اردو
Monday 6th of May 2024
0
نفر 0

غدیر کا دن صرف پیغام ولایت پہنچانے کے لئے تھا؟

ظو اہر آیات غدیر کی طرف توجّہ :

بعض لوگوں نے سورہ ٔ مبارکہ مائدہ کی آیت ٦٧ ( یا َیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا ُنْزِلَ ِلَیْک)

کے ظاہر پر توجّہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غدیر کا دن صرف \'\'پیغام ولایت \'\' پہچانے کا دن ہے ، اور رسول اکرم ۖ نے اس مبارک دن \'\' حضرت علی ـ \'\' کی ولایت کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ۔

اور بس اتنے ہی کو کافی سمجھتے ہوئے خوش حال ہو جاتے ہیں ، یا تو غدیر کے دوسرے تمام زاویوں کو درک کرنے سے انکی عقلیں قاصر ہیں یا کتب کے مطالعہ کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنے کی زحمت نہیں کرتے ، کہتے ہیں کہ: لفظ (بلِّغ)یعنی ابلاغ کر دو لوگوں تک پہنچا دو ، اور ( ما انزِلَ الَیکَ) یعنی ولایت اور امامت حضرت امیرالمؤمنین ـ لہٰذا غدیر کا دن صرف \'\' اعلان ولایت \'\' کا دن ہے ، اس گروہ کا جواب بھی مختلف طریقوں سے دیا جاسکتا ہے ،جیسا کہ:

١۔ آیات غدیر کی صحیح تحقیق :

یہ صحیح ہے کہ لفظ \'\' بلّغ\'\' کے معنیٰ ہیں ( پہنچادو)؛لوگوں میں ابلاغ کردو اورلوگوں کو آگاہ کردو لیکن کس چیز کے پہنچانے کا حکم دیا جارہا ہے ؛ اس حکم کا متعلّق کیا ہے ؟ یہ بات اس آیہ مبارکہ میں ذکر نہیں ہوئی ہے کس چیز کو پہنچانا ہے؟ ظاہر آیت سے واضح نہیں ہے ،اور اس آیت کا باقی حصّہ یعنی ( مٰا ُنْزِلَ ِلَیْکَ ) جو کچھ تم پر نازل کیا گیایہ عام ہے ؛ جو کچھ تم پر نازل کیا گیا یہ کیا چیز ہے ؟

آیا مقصود صرف \'\' اعلان ولایت \'\'ہے ؟

آیا مقصود \'\' امام کا تعارف \'\' ہے؟

آیا مراد \'\' قیامت اور رجعت تک آنے والے اماموں کا تعارف \'\' ہے ؟

آیا مراد \'\' اسلام کی رہبریت کا تعیّن \'\' ہے ؟

یا ( مٰا ُنْزِلَ ِلَیْکَ) کا متعلّقہ موضوع \'\' تھیوری اور پریکٹیکل\'\'یعنی عملی و نظری پر مشتمل ہے یعنی ائمّہ معصومین علیہم السّلام کا تعارف بھی کرواؤ اور ان ہستیوں کے لئے بیعت بھی طلب کرو؟تاکہ \'\'بیعت عمومی\'\' کے بعد کوئی بھی شکوک و شبہات کا سہارا لیتے ہوئے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل نہ کر سکے۔

چنانچہ یہ سمجھنا اورجاننا ضروری ہے کہ (مٰا انزِلَِلَیْکَ) کیا ہے ؟جو کچھ پیغمبر اسلام ۖ پر ناز ل ہو چکا تھا وہ کیا تھا ؟ سورۂ مبارکہ مائدہ کی آیت ٦٧ میں موجودہ پیغامات اور مسلسل احتیاط اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ پہلا نظریہ (صرف اعلان ولایت ) صحیح نہیں ہے بلکہ دوسرے نظریے (وسیع اہداف )کو ثابت کررہے ہیں ۔

اس آیہ مبارکہ میں مزید آیا ہے : ( وَ ِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ )

( اگر تم نے یہ کام انجام نہ دیا تو گویا اس کی رسا لت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔) ( مٰا ُنْزِلَ)کا متعلق کیا اہم چیز ہے کہ جسکو انجام نہ دیا گیا تو پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت ناقص و نامکمّل رہ جائے گی ؟ ادھررسول اکرم ۖ بھی اسکو انجام دینے سے گھبرا رہے ہیں کہ شایداسکو قبول نہ کیا جا ئے اور رخنہ ڈا ل دیا جائے ، اگر صرف \'\' اعلان ولایت \'\' تھا تو اس میں کس بات کا ڈر اور ہچکچاہٹ ؟ کیونکہ اس سے پہلے بھی بارہا ، محراب میں ، منبر پر ، مدینہ اور دوسرے شہروں میں ،جنگ کے میدان میں ، اور جنگوں میں کامیابیوں کے بعد حضرت امام علی ـ کی ولایت اور وصایت کا اعلان کر چکے تھے ، لوگوں تک اس بات کو پہنچا چکے تھے ، کسی کا خوف نہ تھا اور کسی سے اس امر کی بجا آوری میں اجازت طلب نہ کی تھی ۔

آپ ۖ نے جنگ تبوک اور جنگ خیبر کے موقع پر حدیث \'\'منزلت\'\' میں حضرت علی ابن ابی طالب ـ کا تعارف بعنوان وزیر اور خلیفہ کروایا اور کسی بھی طاغوتی طاقت اور قدرت کی پروا نہ کی ، غدیر کے دن ایسا کیا ہونے والا تھا جورسول خدا ۖ کو خوفزدہ کئے ہوئے تھا اور فرشتۂ وحی آپ ۖ کوتسلّی دیتے ہوئے اس آیت کو لے کر نازل ہوا ( و َاﷲ ُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ) (اﷲ تمہیں انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ۔)

جملۂ ( ما انزِلَ ) کا متعلّق کونسی ایسی اہم چیز ہے کہ جسکے وجود میں آنے کے بعد

اکمال دین : ( أَلْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ)

اتمام نعمات الٰہی : ( وَ َتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتیْ )

بقاء اور جاویدانی اسلام : ( وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الِْسْلٰامَ دِیْناً)

کفّا ر کی ناامیدی : ( أَ لْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا )

جیسے اہم فوائد حاصل ہونگے ؟

چنانچہ یقینا پہلا نظریہ صحیح نہیں ہے اور ( مٰا ُنْزِلَ ِلَیْکَ)کا متعلّق \'\' ولایت امیر المؤمنین ـ کا اعلان\'\' اور \'\' مسلمانوں کی عمومی بیعت \'\' ہونا چاہیے ۔

اے رسول خدا ۖ ! آج ہم نے جو کچھ تم پر نازل کیاہے لوگوں تک پہنچا دو یعنی امام علی ـ اور انکی اولاد میں سے گیارہ بیٹوں کی ولایت اور امامت کا اعلان کردو اور اسکے بعد حج کی برکت سے ساری دنیا سے آکر اس سر زمین پر جمع ہونے والے مسلمانوں سے بیعت اور اعتراف لے لو ( کہ پھر اتنا بڑا اجتماع وجود میں نہ آئے گا)اور امامت کے مسئلے کو نظریہ اور عقیدہ میں عمومی اعتراف اور عملی طور پر عمومی بیعت کے ذریعہ انجام تک پہنچا دو، اور کیونکہ خدا کے انتخاب اور رسول خدا ۖ کے ابلاغ کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت بھی تحقق پذیر ہوئی دین کامل ہو گیا ۔

( امامت راہ رسالت کی بقا اور دوام کا ذریعہ ہے ۔) خدا وند عالم کی نعمتیں انسانوں پر تمام ہوگئیں ، د ین اسلام ہمیشہ کے لئے کامیاب ہو گیا، کفّار ناامید ہو گئے کہ اب ارکان اسلام کو متزلزل نہ کر سکیں گے ،اس مقام پر وحی الٰہی یہ بشارت دے رہی ہے کہ( َلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا )

آج \'\'روز غدیر \'\' کفّار ناامید ہوگئے ۔

وگرنہ صرف \'\'اعلان ولایت تو غدیر سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا تھا کفّار ناامید نہ ہوئے تھے؛ اور صرف \'\'اعلان ولایت کے ذریعہ دین کامل نہیں ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ امامت کا پیغام پہنچا دیں لیکن لوگ بیعت نہ کریں اور امّت میں اختلاف پیدا ہو جائے، گذشتہ امّتوں کی طرح پیغمبر اسلام ۖ کے خلاف قیام کیا جائے اور انکو قتل کر دیا جائے، کیا گذشتہ امّت نے پیغمبر خدا حضرت زکر یا ّ ـ کو آرہ سے دو حصّوں میں تقسیم نہیں کیا ؟کیا مخالفوں نے حضرت یحییٰ ـ جیسے پیغمبر کا سر تن سے جدا نہیں کیا اور اس زمانے کے طاغوت کے لئے اس سر کو ہدیے کے طور پر پیش نہیں کیا ؟

کیا حضرت عیسیٰ ـ جیسے پیغمبر کو ایک عرصہ کے لئے ہجرت کرنے اور پوشیدہ رہنے پر مجبور نہیں کیا ؛ اور یہودیوں کے جھوٹے دعوے اور مسیحیت کے جھوٹے عقیدے کو بنیاد بنا کر ان کو سولی پر نہیں لٹکایا ؟ اس مقام پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف اعلان ولایت :

١۔ کشیدگی کا سبب نہیں ہے ۔

٢۔ امّت کے درمیان اختلاف کا خطرہ نہیں ہے ۔

٣۔ مسلّحانہ کار روائیوں کا حامل نہیں ہے ۔

٤۔ پیغمبر اکرم ۖ کو خوفزدہ نہیں کر سکتا کہ جسکے سبب وہ حضرت جبرئیل ـسے تین بار معذرت چاہیں ۔

یہ سارے وہم اور خوف \'\' عمومی بیعت کے تحقّق \'\' کی وجہ سے ہیں،جو کہ موقع کی تلاش میں رہنے والی سیاسی جماعتوں کو خوف و وحشت میں مبتلا کئے ہوئے ہے؛ اور کفّار کی یاس و ناامیدی اسی سبب سے ہے اور حکومت و قدرت کے پیاسوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ایک مسلّحانہ بغاوت کریں ۔

٢۔ تاریخ غدیر کی صحیح تحقیق :

واقعۂ غدیر کی صحیح شناخت حاصل کرنے کا ایک راستہ اس عظیم واقعہ کی تاریخی حوالے سے صحیح تحقیق ہے، دیکھنا یہ چاہیے کہ غدیر کے دن کونسے واقعات اور حادثات رونما ہوئے رسول اکرم ۖ نے کیا کیا؟ اور دشمنوں اور مخالفوں نے کس قسم کا رویّہ اختیار کیا ؟تا کہ غدیر کی حقیقت واضح اور روشن ہو جائے ،اگر غدیر کا دن صرف اعلان ولایت کے لئے تھا؛ تو پھر رسول اکرم ۖ کی گفتگو اور عمل کو بھی اسی حساب سے صرف ابلاغ و پیغام تک محدود ہوناچاہیے تھا ! یعنی رسول اکرم ۖ سب لوگوں کو جمع کرتے اور حضرت علی ـ کی لیاقت اور صلاحیّتوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ فرماتے ؛ پھر کچھ اخلاقی نصیحتوں کے ساتھ لوگوں کے لئے دعا فرماتے اور خدا کی امان میں دے دیتے ، بالکل اس طرح سے جیسے آج سے پہلے بعثت کے آغاز سے لے کر غدیر کے دن تک بارہا آنحضرت ۖ کی طرف سے دیکھا گیا تھا ۔

