بعثتِ نبوی (ص) سے قبل کا وقت، دورِ جاہلیت کہلاتا ہے کہ جس میں تمام معاشرہ طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھا۔ یہاں جہالت اور جاہلیت کا فرق واضح رہے کہ اس دور کے لوگ جاہل قطعا نہ تھے بلکہ مختلف علوم، فنون و ادب مثلاً اختر شناسی، فنونِ حرب وشاعری وغیرہ میں ملکہ رکھتے تھے۔ خاص کر ادب کی صنف شاعری میں عرب کا بچہ بچہ ماہر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ پاک جو اس دور میں نازل ہوا، دیگر جہات کے علاوہ اصنافِ ادب کا بھی بہترین نمونہ ہے۔ لیکن اتنا علم و ادب رکھنے کے باوجود اس دور کے عرب جن معاشرتی برائیوں میں مبتلا تھے اور جن کی بیخ کنی کی خاطر خدا نے حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو مبعوث فرمایا، کے باعث وہ عالِم کہلانے کے بجائے جاہل مشہور ہوئے۔ اور ان ہی میں سے ایک بہت پڑھا لکھا اور معاملہ شناس انسان اس قدر پستی کا شکار ہوا کہ اپنے اصل نام عمرو بن ہشام کی بجائے تاقیامت ابُوجہل کے نام سے مشہور ہوگیا۔
حسد، بغض، کینہ، جھوٹ، جھگڑا، قبضہ، قتل، چوری، ڈاکہ، نقب، زنا اور ایسی ہی ہزاروں معاشرتی برائیوں کے ساتھ ساتھ شرک جیسے ظلمِ عظیم کا ارتکاب بھی ان لوگوں کے لئے معمولی مسئلہ تھا۔ ایک خدا کا انکار دراصل اس کی خدائی کی مخالفت کا اعتراف ہے۔ جس کے لئے خدا کی اہمیت نہ ہو، اس کے لئے اسکے نظام سے روگردانی کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے خدا کی وحدانیت کا انکار کیا، پھر انکے لئے حق، حق گوئی، اخلاقیات، شرعی حدود و قیود اور اصول و فروع کے کوئی معنی نہ رہے۔ پس جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو تو بھینس تو کجا، سارا طبیلہ ہی اس کا ہوتاہے۔ الٰہی نظام سے بغاوت نے ہی انسان کو اتنا بےباک کررکھا تھا کہ وہ معمولی سی خواہشِ نفس کے پیچھے سالوں پر محیط منظم جنگیں لڑا کرتا تھا جن میں انسان، جانور، معیشت، معاشرت اور ان سے متعلق بےشمار امور کا قتلِ عام ہوتا تھا۔ یہی عرب جہاں ایک طرف اپنے نفس کی تسکین کی خاطر اپنے ہاتھوں کے تراشے ہوئے بے جان صنم کے سامنے سربسجود ہوجاتا تو دوسری طرف خدا کی اشرف ترین مخلوق کی دوسری صنف کو ایک آنکھ برداشت نہ کرپاتا، گو کہ خود بھی عورت ہی کے ذریعے عالمِ وجود میں آیا اور اس کی اپنی نسل کی بقا بھی عورت پر ہی منحصر ٹھہری۔ عورت سے عناد کا یہ عالَم کہ یہاں بیٹی کی پیدائش کی خبر آئی اور وہاں اس کے لئے اندھا گڑھا تیار۔
