عموماً بگڑی فطرت رکھنے والے انسانوں کا مشغلہ ہوتا ہے دوستوں میں ۔ عزیزوں میں لڑائی کرا دیتا ہے ۔ ان کو لڑائی کرانے میں ۔ لڑائی دیکھنے میں مزا آتا ہے۔ جن کے پاس پیسے زیادہ ہوتے ہیں وہ لڑائی کے ذوق کی تسکین کے بڑے بڑے سامان کرتے ہیں میچ ۔ دنگل ۔ باکسنگ انسانوں میں لڑائی کے فنگشن ہیں۔ مرغ لڑانا ۔ بٹیر لڑانا اور دوسرے جانوارون کی لڑائی کا انتظام کرنا ان کو لڑنے کی تربیت دینا۔ سب اسی جنگلی ذوق ، کا نتیجہ ہیں۔ یہی ذوق ۔ سیاست و تجارت میں الکشن اور کمپٹیشن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
آج ہر ملک اپنی دولت کا نصف سے زیادہ حصہ دماغ کے نام پر فوج ہتیار اور لڑائی کے سائنس پر اور جنگی تحقیقات پر صرف کر رہا ہے جب سماج کا ذوق لڑائی ہے تو غریب دین اس کی زد سے کیونکہ محفوظ رہ سکتا تھا۔ چناچہ کچھ دیندار ۔ خدا و رسول میں لڑائی کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان کے خیال میں اگر رسول کو علم غیب مل گیا۔ اعجازی طاقت مل گئی۔ نبی کو قابل تعظیم و احترام کا مستحق لیا گیا تو ان غریب اللہ والوں کے ناچارہ خدا کے پاس کچھ رہ نہیں جائےگا۔ خام خیالی کے ان مریضوں کو کون بتائے کہ خدا نے دنیا میں سب کچھ بھر دیا پھر ساری دنیا کا اقتدار انسان کو دیا۔ اور انسانوں سے زیادہ اقتدار ۔ توانئی نبیوں کو دی۔ جو کچھ سارے نبیوں کو دیا تھا۔ اس کا لاکھوں گنا کمال حضور کو دیا مگر اس کے بعد بھی اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ لیکن مسلمان میں خدا اور رسول کے نام پر لڑائی ہو گئی۔ جماعت بندی ہو گئی۔ اللہ والے ۔ رسول والے الگ پارٹیوں کے نام پڑ گئے۔ مسجدیں تقسیم ہو گئیں اور اس تقسیم کے لئے مسجدوں میں جہاد ہو گئے اور قاتل و مقتول دونوں بہ آسانی دوزخ میں پہونچ گئے۔
جو لوگ اس لڑائی میں حصہ نہ لے سکے انھوں نے لڑائی کا دوسرا میدان اہلبیت پیغمبر والے جمع ہو گئے مگر ان بیچاروں کو خبر نہیں ہوئی کہ خدا و رسول اور اہلبیت علیہم السلام سب مسجد میں ایک حاکم ہے دوسرا حاکم کا نمائندہ ہے تیسرے نمائندے کے نمائندے ہیں۔ جو ان کے نام پر لڑنے والوں سے اظہار نفرت و برائت کر رہے ہیں اور یہ طے ہے کہ جو ان کی نفرت کا مستحق بن گیا اس کو صرف جہنم ہی اپنی آغوش میں لے سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ دین کے نام دین کے ماننے والوں میں بہت سی مہمل ۔ مضر اور فاسق لڑاائیاں جاری ہیں۔ مشلاً عبادت خدا اور محبت اہلبیت علیہم السلام میں کون افضل ہے۔ اہلبیت اور قرآن مجید میں کون افضل ہے۔ ضحور اور بارہ امام علیہم السلام کو بالکل برابر رکھا جائے یا حضور کو ان اماموں کا نبی مان کر ان اماموں کے لئے قابل تعظیم مان لیا جائے۔ زکوٰۃ و خمس میں کون زیادہ اہمیت رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ حالانکہ خدا نے محبت اہلبیت علیہم السلام کو عبادت قرار دیا ہے اور ایسی عبادت قرار دی جس کے بغیر ہر عبادت رد ہے اور اہلبیت علیہم السلام نے انسانوں کو عبادت خدا کا پابند بنانے کے لئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ قرآن آج تک حقوق اہلبیت علیہم السلام کی حفاظت کر رہا ہے اور کل قرآن کو بچانے کے لئے اہلبیت علیہم السلام کے سروں نے نوک نیزہ پر بلند ہونا اپنا فریضہ قرار دے لیا تھا۔ حجور نے فرمایا کہ ہم سب محمد ہیں۔ ہم سب چھوٹے اور بڑے کمالات میں کمیوں میں اور سرداع اہلبیت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے تھے میں محمد کے غلاموں سے ایک غلام ہوں۔ اگر کسی مال میں زکوٰۃ اور خمس دونوں واجب ہو جائیں تو کسی ایک کا نکالنا کافی نہ ہوگا بلکہ دونوں کی ادائگی کے بعد ہی مال پاک ہوگا اور مال کا مالک اس مال کو خرچ کرنے کا حق دار ہوگا۔ معلعم ہوا دین اور مقابل لاکر اور بڑی قیمت دے کر دوزخ خرید رہے ہیں۔