اس کے بعد ہر شہر و دیار سے آئے ہوئے مسلمان اپنے اپنے وطن کی طرف لوٹ جاتے ۔ رسول اکرم ۖ اس کام کو مکّہ کے عظیم اجتماع میں حج کے وقت بھی انجام دے سکتے تھے عرفات اور منیٰ کے اجتماعات میں بھی یہ کام کیا جاسکتا تھا ۔

لیکن غدیر کے تاریخی مطالعہ کے بعد یہ بات واضح ہو جائے گی اور یہ نظریہ سامنے آئے گا کہ غدیر کی داستان کچھ اور ہے ؛ اعمال حج اختتام پذیر ہو چکے ہیں؛ اور رسول خدا ۖ کے آخری حج کے موقع پر شوق دیدار میں ساری دنیا کے اسلامی ممالک سے آئے ہوئے مسلمان اپنے پیغمبر ۖ کوالوداع کر رہے ہیں ؛ یہ عظیم اجتماع موجیں مارتے ہوئے سیلاب کے مانند شہر مکّہ سے خارج ہو تا ہے اور غدیر خم کے مقام پر جہاں ہر شہر اور دیار سے آئے ہوئے مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنی اپنی راہ لینا چاہتے ہیں۔

یکایک فرشتۂ وحی آنحضرت ۖ پر نازل ہو کر ایک بہت اہم مطلب کی درخواست کرتا ہے ؛ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ رسول گرامی اسلام ا مت میں اختلاف پیدا ہونے سے ڈر رہے ہیں اور جنگ کی حالت پیدا ہو جانے سے گھبرا رہے ہیں ،تین مرتبہ فرشتۂ وحی آتا ہے اور لوٹ جاتا ہے؛ رسول خدا ۖ پریشان ہیں اور اس کام کے انجام دینے سے اجتناب کر رہے ہیں اور تینوں بار حضرت جبرئیل ـ سے خواہش کرتے ہیں کہ خدا وند عالم انکو اس آخری وظیفہ کو انجام دینے سے معاف رکھے، وحی الٰہی مسلسل آرہی ہے ؛ یہاں تک کہ پیغمبر گرامی اسلام ۖ کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اگر آج آپ نے اس اہم کام کو انجام نہ دیا تو گویا تم نے اپنی رسالت کاکوئی کام نہیں کیا ! پھر اسکے بعد پیغمبر ۖ کو تسلّی دی جاتی ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ؛ خدا وند عالم تمہاری او ر تمہارے دین کی حفاظت کرے گا اور کفّار و منافقین کو رسوا کرے گا او ر تمہیں صرف خدا کی پروا کرنی چاہیے ۔

جب رسول خدا ۖ کو خدا وند عالم کی طرف سے یہ تسلی ملی تو آپ نے یہ حکم صادر فرمایا کہ سب لوگ غدیر خم کی سرزمین پر ٹہر جائیں ؛ جو لوگ غدیر کے مقام سے آگے چلے گئے تھے انکو پلٹ آنے کے لئے کہا گیا اور جو لوگ ابھی تک اس مقام تک نہ پہنچے تھے ان کے پہنچ جانے کا انتظار کیا گیا ۔ جب تمام اسلامی ممالک سے آئے ہوئے سارے مسلمان غدیر خم کے میدان میں جمع ہوگئے تو حکم فرمایا کہ اونٹوں کے کجاووں کے ذریعہ ایک بلند جگہ ( منبر) تیّار کیا جائے ، اس بلند مقام پر کھڑے ہو کر پروردگار عالم کی حمد و ثنا کے بعد اہم مسئلہ کو ذکر کیا اور اپنے اور فرشتہ وحی کے درمیان واقع ہونے والے ماجر ے کو لوگوں کے سامنے بیان کیا ، اسکے بعد حضرت امیرالمؤمنین ـ اور انکی اولاد میں سے گیارہ فرزندوں کی تا قیامت قائم رہنے والی امامت اور ولایت کا اعلان فرمایا اور انکا تعارف کروایا ۔

