اس بحث كے دوران ہمیں یہ دیكھنا ہے كہ قرآن انبیاء الہٰی كا تعارف كس طرح كراتا ہے اور ان كے لئے كن صفات و خصوصیات كا ذكر كرتا ہے اس بحث سے ہم اجمالی طور سے تین نتیجے اخذ كرتے ہیں۔
1. قرآن ہمیں انبیاء كرام كے سلسلے میں ہر طرح كی افراط و تفریط سے روكتا ہے۔ یعنی جب ہم قرآن كے تعارف كی نوعیت و كیفیت كو سمجھ لیں گے تو پھر ان كے بارے میں حد سے آگے نہیں بڑھیں گے پیغمبروں كے لئے خدائی پہلوؤں كے قائل نہ ہوں گے نہ انہیں خدا كی طرف رشتہ كی شكل میں منسوب كریں گے اور نہ ہی خدا كی طرح ان كے اختیار مطلق، امور عالم میں ان كی كارفرمائی، رزق كی تقسیم اور ان كے قاضی الحاجات ہونے كے قائل ہوں گے۔
2. اسی طرح ہم انبیاء كرام كے فضل و شرف اور ان پر اعتبار و یقین كی نوعیت كو سمجھ لیں گے تاكہ ہمارے لئے ان كے اخلاق اور كرادار و فضائل اسوہ اور نمونہ عمل بن جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی جان جائیں كہ یہ انبیاء جو خلق كے رہبر تھے، كون تھے اور كیا چاہتے تھے؟ اور ان كی پیروی كا دعویٰ كرنے والے اور دوست دار كیسے ہیں اور اپنے رہبر سے كس حد تك فاصلہ ركھتے ہیں؟
3. ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوجائے گا كہ ان كے سلسلہ میں الہٰی انتخاب بلاسوچے سمجھے نہیں تھا۔ اور اگر خدا وند عالم نے ان كو لوگوں كی رہبری وہدایت كے لئے چنا ہے تو یہ افراد بھی اعلیٰ و بہترین انسانی و معنوی صفات و فضائل سے آراستہ رہے ہیں۔ انبیاء كرام سے مربوط قرآنی آیات كی تحقیق سے پتہ چلتا ہے كہ ان كے تقریباً چالیس صفات و فضائل بیان كئے گئے ہیں۔ جن كی طرف ہم ذیل میں اشارہ كرتے ہیں۔
انبیاء كرام (ع) سے مربوط قرآنی آیات كے بعض صفات
عبد
یعنی بندہ۔ ایسا شخص جو پورے طور سے خود كو خدا كے اختیار میں سمجھتا ہے اور اسی كے احكام كی پیروی كرتا ہے خود اپنے لئے كوئی اختیار یا كسی مطلق ارادہ كا قائل نہیں ہے اور اپنی ذات میں كسی خدائی پہلو كا اظہار نہیں كرتا۔ یہ لفظ"عبد" حضرت ابراہیم، موسیٰ، ہارون، ایوب، الیاس، سلیمان، داؤد، نوح اور یوسف علیہم السلام وغیرہ كے لئے استعمال ہوا ہے۔ (سورہٴ صافات آیات: ۱۱۲، ۱۲۲، سورہ ص آیات ۴۱، ۳۰، ۱۷۔ سورہٴ اسراء آیت ۳۔ سورہ یوسف آیت ۲۵)
مخلص
یعنی وہ جو صرف خدا كے لئے عمل كرتا ہے اور سوائے خوشنودی و رضائے پروردگار كے خود كوئی نظریہ یا خیال نہیں ركھتا اور نہ كسی طرح كی ظاہرداری، ریاكاری، خود پرستی اور ہوا وہوس كو اپنے اعمال میں جگہ دیتا ہے۔ یہ كلمہ حضرت یوسف(علیہ السلام) كے لئے سورہٴ یوسف كی ۲۵ ویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔
حنیف
اس كے معنی بھی یہ ہیں كہ خدا كے لئے بے لاگ اور خالص عمل انجام دیتا ہے۔ اسی پر اعتقاد ركھتا ہے۔ اس كی توجہ و نگاہ كا مركز صرف خدا كی ذات ہوتی ہے۔ اس كی عبادت و عمل میں شرك كی گرد بھی نہیں پائی جاتی۔ یہ لفظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) كے لئے ذكر ہوا ہے۔ (سورہٴ نحل، آیت ۱۲۳)
مسلم
یعنی جو حكم خدا كے آگے تسلیم ہے اور كسی بھی حالت یا خطرے میں اس كے حكم كی اطاعت سے منہ نہیں موڑتا، كوئی لالچ، دھمكی، یا وسوسہ اس كے آہنی عزم میں خلل انداز نہیں ہوتا اور نہ اسے خدا كی راہ سے دور كرتا ہے۔ یہ لفظ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) و اسماعیل (علیہ السلام) كے لئے ذكرہوا ہے۔ (سورہٴ بقرہ آیات ۱۲۹۔۱۳۲)
صالح
ٍوہ جس كاعمل نیك و شائستہ ہے اور كسی طرح كی بدی، سستی، كجی اور آلودگی اس میں نہیں پائی جاتی۔ یہ لفظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، اسحٰق(علیہ السلام)، یحیٰی(علیہ السلام)، عیسیٰ (علیہ السلام)، زكریا(علیہ السلام)، الیاس (علیہ السلام)، اسماعیل(علیہ السلام)، ادریس(علیہ السلام) اور ذوالكفل(علیہ السلام) كے بارے میں ذكر ہوا ہے۔ (سورہٴ بقرہ آیت ۱۳۱، سورہ صافات آیت ۱۱۳، سورہ آل عمران آیت ۴۰۔۴۷، سورہٴ انعام آیت ۸۵، سورہٴ انبیاء آیت ۸۵)
محسن
یعنی نیكوكار۔ جو لوگوں كے ساتھ اس قدر نیكی كرے اور اچھے اعمال بجالائے كہ اسے نیكو كار كہا جانے لگے۔ یہ كلمہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، ہارون(علیہ السلام)، یوسف(علیہ السلام) اور نوح(علیہ السلام) كے بارے میں آیاہے۔ (سورہٴ صافات: آیت ۱۲۲۔ سورہٴ یوسف آیت: ۲۳۔ سورہٴ ص آیت: ۸۲)
صدّیق
جو شخص بہت زیادہ سچا ہو۔ جس كی رفتار و گفتار سے سوائے سچائی اور بہتری كے كچھ اور ظاہر نہ ہوتا ہو۔ یہ لفظ حضرت یوسف(علیہ السلام) و ادریس(علیہ السلام) كے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ (سورہٴ یوسف آیت ۴۷۔ سورہٴ مریم آیت ۵۵)
صابر
جو شخص بردبار، متحمل اور مضبوط ارادہ كا حامل ہو۔ تمام مشكلات میں ثابت قدم رہے۔ یہ لفظ اولوالعزم پیغمبروں اور جناب ایوب(علیہ السلام) كے لئے استعمال ہوا ہے۔ (سورہٴ احقاف آیت: ۳۵، سورہٴ ص آیت: ۴۱)