غرض کہ بے بنیاد ۔ نام نہاد اور فرضی لڑائیاں ۔ افراد میں ۔ خاندانوں میں ۔ عزیزوں میں ۔ دوستوں میں ۔ اداروں میں۔ جماعتوں میں جاری ہین سمجھدار کا فرض ہے کہ ان لڑائیوں سے دور رہے بلکہ ان لڑائیوں کو دور کرے اور ان کو ختم کرے۔ یہ مضمون اسی سلسلہ کی ایک کوشش ہے۔ کچھ لوگ دین اور دیندار میں لڑائی کرانے کے لئے اپنی ساری ذہنی توانائی کو برباد کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ دانشور ہیں جو دین کو افیون کا نام دیتے ہیں۔ عہد جاہلیت کی یادگار قرار دیتے ہیں۔ سرمایہدارنہ نظام کی دین قرار دیتے ہیں۔ عہد حاضر میں دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے دین ترقی سے روکتا ہے۔ دین مٹ جائے تو انسان ایک ہو جائیں وغیرہ قسم کے نعرہ دے کر دین کو دنیا کے اس پار پھینک دینا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف وہ دنیا سے الگ تھلگ رہنے والے ہیں۔ جن کی عقل سکڑ گئی ہے۔ جو جہالت کو علم ، ضد کو وضعداری سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ وہ فنکار ہیں جو اپنی عیاری کے ذریعہ دین کے نام پر دنیا کمانا چاہتے ہیں۔ ان دونوں گرہوں کی لڑائی کے میدان دین اور دنیا میں دونوں کا خیال ہے کہ دنیا اور دین جمع نہیں ہو سکتے ۔ ایک دنیا کے لئے دین کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ دوسرے دین کے کام کے لئے دنیا چھوڑنا چاہتے ہیں۔ نیک دل گوتم بدحواسی غلط فہمی کا شکار ہوئے۔
راہبوں نے ۔ پادریوں نے ۔ نننوں نے ۔ فقیروں نے ۔ پیروں نے ۔ شاہ صاحبان نے۔ صوفیوں نے۔ سادھوؤں نے بھی اسی راستے کو اپنایا مگر پیر کا دنیا چھوڑ دینا۔ مگر مرید کا دنیا کما کر پیر کو نذرانہ پیش کرنا۔ سادھو کی سیوا کے ذریعہ پاپ والے کاپن والا ہو جانا۔ گرجوں کے تہ خانوں میں کنوارے پادریوں اور کنواری نننوں کی ناجائز اولاد کی چھوٹی چھوٹی قبریں۔ شاہ صاحبان اور عالموں اور ملاؤں کی عیاشیاں سادھوؤں کا سونا دونا کرنے کا فریبی کا روبار وغیرہ اس نظریہ کا کھو کھلاپن اور مکروہ کردار واضح کر رہے ہیں۔
مسلمانوں میں حکومت میں حصہ نہ پانے والے ہوں اقدار کے متوالوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ میں صونی ازم کی بنیاد رکھنی تاکہ حکومت زمین پر قبضہ کر لے اور یہ زمین کی پیداوار پر قبضہ کریں۔ حکومت ٹیکس لء یہ نذرانہ لیں۔ حکومت بیعت لے یہ حلقہ ارادت میں شامل کریں حاکم محل میں رہیں یہ خانقا ہوں میں رہیں اور اس کو شاہی محل سے بھی بہتر بنیاد دونوں جگہ گدی چلی۔ جھگڑے ہوئے ۔ قتل ہوئے ۔ قبضے ہوئے ۔ انھوں نے تلوار کو ذریعہ بنایا۔ انھوں نے تسبیح کو تلوار بنایا۔ انھوں نے کھل کر ریشمی زندگی بسر کی۔ انھوں نے ٹاٹ پہن کر ریشمی زندگی حاصل کی۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے اس فرقہ کی گمراہی واضح کی۔ اس کے خلاف علمی جہاد کیا اور عملی مقابلہ اس طرح کیا کہ ضعیفی اور بڑھاپے میں دو غلاموں کے سہارے جلتی دوپہر میں اپنے باغ اور کھیتی کی دیکھ بھال کے لئے جایا کرتے تھے۔ ایک دن صوفیوں کے سردار نے ملاقات کی۔ تاکہ اعتراض کر کے اپنے حامیوں میں اہمیت حاصل کریں اور ان کی تعداد میں اضافہ کر لے۔ بڑے طمطراق سے مع اپنی جماعت کے امام کی خدمت میں آئے اور کہا کہ اگر اس وقت موت آ جائے تو کیسی بڑی موت ہوگی اور آپ کا ایسا فرزند رسول اس طرح دنیا حاصل کرے۔ بہت معیوؓ بات ہے۔ حضرت نے غلاموں کا سہارا چھوڑ دیا۔ تن کر کھڑے ہوئے اور فرمایا میں اپنے ویال کی روزی حاصل کرنے جا رہا ہوں اگر اس وقت موت آ جائے تو بہترین موت ہوگی کہونکہ میں بہترین عبادت میں مصروف ہوں۔
دین اور دنیا میں کوئی لڑائی ممکن نہیں ہے ایک کو خدا نے پیدا کیا ہے دوسرے کو خدا نے بھیجا ہے۔
دین نام ہے دنیا کو صحیح بنانا۔ دنیا کی جنت کا نمونہ بنانا۔ دنیا کے دوزخ کو اطاعت خدا کے ذریعہ بجھنا۔ یہی پیغام تھا جسے ہمارے پانچویں امام نے خاص طور پر پیش کیا۔ کیونکہ صوفی فرقہ نے اسی عہد میں جنم لیا تھا۔
۵۷ کی یکم رجب کو امام محمد باقر علیہ السلام پیدا ہوئے۔ جب آپ کے دادا امام حسین زندہ تھے۔ آپ کربلا میں ۳ سال کے تھے جب قیدی بنے۔
اور ۱۱۴ میں ذی الحجہ میں امام صادق کو دین سونپ کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے۔ آپ زہر سے شہید کئے گئے اور جنت البقیع میں مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔
source : http://www.shiastudies.net