قرآن کتاب ہدایت اور سعادت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے۔ خداوندمتعال کا عظیم ترین خزانہ ہے۔ روی زمین پر اس کی حجت اور عبد و معبود کے درمیان کلام و گفتگو کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک ایسی جامع کتا ب کہ جس میں ہر خشک و تر موجود ہے(لارطب ولا یأبس الّا فی کتاب مبین)[1]
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قرآن کتاب ہدایت اور سعادت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے۔ خداوندمتعال کا عظیم ترین خزانہ ہے۔ روی زمین پر اس کی حجت اور عبد و معبود کے درمیان کلام و گفتگو کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک ایسی جامع کتا ب کہ جس میں ہر خشک و تر موجود ہے(لارطب ولا یأبس الّا فی کتاب مبین)[1]
صدر اسلام سے یہ عظیم کتاب مسلمانوں بالخصوص عالمان قرآن کی توجہ کا مرکز رہی ہے البتہ بعد وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام نے اس کتاب خدا کے متعلق خاص اہتمام کیا اور فرمایا: '' میں نماز جمعہ کے علاوہ اپنی دوش پر ردا نہ ڈالوں گا جب تک کہ قرآن کی جمع آوری نہ کرلوں پس میں نے اسے جمع کیا''[2]
خود آپ علیہ السلام کے بقول: میں قرآن ناطق ہوں''انا الکتاب الناطق'' جب آپ کے کلمات بالخصوص گرانقدر کتاب نہج البلاغہ میں نظر کرتے ہیں اور قرآن سے متعلق آپ کے اقوال کا مطالعہ کرتے ہیں تو مذکورہ حقیقت مثل آفتاب روشن و منور ہوجاتی ہے۔
ہم مورد نظر مقالہ میں مندجہ دلائل کے تحت بحث و گفتگو کریں گے۔
١۔ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت وہ ہے جس نے وحی و نبوت کے سایہ میں پرورش پائی ہے اور آپ کے پاس کتاب خدا کا مکمل علم تھا لہٰذا آپ کے اقوال بالاخص نہج البلاغہ تفسیر قرآن کے لئے بہترین منبع ہے۔
٢۔حضرت علی علیہ السلام مقام عصمت پر فائز ہیں لہٰذا آپ کے توسط سے بیان شدہ تفسیر مسلمانون کے لئے فصل الخطاب اور حجت کی حیثیت رکھتی ہے۔
٣۔آپ کی تفسیری شخصیت کو زیادہ سے زیادہ پہنچوانا۔
٤۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث کی روشنی میں آپ امام المفسرین ہیں حدیث ثقلین وغیرہ یہ بتاتی ہیں کہ اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالخصوص حضرت علی علیہ السلام کو آیات کا تفصیلی علم تھا۔
قرآن کے معنیٰ
کلمہ قرآن کے معنی کے سلسلہ میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں جن میں زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ قرآن رجحان اور غفران کے وزن پر ''قرأئ'' سے مشتق ہے اور تلاوت کے معنی میں ہے ۔ قرآن مصدر ہے اور مفعول ہے(مقروئ) یعنی پڑھا ہوا کے معنی میں ہے جیسے کتاب یعنی مکتوب پڑھے ہوئے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ صاحب مناھل العرفان زرقانی نے بھی اسی نظریہ کو قبول کیا ہے۔[3]
تفسیر کے معنیٰ اور تعریف:
تفسیر لغت میں باب تفعیل کا مصدر اور فسر مادّہ سے ہے اور فسر کا معنی: بیان[4] کسی چیز کی وضاحت کرنا[5]پوشیدہ چیز کو معلوم اور ظاہر کرنے وغیرہ کے ہیں ۔[6]
قرآن مجید میں لفظ تفسیر فقط ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے: ( ... ولا یاتونک بمثل الّا جئناک بالحق واحسن تفسیرًا)[7] یہاں پر استعمال شدہ لفظ تفسیر کے سلسلہ میں مفسرین کی دو رائے اور نظرئے ہیں :
١۔اس آیت میں تفسیر بیان، کشف، تفصیل اور دلالت کے معنی میں ہے۔
٢۔ تفسیر کے معنی آیہ کریمہ، میں معنا اور مطلب کے ہیں ۔
مفسریں نے تفسیر کی متعدد تعریفیں کی ہیں بطور خلاصہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اصطلاح میں تفسیر،توضیح و تشریح، الفاظ و آیات کے مفاہیم کو کشف و بیان اور خداوند عالم کی مراد کو معینہ قواعد و ضوابط کی روشنی میں بیان کرنے کو کہا جاتا ہے۔
قرآن علی علیہ السلام کی نظر میں
قرآن کے بارے میں علی علیہ السلام کی تعریف و توصیف دلنوار اور ناقابل بیان ہے۔ قرآن علی علیہ السلام کی نظر میں دلوں کی ایسی بہار ہے جس سے دل و جان کو طراوت ملتی ہے۔ ایسی شفا ہے جس سے برائیوں اور کفر و نفاق کے درد سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ ذیل میںآپ کے چند فرمودات کی طرف اشارہ کیا جارہے ہیں :
''تعلموا القرآن فانہ احسن الحدیث و تفقھوا فیہ فانہ ربیع القلوب واستشفعوا بنورہ فانہ شفاء الصدور''[8]
قرآن کی تعلیم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے اس میں غور وفکر کرو کہ وہ دلوں کی بہار ہے اس کے نور سے شفا طلب کرو کیونکہ وہ دلوں کی شفاء ہے۔
''واعلموا انہ لیس علیٰ احد بعد القرآن من فاقة ولالاحد قبل القرآن من غنی فاستشفوہ من ادوائکم واستعینوا بہ علی لآوائکم فان فیہ شفا من اکبر الداء وہوالکفر والنفاق والغنی والضلال...'' [9]
یعنی تم جان لو کہ کوئی بھی قرآن کے ساتھ فقیر نہیں ہوسکتا اور قرآن کے بغیر کوئی غنی نہیں ہوسکتا پس قرآن سے درد کا علاج تلاش کرو سختیوں کے لئے قرآن کی مدد طلب کرو، بے شک اس میں بڑے مرض کی شفا ہے اور وہ کفر و نفاق، تباہی و گمراہی ہے۔
یقینًا قرآن ناطق نے جو عظمت قرآن اور اس کی تبیین و تفسیر کے حوالہ سے فرمایا ہے ان سب کو اس مختصر سے نوشتہ میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں آپ کے ایک خوبصورت کلام پر اس بیان کو ختم کرتے ہیں
''... فہو معدن الایمان و بحبوتہ و ینابیع العلم و بحورہ و ریاض العدل و غدرانہ و اثافی الایمان و بنیانہ و اودیة الحق غیطانہ و بحر بنزفہ المستنزفون و عیون لاینضبھا الماتحون و مناہل لا بغبضھا الواردون و منازل لا یضل لھجھا المافرون واعلام لا یعمی عنا الساترون و آکام لا یجوز عنہا القاصدون''