امین
یعنی جو صحیح اور قابل اعتماد ہے، كبھی خیانت نہیں كرتا، یہ لفظ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہود(علیہ السلام) كے لئے آیا ہے (سورہٴ دخان، آیت: ۱۹۔ سورہٴ اعراف آیت: ۶۸)
حصور
عفیف و پاكدامن، ہواہوس سے پاك وبری۔ یہ لفظ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) كے لئے ذكر ہوا ہے (سورہٴ آل عمران آیت ۴۰)
تقی
پرہیزگار، جو شخص گناہ، گمراہی و كجروی كے مقابلے میں مقاوم و ثابت قدم رہے اور كسی غلط اور ناپسندیدہ عمل میں ملوث نہ ہو۔
صادق الوعد
جو شخص اپنے كئے ہوئے وعدہ كو وفا كرتا ہے اور اپنے عہدو پیمان و قول و قرار میں سچا رہتا ہے یہ لفظ حضرت اسماعیل كے لئے ذكر ہوا ہے (سورہٴ مریم آیت: ۵۴)
كریم
یعنی جو شخص بخشنے اور درگذركرنے والا ہو كریم النفسی اور بزرگی سے كام لیتا ہو۔ یہ لفظ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ دخان، آیت۱۹) میں ذكر ہوا ہے۔
شكور
شكر گزار بندہ۔ یعنی جو خدا كی نعمتوں كی قدر كرتا ہے اور انہیںراہ خیر میں صرف كرتا ہے، ان كے سلسلہ میں خدا كے احكام سے روگردانی نہیں كرتا اور ہمیشہ خدا كا شكر ادا كرتاہے۔ یہ كلمہ حضرت نوح كے لئے (سورہٴ اسراء آیت: ۳) میں آیا ہے۔
مرضیّ
وہ شخص جس سے خدا راضی و خوشنود ہے۔ یہ لفظ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ مریم آیت ۵۴) میں ملتا ہے۔
حلیم
بردبار یعنی جو شخص اپنا غصہ پی جاتا ہو اور دوسروں كی بدسلوكی و بے ادبی كے مقابلہ میں حلم و متانت كا اظہار كرتا ہو جذبات كے ہاتھوں مغلوب نہیں ہوجاتا۔ یہ لفظ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ توبہ آیت: ۱۱۵) میں آیا ہے۔
عابد
جو شخص اپنے پروردگار كی پرستش و عبادت كرتا ہو، صرف اس كی بارگاہ میں خضوع و خشوع كا اظہار كرتا ہے اور اس كے فرمان سے بغاوت نہیں كرتا۔ یہ لفظ حضرت اسحاق(علیہ السلام) و یعقوب(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ انبیاء آیت ۷۲) میں ذكر ہوا ہے۔
اوّاب
جو شخص خدا كی جانب رجوع كرتا ہے اور ہرخطا و گناہ و گمراہی كی منزل میں اسی كی پناہ حاصل كرتا ہے اور توبہ و استغفاركی راہ سے تقرب حاصل كرتا ہے۔ یہ لفظ حضرت داؤد(علیہ السلام)، سلیمان(علیہ السلام) اور ایوب (علیہ السلام) كے بارے میں ذكر ہوا ہے (سورہٴ ص، آیات: ۱۷، ۳۰، ۴۱)
اوّاہ
وہ شخص جو اپنے پروردگار كے حضور خائف و خاشع ہوتا ہے اور اس كی عظمت كے سامنے اپنی بے مایگی كا اظہار كرتا ہے اور اس كے جلال و جبروت كے آگے گڑگڑاتا ہے۔ یہ كلمہ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ توبہ آیت: ۱۱۵) میں ذكر ہوا ہے۔
قانت
یعنی عابد۔ خدا كی بارگاہ میں خاضع و خاشع رہنے والا اور اس كی جانب میں سر تسلیم خم كرنے والا۔ یہ لفظ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ نحل آیت: ۱۲۳) میں ذكر ہوا ہے۔
خیر
خوب اور نیك، بہتر اور نیكوكار۔ یہ لفظ حضرت اسماعیل(علیہ السلام)، الیسع(علیہ السلام)، ذوالكفل(علیہ السلام)، ابراہیم(علیہ السلام)، اسحاق(علیہ السلام) اور یعقوب(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ ص آیت: ۴۸و۴۵) میں ذكر ہوا ہے۔
مصطفی
پاك، برگزیدہ، انتخاب كیا ہوا، یعنی وہ شخص جو دوسروں سے بہتر اور پاكیزہ تر ہے۔ یہ كلمہ حضرت ابراہیم(علیہ السلام)، اسحاق(علیہ السلام) و یعقوب(علیہ السلام) كے سلسلے میں استعمال ہوا ہے۔ (سورہٴ ص آیت: ۴۵)
مقرّب
یعنی خدا سے نزدیك ہو یعنی تمام انسانی پاكیزہ صفات و فضائل و كمالات سے نہ صرف آراستہ ہو بلكہ ان میں اس قدر پیش قدم ہو كہ فضائل و كمالات كے منبع یعنی خدا سے نزدیك ہوجائے اور اس كے لطف و عنایات كے سمندر میں غوطہ زن ہو۔ یہ لفظ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) كے بارے میں (سورہٴ آل عمران آیت: ۴۷) میں ذكر ہوا ہے۔
وجیہ
آبرو مند، محترم، قابل ستائش اور دنیا و آخرت میں سربلند۔ یہ كلمہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ آل عمران آیت: ۴۷) میں آیا ہے۔
سیّد
پاك وپاكیزہ، آزاد منش، جو شخص روحی طور پر آقاو سردار اور طبعی و فطری طور پر محكم و پائیدار ہو ان كے اُن كے سامنے نہیں جھكتا، چاپلوسی نہیں كرتا۔ مادی طاقتیں اورہیبتیں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔یہ لفظ حضرت یحییٰ(علیہ السلام) كے بارے میں (سورہٴ آل عمران آیت ۴۰) میں ذكر ہوا ہے۔
ذاالاید
یعنی قوی و توانا اور جو شخص ہنر مند ہو۔ یہ كلمہ حضرت داؤد(علیہ السلام) كے لئے (سورہٴ ص آیت ۱۷) میں ذكر ہوا ہے۔
ناصح
خیر خواہ، پندو نصیحت كرنے والا۔ جو شخص صرف لوگوں كی بھلائی چاہتا ہے اور اس راہ میں جد و جہد كرتا رہتا ہے۔ اس كی تمام تر كوشش یہ ہوتی ہے كہ دوسروں كی خدمت كرے۔ یہ لفظ حضرت ہود (علیہ السلام) كے بارے میں (سورہٴ اعراف آیت: ۶۸) میں ذكر ہوا ہے۔
