اردو
Tuesday 24th of December 2024
0
نفر 0

حُرّ؛ نینوا کے آزاد مرد

"حُرّ بن یزید ریاحی"، کوفہ کے عمائدین میں شمار ہوتے تھے اور اپنی قوم میں بہت صاحب عزت و احترام تھے۔ 

ابن زیاد نے انہیں ایک ہزار افراد کے پر مشتمل لشکر کی سرکردگی میں امام حسین علیہ السلام کے مقابلے کے لئے روانہ کیا۔ 

شیخ "ابن نما" کی روایت ہے کہ: جب حُرّ امام حسین (ع) کا سامنا کرنے کی نیت سے کوفہ میں ابن زیاد کے قصر سے باہر نکلے، تو انہیں اپنے عقب سے ایک صدا سنائی دی جو کہہ رہی تھی "اے حُرّ! تجھے جنت کی بشارت ہو"؛ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا تو دل ہی دل میں کہنے لگا: خدا کی قسم! یہ بشارت نہیں ہے جبکہ میں امام حسین (ع) کے خلاف لڑنے پر مأمور ہوں۔ یہ بات ان کے ذہن میں مسلسل دہرائی جارہی تھی اور جب امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (ع) کے حضور ماجرا کہہ سنایا اور امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تم نے حقیقتاً پاداش اور نیکی حاصل کرلی ہے؟ (1)

گو کہ حُرّامام (ع) کے خلاف لڑنے کے لئے آئے تھے لیکن ان کا رویہ ادب سے خالی نہ تھا۔ دو محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو جب حُرّ نے امام حسین علیہ السلام کا راستہ بند کیا اور امام (ع) کو مدینہ واپس جانے سے روک لیا بو تو امام (ع) نے حُرّ سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہاری ماں تمہاری عزا میں بیٹھ جائے، تمہارا ارادہ کیا ہے تو حُرّ نے عرض کیا: اگر آپ کے سوا عرب میں سے کوئی بھی مجھ سے یہ جملہ کہتا ـ جبکہ اس کی حالت آپ کی حالت جیسی ہوتی ـ تو میں یہ جملہ اس کو اسی طرح لوٹا دیتا لیکن خدا کی قسم! مجھے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ آپ کی والدہ کا نام زبان پر لاؤں مگر نہایت عزت و احترام کے ساتھ۔ (2)

غور و فکر کا لمحہ

جب حُرّ نے امام حسین (ع) کی صدائے استغاثہ سن لی جو مدد مانگ رہے تھے تو اٹھ کر یزیدی لشکر کے سالار عمر بن سعد بن ابی وقاص کے پاس پہنچے اور پوچھا: کیا تم اس لڑنے کا ارادہ رکھتے ہو؟ 

عمر نے کہا: ہاں خدا کی قسم! میں ان سے ایسی لڑائی لڑوں گا جس میں کم از کم سر قلم ہوجائیں اور ہاتھ منقطع ہوجائیں۔

حُرّ نے کہا: تمہارا کیا کرنا چاہتے ہو؟ کیا تمہیں ان کی تجویز پسند نہیں ہے؟

سعد بن ابی وقاص کے بیٹے نے کہا: اگر میرے اختیار میں ہوات تو بے شک ان کے ساتھ جنگ سے ہاتھ کھینچ لیتا لیکن تمہارا امیر (ابن زیاد) منع کررہا ہے۔

حُرّ نے ابن سعد کو اپنے حال پر چھوڑا اور اپنے گھوڑے کو سیراب کرنے کے بہانے عمر سعد کے پڑاؤ سے دور ہوگئے اور امام حسین (ع) کے خیام کے قریب پہنچے تو یزیدی لشکر کے ایک بدبخت "مہاجر بن اوس" نے پوچھا: کیا تم امام حسین (ع) پر حملہ کرنا چاہتے ہو؟ 

حُرّ خاموش رہ گئے جبکہ ان کا بدن کانپ رہا تھا۔ 

مہاجر بن اوس کو حُرّ کی یہ حالت دیکھ کر شک پڑ گیا تھا چنانچہ اس نے حُرّ سے مخاطب ہوکر کہا: اگر کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کوفہ کا شجاع ترین مرد کون تھا تو میں تمہارا نام لیتا، یہ کیا حالت ہے جو تم نے بنا رکھی ہے؟ 

