خاندان رسول کی اسیری کے واقعے کو شیخ مفید [1]،علامہ مجلسی [2]،سید ابن طاووس [3]،ابن قولویہ قمّی [4]،نے اس طرح بیان کیا ہے
گیارہ محرم کی صبح عمر سعد نے اپنے لشکر کو یہ حکم دیاکہ حسین کے اہل حرم کو بے کجاوا اونٹوں پر یا جن اونٹوں کے کجاویں خستہ حال ہیں ان پر سوار کرو لہذا عمر سعد کے حکم کی تعمیل کی گئی ،سید سجاد کو ایک بے کجاو اونٹنی پر سوار کیاگیااور آپ کے پیروں کو اس کے پیٹ سے باندھ دیا گیا اور ایک بھاری طوق گردن میں ڈال دیا گیا،احوال اسیری کے بارے میں خود امام سجاد فرماتےہیں کہ لشکر ابن زیاد نے ہمارے ساتھ ایساسلوک کیا گویاہم اولاد رسول نہ ہوں بلکہ دیلم و خزر سے لائے گئے غلام ہوں
ابن قولویہ قمی امام سجادکی زبانی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ گیارہویں محرم کاسورج نمودار ہوتے ہی ہمارے سامنے مصائب کاایک نیاباب کھل گیا ،میں نے اپنے بابا کو خاک و خون میں غلطاں پایا ،اور اپنے چچا،اور بھائیوں کو شہید اور مقتول پایا ،اور اپنی ماں ،پھپیوں ،اور بہنوں کو دشمنوں کےسامنے ترک و روم سے لائے ہوئے اسیروں کی مانند کھڑا دیکھا یہ تمام مصیبتیں میرے لئے ناقابل تحمل تھیں اور قریب تھا کہ میرے دل کی دھڑکنے میراساتھ چھوڑ دیتیں اور میری روح میرے جسم سے نکل جاتی
جب میری پھوپی نے میری یہ حالت دیکھی میرے نزدیک آئیں اورفرمایا"مالی اراک تجود بنفسک یا بقیۃ جدّی و ابی و اخوتی "اے میرے اسلاف (جد ،بابا،اور بھائی ) کی یادگار میں یہ تمہاری کیاحالت دیکھرہی ہوں ؟ایسا لگتا ہے کہ تم بھی اس عالم غربت میں ہمار ا ساتھ چھوڑ دوگے
میں نے اپنی پھوپی سے کہا"و کیف لااجزع و اھلع "کیسے گریہ اور افسوس نہ کروں ؟"وقد اریٰ سیّدی و اخوتی و عمومتی و ولد عمّی و اھلی مضرجین بدمائھم مرمّلین بالعراء مسلّبین "جبکہ میں اپنے سید و سردار،بھائی ،چچا،اور چچازاد بھائی ،اور اہل وعیال کو دیکھ رہاہوں کہ سب کےسب خون میں غلطاں کربلاکی تپتی ریت پر پڑے ہیں اور کوئی ان بے کفن لاشوں پر رحم بھی نہیں کرتا اوران کے قریب تک نہیں جاتا یہ سن کر میری پھوپی نے مجھے تسلی دی اورفرمایا؛کہ میرے لاڈلے اس کی پرواہ نہ کرو ایک ایسادن آئے گا کہ جب لوگ آکر تیرے باباکی قبرکی زیارت کریں گے [5]
اس کے بعد اہل بیت رسول کو شہداء کی لاشوں کے قریب سے گذار کر کوفہ کی طرف لے جایاگیاان پریشان کن حالات کے باوجود اس قافلےکو انبوہ کثیر کے درمیان گلیوں ،کوچوں اور بازاروں سے گذاراگیا ،شہداء کےسروں کو نوک نیزہ پر آویزاں کیاگیا،عورتوں اور بچیوں کو بے مقنعہ و چادر لایاگیا ،کوفہ کے بے غیرت مردو عورتیں اس لٹے ہوئے قافلے کے تماشائی بن کر آئے ۔