بعض صفات ایسے بھی ہیں كہ انبیاء كرام(علیہم السلام) سے ان كی نفی كی گئی ہے مثلاً:
جبّار
یہ حضرت یحیٰ(علیہ السلام) كے بارے میں آیا ہے كہ وہ جبّار یعنی سركش، ظالم، قاتل، ستمگر اور جارح نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے كہ وہ صفات جو قیصر و كسریٰ میں پائے جاتے تھے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان كی نفی كی گئی ہے۔ (سورہٴ مریم آیت: ۱۴)
عصیّ
جناب یحییٰ(علیہ السلام) كے بارے میں یہ بھی آیا ہے۔ یعنی آپ حكم خدا كے مقابلہ میں نافرمان وگستاخ نہیں تھے۔ اور معصیت و گناہ نے آپ كے دامن كو آلودہ نہیں كیا ہے۔
بقیہ صفات و فضائل كو پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخصوص بحث كے ذیل میں ذكر كیا جائے گا۔
آخر میں یہ ذكر كردینا ضروری ہے كہ جس طرح انبیاء كرام كی دعوت و تبلیغ كی اساس مشترك اور ایك ہے اسی طرح ان كے فضائل و صفات بھی ایك جیسے اور مشترك ہیں اور اگر ہم دیكھتے ہیں كہ ان میں سے ہر ایك صفات بعض پیغمبروں كے لئے ذكر كئے گئے ہیں تو اس كا مطلب یہ ہے كہ ان صفات و فضائل كا ظہور ان پیغمبروں سے مربوط واقعات و حوادث كے ذریعہ زیادہ ہوا ہے۔ یا ان پیغمبروں كی زندگی میں ان صفات كے جلوے دوسرے انبیاء سے زیادہ نظر آئے ہیں۔ اگر چہ مذكورہ تمام صفات و فضائل كو عمومی طور سے سبھی انبیاء كے فضائل میں شمار كئے جاسكتے ہیں۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے بعض صفات
قرآن میں انبیائے كرام(علیہم السلام) كے معنوی چہرے سے متعلق بحث كی تكمیل كے لئے ضروری ہے كہ چند آیات كے ذریعہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے بارے میں بھی اشارہ كردیا جائے۔ اگر چہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے سلسلہ میں الگ سے مستقل اور مفصل بحث آئندہ كی جائے گی۔
عبد
سورہ ٴحدید كی نویں آیت میں ارشاد ہے كہ "خدا ہی ہے جس نے اپنے بندہ (محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر كھلی ہوئی نشانیاں نازل كی ہیں" ہم ذكر كرچكے ہیں كہ لفظ عبد وہ بہترین صفت ہے جو انبیاء علیہم السلام كے لئے استعمال ہوئی ہے۔ كیونكہ خدا كی بندگی ہی میں آزادی ضمیر، سربلندی، استقامت و پائداری، شہامت و اولوالعزمی اور تسلیم و رضا جیسے صفات پوشیدہ ہیں۔
كریم
سورہٴ حاقہ كی آیت: ۴۱ میں ارشادہے: "اِنّہُ لقول رسول كریم" بے شك یہ رسول كریم كا قول ہے اور پہلے بیان ہوچكا ہے كہ كریم كے معنی بزرگی، كرامت نفسی اور درگزر كرنے كے ہیں۔
سورہٴ قلم كی پانچویں آیت میں ارشاد ہے: وَاِنّك لعلیٰ خلق عظیم" بلا شبہ آپ عظیم و بہترین خلق و عادت كے مالك ہیں۔ اس آیت سے یہ پتہ چلتاہے كہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہترین خوبیوں، اخلاق حسنہ اور عظیم روحی صفات سے آراستہ تھے آپ ایسے با عظمت صفات كے حامل تھے كہ خود خدا بھی ان خصال و صفات كو "عظیم" كے لفظ سے یاد كرتا ہے۔
سورہٴ "اعراف" كی آیت نمبر ۱۵۸ میں پیغمبراكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے بارے میں ارشاد ہے: "الذی یومن باللّہ وكلماتہ" وہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خدا اور كلماتِ الہیہ پر ایمان ركھتا ہے۔ اپنے مقصدو ہدف پر ایمان ركھنا ایك ہادی و رہبر كے ضروری ومتاز صفات میں سے ہے۔ جورہبر ہے اسے چاہیئے كہ جوكچھ وہ كہتا ہے اس پر یقین و ایمان بھی ركھتا ہو۔ ورنہ موسمی لیڈر اورخود خواہ رہبر تو اپنے خاص حالات كے تحت باتیں بناتے ہیں اوراپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لاكر پے در پے اپنے منافع و مصالح كے تحفظ كے تحت نئے نئے منصوبے پیش كرتے ہیں۔ انبیاء كرام(علیہم السلام) كی ترقیوں كی اولین شرط خدا اور اس كے احكام پر ان كا محكم وپائدار ایمان تھا اور حضرت رسول اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے سلسلہ میں اس حقیقت كی صراحت كی گئی ہے۔ سورہٴ آل عمران میں ارشاد ہوتا ہے:
"فبما رحمۃ من اللّہ انت لھم ولو كنت فظا غلیظ القلب لانفضو ا من حولك" آل عمران ۱۵۹
یعنی لطف و رحمت پروردگار كی خاطر آپ لوگوں كے لئے نرم دل اور مہربان ہوگئے اور اگر بدخو و سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ سے دور ہوجاتے اور پراگندہ ہوجاتے۔
چنانچہ اخلاق آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدیم المثال تھا۔ آپ نرم گفتار اور مہربان تھے۔ خشونت اور سخت گیری آپ میں نام كو نہ تھی۔ سورہٴ والنجم كی آیات: ۲، ۳، اور ۴ میں ارشاد ہے:
"ماضلّ صاحبكم وما غویٰ وماینطق عن الھویٰ انّ ھو اِلّا وحی یوحیٰ"
یعنی تمہارا پیغمبر نہ گمراہ ہے اور نہ دھوكہ دینے والا ہے وہ اپنی خواہش نفسانی كے تحت كلام نہیں كرتا، اور جو كچھ بھی كہتا ہے اس پر وحی نازل ہوئی ہے۔
