نقل کی گئی ھیں اور اس کی وجہ بھی ان دو اماموں کے لئے نسبتاً آزاد ماحول کا پیدا ھونا ھے۔

۴۔ جب تک معصوم امام موجود تھے، تمام راویوں کی روایتوں پر مشتمل جامع اور وسیع کتابوں کو تدوین کرنے کی ضرورت محسوس نھیں کی جاتی تھی اور ان کی ضرورت کا احساس اس وقت ھوا جب امام {ع} کے عصر غیبت کا زمانہ شروع ھوا اور لوگوں کے لئے معصوم امام تک براہ راست رسائی تقریباً نا ممکن ھوگئی، اسی لئے شیعہ علماء نے ان اماموں کے کلام کو جمع کرنا شروع کیا۔ اس بنا پر ھم مشاھدہ کرتے ھیں کہ اس قسم کی اکثر کتابیں تیسری صدی سے پانچویں صدی ھجری تک تالیف کی گئی ھیں، جن میں کتب اربعہ،  تحفہ العقول اور نھج البلاغہ وغیرہ قابل ذکر ھیں۔ احادیث کی اکثر کتابیں تمام معصومین کے کلام پر مشتمل ھیں، لیکن ان میں سے بعض کتابیں، جیسے نھج البلاغہ اور غرر الحکم ایک امام سے مخصوص ھیں۔

۵۔ جو کچھ آج کے فقھا اور محققین کو علوم اسلامی میں ضرورت ھے وہ معصومین کے احادیث اور کلام کے موضوع اور باب بندی ھے نہ کہ ھر معصوم کے کلام کو ایک کتاب کی صورت میں تالیف کرنا، اگرچہ اس کا ھونا بھی مفید ھے۔ لیکن چونکہ تمام معصومین {ع} کا کلام اعتبار کے لحاظ سے ایک عالی مرتبہ پر قرار پاتا ھے اس لحاظ سے ان میں کوئی فرق نھیں ھے، دوسری جانب اکثر اوقات ھمارے علماء شبھات اور فقھی و کلامی مشکلات کو دور کرنے کے لئے روایات سے مختلف ابواب اور مشخص موضوعات میں استفادہ کرتے ھیں، اس لحاظ سے جو کچھ آج ھماری دست رس میں ھے وہ زیادہ ضروری لگتا ھے۔

۶۔ ان قرون کے دوران عباسی خلفا نے مکمل طور پر اقتدار کو اپنے ھاتھ میں لے لیا تھا، دوسرے اھل سنت کے مانند، امیرالمومنین {ع} سے کوئی خاص حساسیت نھیں رکھتے تھے، بلکہ بظاھر ان کے لئے خاص احترام کے قائل تھے۔ اسی وجہ سے سید رضی{رح} کا امیرالمومنین {ع} کے کلام کو جمع کرکے " نھج البلاغہ" نام کی کتاب کی صورت میں تدوین کرنا، اور وہ بھی عباسی خلافت کے مرکز بغداد میں، کسی مخالفت سے دوچار نھیں ھوا، کیونکہ امام کا اکثر کلام اس سے پھلے اھل سنت کی کتابوں میں موجود تھا۔[3] لیکن ھر ایک امام خاص کر امام باقر{ع} اور امام جعفر صادق{ع} کے کلام پر مشتمل کتابوں کی تدوین، ممکن تھا خلفائے عباسی کی حساسیت کو متحرک کردیتی۔ خاص کر اس لئے کہ مثال کے طور پر چھٹے امام {ع} نے خلافت عباسی کے روئے کار آنے کی ابتداء سے، ان کی کچھ مخالفتیں کی تھیں[4] اور دوسرے ائمہ بھی بعد میں ان کے ساتھ ٹکراﺅ میں تھے اور امام اول اور بنی عباسیوں کے دور سے قبل والے اماموں کے علاوہ ھر امام {ع} کی ایک جداگانہ کتاب کے تدوین ھونے سے، ممکن تھا، خلافت کے آل علی{ع} میں منحصر ھونے کے عقیدہ کی تاکید ھوتی، اور اس قسم کا کام بنی عباسیوں کی مرضی کے خلاف تھا۔ اسی وجہ سے شیعہ علماء نے ترجیح دی کہ ان اماموں سے نقل کی گئی احادیث کو نبوی اور علوی روایتوں کے ھمراہ "کافی" اور "تھذیب" و "فقیہ" جیسی کتابوں میں درج کریں تاکہ حساسیت کو پیدا ھونے سے روکا جائے۔

۷۔ اس قسم کے مجموعے بعد والی صدیوں میں جمع ھوئے ھیں، جیسے بحارالانوار اور وسائل الشیعہ وغیرہ، اگر چہ ان مجموعوں میں زیادہ تر روایتیں پانچویں اور چھٹے امام {ع} سے متعلق ھیں، لیکن ان کو دوسری روایتوں سے جدا کرنے کا کام نھیں کیاگیا، البتہ اب حالیہ برسوں کے دوران  معصوم کی احادیث کو الگ سے تدوین کرکے کتابوں کی صورت میں شائع کرنے کا کام شروع ھوا ھے۔ اس سلسلہ میں جناب عزیز اللہ عطاردی کی تالیف شدہ مسند امام باقر {ع} و مسند امام صادق {ع} کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ھے کہ ان میں سے ھر ایک کتاب چند جلدوں پر مشتمل ھے۔[5]اس کے علاوہ کچھ اور کوششیں بھی کی جارھی ھیں کہ ان کو مکمل کرنے کے بعد ھم ھر معصوم {ع} کی احادیث کو الگ سافٹ ویر میں مشاھدہ کرسکتے ھیں۔

احادیث کی مرجع کتابوں اور مذکور مسندات کی طرف رجوع کرکے یقیناً آپ اس نتیجہ پر پھنچ سکتے ھیں کہ اکثر روایتیں ان دو اماموں، یعنی امام باقر{ع} اور امام صادق {ع} سے نقل کی گئی ھیں۔

[1] ۔ البتہ نواصب و خوارج کا حساب الگ ھے اور ان کی آبادی بھت کم ھے اور ان کے ساتھغ دشمنی رکھتے تھے۔

[2] - رجال کشی، ص 41، انتشارات دانشگاه مشهد، 1348 هـ ش.

[3] ۔ ملاحظہ ھو:ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 1، ص 204، کتابخانه آیت الله مرعشی، قم، 1404 هـ .

[4] ۔ ملاحظہ ھو: مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 47، ص 162، باب 6، مؤسسه الوفاء، بیروت، لبنان، 1404 هـ .

[5] ۔ اس محترم مولف نے تمام اماموں {ع} کے بارے میں بھی ایسا ھی کام انجام دیا ھے۔

 


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حدیث میں آیا ہے کہ دو افراد کے درمیان صلح کرانا، ...
کیا ابوبکر اور عمر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ...
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا قرضہ ادا کرنے کے لیے جمع کئے گئے پیسے پر خمس ...
حضرت زینب (س) نے کب وفات پائی اور کہاں دفن ہیں؟
کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟
زکوٰۃ کن چیزوں پر واجب ہوتی ہے ؟
عرش و کرسی کیا ھے؟
صراط مستقیم کیا ہے ؟
خداوند متعال نے سب انسانوں کو مسلمان کیوں نھیں ...

 
user comment