پھر عملی طورپر خود حضرت علی ـ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کی ؛ اسکے بعد بیعت عمومی کا فرمان جاری کیا ؛ جسکی وجہ سے تمام مردوزن دوسرے دن تک اس مقام پر ٹہرے رہے اور حضرت علی ـ کی بیعت کرتے رہے اگر روز غدیر صرف ولایت کا پیغام پہنچانے کے لئے ہوتا تو اتنے سارے انتظامات کیونکر رسول خدا ۖاور مسلمانوں کی عمومی بیعت بھی تشکیل نہ پاتی ، دلچسپ اور جالب توجہ تو یہ ہے کہ مخالفین کے کلمات سے بھی یہ حقیقت واضح اور روشن ہوتی ہے ،خواہ وہ لوگ جو دست بشمشیر تھے یا وہ لوگ جنہوں نے خیمۂ رسول ۖ کے سامنے کھڑے ہو کر تو ہین آمیز الفاظ استعمال کئے !

( کیا تم نے یہ کام جو اپنی رسالت کے اختتام پر کیا ہے خدا وند عالم کے حکم سے کیا ہے ) پیغمبر اسلام ۖ نے جواب میں ارشاد فرمایا :

( ہاں خدا وند عالم کے حکم سے انجام دیا ہے ۔)

٣۔ مخالفتوں کی طرف توجّہ :

جو لوگ روز غدیر سے غافل تھے اور ان کی تمام شیطانی آرزوئیں مٹی میں مل ر ہی تھیں تو رسول خدا ۖ سے توہین آمیز کلمات استعمال کرتے ہوئے مخاطب ہوئے اور کہا:

تم نے ہم سے کہا: بت پرستی چھوڑ دو ہم نے بتوں کو پوجنا چھوڑ دیا ۔

تم نے کہا :نماز پڑھو ، ہم نے نماز یں پڑھیں ۔

تم نے کہا :روز ے رکھو ، ہم نے روز ے ر کھے۔

تم نے کہا :خمس و زکات دو ، ہم نے ادا کی۔

تم نے کہا: حج پہ جاؤ ، ہم گئے ۔

اب یہ کو ن سا حکم ہے جو تم نے صادر کیا ہے ؟ اب ہم سے کہہ رہے ہو کہہ ہم تمہارے داماد کی بیعت کریں ۔

حضرت زہرا سلام اﷲ ِ عَلیہاوامیر المؤمنین ـ کی ولایت کے اعلان\'\'اور غدیر خم میں عمومی بیعت کے تشکیل پانے کے شروع میں ہی مخالفین کی عہد شکنی اور منافقت سے آگاہ تھیں،

جب حارث بن نعمان نے مخالفت کی اور کہا اے خدا ! اگر یہ حق ہے کہ ولایت علی ـ کا اعلان تیری طرف سے ہوا ہے تو مجھ پر آسمان سے ایک پتھر نازل ہو جو میری زندگی کا خاتمہ کردے ۔ فوراً خدا کا عذاب نازل ہوا ؛ آسمان سے ایک پتھر آیا اور اسے ہلاک کر دیا، حضرت زہرا سلام اﷲ ِ علیہا نے ایک معنی خیز نگاہ سے جناب امیر المؤمنین ـ کی طرف دیکھا اور فرمایا:

\'\' َتَظُنَّ یٰا اَبَا الْحَسَن ! َنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ وَحْدَہُ ؟وَاﷲ ! مٰا ھُو لاَّ طَلِیْعَةَ قَوْمٍ لاَ یَلْبِثُوْنَ َ نْ یُکْشِفُوْا عَنْ وُجُوْھِھِمْ َ قْنَعَتَہٰا عِنْدَ مٰا تَلُوْحُ لَھُمُ الْفُرْصَةُ .\'\'