ان آیات كے ابتدائی فقروں میں پیغمبر اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی ذات گرامی سے دھوكہ و فریب و گمراہی كی نفی كی گئی ہے اور اس كے بعد اس كا اضافہ كیا گیا ہے كہ آپكی باتیں ہوس و بیجا اغراض سے آلودہ نہیں ہوتیں اگر كسی میں مذكورہ دو تین پہلو صحیح معنی میں نہ پائے جائیں تب بھی وہ انسانی و معنوی فضائل و كمالات كا ایك اعلیٰ نمونہ ہے۔ ساتھ ہی اس بات كی تائید كہ جو كچھ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اس كا تعلق عالم غیب سے ہوتا ہے اور وہ وحی كی شكل میں آپ پر نازل ہوتاہے۔ یہ امر خود آپ كے احكام و آثار كو كس قدر وقعت و عظمت عطا كرتا ہے۔
قیام۔ سجود۔ سورہٴ شعراء كی ایك آیت نمبر۲۱۸ میں ارشاد ہے: " وہ خدا جو تمہیں ہنگام نماز قیام كی حالت میں اور جب تم سجدہ كرنے والوں كے ہمراہ سجدہ میں غلطاں ہوتے ہو دیكھتا ہے۔" یہ آیت خدائے برتر كی عبادت و پرستش كے تحت پیغمبر اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے والا مقام اور اس كی بارگاہ میں ان كے خضوع و خشوع كو ظاہركرتی ہے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے اندر خدا كی عبادت و بندگی كا اس قدر انہماك ہے كہ خدا خود اس كا تذكرہ اس شان سے فرماتا ہے۔
سورہٴ توبہ كی آیت: ۱۲۸ میں ارشاد ہے:
"لقد جاءَ كم رسول من انفسكم عزیز علیہ ما عنتّم حریص علیكم بالمومنین رؤف رّحیم"
"درحقیقت تمہارے پاس تم ہی میں ایك پیغمبر آیا ہے جس پر تمہاری تكالیف و مصائب شاق ہیں اور جو تمہاری نجات اور خوشبختی كا حددرجہ خواہاں ہے اور صاحبانِ ایمان پر بے انتہا مہربان و رحیم كرنے والا ہے۔"
اگر اس آیت پر خوب دقت كی جائے تو عالم تاریخ كا ایك عالی ترین اور درخشاں ترین چہرہ اس میں نظر آئے گا۔ ایسا شخص جس كی روح پر لوگوں كے رنج و غم، فقر، جہالت، اختلاف، ذلت غلامی، فساد و بدبختی گراں گزرتے ہیں اور وہ ان باتوں سے اپنے قلب پر ایك بوجھ محسوس كرتا ہے۔ یعنی وہ سب سے زیادہ لوگوں كی فلاكت و بدبختی پر فكر مند ہوتا ہے اور ان كی پستی و جہالت پر رنجیدہ خاطر ہوتا ہے۔ یہ شخصیت ان سب سے الگ ہے جو صرف اپنے لئے سوچتے ہیں اوراپنی فقر و ناتوانی پر غمزدہ ہوتے ہیں۔ وہ تنہا سب كے درد اپنے دل میں محسوس كرتا ہے۔
ظاہر ہے كہ ایسی بلند و بالا روح كی حامل شخصیت بنی نوع انسان كی نجات كے سلسلہ میں كس قدر فدا كاری سے كام لے گی اور اسے لوگوں كی بھلائی كا كتنا خیال ہوگا۔ اس آیت سے ہمیں یہ تعلیم بھی ملتی ہے كہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں كی سعادت و نیك بختی كے لئے بے انتہا حرص و طمع ركھتے ہیں یعنی آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی صرف لوگوں كی نجات و خوش بختی اور خدمت خلق كی فكر اور والہانہ شوق ہے۔ وہ شخص جس كی تمام تر فكرو كوشش لوگوں كی فلاكت و جہالت دور كرنا اور لوگوں كی خدمت كرنا ہو وہ خود غرض خود خواہ اور مطلبی نہیں ہوسكتا۔ اسے صرف اپنے نفع كی فكر نہیں ہوتی بلكہ وہ لوگوں پر حد درجہ مہربان اور سراپا رحم و كرم ہے۔
وہ معاشرہ كی فلاح اور ہدایت و نجات كے كیف میں اس قدر غرق ہے كہ لوگوں كی گمراہی و فلاكت پر رنج و غم میں اتنا ڈوب جاتا ہے كہ خداوند عالم سورہٴ "فاطر" كی آیت نمبر۸ میں اسے خطاب كرتے ہوئے فرماتا ہے: "فلا تذھب نفسك علیھم حسرات" ان لوگوں كے سلسلہ میں اس قدر رنج و افسوس نہ كرو (كہ اس رنج و غم میں اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھو) یہ مطلب قرآن كی متعدد آیتوں میں آیا ہے۔ اور ان تمام آیتوں میں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كو لوگوں كے سلسلہ میں بے انتہا درد و الم كا احساس كرنے سے روكا گیا ہے۔ ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے كہ رسول اكرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے پورے احساسات و جذبات كے ساتھ لوگوں كی ہدایت كی فكر میں مشغول رہتے تھے اور ان كی بدبختی و گمراہی پر رنجیدہ خاطر ہوجایا كرتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل سے یہ چاہتے تھے كہ سب راہ راست پر آجائیں اور خوشبختی و كمال حاصل كریں۔ سچ ہے كہ: "اللّہ اعلم حیث یجعل رسالتہ" خدا ہی بہتر جانتا ہے كہ كیسے شخص كو منصب رسالت كے لئے انتخاب فرمائے (سورہٴ انعام آیت ۱۲۵)
معجزہ
نبوت كی بحث میں جن مسائل كا ذكر ضروری ہے ان ہی ایك معجزہ بھی ہے۔ معجزہ كا مطلب ہے "اعجاز" یعنی لاجواب كردینا۔ چونكہ پیغمبر نبوت كا دعویٰ كرتا ہے اور یہ كہتا ہے كہ خدا كی جانب سے اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور وحی در اصل ایسی چیز نہیں ہے جسے انسان درك كرسكے۔ لہٰذا ضروری ہے كہ لوگوں پر كسی اور ذریعہ سے اس كی پیغمبری كی حقانیت ثابت ہو تاكہ یہ معلوم ہوجائے كہ وہ حقیقتاً خدا كی جانب سے لوگوں كی ہدایت پر مامور كیا گیا ہے۔