سید ابن طاووس روایت کرتے ہیں کہ جب یہ قافلہ شہر کوفہ کے ایک محلے میں پہونچا تو ایک خاتون نے جو اپنے گھرکی چھت سے یہ سب مناظر دیکھ رہی تھی سوال کیا :"من ایّ الاساری انتنّ" اے بیبیوں تم کس قبیلے سے ہو ؟اہل بیت نےجواب دیا "نحن اساری آل محمّد "ہم آل رسول ہیں جنہیں یہ لوگ اسیر بناکرلائے ہیں یہ سن کر وہ خاتون چھت سے نیچے اتری اور کچھ چادریں اور مقنعے آپ کو دئے تاکہ وہ اپنا اور اپنے بچوں کے نورانی سروں کو ڈھک سکیں [6]
علامہ مجلسی مسلم گچکار(یعنی قلعی اور رنگ کرنے والا)کابیان نقل کرتے ہیں :وہ کہتا ہے میں دارالامارہ کی دیوار پر رنگ کررہاتھا کہ اچانک شہرکی سمت سے گریہ و زاری کی صدائیں میرے کانوں سے ٹکرانے لگیں میں نے ایک کاریگر سے کہ جو اس وقت میرےپاس تھا سوال کیا:کیا بات ہے یہ کوفہ کے لوگ آج کیوں رورہے ہیں ؟اس نےجواب دیا:جس شخص نے یزید ابن معاویہ کے خلاف بغاوت کی تھی آج اس باغی کاسر کوفہ لایاجارہاہے ،میں نے پوچھا وہ باغی کون تھا؟ اس نے جواب دیا:حسین ابن علی ِِ،
میں دارالامارہ سے باہر آیا اور اس طرح اپنا سر پیٹنا شروع کیاکہ مجھے خوف ہوا کہیں میں نا بینا نہ ہوجاؤں ،میں نے رنگ سے بھرے ہاتھوں کو دھویا اور شہر کوفہ کے اندر گیا دیکھا کہ لوگ قیدیوں کی آمد کے منتظر ہیں کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ چالیس شکستہ حال اور ٹوٹی ہوئی محملیں چالیس اونٹوں پر رکھی ہوئی ہیں جن میں اولاد فاطمہ کولایا گیاتھا اسی اثنا میں میری نظریں علی ابن الحسین ؑپرپڑیں وہ ایک نحیف و کمزور اونٹی پر کہ جس کی کمر پر کجاواں بھی نہیں تھا سوار تھے اور گردن سے خون بہہ رہاتھا کوفہ کے لوگ صدقے کی کھجوریں اور روٹیاں ان کی طرف پھینک رہے تھے لیکن امّ کلثوم نے یہ کہہ کر ان کو روکا "یا اھل کوفۃ ،انّ الصدقۃ علینا الحرام"اے اہل کوفہ صدقہ ہم پر حرام ہے آپ نے تمام چیزیں بچوں کےہاتھوںسےلیتی اور زمین پر پھینک دیتیں تھیں ،لوگ اس منظر کو دیکھ کر رونے لگے [7]
زید ابن ارقم کہتے ہیں کہ میں نے بازار کوفہ میں امام حسینکے لب ہای مبارک سے قرآن کی اس آیت کی تلاوت کو سنایں نے کہافرزند رسول
آپ کی داستان اصحاب کہف سے کہیں زیادہ عجیب ہے[9]