یہ( قرآن) معدن اور مرکز علم و دانش کا سرچشمہ اور سمندر، عدالت کا باغ اور حوض، اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہیں کرسکتے اور وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے خشک نہیں کرسکتے۔ وہ گھاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہیں کرسکتے ہیں اور وہ منزل ہے جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بھٹک نہیں سکتے۔ وہ نشان منزل ہے جو راہ گیروں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوسکتا اور وہ ٹیلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہیں جاسکتے ہیں ۔[10]
اس طرح امیر المومنین علیہ السلام قرآن کی خوبصورت تصویر ہمارے سامنے پیش فرماتے ہیں تاکہ ہمارے درمیان قرآن سے مزید دلچسپی پیدا ہو، اس پر غور و فکر اور عمل سے ہم اپنی نجات، سعادت دارین کا سامان فراہم کرسکیں۔
علی علیہ السلام کی قرآنی شخصیت
بے شک علی علیہ السلام امام المفسرین ہیں چونکہ وہ سرچشمہ وحی و نبوت سے سیراب ہوئے ہیں آپ ہی کے بقول '' میں نور وحی و نبوت کا مشاہدہ کرتا تھا، بوی نبوت کو استشمام کرتا تھا۔ جب ان (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر وحی نازل ہوئی تو شیطان کی آواز میں نے سنی اور پوچھا کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ آواز کیسی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ شیطان ہے کہ جو اس بات سے ناامید اور پریشان ہے اس کی پرستش نہ ہوگی۔ یقینًا تم وہی سنتے ہو کہ جو میں سنتا ہوں۔ تم سب دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں مگر تم پیغمبر نہیں ہو، وزیر ہو۔ راہ خیر پر گامزن ہو اور مومنوں کے امید ہو''[11]
متعدد مقامات پر آپ نے خود اپنے عالم اور مفسر قرآن ہونے کا اظہار فرمایا ہے:''آیات الٰہی کے بارے میں مجھ سے جو چاہو سوال کرلو میں تمام آیات خدا کے بارے میں علم رکھتا ہوں کہ کب اور کس مقام پر نازل ہوئی ہیں ۔ نشیب و فراز میں اور رات و دن میں نازل ہونے کو جانتا ہوں۔[12]
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں:
علی علیہ السلام کی قرآنی شخصیت وحی و نبوت کے سایہ میں پروان چڑھی ہے اور آپ نے متعدد مقامات پر علی علیہ السلام کے اعلم قرآن ہونے کا ذکر کیا ہے۔ فقط بعض اقوال کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
ایک مقام پر حضرت علیہ السلام سے فرماتے ہیں:تم خاور و باختر، عرب و عجم پر فخر کرو... تم سب سے پہلے اسلام لانے والے ہو اور کتاب خدا کے سلسلہ میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہو''[13]شاید یہی وجہ تھی کہ آپ نے علم علی علیہ السلام کو دیکھتے ہوئے ان کی قرآن سے معیت کا اعلان کیا اور فرمایا:''علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یفترقا حتی یرد علیّ الحوض''یعنی علی قرآن اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آجائیں۔[14]
اسی طرح حدیث ثقلین کہ جو علمائے اسلام کے درمیان متفق علیہ اور متواتر حدیث ہے علی کی قرآنی شخصیت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے ''انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی احدہما اعظم من الاخر کتاب اللہ و عترتی''[15]
یعنی میںتمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے تمسک کرو گے گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک دوسرے سے زیادہ عظیم ہے۔ کتاب خدا اور میری عترت اس طرح سے یہ امر ثابت ہوجاتاہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات کتاب خدا کی تفسیر و بیان کے لئے حجت کی حیثیت رکھتی ہے۔
اہلبیت علیہم السلام کی نظر میں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اہلبیت علیہم السلام نے بھی متعدد مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں قرآن کا مکمل علم رکھنے والے وغیرہ جیسے صفات کے ساتھ تعارف کرایا ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :'' کان علی علیہ السلام صاحب حرام و حلال و علم بالقرآن و نحن علی منھجہ'' یعنی علی علیہ السلام حلال و حرام خدا اور قرآن کا علم رکھنے والے ہیں ہم انہیں کی روش پر گامزن ہیں[16]
یا دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : '' ان اللہ علّم نبیہ الینزیل و التاویل فعلمہ رسول علیّا'' یعنی خداوند نے تنزیل و تاویل کا علم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیا اور انہوں نے اس کی تعلیم علی علیہ السلام کو دی [17]
امام رضا علیہ السلام نے مامون کے ایک خط کے جواب میں حضرت علی علیہ السلام کو قرآن کا اسپیکر کے طور پر تعارف کرایا ہے۔ [18]
معصومین علیہم السلام کا حضرت علی علیہ السلام کو عالم،مفسر اور راسخون فی العلم وغیرہ کے ذریعہ حضرت کی تمجید و تعریف کرنا۔ آپ کے اعلم اور امام
المفسرین ہونے کی بہترین دلیل ہے اس لئے یہ کہ کلمات ان دو ذوات المقدسہ کی زبان اطہر سے نکلے ہوئے ہیں کہ جو قرآنی حقائق سے باخبر اور مکمل قرآن کا علم رکھنے والے ہیں ۔
صحابہ کی نظر میں
علی علیہ السلام کی ذات ولا صفات وہ ہے جو عصر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے '' من عندہ علم الکتاب'' کا واضح و روشن مصداق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت کی تاویل و تفسیر میں اس نکتہ پر تاکید فرمائی ہے۔ [19]
جناب ابن عباس کے بقول: ''من عندہ علم الکتاب '' کا مصداق فقط علی ابن ابیطالب ہیں کیونکہ وہ اس قرآن کے تفسیر و تاویل، ناسخ و منسوخ اور حلال و حرام کا علم رکھتے ہیں ۔[20]
عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ علی ابن ابیطالب قرآنی معارف کو ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔[21]
ان کے بیٹے عبداللہ بھی علی علیہ السلام کو اعلم قرآن سمجھتے تھے۔[22] اسی طرح دیگر اصحاب پیغمبر نے بھی علی کی قرآنی شخصیت کا اعتراف کیا ہے۔
علی علیہ السلام اور تفسیر قرآن:
حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں نہ قرآن کی تمام آیات ایسے ہیں کہ جنہیں سب سمجھ سکیں اور نہ ہی اس طرح ہیں کہ کوئی نہ سمجھ سکے ۔ قرآن سمجھنے کے لئے خاص اسلوب و روش کیء ضرورت ہے امیرالمومنین علیہ السلام آیات قرآن کے قابل فہم ہونے کے اعتبار سے تین حصوں پر تقسیم کرتے ہیں ۔ ایک حصہ وہ ہے کہ عالم و جاہل سب سمجھتے ہیںدوسرا حصہ وہ ہے جسے صرف وہ سمجھتے ہیں جن کے پاس پاکیزہ ذہن، لطیف احساس اور قوت تمییز پائی جاتی ہو۔تیسرا حصہ وہ ہے کہ جو خدا، پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور راسخون فی العلم سے مخصوص ہے۔[23] یعنی قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کی تعلیم مراتب کی حامل ہے ایک درجہ عوام کے لئے قابل فہم داسرا حصہ خاص افارد کے لئے قابل درک اور بلند ترین مرتبہ کا علم خدا اور اس کے اولیاء کے ہی پاس ہے۔ آپ قرآن مجید کی تفسیر کی جانب اس طرح اہنمائی فرماتے ں ''کتاب اللہ تبصرون بہ و تنطقون بہ و تسمعون بی و ینطق بعضہ بعضہ و یشہد بعضہ علی بعض لایختلف فی اللہ ولا یخالف لصاحبہ عن اللہ''[24]یعنی کتاب خدا جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا۔ آپ اپنے اس بیان سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن قابل تفسیر ہے۔ امام قرآن کی زبان کو عرف اور منحصر بہ فرد سمجھتے ہیں ۔ ایک طرف آیات کو سمجھنے میں علم لغت اور ادبیات عرب کو معیار قرار دیتے ہیں اور خود بھی عملًا اس سے تمسک کرتے ہیں دوسری طرف قرآن کو کلام بشر سے الگ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں '' ربّ شی من کتاب اللہ تاویلہ غیر تنزیلہ ولا یشبہ بکلام البشر'' کتاب خدا میں بہت سے ایسی چیزیں ہیںکہ جن کی تاویل ، تنزیل کے علاوہ ہے اور یہ کلام بشر سے مشابہ نہیں ہے۔ [25]
قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ مقدم و موخر، عزائم و رخص خاص و عام، مجمل و مبین محکمہ و متشابہ وغیرہ کا پایا جانا امام کے بات کی تائید کرتاہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تفسیر کے لئے کچھ شرائط درکار ہوتے ہیں جن میں بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیاجارہاہے:
شرائط تفسیرعلی علیہ السلام کی نظر میں:
قرآنی علوم کے محققین نے تفسیر کے متعدد شرائط بیان کئے ہیں [26]یہ تمام شرائط اگر چہ حضرت امیر کے اقوال میں موجود نہیں ہیں، فقط بعض کا ذکر ملتا ہے:
الف) خاص اسلوب: آپ کی نظر میں قرآن ایک خاص اسلوب اور روش کا حامل ہے'' فان القرآن حمال ذووجوہ''[27] قرآن کی متعدد روشوں سے تفسیر، مذکورہ قول کی بہترین دلیل ہے۔
ب)محکمہ و متشابہ، ناسخ و منسوخ اور تاویل وغیرہ پر توجہ: حضرت علی علیہ السلام ایک مقام پر قرآن کو سات حصوں میں تقسیم فرماتے ہیں : عام و خاص، مقدم و موخر، عزائم و رخص منقطع معطوف اور منقطع غیر معطوف[28] اسی طرح دوسرے مقام قرآن کو مبیّن حلال و حرام خدا.... حامل ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ وغیرہ جانتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو سمجھنا تفسیر قرآن کے لئے ایک ناگزیر امر ہے۔
ج)خاص درک و فہم: آپ سے کسی نے پوچھا کہ آیا قرآن کے علاوہ کوئی چیز آپ کے پاس ہے؟ فرمایا: نہیں ، قسم اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا الّا فہم یوتیہ اللہ رجلًا فی القران''[29]یعنی سوائے اس فہم و درک کے جو اللہ کسی شخص کو قرآن کے بارے میں عطا کرتا ہے۔
د)تفسیری ذوق: ایک نقل کی بنیاد پر علی کی نظر میں تفسیر قرآن کے لئے خاص ذوق کی ضرورت ہوتی ۔ آپ فرماتے ہیں ۔ ''ان علم القرآن لیس یعلم ما ہو الّا من ذاق طعمہ''[30] یعنی قرآن کا علم بس وہ جانتا ہے جس نے اس کا مزہ چکھا ہو۔
علی علیہ السلام اور تفسیری مبنیٰ:
حضرت علی علیہ السلام نہج لابلاغہ میں قرآن کو حلال و حرام ناسخ و منسوخ، حرمت و جواز، خاص و عام اور محکم و متشابہ کا بیان کرنے والا جانتے ہیں ۔[31]اپنے اس قول کے ذریعہ امام اس بات کی جانب متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ قرآن کے اقیانوس میں جانے سے پہلے آیات کے مفاہیم سمجھنے کے لئے از قبل بعض مسائل کے بارے میں اطلاع ضروری ہے جنہیں مبنیٰ بنا کر قرآن کی تفسیر و تبیین کرنا چاہئے۔ ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض تفسیر مبنی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
١) قرآن کی حجیت:
نہج لابلاغہ کے خطبہ ١٧٦ میں آپ فرماتے ہیں '' جو خدا نے بیان کیا ہے اس سے فائدہ اٹھا خدا کی وعظ و نصیحت کو قبول کرو۔ فان اللہ تعالیٰ قد اذر الیکم بالجلیلہ واتخذ علیکم الحجة... یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے'' اپنی روشن دلیلوں سے عذر کا دروازہ بند کردیا ہے اور حجت تم پر تمام کردی ہے۔[32]
٢)عدم تحریف قرآن:
دوسرا مبنیٰ جس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ہے، اس بارے میں آپ فرماتے ہیں : ''و علیکم بکتاب اللہ فانہ الحبل المتین و النور المبین و الشفاء النافع والرأی النافع، العصمة للتمسک والنجاة للمتعلق۔ لا یعوج فیقام ولا یزیغ فیستعتب...'' یعنی تمہار فرض ہے کہ کتاب خدا سے وابستہ رہو کہ وہی مضبوط ریسمان ہدایت اور روشن نور الٰہی ہے اسی میں منفعت بخش شفاء ہے اور اس میں پیاس بجھانے والی سیرابی ہے وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردار ہے اور وہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے۔ اس میں کوئی کجی نہیں جسے سیدھا کیا جائے اور اس میں کوئی انحراف نہیں جسے درست کیا جائے۔ [33]
٣)فہم قرآن کا امکان:
یقینًا تفسیر قرآن سے پہلے یہ بات قابل قبول ہونا چاہیے کہ قرآن فہمی کا امکان پایا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :''فانظر ایھا السائل : مما دلّ القرآن علیہ من صفتہ فأنتم بہ واستضیٔ بنور ہدایتہ'' یعنی اے سوال کرنے والے قرآن، صفات خدا کے بارے میں جو بیان کرتا ہے اس پر تکیہ کر اور اس کے نور ہدایت سے روشنی حاصل کر۔ [34]
٤)سنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجیت:
حضرت امیر علیہ السلام کا ایک اور مبنیٰ سنتِ پیغمبر کی حجیت ہے آپ نے اپنے بیانات میں بار بار اس کی تکرار فرمائی ہے:
'' شغل من الجنةوالنار امامہ ساع سریع نجا طالب بطی رجا و مقصد فی النار ھوی الیمین و الشمال عضلہ والطریق الوسطی ہی الجادہ علیہا باقی الکتاب و آثار النبوہ و منہا منفذ السنة و الیہا یصیر العاقبہ'' یعنی وہ شخص کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا جس کی نگاہ میں جنت و جہنم کا نقشہ ہو، تیز رفتاری سے کام کرنے والا نجات پالیتا ہے اور سست رفتاری سے کام کرکے جنت کی طلبکاری کرنے والا بھی امیدوار رہتا ہے لیکن کوتاہی کرنے والا جہنم میں گر پڑتا ہے داہنے بائیں گمراہوں کی منزلیں ہیں اور سیدھا راستہ صرف درمیانی راستہ ہے اسی راستے پر رہ جانے والی کتاب خدا اور نبوت کے آثار ہیں اور اسی سے شریعت کا نفاذ ہے۔[35]
تفسیر قرآن کی علوی روش
تفسیر آیات قرآن کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے جو روایات اور تاریخ میں نقل ہوتی ہے اگر چہ بہت متفرق ہیں لیکن جب انہیں یکجا جمع کیا جاتا ہے اور ان میں غور و خوض کیا جاتا ہے تو متعدد روشوں کا انکشاف ہوتا جن میں بعض کو مختصر وضاحت کے ساتھ ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے:
قرآن سے قرآن کی تفسیر
الف) تقیید مطلق:
''یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ''[36]اے صاحبان ایمان خدا سے کما حقہ تقویٰ اختیار کرو۔ اس آیت کے بارے میں جب امیر المومنین علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ نے اس کی تفسیر اس طرح فرمائی:''واللہ ماعمل بھٰذا غیر اہل بیت رسول اللہ، نحن ذکرنا اللہ فلا ننساہ و نحن شکرنا فلا نکفر و نحن اطعناہ فلا نعصیہ فلما نزلت ہٰذہ الآیہ قالت الصحابہ لا نطیق ذلک فانزل اللہ '' فاتقوا ماستطتم''[37][38]
سفیان بن مہرہ ہمدانی ،عبد خیر سے نقل کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب سے اللہ کے قول '' یاایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ'' کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا بخد اہل بیت رسول کے علاوہ کسی نے اس آیت پر عمل نہیں کیا۔ہم نے اللہ کو یاد کیابھولے نہیں ،ہم نے شکر سے کام لیا کفران نعمت نہیں کیا، ہم نے اطاعت کی اور معصیت سے دور رہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے کہا ہم میںاس آیت پر عمل کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اللہ نے آیت نازل کی '' جتنا ہوسکتا ہے تقویٰ اختیار کرو'' فاتقوا ماستعطم''
ب)تخصیص عام:
ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبوة وہٰذالتی الذین آمنوا واللہ ولی المومنین''ابراہیم کی بہ نسبت سب سے زیادہ شائستہ افراد وہ ہیں کہ جنہوں نے ان کی پیروی کی۔ یہ نبی اور وہ لوگ کہ جو صاحب ایمان ہیں فنحن مرة اولیٰ القرابة و تارة اولیٰ بالطاعہ ولما احتج المہاجرون علی الانصار یوم السقیفہ برسول اللہ فلجوا علیہم فان یکن الفلج بہ فالحق لنا دونکم[39]
پس ہم ایک مرتبہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ورابت کے سبب اور ایک بار اطاعت خدا کی خاطر( خلافت کے )زیادہ حقدار ہیں اور جب مہاجرین نے روز سقیفہ امصار پر احتجاج کیا اور صرف قرابت کے ذکر سے ان پر کامیاب ہوگئے تو اگر یہ برتری کی دلیل ہے تو حق ہمارے ساتھ ہے نہ تمہارے ساتھ۔
حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ خط ٢٨ میں جو معاویہ کے نام خط لکھا ہے اور اس میں اس کی گمراہی اور اپنی افضلیت کو بیان کیا ہے اس خط میں آپ ٥ آیات کو شاہد کے طور پر لائے ہیں اور ان میں دو کی خاص و عام کی روش سے تفسیر کی ہے۔
ج)آیات مبین کے ذریعہ مجمل کی تفسیر:
سورہ زمر میں ارشاد ہوتا ہے: '' انک میت و انہم میتون''[40]آپ کو موت آئے گی اور وہ بھی دنیا سیجائیں گے، حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب یہ آیت '' انک میت و انہم میتون'' نازل ہوئی تو میں نے چوچھا اے پروردگار کیا تمام مخلوقات کو موت آئے گی اور انبیاء باقی رہیں گے؟ تو آیت نازل ہوئی: '' کل نفس ذائقة الموت ثم الینا ترجعون''[41] یعنی ہر نفس کو موت کا مزہ چھکنا ہے اس کے بعد تمہیں ہماری طرف پلٹایا جائے گا۔
د) تعیین مصداق:
سورہ نمل میں خداوند کریم نے فرمایا ہے'' قل لا یعلم من فی السمٰوات والارض الغیب الّا اللہ''[42] یعنی آپ کہہ دیجیے کہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے خدا کے۔
نہج البلاغہ میں ایک روایت ملتی ہے کہ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض ایسے امور کی خبر دی کہ جو ابھی محقق نہیں ہوئے تھے۔
تو ایک صحابی نے کہا: آپ کو علم غیب عطا کیا گیا ہے!