یہ صحیح ہے كہ پیغمبر كے احكام ومعارف كی پائیداری، گفتگو میں حسن تاٴثیر، كلام كی دلنشینی اس كی ذاتی پاكیزگی اور صلح جوئی، عفو ودرگزر، فدا كاری، خیر خواہی، خدمت كا جذبہ اور معاشرہ كی فلاح و نجات سے اس كا لگاؤ ہی بہت سے لوگوں كے لئے اس كی نبوت كی كافی و محكم دلیل ہے اور اسی وجہ سے لوگ اس پر ایمان بھی لاتے ہیںلیكن پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے لئے بہر حال معجزہ ضروری ہوتا ہے۔ كیونكہ مذكورہ بالا كمالات و صفات جھوٹوں، منفعت پرستوں اور باطل كا ادعا كرنے والوں كے لئے راہیں بند نہیں كرسكتے اور ممكن ہے یہ لوگ یوں ہی اپنے حق میں بھی توہمات كے جال بُن كر ان كی صداقت و حقانیت كا دعویٰ كرنے لگیں اور اپنی دعوت كو بہتراور اپنے كلام كو پر اثر ثابت كرنے كی باتیں كریں۔
قرآن میں معجزہ كو آیت اور بیّنہ كے نام سے تعبیر كیا گیا ہے۔ یعنی پیغمبروں كی رسالت كی نشانی اور ان كی حقانیت كا آشكار كرنے والا عمل یا اثر۔ معجزہ كسی بھی علمی پیمانہ یا معیار پر پركھا نہیں جاسكتا اور نہ ہی لوگوں كے لئے قابل عمل ہے۔ كوئی بھی شخص كتنا ہی ماہر فن و تجربہ كار ہو كسی بھی علم یا طاقت و ہنر كے ذریعہ وہ عمل انجام نہیں دے سكتا۔
معجزہ، جادو، سحر، شعبدہ بازی، دست شناسی، فال گیری، علم جبر، علم اعداد، طلسمات یا پیشین گوئی یا ریاضت كشوں كی حركتوں سے بڑا فرق ركھتا۔ كیونكہ اس طرح كے امور زیادہ تر خرافات سونے كے علاوہ۔ دروغ گویوں اور دھوكہ بازوں كے ہاتھوں كے ہتھكنڈے ہیں۔ مزید یہ كہ اگر كسی شاذونادر موقع پر كوئی عمل انجام پاجائے یا یہ لوگ اگر كوئی پیشین گوئی كر بھی دیتے ہیں تو یہی عمل دوسرے بھی انجام دے سكتے ہیں۔ یعنی ایسا ہی جادو یا شعبدہ بازی وغیرہ دوسرے جادوگر یا شعبدہ باز بھی كردكھاتے ہیں۔ بہر حال یہ ایك ایسا فن یا حیلہ گری ہے جو ان ہی جیسے لوگوں كے ذریعہ قابل تكرار یا قابل تقلید ہے۔ اس كے علاوہ ایسے امور نہ صرف یہ كہ كوئی حقیقت نہیں ركھتے بلكہ اكثر و بیشتر ان ہتھكنڈوں كے ذریعہ لوگوں كے سامنے ایسی چیزیں پیش كی جاتی ہیں جو حقیقت و واقعیت كے خلاف ہوتی ہیں۔ اور اس سے قطع نظر كہ یہ كام دوسرے بھی انجام دے سكتے ہیں آدمی انہیں ظاہر كرنے كے لئے كسی آلہ، وسیلہ اور كسی خاص منصوبہ و نقشہ كا بھی محتاج ہوتا ہے۔ اور یہی وسائل، آلات، اور منصوبے اس عمل كو دوسروں كے لئے بھی قابل عمل بنا دیتے ہیں۔
معجزہ ایك ناقابل انكار حقیقت ہے۔ ایك ایسی واقعیت ہے جسے سب محسوس كرسكتے ہیں جبكہ اس كے اجراء كے لئے آلہ یا وسیلہ كا سہارا بھی نہیں لینا پڑتا۔ یعنی ایسا مردہ جو برسوں پہلے موت كا شكار ہو كر اس دنیا سے كوچ كرچكا ہے جناب عیسیٰ(علیہ السلام) كے حكم سے خاك سے اٹھ كھڑا ہوتا ہے اور دوسرے زندہ انسانوں كی طرح زندگی گزارنے لگتا ہے جبكہ اسے زندہ كرنے میں نہ كوئی دوا یا وسیلہ كام میں لایا گیا اور نہ یہ ایسا عمل ہے جسے دوسرے انجام دے سكتے ہیں۔
اب جبكہ ایك حد تك معجزہ كی حقیقت اور اس كی ضرورت واضح ہوگئی۔ اس سے متعلق دوبنیادی بحثوں كی جانب توجہ بھی لازمی ہے۔
1. قرآن كی رو سے انبیاء كی حیات میں معجزہ كا وجود۔
2. علم اور معجزہ كے درمیان ہم آہنگی
پہلی بحث كے سلسلے میں بعض لوگوں كا خیال ہے كہ انبیاء كرام علیہم السلام كی جانب جن معجزات كی نسبت دی گئی ہے ان كی تاویل و توجیہ عادی و معمولی حادثات وواقعات كی شكل میں كی جاسكتی ہے۔ اور بظاہر اس تاویل و توجیہ كے لئے انہوں نے خاصی زحمتیں بھی اٹھائی ہیں كہ كسی بھی طرح معجزہ كے سلسلے میں موجودہ علوم كی طرف سے كئے جانے والے اعتراضات سے چھٹكارا پالیں۔ ہم كسی اور مسئلہ میں پڑنے سے پہلے ایك نگاہ قرآن پر ڈالتے ہیں اور دیكھتے ہیں كہ واقعی قرآن نے معجزات كی نسبت انبیاء كی طرف دی ہے اور انہیں اس كمال سے متصف فرمایا ہے یا نہیں تاكہ بعد میں ہم علم اورمعجزہ كے درمیان رابطہ پر گفتگو كرسكیں۔
انبیائے كرام كے معجزات
1. حضرت ابراہیم (علیہ السلام)
سورہٴ بقرہ كی آیت: ۶۰ میں ارشاد ہے: ۔ ابراہیم(علیہ السلام) نے خداوند عالم سے درخواست كی كہ وہ انہیں دكھا دے كہ قیامت كے دن مردوں كو كس طرح زندہ كرے گا۔ خدا نے فرمایا: كیا تم اس پر ایمان نہیں ركھتے؟ عرض كیا میں قیامت اور مردوں كے زندہ كئے جانے پر ایمان تو ركھتا ہوں لیكن چاہتا ہوں میرا قلب مطمئن ہوجائے۔ خدا وند عالم نے حكم دیا چار پرندوں كو پكڑ كر ان كے ٹكڑے ٹكڑے كر ڈالو اور سب كا گوشت باہم ملا دو اور ہر پہاڑ پر اس گوشت كا كچھ حصہ ركھ دو پھر ہر پرندہ كو آواز دو تم دیكھو گے كہ كس طرح ہر ایك كے بدن كے ٹكڑے آكر باہم مل جاتے ہیں اور دوبارہ وہ پرندہ مكمل شكل و صورت میں زندہ ہوجاتا ہے۔
