اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

شفاعت کا مفہوم

شفا عت ،مادہ شفع سے لیا گیا ہے جو  جوڑے کے معنی میں ہے اور عر ف عام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ کو ئی با عزت انسان کسی بزر گ شخصیت سے کسی مجر م کی سزا سے چشم پو شی یا کسی خد مت گذار کی اجر ت میں اضا فہ کی در خو ا ست کر ے اور شا ید ایسے مقا مات پر لفظ شفا عت کو استعما ل کر نے کا نکتہ یہ ہو کہ مجر م انسان خو بخو د بخشے جا نے کا مستحق نہیں ہو تا، یا خد مت کا رخو د بہ خو د اجر تمیں اضا فہ کا استحقا ق نہیں رکھتا لیکن سفا رش کر نے وا لے ( شفیع ) کی در خو است کا منسلک ہو جا نا اسے اس کا مستحق بنا دیتا ہے عام حا لا ت میں کو ئی کسی سفا رش کر نے و الے کی سفا رش کو اس لئے قبو ل کر لیتا ہے وہ اس با ت سے ڈر تا ہے کہ اگر اس کی سفا رش کو قبو ل نہ کر ے گا تو وہ ناراض ہو جا ئے گا اور اس کا رنجید ہ خا طر ہو نا اس کی الفت یا خد مت کی لذ ت سے محر ومی کا سبب بنے گا، یا ممکن ہے کہ سفا رش کر نے وا لے کی جانب سے نقصا ن پہنچنے کا با عث ہو وہ مشرکین جو اس دنیا کو پیدا کر نے وا لے خدا کے لئے انسانی او صا ف کے قا ئل تھے، جیسے شر یک حیا ت ، مونس و مدد گا ر دو ست ہم مشغلہ سا تھی کی محبت کی ضر ورت یا اپنے ر قیب اور اپنے برابر کی شخصیت سے خو ف وغیر ہ، وہ خدا کے لئے ان سب صفا ت کے اس لئے قا ئل تھے، کہ ا ن کی تو بہ ان لو گو ں کی طرف مبذول ہو جائے اور وہ اس کے غضب سے محفو ظ رہیں، اور اسی لئے وہ لو گ بتوں اور مجسمو ں کے مقابلہ میں فر شتوں اور جنا توں کی پر ستش کرتے تھے اور کہتے تھے ۔(ھؤُ لَاء شفعاؤنا عِندَ اللَّہِ )(١) یہ سب خدا کے نزدیک ہما ریشفا عت کر نے وا لے ہیں اور کہتے تھے :

(مَا نَعبُدُ ہُم اِلَّا لِیُقَرِّ بُونَا اِلَی الٰلّہِ زُلفَیٰ )(٢)ہم ان کی پر ستش صر ف اس لئے کر تے ہیں کہ ہمیں اللہ سے قر یب کر دیں گے ۔

اور قر آن مجید ان لو گو ں کے جا ہلا نہ خیا لا ت کو اس طر ح با طل کر تے ہوئے فر ما تا ہے :

(لَیسَ لَہَا مِن دُونِ اللّہِ وَلِّ وَلَا شَفِیع )(٣) لیکن غو ر و فکر کا مقام ہے کہ ایسے  شفا عت کر نے و الو ں اور ایسی شفا عت کی نفی کر نے کے معنی مطلقاً شفا عت کا انکا ر کر نا نہیں ہے، خو د قر آن مجید میں آیا ت مو جود ہیں جو شفا عت کو ( خدا کی اجا زت اور اس کے اذن سے ثا بت کر تی ہیں)

( شفا عت باذن اللہ ) اور وہ آیا ت شفا عت کر نے و ا لو ں اور جنکی شفا عت کی جا ئے گی ان کی شرائط کو بھی بیان کر رہی ہیں اور خدا کی جا نب سے اجا زت یا فتہ شفا عت کر نے و الوں کی شفا عت کا قبو ل ہو نا، کسی خو ف یا ضرو رت کی وجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا را ستہ ہے جسے خدا وند عالم نے ان لو گو ں کے لئے کھو لا ہے، جن کے اند ر رحمت الہٰی ،کی لیا قت کم پا ئی جا تی ہے اور اس کے وا سطے کچھ شر طیں اور اصول قرا ر د یئے ہیں اور در حقیقت صحیح شفا عت پر عقید ہ ،اور شر ک آمیز شفا عت پر عقیدہ کے در میان وہی فر ق ہے جو فر ق خدا کی جا نب سے حاکمیت اور تدبیر ، اور خود مختار حاکمیت و تدبیر کے درمیان میں ہے جو خدا شنا سی کے باب میں بیان ہو چکی ہے (۴)کبھی کبھی شفا عت کا لفظ اس سے بھی زیا دہ و سیع معنیٰ میں استعما ل ہو تا ہے اور انسان کے اند ر دوسرے کے ذریعہ اچھا اثر ظا ہر ہو نے کو بھی شا مل ہے جیسے ما ں با پ اپنی اولادکے متعلق یا اس کے بر عکس اسی طرح معلم اور ر ہنما اپنے شا گر دوں کے متعلق اور یہا ں تک کہ مو ذن ان لو گو ں کے متعلق جو اس کی آوا ز کو سن کر نما ز کو یا د کر تے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں شفا عت کر یں گے اور در حقیقت ہر نیک اثر جو اس دنیا میں انجام دیا گیا ہے وہ شفا عت اور مدد کی شکل قیامت کے دن ظا ہر ہوگا ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ گنہگا ر وں کی توبہ و استغفا ر اسی دنیا میں ان کے لئے ایک طر ح کی شفا عت ہے اور یہا ں تک کہ دوسرو ں کے حق میں دعا کر نا اور خد ا سے ان کی حا جتوں کو پور ا ہو نے کی   در خو است کر نا در حقیقت خدا کے نزدیک شفا عت شما ر کی جا تی ہے ، کیو نکہ یہ سا ری چیزیں خدا کے نز دیک کسی انسان تک نیکی پہنچا نے یا کسی سے شر کو دور کر نے لئے واستہ ہے ۔

 ……………………………………

١۔ یو نس  ١٨ ، روم  ١٣ ، انعام  ٩٤، زمر  ٤٤ ، وغیرہ

٢۔ زمر  ٣

٣۔ انعام  ٧٠، ٥١، سجدہ  ٤، زمر  ٤٤،

۴۔ رجوع کریں،باب خدا شنا سی درس نمبر ١٦،


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شہر مقدس قم کے بارے ميں مختصرمعلومات
روحانی بیماریاں
مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
گريہ شب
اسلام میں حج کی اہمیت
غیب پر ایمان
فلسفہ خمس
مسلمان جوان اور نفس
امام خمینی (رح) کی با بصیرت قوم پر سلام
خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ...

 
user comment