حُرّ نے کہا: بے شک میں اپنے آپ کو جنت اور دوزخ کے درمیان حیرت زدہ دیکھ رہا ہوں لیکن خدا کی قسم! اگر مجھے آگ میں ڈال کر جلا دیں میں پھر بھی جنت ہی کا انتخاب کروں گا۔ پس انھوں نے اپنے گھوڑے کو تازیانہ رسید کیا اور خیام امام حسین (ع) کی طرف چل ديئے۔ 

لمحۂ دیدار

حُرّ نے اس سے پہلے آل رسول (ص) کے ساتھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا تھا اور انہیں بے آب و گیاہ صحرا میں اترنے پر مجبور کیا تھا چنانچہ خیام شہادت کی طرف جاتے ہوئے انھوں نے شرم کے مارے سر جھکایا ہوا تھا اور جب امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا: "میں آپ پر فربان ہوجاؤں اے فرزندِ رسولِ خدا (ص)! میں وہی شخص ہوں جس نے آپ کو آپ کے وطن کی جانب لوٹنے سے روک لیا تھا اور آپ کے ساتھ ساتھ یہاں تک آیا تا کہ آپ مجبور ہوکر اس سرزمین پر رک جائیں۔ میرا گماں نہیں تھا کہ یہ لوگ آپ کی تجویز مسترد کریں گے اور آپ کو اس انجام سے دوچار کردیں۔ خدا کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا تو میں ہرگز اس عمل کا ارتکاب نہ کرتا۔ اب میں اپنے کئے سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں؛ کیا میری توبہ قابل قبول ہے؟"۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "ہاں! خدا تمہاری توبہ قبول کرے گا، اب گھوڑے سے اترو"۔

میرے لئے گھوڑے پر سوار رہنا اترنے سے بہتر ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گھوڑے پر سوار رہ کر آپ کے دشمنوں کے خلاف لڑوں حتی کہ آپ کی راہ میں مارا جاؤں"۔ (3)

اس کے بعد یزیدی لشکر کے روبرو کھڑے ہوگئے اور کہا: اے اہل کوفہ! تمہاری مائیں تم پر سوگوار ہوں، تم نے خدا کے اس صالح بندے کو بلایا اور جب وہ تمہاری طرف آئے تو تم نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا؟ تم تو کہہ رہے تھے کہ "ہم آپ کی راہ میں آپ کے دشمنوں سے لڑیں گے"، اور اب ان کے مد مقابل کھڑے ہو اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہو؟

تم نے ان پر سانس لینے کے راستے بھی بند کردیئے ہیں اور ان کو ہر طرف سے گھیرلیا ہے اور انہیں اللہ کی سرزمینوں [مکہ اور مدینہ] جانے سے روک رہے ہو؛ اور وہ اسیر کی مانند تمہارے قبضے میں گھر چکے ہیں اور نہ تو وہ اپنے آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہيں اور نہ ہی کوئی نقصان اپنے آپ سے دور کرسکتے ہیں!، تم نے فرات سے ان اور ان کی خواتین، بچیوں اور اہل خاندان کو محروم کردیا ہے اور حالت یہ ہے کہ ان کے خاندان کے افراد پیاس کی شدت سے بے ہوشی کے عالم میں چلے گئے ہیں، حالانکہ حتی کہ یہود و نصاری اور مجوس اسی پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور کتے اور کالے سور اس میں لوٹتے ہیں، تم نے عترت کے سلسلے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت کی کیا برے انداز میں رعایت کی ہے خداوند متعال محشر کی تشنگی میں تمہیں سیراب نہ کرے۔۔

قریب تھا کہ حُرّ کا کلام عمر بن سعد بن ابی وقاص کے سپاہیوں کے ایک گروہ پر اثر کردے اور انہیں امام حسین (ع) کے خلاف لڑنے سے پھیر دے لیکن اسی اثناء میں عمر سعد کے کی سپاہ کی طرف سے انہیں تیروں کا نشانہ بنایا گیا، حُرّ امام (ع) کی خدمت میں واپس لوٹے اور تھوڑی دیر بعد دوبارہ میدان کارزار میں اترے۔ (4)

حریت کا عروج 

حُرّ بن یزید زہیر بن قین کے ہمراہ میدان جنگ میں دشمن کے خلاف لڑ رہے تھے اور جب ان میں سے ایک دشمن کے گھیرے میں آتا دوسرا اس کی مدد کو آتا اور اس کو محاصرے سے خارج کرتا؛ وہ کچھ دیر تک اسی طرح لڑتے رہے حتی کہ حُرّ کا گھوڑا زخمی ہوا لیکن وہ بدستور سوار ہو کر لڑ رہے تھے اور رجز پڑھ رہے تھے.