مسلم گچکار کہتاہے کہ جب حضرت امّ کلثوم نے اہل کوفہ کی عورتوں اور بچوں کے رونے کی بلند ہوتی آوازوں کو سنامحمل سے سر باہر نکالا اور کہا اے کوفے والوں خاموش ہوجاؤ!پھر اس کے بعد خطبے کاآغاز کیا اورفرمایا:تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کر دیا اور تمہاری عورتیں ہماری اس حالت کو دیکھ کر آنسو بہا رہی ہیں یاد رکھو اب رونے سے کوئی فائدہ نہیں قیامت کے روز خداوند عالم ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اچانک کچھ نیزوں پر سوار سروں کو لایا گیا ،ان میں سب سےآگے حضرت ابی عبد اللہ الحسین ؑکاسر مقدس تھا یہ ایسا نورانی سر تھاکہ جو سرکار ختمی مرتبت سے سب سے زیادہ مشابہ تھا اورچہرااور محاسن خون میں ڈوبے ہوئے تھے نیزہ بردار کبھی اس کو داہنی جانب لے جاتا اور کبھی بائیں جانب ،جناب زینب کبریٰ اپنے بھائی کے سر کی طرف متوجہ ہوئیں "فنطحت جبینھا بمقدم المحمل حتّٰی راٗینا الدم یخرج من تحت قناعھا و اومات الیہ بحرقۃ "اپنے سر کو محمل سے ٹکرایا میں نےدیکھا زینب کبری کی پیشانی سے خون بہہ کر زمین پر بہنےلگا بڑے حزن و ملال کے ساتھ بھائی کے کٹے ہوئے سر کی طرف اشارہ کیااور یہ اشعار پڑھے
یاھلالاً لمّا استتم کمالاً غالہ خسفہ فابدا غروبا
اے مہتاب ہدایت جیسے ہی تو کامل ہوا تجھے گہن لگ گیا اور تو غروب کے ہو گیا
ماتوھّمت یاشقیق فوادی کان ھذا مقدراً مکتوباً
اے میرے جگر کے ٹکڑے میں نے یہ گمان بھی نہیں کیاتھا کہ ہمارا انجام یہ ہوگا ؟لیکن ہمارے مقدر میں یہی لکھا تھا
یا اخی فاطم الصغیرۃ کلمّھا فقد کاد قلبھا ان یذوبا
بھائی اپنی چھوٹی سی فاطمہ سے کچھ باتیں تو کر لو ایسا لگتا ہے کہ اس کادل تمہارے فراق میں کہیں برف کی طرح پانی ہو کر نہ بہہ جائے [10]
[1] الارشاد ،المفید،ج۲ ،ص۱۱۷
[2] بحار الانوار،ج۴۵ ص ۵۸۔۱۷۹ ،باب ۳۹
[3] الملہوف علی قتلی الطفوف ،سید ابن طاووس ،ص۱۸۹
[4] کامل الزیارات،ص۲۶۰۔۲۶۱ ،باب ۸۸
[5] کاملالزیارات،ص۴۴۵ ،الباب۸۸ ،بحار الانوارج۲۸،ص۵۷ الباب ۲ ،اور ج،۴۵ ص۱۷۹
[6] الملہوف علی قتلی الطفوف ،سید ابن طاووس،ص۱۹۰
[7] بحار الانوار،ج۴۵ ،ص۱۱۴ ،الباب ۳۹
[8] کہف ،۱۸،۰(۹)
[9] الارشاد ،المفید، ج۲ ،ص۱۱۵ ،اعلام العری ،الطبرسی ،ج۱ ص ۴۷۳، بحار الانوار ،ج۴۵ ص۱۳۱ العوالم،عبد اللہ البحرانی،ص۳۸۹ الثاقب فی المناقب،ص۳۳۳ ،ح۲۷۳
[10] بحار الانوار ،ج۴۵ ،ص۱۱۵ ،الباب ۳۹ ،العوالم ،عبد اللہ البحرانی ،ص۳۷۲۔۳۷۳ ،المجالس الفاخرہ فی مصائب العترۃ الطاھرۃ ،سید شرف الدین ،ص۳۱۴۔۳۱۵ ،المجلس،۱۶ ،ینابیع المودۃ ،القندوذوی ،ج۳ ص۸۶۔۸۷