یا سورہٴ ہود كی ۷۳ ویں آیت میں جناب ابراہیم(علیہ السلام) اور ان كی زوجہ كے عالم پیری میں صاحب اولاد ہونے كی خوش خبری ہے ان كی زوجہ اس قدر ضعیف ہوچكی تھیں كہ اولاد كی امید ہی سرے سے ختم ہوچكی تھی۔ آیت انہیں صاحب اولاد ہونے كا مژدہ سناتی ہے۔ اسی طرح سورہ انبیاء كی آیت: ۷۰ میں مہیب آگ كا واقعہ ذكر ہے جو جناب ابراہیم(علیہ السلام) كو نذر آتش كرنے كے لئے بھڑكائی گئی تھی اور انہیں اس میں ڈال دیا گیا تھا اور وہ آگ خداوندعالم كے حكم سے جناب ابراہیم(علیہ السلام) كے لئے ٹھنڈی ہو كر سلامتی كا باعث بنی۔
2. جناب موسیٰ(علیہ السلام)
سورہٴ اعراف ۱۵۹ ویں آیت میں جناب موسیٰ(علیہ السلام) كے اس عصا كا واقعہ مذكور ہے جسے آپ نے پتھر پر مارا تو اس سے بارہ چشمے ابلنے لگے ان بارہ چشموں سے بنی اسرائیل كے بارہ قبیلے سیراب ہوتے تھے سورہٴ طٰہٰ كی آیات: ۱۷ تا ۲۴ میں عصائے جناب موسیٰ (علیہ السلام) كا یہ واقعہ ذكر ہوا ہے كہ آپ نے اسے خدا كے حكم سے زمین پر ڈال دیا اور دیكھتے ہی دیكھتے وہ ایك خطرناك اژدھا بن كر حملہ كرنے لگا۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) كو حكم ہوا اسے دوبارہ ہاتھ میں پكڑ لیں آپ نے جیسے ہی اسے اٹھایا وہ دوبارہ عصا بن گیا۔ اس آیت میں "یدبیضا" كا واقعہ بھی ذكر ہوا ہے۔ یعنی جناب موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں لے جاتے اور جب باہر نكالتے تھے تو وہ نور سے درخشاں ہوجاتا تھا۔ سورہٴ شعراء كی آیت: ۳۶ میں ہے كہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اپنا عصا دریائے نیل پر مارتے ہیں اور اس كے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) اور انكی قوم كے لئے راستہ بن جاتا ہے اور سب كے سب دریا كے پار ہوجاتے ہیں۔
3. حضرت سلیمان (علیہ السلام)
سورہٴ نمل كی آیات (۱۸ تا ۴۱) میں جناب سلیمان(علیہ السلام) كا چیونٹی سے باتیں كرنا۔ ہدہد سے كلام كرنا، جنوں كا آپ كی مدد كرنا، تخت بلقیس (ملكہٴ سبا) كا ایك طویل مسافت طے كركے پلك جھپكتے آپ كے دربار میں لایا جانا ذكر ہوا ہے۔
4. حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)
سورہٴ آل عمران كی آیت ۴۵ میں جناب مریم(علیہا السلام) كے صاحب اولاد ہونے اور بغیر كسی مرد كی قربت كے انہیں جناب عیسیٰ(علیہ السلام) كی ماں بننے كا مژدہ سنایا گیا ہے۔نیز قرآن میں جناب عیسیٰ(علیہ السلام) كے گہوارہ میں كلام كرنے پرندہ كا مجسمہ بنا كر اس میں روح پھونكنے اور زندہ كرنے، اندھے و میروص افرادكو شفا بخشنے مردوں كو زندہ كرنے اور جو كچھ لوگوں نے كھا ركھا تھا یا گھروں میں چھپاكر ركھا تھا اس كی خبر دینے كا تذكرہ موجود ہے۔
5. حضرت یونس(علیہ السلام)
سورہٴ یونس كی آیت ۹۸ میں یہ واقعہ ہے كہ جناب یونس(علیہ السلام) كو مچھلی نے نگل لیا اور ایك زمانہ تك آپ اسی كے پیٹ میں زندہ رہے اور آخر كار ایك روز اس سے نجات پائی۔
6. حضرت داؤد(علیہ السلام)
سورہ انبیاء كی آیت: ۷۸ میں جناب داؤد(علیہ السلام) كے ذریعہ پہاڑوں اور پرندوں كے تسخیر ہونے كا ذكر موجود ہے۔
7. حضرت محمد (صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم)
سورہٴ بقرہ كی آیت: ۲۳ میں قرآن كے اعجاز ہونے كا تذكرہ كیا گیا ہے كہ كوئی شخص اس كے ایك سورہ كا بھی جواب نہیں لاسكتا۔ یہ ان سیكڑوں اعجاز آمیز واقعات كے چند نمونے تھے جنہیں قرآن مجید انبیاء كرام كے سلسلہ میں بیان كرتا ہے۔ اس قسم كی آیات پر غور كرنے كے بعد قاری كے ذہن میں كوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا كہ قرآن كی نظر میں انبیاء كے لئے معجزہ كو قطعی قرار دیا گیا ہے۔ اب بحث یہ ہے كہ آیا معجزات علمی معیار و میزان پر پورے اترتے ہیں یا نہیں اور اگر علمی معیار پر پورے نہیں اترتے تو ان كی توجیہ كس طرح كی جاسكتی ہے۔ یہ وہ بحث ہے جسے ہم آئندہ پیش كریں گے۔
معجزہ كی محدودیت
یہاں ایك چھوٹے سے نكتہ كی جانب اشارہ ضروری ہے اور وہ یہ كہ ہر پیغمبر مخصوص معجزہ یا معجزات كا حامل رہا اوراس نے ان معجزات كو خداوند عالم كے اذن سے ضروری ولازمی مواقع پر لوگوں كے سامنے پیش كیا ہے۔ ایسانہیں ہے كہ جب بھی كسی نے چاہا یا فرمائش كی كہ وہ لوگوں كے حسبِ دلخواہ معجز نمائی كرنے لگے اور ہر روز لوگوں كی دلبستگی كے لئے معجزہ دكھانے بیٹھ جائے۔ اصولاً انبیاء كرام(علیہم السلام) لوگوں كی ہدایت و رہنمائی كے لئے تشریف لائے تھے اور فقط خاص و محدود مواقع پر جیسی ضرورت ہوتی تھی خداوند عالم كے حكم سے ویسا معجزہ ظاہر فرماتے تھے۔ بہر حال نہ وہ لامحدود امكانات ركھتے تھے اور نہ لامحدود قدرت كے مالك تھے یہ اعجاز نمائی ہمیشہ اور لوگوں كے حسب دلخواہ نہیں ہوا كرتی۔ اس بنیاد پر ہم نتیجہ نكال سكتے ہیں كہ بعض شیعوں كی اپنے ائمہ معصومین(علیہ السلام) سے یہ توقعات ان ہی بے جا توقعات كی شبیہ ہیں جو بعض افراد پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ركھتے تھے اور آنحضرت سے ہر لحظہ معجزات كی فرمائش كیا كرتے تھے لیكن قرآن انہیں یہ جواب دیتا ہے كہ یہ كام پیغمبروں كی خواہش اور ان كی مرضی پر منحصر نہیں ہے۔ بلكہ معجزہ خداوند عالم كے اذن اور اس كے حكم سے ظہور میں آتا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہیئے كہ ان بزرگواروں كی زیارتوں اور ان سے توسّل وارتباط كے ذریعہ اپنے اخلاق و كردار كو سنواریں اور یہ نہ بھولیں كہ یہ حضرات ہماری زندگی كے رہبر و پیشوا ہیں نہ یہ كہ ہم ہمیشہ ان سے كسی معجزہ كی توقع ركھیں۔