آپ ہنسے اور کلبی قبیلہ کے مرد سے فرمایا: یا اخا کلب لیس ہو بعلم غیب و انما ہو تعلم من ذی علم و انما علم الغیب علم الساعة و ما عددہ اللہ سبحانہ بقولہ '' ان اللہ عندہ علم الساعة...[43] یعنی اے برادر کلبی یہ اطلاع علم غیب نہیں ہے یہ وہ علم ہے جو صاحب علم(غیب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے حاصل کی ہے علم غیب علم قیامت ہے اور وہ کہ جو خدا اپنے قول میں لے آیا ہے کہ''علم قیامت خدا کے پاس ہے''۔ اس کے بعد فرماتے ہیں خدا جو شکم مادر میں ہے نر یا مادہ ، بدصورت، خوبصورت، سخی یا بخیل، شقی یا سعید سے آگاہ ہے اور وہ جو واصل جہنم ہوگا یا بہشت میں نبیوں کی صحبت میں رہے گا سب کا اسے علم ہے پس یہ وہ ذاتی علم غیب ہے جس کا علم صرف خدا کو ہے ان کے علاوہ جو علم غیب ہے اس کی اللہ نے اپنے نبی کو تعلیم دی ہے اور انہوں نے مجھے سکھایا ہے۔
ھ) آیات متشابہ پر توجہ:
''مافرطنا فی الکتاب من شیٔ'' ہم نے قرآن میں کوئی بھی کمی نہیں رکھی۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ''ام انزل اللہ سبحانہ دینا ناقصا...''کیا اللہ نے ناقص دین بھیجا اور اس کے کامل کرنے سب ان سے مدد لی؟ کیا وہ خدا کے شریک ہیں کہ دین کے معاملہ میں جو دل چاہے بولیں اور خدا راضی ہے؟ یا اللہ نے دین کامل نازل فرمایا پس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے پہنچانے میں کوتاہی کی۔ واللہ سبحانہ یقول '' ما فرطنا فی الکتاب من شیٔ وفیہ تبیان لکل شیٔ'' یعنی اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے ہم نے قرآن میں کوئی بھی کمی نہیں رکھی ہے اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔
و)آیات ناسخ و منسوخ پر توجہ:
''یاایّھاالذین آمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقہ''۔[44] اے ایمان والوجب تم رسول خدا سے نجوی کرنا چاہتے ہو تو اس سے پہلے صدقہ دیا کرو۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں ان فی کتاب اللہ آیة لم یعمل بھا احد قبلی ولم یعمل بھابعدی آیة النجوی... یعنی کتاب خدا میں سے ایک آیت ایسی ہے کہ جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ ہی میرے بعد، وہ آیہ نجویٰ ہے اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک دینار تھا میں نے اسے دس درہم میں تبدیل کیا اور جب بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرنا چاہتا تھا ایک درہم صدقہ دیتا تھا یہاں تک کہ پورے درہم ختم ہوگئے، اس کے بعد آیہ نجویٰ کی تلاوت کرتے ہیں ''یاایّھاالذین آمنوا اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقہ'' ۔ پھرآپ فرماتے ہیں کہ آیت نسخ ہوگئی اور کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور یہ آیت نازل ہوئی'' أ أشفقتم ان تقدموا بین یدی نجواکم صدقات''[45]یعنی کیا تم نجویٰ کرنے سے پہلے صدقات دینے سے ڈر گئے'' !
٢) کلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن کی تفسیر:
سنت اور حدیث کے ذریعہ قرآن کی تفسیر کو اصطلاحا تفسیر ماثور کہتے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام کے بیانات میں اس کے متعدد نمونے پائے جاتے ہیں جیسے آپ '' وفی السماء رزقکم وماتوعدون''[46] کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ آسمان میں تمہاری روزی سے مراد برسات ہے۔[47]
٣)الفاظ آیات کے معنی کی تبیین:
قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور عربی زبان دیگر زبانوں کی مانند مخصوص قواعد و ضوابط کی حامل ہے۔ ہر عربی متن منجملہ فہم قرآن کے لئے ان قواعد اور معنیٰ کلمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کا متعدد مقامات پر آیات قرآن کی تفسیر میں الفاظ اور کلمات کے بیان معنی پر توجہ دینا اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ تفسیر میں اس کی کس حد تک ضرورت ہے۔ مثلًا ''انّ اللہ یامر بالعدل والاحسان''(١) یعنی خداوند عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔ آپ نے اس طرح تفسیر کی ہے العدل الانصاف والاحسان التفضل، عدل یعنی انصاف اور تفضل یعنی فضل و بخشش(٢)
٤)عقلی اور اجتہادی تفسیر:
قرآنی آیات کے سمجھنے اور اس کے مقاصد کو کشف کرنے میں ہر قسم کے عقلی فہم و درک کے استعمال کو عقلی یا اجتہادی تفسیر کا نام دیا جاتا ہے۔ جس کے اپنے مخصوص شرائط ہیں جن کے ذکر کا یہاں مقام نہیں ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کے اقوال پر نظر کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے آپ نے مذکورہ روشوں کی بہ نسبت اجتہادی روش سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔ جیسے آیت''توتی اکلہا کل حین باذن ربھا''[48] یعنی ہر وقت اپنے پروردگار کی اجازت سے پھل دیتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ''حین'' چھ ماہ کی مدت کے معنی میں ہے۔
نہج البلاغہ میں تفسیر نمونے :