رجز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران حُرّ کا دیرینہ دشمن "یزید بن سفیان" جو یزیدی اشقیاء میں شامل تھا، حُرّ پر حملہ آور ہوا لیکن حُرّ نے اس کو تلوار مار کر فی النار کردیا۔ "ایوب بن شریح" نے تیر مار کر ان کے گھوڑے کو نشانہ بنایا اور گھوڑا بے بس ہوگیا تو حُرّ اتر کر لڑنے لگے حتی کہ لشکر یزید کے چالیس سے زائد اشقیاء کو فی النار کیا اور اسی اثناء میں عمر بن سعد کے لشکر نے یکبارگی سے ان پر حملہ کیا اور انہیں شہید کردیا۔ (5)

امام (ع) کے اصحاب نے ان کا زخمی جسم ان شہیدوں کے خیمے کے سامنے رکھ دیا جو راہ حسین (ع) میں شہدِ شہادت نوش کرچکے تھے۔ 

امام علیہ السلام نے فرمایا: حُرّ کی شہادت انبیاء اور خاندان انبیاء کی شہادت کی مانند ہے۔ (6) امام (ع) نے حُرّ پر ایک نظر ڈال دی جو ابھی زندہ تھے، اور بیٹھ کر ان کے چہرے سے خون پونچھ کر فرمایا: تم حُرّ (آزاد جوانمرد) ہو جس طرح کہ ماں نے تم کو حُرّ کا نام دیا ہے اور تم دنیا اور آخرت میں حُرّ ہو۔ (7).

اس کے بعد امام حسین (ع) کے ایک صحابی نے حر کی رثاء میں اشعار کہہ دیئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ علی بن الحسین (ع) تھے (8) اور بعض مؤرخین نے کہا ہے کہ اباعبداللہ الحسین علیہ السلام نے خود وہ اشعار انشاد فرمائے تھے جو کچھ یوں تھے:

کیا آزاد مرد ہے حر بن ریاح 

وہ تیر اور نیزے جسم پر لگتے وقت بہت صبر کرنے والا ہے

ہاں! اچھا حر ہے وہ کہ جس وقت حسین کی صدا بلند ہوئی 

تو وہ صبح کے وقت اپنی جان سے گذر گیا (9)

واضح رہے کہ قطبِ عالمِ امکان حضرت ولی عصر (عج) نے زیارت ناحیہ مقدسہ میں حر پر سلام و درود بھیجا ہے۔ (10)

مآخذ:

1۔ مثیرالاحزان، ص60

2۔ مقتل الحسین خوارزمی، ج1، ص232 .

3۔ ابصارالیعین، ص205.

4۔ ارشاد مفید، ج 2، ص 103.

5۔ تاریخ الامم و الملوک، ج5، ص437- 440 .

6۔ بحارالانوار، ج10، ص117.

7۔ مقتل الحسین مقرم، ص303 .

8۔ مقتل العوالم، ص 85 .

9۔ امالی الصدوق، ص414، مجلس 30.

10۔ اقبال الاعمال، ج3، ص 78 و 344 .


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تفسیر "سورہ البقرة " (آیات ا تا 5)
درود کی برکات و فضلیت و اہمیت وجوب
قرآن مجید کے ناموں کی معنویت
سفیانی کا خروج علامات حتمیہ میں سے ہے؛ سفیانی کا ...
خاتم النبیینۖ ایک نظر میں
قرآن کریم میں قَسَم کی اقسام
اسلامی اخلاق میں ایمان کی تاثیر
مرسل آعظم کی بعثت انسانوں کیلئے عظیم نعمت الھی ہے
قرآن مجيد اور نسائيات
ماہ رمضان میں سحری کے اعمال اوردعائیں

 
user comment