علم اور معجزہ كا ربط
محققین كا ایك گروہ ادیانِ عالم كے سلسلہ میں جورائے ركھتا ہے وہ یہ ہے كہ معمولاً تمام آسمانی ادیان میں معجزہ كی بات سامنے آتی ہے اور انبیاء كرام اور دینی پیشواؤں سے متعلق ایسے ایسے واقعات بیان ہوتے ہیں جو عادت و فطرت كے خلاف ہوا كرتے ہیں اور عام انسان ان امور كے انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اصولی طور پر معجزہ كے معنی بھی یہی ہیں كہ پیغمبران دین اپنی حقانیت ثابت كرنے كے لئے ایسے كام انجام دیتے ہیں۔ جنہیں دوسرے انجام نہیں دے سكتے۔ اس بنا پر لوگ متوجہ ہوتے ہیں كہ انبیاء مافوق بشر و طاقت كے حامل ہیں اور خداوند عالم كی جانب سے ان كی تائید ہوتی ہے۔ اور یہ خدائے قوی و دانا ہی ہے جو ان كی حمایت میں ان كی صداقت و حقانیت كو ثابت كرنے كے لئے ان كے ہاتھوں ایسے امور ظاہر كرتا ہے۔
آج معجزہ كے سلسلہ میں بڑی بحثیں ہیں، لیكن یہاں جو موضوع پیش نظر ہے یہ ہے كہ علم اور معجزہ میں كیا رابطہ ہے۔ یعنی انبیاء كرام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے معجزات كی توجیہ علمی قوانین كی روشنی میں كس طرح كی جاسكتی ہے یہاں ایك اعتراض یوں بیان كیا جاسكتا ہے كہ: ۔
ہم جانتے ہیں كہ علمی قوانین ثابت، اٹل او رناقابل تغییر ہیں اور ان كا یہی ثبات و دوام گوناگوں صنعتوں، حرفتوں، اختراعات و ایجادات كا باعث ہوا ہے جبكہ معجزہ كے ذریعہ علمی قوانین اور مسلمہ اصول ٹوٹتے نظر آئے ہیں۔ اور چونكہ ہم قبول كرچكے ہیں كہ علم تغییر پذیر نہیں ہے، لہٰذا ان معجزات كی حقیقت و واقعیت سے ہمیں انكار كردینا چاہیئے اور اس انكار كا دامن خود بخود ادیان اور ان كے اصول تك پھیلتا چلا جاتا ہے۔
مثال كے طور پر: ہم قرآن میں دیكھتے ہیں كہ حضرت موسیٰ(علیہ السلام) كا معجزہ ایك عصا تھا جسے آپ زمین پر ڈال دیتے تھے تو وہ ایك ایسے خطرناك اژدھے میں تبدیل ہوجاتا تھا جس سے لوگ و حشت زدہ ہو جاتے تھے۔ جبكہ بنیادی طور پر لكڑی كے ایك ٹكڑے كا فطری قوانین، فزیكس اور بایولوجی كی روشنی میں ایك زندہ عظیم و قوی حیوان میں تبدیل ہوجانا ممكن ہی نہیں ہے۔
حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) مردہ كو زندہ كردیا كرتے تھے اور پیدائشی اندھے كو آنكھ والا بنا دیا كرتے تھے۔ جبكہ ایك بے جان جسم میں جان ڈالنا علمی نقطہٴ نظر سے ایسا مسئلہ ہے جو اب تك حل نہیں ہوسكا ہے۔میڈیكل سائینس اور بایولوجی اس كی كوئی توجیہ نہیں كرسكتی۔ یہی صورت قومِ موسیٰ(علیہ السلام) كے لئے دریا كے دوحصوں میں تقسیم ہوكر راستہ بن جانے اور جناب ابراہیم(علیہ السلام) كے لئے آگ كے سرد ہوجانے جیسے معجزات كی ہے۔
اس اعتراض كا جواب مختلف طریقوں سے دیا جاسكتا ہے جن میں سے ہم بعض كی طرف اشارہ كرتے ہیں:
1. پہلا جواب وہی عام طور پر دیا جانے والا جواب ہے جسے تمام اہل دین اپناتے ہیں، اور وہ یہ كہ یہ معجزات خداوند عالم كے اذن اور اس كے ارادہ سے انجام پاتے ہیں۔ اور خدا كی قدرت و قوت كی كوئی حدو انتہا نہیں ہے۔ یعنی جو خدا ہر شئی كو عدم سے وجود میں لایا ہے اور ہر شئی كا خالق ہے وہ جناب عیسیٰ(علیہ السلام) كی طرح ایك انسان كو بغیر باپ كے بھی پیدا كرسكتا ہے۔
اس سلسلہ میں اك ذرا گہرائی میں اتر كر یہ كہا جاسكتا ہے كہ علم اور طبیعی، فطری قوانین دراصل اشیاء كے باہمی ارتباط، تاثیر و تاٴثر اور مثبت و منفی عوامل كا ہی نام ہے جو اس جہانِ خلقت میں پائے جاتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں كہ خداوند عالم اس كائنات كا خلق كرنے والا ہے اور اس نے ہی ہر چیز كے لئے ایك حساب اور ایك قانون معین فرمایا ہے۔ یعنی یہ تمام قوتیں عوامل و قوانین، عناصر و موجودات عالم كے تغیر و تبدّل كی ہی حكایت كرتے ہیں۔ اور یہ سب خدا كے تكوینی مقررّات ہیں جو عالم كی خلقت كے ساتھ ہی مقرر كردیئے گئے ہیں جیسا كہ قرآن فرماتا ہے۔
"یہ چاند و سورج ایك نظام اور ایك طے شدہ حساب و كتاب كے تابع ہیں۔ خدا نے آسمان كو بلند فرمایا اور ہر چیز كے لئے ایك میزان اور ایك نظم قائم كیا ہے۔" (سورہ رحمٰن آیات: ۴۔۷)