اے ابو الحسن ـ : آیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ غدیر کی مخالفت میں یہ آدمی اکیلا ہے،۔ خدا کی قسم ! یہ پیش قدم ہے ایک قوم کا کہ ابھی تک انکے چہروں سے نقابیں نہیں اتری ہیں، اور جس وقت بھی موقع ملا اپنی مخالفت کو ظاہر کردیں گے ۔)(١)

حضرت علی ـ نے جواب میں فرمایا:( میں خدا وندعالم اور اسکے رسول ۖ کے حکم کو انجام دیتا ہوں اور خد ا پہ توکل کرتا ہوں کہ وہ بہترین مدد گار ہے ۔)

حارث بن نعمان فہری نامی ایک شخص جو امام علی ـ کی دشمنی دل میںلئے ہوئے تھا اُونٹ پر سوار آگے بڑھا اور کہا: ( اے محمد ۖ ! تم نے ہمیں ایک خدا کا حکم دیا ، ہم نے قبول کیا اپنی نبوّت کا ذکر کیا ہم نے ، لا لٰہ الّاَ اﷲ و مُحَمّد رسول اﷲ کہا ، ہمیں اسلام کی دعوت دی ہم نے قبول کی تم نے کہا پانچ وقت نماز پڑھو ہم نے پڑھی ،زکات ، روزہ ، حج ،جہاد کا حکم دیا ہم نے اطاعت کی ، اب تم اپنے چحا زاد بھا ئی کو ہمارا ا میر بنا رہے ہو ہمیں معلوم نہیں خدا کی طرف سے ہے یا تمہارے اپنے ارادے اور سوچ کی پیدا وار ہے ؟۔ )

رسول خدا ۖ نے ارشاد فرمایا :

( اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے ، یہ حکم اس خدا ہی کی طرف سے ہے اور میرا کام تو صرف پیغا م پہنچا نا ہے ۔) حارث یہ جواب سن کر غضبناک ہو گیا اور اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگا : ( اے خدا ! اگر جو کچھ محمّد ۖنے علی ـ کے بارے میں کہا ہے تیری طرف سے

اور تیرے حکم سے ہے تو آسمان سے ایک پتھر مجھ پر آئے اور مجھے ہلاک کر دے۔) ابھی حارث بن نعمان کی بات ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ آسمان سے ایک پتھر گرا اور اسکو ہلاک کر دیا۔ اور اس وقت سورہ ٔ مبارکہ معارج کی آیات ١ اور ٢ نازل ہوئیں۔

( سََلَ سٰائل بِعَذ ٰابٍ وٰاقِعٍ لِلکٰافِریْنَ لَیْسَ لَہُ د ٰافِع ) ایک مانگنے والے نے کافروں کے لئے ہو کر رہنے والے عذاب کو ما نگا جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔

( ١)۔ (الف ) سیرہ ٔ حلبی ، ج ٣ ص ٣٠٨/٣٠٩ :

حلبی شافعی ( متوفّیٰ ١٠٤٤ ھ )

(ب) نزھة المجالس ، ج ٢ ص ٢٠٩ : ( تفسیر قرطبی سے نقل کیا ہے ) :

علامہ صفوری شافعی ( متوفّیٰ ٨٩٤ ھ)

 

 


source : http://shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

منکرین مہدی (عج) کی ضعیف دلیلیں
نماز کے تشہد میں کیوں علی ولی اللہ پڑھنے سے نماز ...
گانا گانا اور سننا حرام کیوں ہے؟
شیعہ نماز میں کیوں سجدہ گاہ پر سجدہ کرتے ہیں؟
مرد افضل ہے یا عورت؟
کیا شفاعت طلب کرنا توحید کے اصولوں سے ہماہنگ نہيں ...
کیا نماز کے بجائے علی علی کا ورد کیا جا سکتا ہے؟
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
کیا حجر اسود کو بوسہ دینا بھی شرک ہے ؟
سوره مریم کی آیت نمبر١٧میں، خداوند متعال کے اس ...

 
user comment