تفسیری اور حدیثی منابع میں حضرت علی علیہ السلام کے تفسیری نمونے ملتے ہیں جن میں صرف بعض کی جانب ذیل میں اشارہ کیا جارہا ہے :
١۔ اشعث نے حضرت علی علیہ السلام کے حضور میں کہا '' انا للہ وانا الیہ راجعون [49]امام علیہ السلام نے پوچھا کای تو اسکی تاویل کو جانتا ہے اس نے کہا آپ علم کے آخری درجہ پر ہیں آپ نے فرمایا '' انا للہ '' بندگی کا اقرار ہے اور '' وانا الیہ راجعون '' فنا اور نابودی کا اعتراف ہے ۔
٢۔ امام فرماتے ہیں مکمل زہد قرآن کے دو کلمہ کے درمیان ہے خداوند متعال فرماتا ہے '' لکیلا تاسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتاکم ۔ جو تمہارے ہاتھ سے چلائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر خوشحال مت ہو ۔ ومن لم یاس علی الماضی ولم یفرح بالاتی فقد اخد الزھد بطرفیہ[50]جو گذشتہ پر افسوس نہ کرے اور آئندہ پر خوش نہ ہو تو اس نے زہد کو دونوں حصوں کو حاصل کر لیا ہے ۔
٣۔ حضرت امیر المومنین سے ان اللہ یامر بالعدل والاحسان ''(خدا عدل و احسان کا حکم دیتا ہے ) کے بارے میں میں سوال ہوا آپ نے فرمایا: العدل الانصاف والاحسان التفضل عدل کے معنی انصاف اور احسان کے معنی فضل وبخش سے پیش آنا[51]
٤۔ آنحضرت '' فلنحینہ حیاة طیبہ '' [52]ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اس کے معنی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : القناعة یعنی پاکیزہ حیات سے مراد قناعت ہے ۔
٥۔ قرآن کریم صراحت سے بیان کرتا ہے کہ متشابہ آیات کے معنی اور انکی تاویل کا علم صرف خدا اور راسخون فی العلم کے پاس ہے[53]
بہت سی احادیث نے ائمہ اھلبیت کہ '' راسخون فی العلم '' بیان کیا ہے حضرت علی علیہ السلام ایک خطبہ کے ضمن میں فرماتے ہیں :این الذین زعموا انھم الراسخون فی العلم دوناکذبا وبغیاً علیاً ...'' وہ ولوگ کہاں ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے علاوہ وہ خو د قرآن کا علم رکھنے والے ( راسخون فی العلم ) ہیں یہ چھوٹ اور ہمارے اوپر ظلم و بغاوت ہے[54]
٦۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں روی زمین پر دو چیزیں عذاب سے امان کا باعث تھیں ان میں سے ایک اٹھالی گئی پس دوسری کو مضبوطی سے پکڑلو وہ امان جس سے اٹھا لیا گیا رسول خدا تھے لیکن وہ امان کہ جو باقی ہے طلب مغفرت ہے [55]
خداوند متعال فرماتا ہے : وما کان اللہ لیغفرلہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون[56]
نہج البلاغہ میں قرآنی مستندات
جب ہم قرآنی آیات اور نہج البلاغہ کے مطالب پر نظر کرتے ہیں تو مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں ۔
الف)دونوں کے ہم مضمون مطالب :
قرآن مجید اور نہج البلاغہ میں تقریباً ٣٥ مقامات ایسے ہیں جہاں پر ہم معنی مطالب کا ذکر ہوا ہے بطور نمونہ صرف چند موارد کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے :
١۔ خداوند متعال کی حمد و ثنا : انعام آیت ١ '' الحمد للہ الذی خلق السموات ولارض وجعل الظلمات والنور ''تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے جن نے تاریکیوں اور نور کو قرار دیا ۔ کہف آیت ١ '' الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب '' تمام حمد و ثنا اس خدا کے لیے ہے جس نے اپنے بندہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر کتاب نازل کی ۔ خطبہ ٤٨میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
ا لحمد للہ کلما وقب لیل وغسق والحمد للہ کلما لاح نجم وحفق ۔ تمام تعریفیں خدا کے لیے ہیں جب رات آجائے اور تاریکی چھا جائے تمام حمد و ثنا اللہ کے لیے جب ستارہ ظاہر ہو جائے اور پھر چھپ جائے ۔
٢۔ دین فقط اسلام : آل عمران ١٩ : ان الذین عند اللہ الاسلام '' خدا کے نزدیک دین فقط اسلام ہے خطبہ ٨٩ ثم ان ھذا الاسلام دین اللہ الذی اصطفاہ لنفسہ واصطفعہ علی عینہ یہ اسلام دین خدا ہے اور اسے اپنے لیے منتخب فرمایا اور اپنی نظر عنایت سے پروان چڑھایا ہے ۔
٣۔ انسان کی با مقصد خلقت : مومنون آیت ١١٥؛ '' افحسبتم انما خلقنا کم عبثاً وانکم الینا ترجعون '' کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تمہیں بے ھذف پیدا کیا ہے او رتم ہماری طرف نیز پلٹائے جاؤ گے۔ خطبہ٧٥ فان اللہ سبحانہ لم یخلقکم عبثاً ولم یقرکم سدیً '' خداوند نے تمہیں بے کار پیدا نہیںکیا ہے اور نہ ہی آزاد چھوڑ ا ہے ۔
٤۔ شرک ناقبل بخشش گناہ : نساء ایت ٤٨ : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر ما دون ذالک لما یشاء ۔'' بے شک خداوند اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ جس چیز کو چاہے بخش سکتا ہے[57]خطبہ ١٧٥: فاما الظلم الذی لا یغفر فاشرک باللہ... وہ ظلم کہ جو ناقابل بخشش ہے خدا اکا شریک قائل ہو نا ہے ۔
٥۔ نیکی کا بہتر نیکی سے جواب : نساء آیت ٨٦'' واذا حییتم بجحیہ فحیوا باحسن منھا او ردوھا .. اور جب تم لوگوں کو کوئی تحفہ (سلام ) پیش کیا جائے تو اس سے بہتر یا کم سے کم ویسا ہی واپس کرو [58]