اس بظاہر بینا، مگر اصلاً اندھے معاشرے کو اندھیرے کی اس دلدل سے نکالنے کے لئے خدا نے سراجِ منیر ہمارے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو مبعوث فرمایا اور اس جہل شدہ معاشرے کی تربیت کا گراں ترین فرض آپکے قوی کاندھوں کا مقدر قرار دے دیا۔ آپ (ص) کے حسنِ عمل اور کردار پر میری نسلیں قربان کہ کس جانفشانی سے آپ نے بت پرستی کو خدا پرستی میں، جھوٹ کو سچ میں، فریب کو صدق میں، ذلت کو عزت میں، غرور کو عجز میں، فخر کو انکساری میں، ظلم کو عدل میں، جہالت کو علم میں، نفاق کو اتفاق میں، ناشکری کو شکر میں، بے تابی کو صبر میں، لالچ کو قناعت میں، حرام خوری کو کسبِ حلال میں، کاہلی کو محنت میں، بد اعتمادی کو اعتماد میں، جھگڑے کو صلح میں اور بداخلاقی جیسی قبیح بیماری کو حسنِ اخلاق میں یوں ڈھالا کہ صدیوں کا بگڑا ہوا معاشرہ چند سالوں میں آپکے قالب میں ایسا منقلب ہوا کہ مثالی انسانی معاشرہ بن گیا۔ ایسا معاشرہ کہ جسکی دھوم تمام عالم میں مچی اور اسکا اثر پھیلتے پھیلتے تمام عالم کا احصا کرگیا۔
بیٹی کو زندہ دفنا دینے والے خوفناک دور میں ہی خدا نے آپ کو ایک بیٹی سے نوازا کہ یہی وہ موقع تھا جب انسانیت کو رہتی دنیا تک کے لئے بیٹی اور عورت کا مقام بتلانا مقصود تھا۔آپ نے جاہل معاشرے میں نحوست کی علامت "بیٹی" کو وہ مقام دیا کہ محبت کے ساتھ ساتھ اسکی عزت کو بھی ضروری قرار دیا۔ بیٹی کی پیدائش کی وہ خبر کہ جواس معصوم نفس کے اپنے لئے موت کا پیغام لاتی تھی، آپ نے اس کو والدین کے لئے نبائے عظیم ، خوشخبری، قرءۃ العین، سکینۃ القلب، بشارت، رحمت و برکت، گناہوں کی بخشش، جنت کی ضمانت، رزق کی فراوانی اور نہ جانے کون کون سی نعمات کا باعث قرار دیا۔ چنانچہ کل تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے اب خدا سے بیٹیوں کی التجائیں کرنے لگے۔ خدا کی نظر میں شاید بیٹی کا اتنا بلند مقام تھا کہ اس نے اپنے حبیب کے گھر کی رونق اور اسکی بقائے نسل کے لئے بھی محض بیٹی ہی کا انتخاب کیا ۔ رسول کی یہی بیٹی کم سن اور مامتا سے محروم ہونے کے باوجود اپنے والد کی دلجوئی اور انکے مشن میں شانہ بہ شانہ مصروف نظر آتی ہے۔ دورِ تبلیغ میں چُور کردینے والی صعوبتیں، مخالفین کی ہرزہ سرائیاں، ظلم و جور، اہانت اور جسم و روح کو گھائل کردینے والے دکھ۔۔۔ یہی بچی ہے جو اپنے والد پر برسنے والے پتھروں کے سامنے ڈھال بن جاتی ہے تو کبھی پدر کے سرِ مبارک پر گرنے والے کوڑے کو جھاڑتی ہے۔ کبھی اپنے عظیم باپ کے زخموں کی مرہم پٹی کرتی ہے تو کبھی پشت سے اوجھڑی کی آلائشیں صاف کرکے چچا حمزہ کے زریعے ان ملعونوں کو اس ہزیمت کی سزا دلواتی ہے۔ شب و روز اپنے والد کی خبرگیری اور حفاظت کا ایسا انتظام کرتی ہے کہ امِ ابیہا کے منصب پر فائز ہوجاتی ہے۔ خدا کے دین کی تبلیغ، نفاذ ، حفاظت اور انسان بالخصوص صنفِ نازک کے لئے ایسا نمونہءعمل بن کر پیش کرتی ہے کہ تا و بعد از قیامت سیدۃالنساءالعٰلمین کے مقام کی سزاوار ٹھہرتی ہے۔ جواباً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنی بیٹی سے محض محبت نہیں کرتے، اس سے عقیدت کا اظہار اور احترام کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ سردار الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے احترام میں کھڑے ہوجاتے اور مسندِ پیغمبری کو اپنی لختِ جگر کی تشریف آوری کے لئے خالی فرمادیتے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی یہی بیٹی اپنی بیٹی کی بھی ایسی تربیت کرتی ہے کہ وہ بھی ہو بہو اپنی ماں کا عکس نظر آتی ہے۔ جو مشکلات دینِ خدا کی تبلیغ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو پیش آئیں ، وہی مشکلات آپ کے نواسے کو اس دین کی حفاظت میں پیش آئیں۔ وہاں بی بی سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ساتھ نبھایا اور یہاں زینب (سلام اللہ علیہا) اپنے بھائی کے لئے فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بن گئی۔
تاریخ میں ایک بیٹی اور ملتی ہے کہ جسے نواسۂ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے نمازِہائے شب میں محوِ گریہ ہو کر خدا سے طلب فرمایا کہ ایسی بیٹی عطا ہو جو نہ میرے بغیر رہ سکے اور نہ میں اس کے بغیر۔ چنانچہ چشمِ فلک نے دیکھا کہ جب اس بیٹی کو اپنے شفیق باپ کا سینہ میسر نہ آیا تو اس نے بھی زندان کے گھپ اندھیرے میں اپنی جان دے دی۔
اندھیروں سے نکالا گیا معاشرہ سراجِ منیر کے بجھ جانے کے بعد پھر سے اندھیروں کا دلدادہ ہونے لگا۔ لیکن انداز زرا سا جداگانہ۔ زبان سے خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا پرچار لیکن دل میں وہی حسد، کینہ، بغض، دھوکہ دہی، قبضہ، لالچ ، غصہ، جنگ و جدل، اور بیٹیوں سے عناد۔۔۔۔ لیکن اپنی نہیں، رسول کی بیٹیوں سے ۔۔۔۔ چنانچہ کبھی دربار میں بلا کر، کبھی جھٹلا کر، کبھی مذاق اڑا کر، کبھی دروازے کو جلا کر ،کبھی دست درازی کرکے اور کبھی حتمی قاتلانہ حملہ کرکے اپنی روحِ جہل کی تشفی کا سامان مہیا کیا جاتا رہا۔
کل فاطمہ (سلام اللہ علیہا) اپنے باپ پر برسنے والے پتھروں کے مقابلے میں سپر تھی تو آج زینب (سلام اللہ علیہا) بازار میں پتھروں کا سامنا کررہی ہے۔ کل کوئی ملعون بڑھیا نانا (ص) پر کوڑا پھینکا کرتی تھی یا کوئی ملعون بوڑھا آپکو آلودہءآلائش کیا کرتاتھا تو اسی کا تسلسل آج شام میں نواسیوں پر جاری ہے۔ کہیں سے پتھر آرہے ہیں تو کہیں سے انگارے۔ جسکے ہاتھ کچھ نہیں لگتا وہ خس و خاشاک سے ہی کام چلا لیتا ہے۔ خوفناک سفر، بھوک، پیاس، زخم، تھکاوٹ، بے حرمتی، قہقہوں کے ترکش، قید ۔۔۔۔ کیوں؟ ؟؟ کہ اہلِ جہل نے اپنی بیٹیوں کے لئے تو عزت اور محبت کے تاج پسند کرلئے لیکن خون میں موجود اپنے اجداد کے بیٹیوں سے عناد کو ظاہر کرنے کے واسطے کوئی تو راہ چاہیئے تھی۔ سو رسول زادیوں کی صورت میں اسکا حل بھی نکال لیا گیا۔ دماغ میں بیٹیوں کے لئے کھودی گئی اندھی قبروں کے عکس بیتاب کئے جارہے ہیں ۔۔۔ لیکن دفنائیں تو کسے؟ چلو، حسین (علیہ السلام) کی تین سالہ بچی نے یہ مشکل بھی حل کردی۔ قیدِ تنہائی کی وہ اندھیری کوٹھری۔۔۔ جس میں ایک بچی کے معصوم ذہن کی خام دیواروں پر تلواروں کی کھنک، گھوڑوں کی ہنہناہٹ، کٹھے پھٹے لاشوں سے نکلتی ہوئی سانسوں کی سنسناہٹ،بہتے ہوئے خون کی ندیوں کا شور اور اپنے پدر کے سربریدہ سینے میں ڈوبتا ہوا دل مسلسل ضربیں لگاتے رہے۔ کبھی اپنے زخمی کانوں سے بہتا ہوا لہو اس اندھیری کوٹھری میں تلاطم برپا کرتا تو کبھی اپنا ہی جلا ہوا دامن آگ کا ایک الاؤ دکھائی دیتا۔ بالآخر یہی اندھیری کوٹھری اس بچی کی قبر میں ڈھل گئی۔ ۔۔ جاہلیت کے تسلسل کی تسکین ہوگئی۔
خدائے عادل کی بستی میں ظلم کا رواج نہیں۔ وہاں عدل ہی عدل ہے۔ جہاں جہل کا خون اپنا رنگ دکھاتا رہا، وہیں وارثانِ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پیار، محبت اور امن کی شمعیں روشن کرتے رہے۔ اپنی بیٹیوں پر دشمنوں کی بیٹیوں کی حفاطت کو ترجیح دیتے رہے۔ وقت نے ایک اور پلٹا کھایا۔ شام کے زندانوں کے اسیر اب اپنے وطن مدینہ میں بظاہر خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں لیکن انکے قلب و روح پر اب بھی کربلا والے تیر برس رہے ہیں۔ وہاں ایک لشکر ہے جو ناموسِ رسالت کی بے حرمتی کا بدلہ لے رہا ہے اور ایک ایک شقی کو تلاش کرکے اسکے منطقی انجام تک پہنچا رہا ہے۔ کل کے لاٹھی بردار آج خود بھینسوں کی مانند ہنکائے جارہے ہیں۔ چھپتے پھر رہے ہیں مگر کوئی پناہ گاہ میسر نہیں۔ ہاتھوں سے حکومت، جسم سے طاقت اور سر سے غرور محو ہورہا ہے۔ خوف کا عالم ہے کہ کہیں اب میری باری نہ ہو۔ رشتہ دار بیگانے ہوگئے۔ کسی نے پناہ نہ دی، البتہ یہ ضرور کہا کہ بچنا چاہتے ہو تو علی بن حسین (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ مروان اور مدد کے لئے علی بن حسین (علیہ السلام)!!! یہ کیونکر ممکن ہے؟ لیکن یہی تو ممکن ہے۔ جنہوں نے علی بن حسین (علیہ السلام) کا سارا خاندان تباہ کیا، خانوادہء رسالت کی بیٹیوں کے عفت مآب سروں سے ردائیں کھینچیں اور انکے پاکیزہ ہاتھوں کو رسیوں میں جکڑا، آج وہی اسکے سامنے ہاتھ باندھے مدد کے محتاج کھڑے ہیں۔ زین العابدین علی بن حسین (علیہ السلام) نے مروان (ل)کو اسکے چالیس اہلِ خانہ کے ہمراہ اپنے دولتکدے میں نہ صرف پناہ دی بلکہ مہمان نوازی کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اسکی بیٹیوں کو چادر بھی مہیا کی اور چاردیواری بھی۔ انکی شکم سیری کے لئے طویل دسترخوان بچھا دئے اور اپنے پاس موجود تمام پونجی کو انکے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ پس یہ حیران کن مظہر دیکھ کر مروان (ل) کی بیٹی نے وہ الفاظ کہے جو تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہیں۔ اپنے خاندان کی بیٹیوں پر ہونے والے مظالم کو اپنی آنکھ سے دیکھنے اور انہیں برداشت کرنے والے علی بن حسین (علیہ السلام) کے رویئے پر دشمن کی بیٹی نے کہا کہ جو "عزت، محبت اور حفاظت مجھے چند یوم میں امام زین العابدین (علیہ السلام) کے یہاں ملی، پوری زندگی اپنے باپ کے گھر بھی نہ ملی۔"
آج انسان عرب و عجم کے علاوہ شرق و غرب اور قطبِ شمال و جنوب تک جا پہنچا ہے۔ آج کی نام نہاد ترقی یافتہ دنیا دورِ جاہلیت کے عرب کی عکاس نظر آتی ہے۔ جہاں جھوٹ، فریب، دنگا، فساد، قبضہ، لڑائی، جھگڑا، حقوق کی پامالی، فرائض سے روگردانی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔آج بھی بظاہر علم و ادب کا دور دورا ہے۔ کسی دور کا اختر شناس انسان آج بذاتِ خود ستاروں اور سیاروں پر کمندیں پھینک چکا ہے۔ بات بات پر جنگیں لڑنے والا انسان آج بھی بات بات پر دست و گریباں ہے۔ جنگ کے انداز نے بھی ترقی کرلی ۔ اب بھی ہزاروں انسان، جانور، معاشرے اور معیشتیں خونخوار جنگوں کا لقمہ بن رہے ہیں۔ ہر طرف لاٹھی بردار اپنے طبیلے بڑھانے کے چکر میں چراگاہوں میں خون کی ندیاں بہا دیتے ہیں۔ آج بھی ادب اور شاعری کا چرچا ہے۔ اور بالکل اسی طرح آج بھی بیٹیاں غیر محفوظ ہیں۔ کہیں کوئی بیٹی علم کی شمع فروزاں کرنے کی بات کرے تو آج کےابوجہل اس کی قبر تیار کردیتے ہیں۔ کہیں کوئی بیٹی اپنی شاعری سے خدا کا پیغام نشر کرنے کی کوشش کرے تو آج کے ابنِ زیاد چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے اسے اسکے گھر سے اٹھا لے جاتے ہیں۔ اور اسکے بعد کیا ہوگا۔۔۔ اسکا تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے کو کافی ہے۔
لیکن کب تک؟
خدائے عادل کا نظام اپنے مقام پر کارفرما ہے۔ وہاں وارثانِ علی بن حسین (علیہ السلام)بھی ہر دور میں دشمن کی بیٹیوں کے سروں پر ہاتھ رکھنے کے لئے بھی موجود رہتے ہیں۔ آجکا دورِ جاہلیت طویل ہوا تو کیا ہوا۔ یہ وقت بھی ٹلے گا اور وہ وقت نزدیک ہے کہ جب حق کا دوبارہ دور دورا ہوگا۔ ازل سے دست و گریبان انسان بھائی بھائی بن جائیں گے۔ جنگ و جدال کا خاتمہ ہوگا۔ جھوٹ اور فریب اپنی موت مر جائیں گے۔ کسی کے ماتھے پر غصے کی شکنیں نہ ہوں گی۔ کوئی کسی کی املاک پر قبضہ نہ کرپائے گا۔ حقدار کا اسکا حق ملے گا اور ذمہ دار اپنا فرض نبھائے گا۔ علم و ادب کا واقعی دور دورا ہوگا۔ تمام لاٹھیاں ٹوٹ جائیں گی اور کسی چراہ گاہ میں کوئی درندہ کسی جانور کو نقصان نہ پہنچا پائیگا۔
جب یہ دنیا وارثِ علی بن حسین (علیہ السلام) کی پناہ میں آجائیگی تو نہ کوئی ابو جہل رہے گا نہ ابنِ زیاد۔ تب سبھی بیٹیاں بھی محفوظ ہوں گی۔ انشاءاللہ۔
source : http://www.abna.ir