اب جبكہ یہی نظام خلقت علم ہے، تو اس كائنات كو نظم عطا فرمانے والا خود اپنے بنائے ہوئے نظم و قانون كا ہرگز پابند و مجبور نہیں ہے۔ اگر چہ نظام عالم كی حفاظت اسے استحكام و قاطعیت بخشنے اور تمام موجودات عالم فطرت كی باہمی روابط كو برقرار ركھنے كے لئے خدا خود اپنے بنائے ہوئے قانون كی رعایت كرتا ہے۔ وہ ہر چیز كو اپنے پیدا كردہ نظام كی بنیاد پر ہی چلاتا ہے۔ لیكن اس كے باوجود وہ اس نظام كو تبدیل كرنے سے مجبور نہیں ہے خاص طور پر اس وقت جب كوئی مصلحت درپیش ہو اور یہ عمل لوگوں كی بیداری اور انسانی معاشرہ كی آگاہی كے لئے مفید بھی ہو۔ ایسی صورت میں وہ عام نظام كے خلاف روابط كا ایك نیا سلسلہ قائم كردیتا ہے مثال كے طور پر عورت كے نطفے سے انسان خلق فرماتا ہے۔ یا جلا دینے اور پگھلادینے والی آگ كو نہ صرف سرد بنادیتا ہے بلكہ اس میں حفاظت و سلامتی كے عناصر بھی پیدا كردیتا ہے۔ مختصر یہ كہ خدا كی قدرت لامحدود ہے اور وہ خود اپنے بنائے ہوئے قوانین كا پابند نہیں ہے۔
2. ایك دوسری راہ حل جو شاید زیادہ قابل قبول ہو، یہ ہے كہ بہت سے دانشوروں اور فلسفیوں كا اعتراف ہے كہ انسان ابھی دنیا كی حقیقت و واقعیت كو نہیں پہچان سكا ہے۔ وہ ابھی تمام قوانین، اثر انداز عوامل اور موجودات عالم كو بخوبی دریافت نہیں كرسكا ہے۔ علمی قوانین كی بنیادیں ثابت، استوار اور قطعی ہونے كے باوجود نسبی و تغیرپذیر ہیں كیونكہ ایسے ناشناختہ عوامل بھی ہیں جو ان موجودات میں تغیر و تبدیلی لاتے ہیں۔ اسی وجہ سے "آئن اسٹائن"كے نسبیت كے قوانین نے فیزیكس اور علمی قوانین اور بنیادوں كو دگرگوں كر دیا اور جسم سے متعلق زمان و حركت و رفتار اور اسی طرح كے بہت سے مسائل سامنے آئے۔اگر چہ انسان اپنے علمی ارتقاء كے ہر مرحلے میں اپنی معلومات سے ایك حد تك استفادہ كرنے اور ان سے اپنی زندگی كے بعض مسائل كو حل كرنے میں كامیاب رہا ہے مثلاً "بطلیموس" كے علم ہیئت جس میں وہ زمین كو ساكن اور كائنات كامركز تصوّر كرتا تھا، اگر چہ یہ خیال بے بنیاد تھا لیكن اس كے باوجود اس علم نے صدیوں تك انسان كو ماہ و سال، بروج نیز چاند گہن اور سورج گہن كے حساب و كتاب وغیرہ میں مدد دی۔ بعد میں كائنات كے بارے میں "كوپر نیك" اور "كیپلر"كی دریافت و انكشافات سے ستاروں كی حركت اور ان كے مكمل نظام كی معلومات كے متعلق نئے نئے مسائل سامنے آئے اور انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقیوں كی نئی راہوں پر چل پڑا۔ اور آج انسان اپنے بنائے ہوئے مصنوعی چاند اور سیاروں كے ذریعے فضاؤں اور ستاروں سے متعلق نت نئے انكشافات كی جانب گامزن ہے۔
امیبوں، مائیكروبوں، بیكٹیریاؤں، وائرسوں اور مختلف قسم كے دوسرے جراثیم كی ایك دنیا ہزاروں سال سے انسان كی نگاہوں سے پوشیدہ اور ناشناختہ تھی۔
یوں ہی ایٹم كی دنیا بھی علم كی نگاہوں سے عرصہ تك پنہاں رہی اور اس كے انكشاف كے بعد ہی بے شمار نئے نئے علمی مسائل سامنے آئے اور اس عظیم قوت نے كیسے كیسے انقلابات كو جنم دیا۔
آج بھی انسان خود كو اس راہ میں ایك ایسا طفل محسوس كرتا ہے جس نے ابھی چلنا سیكھا ہو۔ وہ اپنی كوششیں مسلسل جاری ركھے ہوئے ہیں اور ہر لمحہ اس چمن سے ایك نیا پھول چنتا ہے۔ اس مختصر سے مقدمہ سے یہ بات روشن و واضح ہوجاتی ہے كہ انسان ابھی تك اشیاء كی حقیقت سے ناواقف ہے۔ اور علم تمام قوانین فطرت اور اشیاء كے باہمی ارتباطات كا احاطہ نہیں كرپایا ہے۔ سب تو سب خود انسان بھی علم كی روشنی میں ایك سربستہ راز اور "لامعلوم" وجود كی حیثیت ركھتا ہے، بڑے بڑے دانشور انسانی فیزیالوجی اس كی عقل و فہم كے رموز، یہاں تك كہ سماجیات كے میدان میں خود كو مبتدی اور تازہ وارد خیال كرتے ہیں اور ان علوم كے بہت سے شعبوں میں تو مطالعہ و تحقیق كا سلسلہ ابھی شروع ہوا ہے۔
اس بنا پر ہم آج بھی قطعی طور پر علمی قوانین كے ذریعہ معجزات كا مقایسہ یا ان كی توجیہ نہیں كرسكتے، كیونكہ ہم ابھی تك كائنات میں كارفرما تمام عوامل كو پہچان نہیں پائے ہیں۔ جس طرح ایك دن آسمانوں میں انسانی پرواز یا آوازیا تصویر كا دنیا كے ایك كونے سے دوسرے كونے میں حتیٰ لاكھوں كیلومیٹر دور تك منتقل ہونا فقط ایك پہیلی تھا بلكہ محال نظر آتا تھا، لیكن رفتہ رفتہ یہ سب باتیں معمولی اور آسان ہوگئیں۔ یوں ہی معجزہ كو بھی غیر ممكن یا برخلاف علم تصوّر نہیں كیا جاسكتا۔
ہاں ہم یہ بات جانتے ہیں كہ معجزہ ایك غیر معمولی عمل ہے جو قوانین عالم، انسانی معلومات اور انسان كی محدود قوّت و توانائی كے بس سے باہر ہے۔ اس روش و راہِ حل كو دیكھتے ہوئے ہم مجبور نہیں ہیں كہ پہلی روش كو تسلیم كرتے ہوئے معجزات كو خود قانون بنانے والے كی جانب سے ایك طرح كی قانون شكنی سمجھیں۔ بلكہ ممكن ہے كہ معجزہ صد فی صد قانونی ہو، لیكن ان قوانین كے تحت كارفرماہو جنہیں ہم ابھی نہیں جانتے۔
source : http://shiastudies.net