حکمت ٥٩ : اذا حییت بتحیة فحیّ باحسن منھا ... جب تم کو کوئی سلام کرے تو اس سے بہتر جواب دو ۔
ب) ایک دوسرے کے لیے اجمال و تفصیل : قرآن میں بعض ایسے مطالب ہیں کہ جو بطور اجمال بیان ہوئے ہیں اور نہج البلاغہ میں اسکی تفصیل اور وضاحت بیان ہوئی ہے ذیل میں چند نمونے پیش کئے جار ہے ہیں :
١۔ توحید خداوند : سورہ اخلاص آیت ١ '' قل ہو اللہ احد '' آپ کہہ دیجئے کہ خدا ایک ہے ۔ خطبہ ١٥٢الاحد لابتاویل عدد ' خدا ایک ہے عد د کی طرف رجوع کئے بغیر حکمت ٤٦١ میں واللہ وحید الاتتوھمہ ۔یعنی خدا کو ایک سمجھنے کا مطلب ہے اس سے وہم و خیلا میں نہ لاؤ۔
٢۔ جنت عمل صالح کا نتیجہ : سورہ اعراف آیت ٤٣.... ونودو ان تلکم الجنة او رثتموہا بما کنتم تعلمون '' اہل بہشت کو آواز دیں کہ یہ جنت انکے اعمال کا نتیجہ ہے خطبہ ١٦٦ الفرائض الفرائض ادوھا الی اللہ تودوکم الی الجنة ۔ یعنی واجبات واجبات انہیں اللہ کے لیے انجام دو تاکہ وہ تمہیں جنت میں پہنچادیں ۔
٣۔ عصرجاہلیت کی گمراہی : آل عمران آیت ١٦٤: '' وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین '' یقینا لوگ (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آنے سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ خطبہ٩٤'' میں دور جاہلیت کے لوگوں کی مختلف گمراہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں '' بعثہ والناس ضلال فی حیرة و خابطون فی فتنة قد استوتہم الاھواء و استنزلتھم الکبرایاء واستخفنتم الی ابی ھلیة الجھلاء حیاری فی زلزال من الامروبلا من الجھل '' یعنی خداوند متعال نے آنحضرت کو اس وقت مبعوث فرمایا جب لوگ وگمراہی میں سرگرداں تھے آنکھ بند کر کے فتنہ و فساد میں قدم رکھ رہے تھے ان پر نفسانی خواہشات کا غلبہ تھا غرور و تکبر نے ان کے اندر لغزش پیدا کردی تھی کثیر جاہلیت کے سبب ذلت میں مبتلا تھے اور اپنے امور میںسرگردان و حیران تھے ۔
خطبہ ١٨٧میں گمراہی کی علت کی طرف اس طرح اشارہ فرماتے ہیں بعثہ حین لا علم قائم ولا منارساطع ولا منھج واضح یعنی خداوند نے آپ کو مبعوث فرمایا جب نہ کوئی علامت اور نشانی موجود تھی نہ کوئی روشنی اور نورانیت ظاہر تھی اور نہ کوئی واضح صراط مستقیم تھا ۔
٤۔ ہر چیزکی خلقت معین وقت کیلئے : سورہ احقاف آیت ١٣'' خلقنا السموات والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی '' ہم نے زمین و آسمانوں اور جو چیزیں انکے درمیان ہیں حق کے ہمراہ اور معین مدت کیلئے پیدا کیا ۔ خطبہ ٨٢: وجعل لعل شیئی قدر اً ولکل قدر اجلاً ولکل اجل کتابا '' یعنی خداوند نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ اور ہر اندازہ کے لیے ایک مدت ار ہر مدت کے لیے ایک معین نوشتہ مقدر فرمایا ہے ۔
٥۔ بدگمانی سے پرہیز: سورہ حجرات آیت ١٢: یا ایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیراً من الظن ان بعض الظن اثم '' اے ایمان والوا بہت سے گمان سے بچو چونکہ بعض گمان گناہ ہیں ۔حکمت ٣٥٢: لا تطف بکلمة خرجت من احد سوء ً وانت تجدلھا فی الخیر محتملا '' یعنی وہ لفظ جو کوئی شخص ادا کررہا ہے اس کے بارے میں نیک احتمال دے سکنے کی حالت میں بدگمانی سے پرہیز کرو ۔
(ب)قرآن اور نہج البلاغہ کے بظاہر متضاد مطالب :
قرآن اور نہج البلاغہ کے مطالب اگر چہ بعض اوقات آپس میں مختلف اور متضاد نظر آتے ہیں البتہ نظرغائی ڈالنے کے بعد اختلاف اور تضاد حل ہو جاتا ہے جن میں سے بعض موارد کو بیان کیا جارہا ہے ۔
١) عزت کا خدا سے مخصوص ہونا :
سورہ منافقون آیت ٨'' واللہ العزة والرسولہ وللمومنین ولکن المنافقین لا یعلمون '' عذاب خدا رسول اور مومنین سے مخصوس ہے لیکن منفافقین کو علم نہیں ہے خطبہ ٦٤ '' وکل عزیز غیرہ ذلیل یعنی خدا کے علاوہ ہر عزیز ذلیل ہے ۔
مذکراہ تضاد اس طرح سے قابل حل ہے کہ اصالة اور ذاتاً عزت پروردگار سے مختص ہے اور ہر مخلوق اس عزت کے مقابلے میں خوار و ذلیل اور فقیر و محتاج ہے ۔
٢)تقوے کی مقدار :
آل عمران آیت ١٠٢ :'' یا ایھا الذین آمنوا اتقوا للہ حق تقاتہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون '' اے صاحبان ایمان اللہ سے اس طرح تقویٰ اختیار کرو جو اسکا حق ہے اور تم اسلام کی حالت پر دنیا سے کوچ کرو ۔ حکمت ٢٣٤: اتق اللہ بعض التقی وان قل واجعل بینک و بین اللہ سترا وان رق '' یعنی خدا سے ڈرو اگر چہ کم ہی کیوں نہ ہو اپنے اور اللہ کے درمیان ایک پردہ قرار دو اگر چہ نازک ہی سبھی ۔
اللہ نے کماحقہ تقوے اور حضرت علی علیہ السلام نے تھوڑ سے تقوے کا مطالبہ کیا ہے ان دو چیزوں میں منافات نہیں ہے جو کہ مطلوب دونوںقسم کا تقوی ہے اگرچہ اسکا اعلیٰ درجہ، اتم اور اکمل تقوی ہے ۔
(٣)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہدایت کا مسألہ:
سورہ بقرہ آیت ٢٧٢ '' لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلَکِنَّ اﷲَ یَہْدِی مَنْ یَشَائُ'' ہدایت کی ذمہ داری آپ کے اوپر نہیں البتہ خدا جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔ خطبہ ١: فہداہم بہ عن الضلالہ وانقذہم بمکانہ من الجہالة یعنی خدا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کی اور ان کے سبب انہیں جہالت سے نجات دلائی۔ یہان پر بظاہر آیت اور خطبہ کے مذکورہ جز میں تضاد نظر آتا ہے۔ قرآن نے فریضہ ہدایت کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نفی کی ہے لیکن نہج البلاغہ کی نظرمیں اللہ نے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ خود قرآن نے ایک جگہ پر فرمایا ہے : ذلک لتہدی الی صراط مستقیم [59] یعنی بے شک آپ راہ راست کی طرف ہدایت کرتے ہیں دوسرے یہ کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا دیگر نبیوں کے لئے جو ہدایت کا لفظ استعمال ہو تا ہے اس سے مراد راستہ دکھاناہوتا ہے نہ منزل مقصود تک ہاتھ پکڑ کر پہنچانا۔ لہٰذا وہ آیتیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہدایت کی نفی کرتی ہیں وہاں مراد منزل و مقصود تک پہنچانا ہے اور وہ آیات یا احادیث جیسے نہج البلاغہ کا ذکر شدہ جملہ، جو حضور کو وسیلہ ہدایت بتاتا ہے، ان سے مراد لوگوں کو راستہ دکھانا ہے۔
خلاصہ:
خداوندمتعال ک واحد کتاب کہ جو ہر طرح کی تحریف سے منزہ اور مبرا ہے،قرآن مجید ہے۔ یہ کتاب زندگی اور صراط المستقیم ہے۔ خداوند متعال اپنی اس کتاب میں انسانون کو تفکر و تدبر اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن میں غور و فکر اور اس کی ہدایات سے انسان اسی وقت مستفیض ہوسکتا ہے جب آیات کو صحیح طریقے سے سمجھے۔ اس اعتبار سے قرآنی معارف کو تین حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:
١۔ وہ آیات جو عربی داں افراد کے لئے قابل فہم و درک ہیں۔
٢۔ وہ آیات کہ جو تدبر اور تفسیر کی محتاج ہیں ۔
٣۔ وہ آیات کہ جن کو کامل منابع یعنی معصومین علیہم السلام کے اقوال اور بیانات کی روشنی میں تفسیر و توضیح کی ضرورت ہے۔
تفسیر قرآن کا سلسلہ صدر اسلام سے شروع ہوا۔ دور رسالت میں بعض اصحاب نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور تفسیر سیکھی جس میں سب سے نمایاں شخصیت حضرت علی علیہ السلام کی ہے۔ آپ نے تفسیر قرآن کے لئے مختلف روشوں بالخصوص تفسیر قرآن بہ قرآن سے استفادہ فرمایا ہے۔ مذکورہ مقالہ میں مقدماتی بحث کے بعد علی علیہ السلام کی نظر میں تفسیر کے شرائط،مبانی اور روش کے علاوہ آپ کے تفسیری نمونوں نیز آنحضرتصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرآن مستندات کو بیان کیا گیا ہے۔
خدا ہم سب کی قرآنی روش اور علوی سیرت پر چلنے کی توفیق کرامت فرمائے۔آمین۔
[1] انعام،آیت ٥٩
[2] الاتقان، سیوطی ٥٧
[3] مناھل العرفان۔ ج١، ص ١٤
[4] الصحاح جوھری مادہ فسر
[5] معجم مقاییس اللغة مادہ ''فسر''
[6] لسان العرب، القاموس المحیط، تاج العروس،مادہ فسر
[7] سورہ فرقان،آیت ٣٣
[8] نہج البلاغہ ، خطبہ ١١٠
[9] نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٦
[10] نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٨، ترجمہ اردو۔
[11] نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٢
[12] انساب الاشراف،ج٢،ص٩١
[13] الصواعق المحرقہ ص ١٢٧
[14] طبرانی، المعجم الصغیر، ج١، ص ٢٥٥
[15] احقاق الحق، ج٤، ص ٤٣٩
[16] البرھان،ج١، ص١٥
[17] وسائل الشیعہ، ج١٨، ص١٢٩
[18] بحار الانوار، ج٦٥م ص ٢٦١
[19] امالی صدوق،ج٣،ص٤٠٣/ شواہد التنزیل،ج١،ص٤٠٠ / ینابیع المودت، ج١ ،ص ٣٠٧
[20] شواہد النزول، ج١، ص ١٠٥/ ینابیع المودة، ج١ ، ص ٣٠٧
[21] شواہد النزول، ج١، ص ٣٥
[22] شواہد النزول، ج١، ص ٣٥
[23] وسائل الشیعہ، ج١٨، ص١٤٣
[24] نہج لابلاغہ،خ١٣٣، ترجمہ اردو
[25] التوحید ص٢٦٥
[26] الاتقان فی علوم القرآن، ج٤،ص ٢٠٠
[27] نہج لابلاغہ، خطوط٧٧
[28] بحار الانوار، ج٩٠، ص ٤
[29] التفسیر المفسرون،ج١،ص٥٩
[30] البرھان فی علوم القرآن، ج٢، ص٣٠
[31] نہج لابلاغہ، خطبہ ١
[32] نہج البلاغہ، خطبہ ١٧٦
[33] نہج البلاغہ، خ ١٥٥ ترجمہ اردو
[34] نہج لابلاغہ، خطبہ ٩
[35] نہج لابلاغہ، خطبہ ١٦، ترجمہ علامہ موددی
[36] سورہ آل عمران آیت ١٠٢
[37] مجلسی، بحارالانوار، ج٣٨، ص٦٣
[38] سورہ تغابن۔ آیت ١٦
[39] نہج البلاغہ، خط٢٨
[40] زمر٣
[41] کنزالعمال، ج٢، ص ٤٩١
[42] سورہ نمل،آیت ٦٥
[43] سورہ لقمان،آیت ٣٤
[44] نہج البلاغہ، خ ١٨
[45] کنزالعمال، ج٢،ص٥٢١
[46] سورہ ذاریات، آیت ٢٢
[47] مسند امام علی، ج٢، ص٢٤٧
[48] مسند امام علی، ج٢، ص٢٩٢
[49] سورہ بقرہ، آیت١٥٦
[50] نہج البلاغہ خطبہ ٤٢١
[51] نہج البلاغہ خطبہ ٢٣١
[52] سورہ نحل
[53] سورہ آل عمران، آیت٧
[54] نہج البلاغہ خطبہ ١٤٤
[55] نہج البلاغہ،خطبہ ٢٣١
[56] سورہ انفال ، آیت٣٣
[57] نہج البلاغہ ، اردو ترجمہ
[58] نہج البلاغہ ، اردو ترجمہ
[59] سورہ شورای۔آیت ٥٢
source : http://www.babolilm.com