فہم قرآن کی اولین شرط نیت کی پاکیزگی ہے یعنی وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے کہ وہ اس کے ذریعہ ہدایت اور فلاح کے راستوں کوپا لے گا لیکن ایسے بہت سے حضرات جو اپنی ذاتی اغراض کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن ہدایت قرآن سے محروم رہیں گے
فہم قرآن کے لۓ چند شرائط
”فہم قرآن“ کے تحت مولانا حمید الدین فراہی نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے اور یہ شرائط فہم قرآن کے لئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنا کہ نماز کے لئے وضو اور طہارت۔
پہلی شرط
فہم قرآن کی اولین شرط نیت کی پاکیزگی ہے یعنی وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے کہ وہ اس کے ذریعہ ہدایت اور فلاح کے راستوں کوپا لے گا لیکن ایسے بہت سے حضرات جو اپنی ذاتی اغراض کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن ہدایت قرآن سے محروم رہیں گے مولانا فرماتے ہیں قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اور ہر آدمی کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ و دیعت کر دیا ہے اگر اس داعیہ کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ قرآن مجید سے بقدر کوشش اور بقدر توفیق الہی فیض پاتا ہے اور اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو ”لکل امرمانوی“کے اصول کے مطابق وہ وہی چیز پاتا ہے قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے
اولئک الذین اشترو الضلالةبالھدی فماٰربحت تجارتھم وما کانوامھتدین(سورہ بقرہ:۱۶)
ترجمہ: یہی لوگ ہیں جنہوں نے اختیار کیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے تو ان کی یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش نہ ہوئی اور وہ ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔
دوسری شرط
نیت کی پاکیزگی کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کوایک برتر کلام اور دنیا کی عظیم کتاب مانا جائے کیونکہ بغیر اس کے اس کی حکمتوں اورخزینوں سے استفادہ ممکن نہیں قرآن کے طالب علم کے ذہن میں یہ چیز ارادے اوروثوق کے ساتھ موجود ہو کہ یہ کتاب ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل ہے ایک معجز کلام ہے ایک آسمانی کتاب اور لوح محفوظ سے اترا ہوا کلام ہے یہ سب چیزیں اس لئے ضروری ہیں کہ منکرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب عرب کے بدوؤں کے لئے اتاری گئی تھی اور موجودہ حالات میں یہ کتاب اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور اس کتاب کے ماننے والوں کا یہ خیال ہے کہ یہ کتاب حرام و حلال کے احکامات پر مبنی ہے اور جب سے فقہ کی تدوین ہو گئی ہے اس کی اہمیت میں اور کمی آ گئی ہے اسے صرف متبرک کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں بہت سے لوگ اسے اچھی نصیحتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دور کرنے اور ایصال ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کودفع بلیات اورآفات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔
تیسری شرط
فہم قرآن کی تیسری شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کوتبدیل کیا جائے،اس نقطہ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے گا تو جگہ جگہ انسانی خواہشات قرآنی تقاضوں سے متصادم ہوتے ہوئے نظر آئیں گی اور انسان کو اپنے مطالبات سے باز آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا لیکن جس کے اندر استقلال اور پختہ ارادہ ہو گا وہ ضرور اپنے اندر قرآنی تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائے گا لیکن جو پرعزم نہیں ہے اس کے متعلق مولانا لکھتے ہیں وہ اس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو اپنے اور قرآن کے درمیان حائل پاتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصورات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں تو مجھے ذہنی اور فکری حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔
لیکن جو لوگ مختلف آزمائشوں سے گزر کر بھی قرآنی تقاضوں اور قرآنی راستوں کو نہیں چھوڑتے ہیں اللہ ان کے لئے راہیں ہموار کر دیتا ہے اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اگر ایک زمین اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے تو دوسری سرزمین اس کے لئے آغوش بن جاتی ہے قرآن کریم میں اسی چیز کی طرف یوں اشارہ کیا گیا
”والذین جاھدوافینا لنھدینھم سُبْلنا وان اللہ لمع المحسنین“ (سورہ عنکبوت۶۹)
ترجمہ: اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ضرور ان پر اپنی راہیں کھولیں گے اور اللہ خوبیوں کے طالبوں کے ساتھ ہے
چوتھی شرط
قرآن کریم سے استفادہ کی چوتھی شرط تدبر ہے قرآن کریم نے تدبر نہ کرنے والوں کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے
”افلا یتد برون القرآن ام علی قلوب اقفا لھا“
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہو ئے ہیں۔
صحابہ کرام مستقل قرآن کریم پر غور کرتے اور اجتماعی طور پر قرآن کا مطالعہ کرتے خلفاء راشدین اور بالخصوص حضرت عمراس قسم کے حلقوں اور قرآن کریم کے ماہرین سے برابر دلچسپی لیتے صحابہ کرام صرف تبرک کے نقطہ نظر سے تلاوت نہ کرتے نہ ہی اسے جانکنی کی سختیوں کو آسان کرنے کے لئے پڑھتے اور نہ ہی اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے۔
پانچویں شرط
فہم قرآن کی پانچویں شرط یہ ہے کہ تدبر وتفکر کے وقت بہت سی ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ اسے بد دلی اور قنوطیت کی طرف لے جائیں گی لیکن ان حالات میں اسے دامن صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اس طرح کی عملی و فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور قرآن مجید پر جما رہے اگر قرآن مجید یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے انشاء اللہ اس کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی اور حکمت قرآن کے ایسے دروازے اس پر کھل جائیں گے کہ پھر اس کو قرآن حکیم کی ہر مشکل آسان معلوم ہونے لگے گی۔
source : http://mahdicenter.com