قرآن کے بارے میں جو کچھ نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے ، اگر اسے بیان کریں تو گفتگو کا سلسلہ طویل ہو جائے گا۔ کیونکہ امام علی ـ نے نہج البلاغہ کے بیس سے زیادہ خطبوں میں قرآن اور اس کے مرتبہ کا تعارف کرایا ہے اور کبھی کبھی نصف خطبہ سے زیادہ قرآن کے مرتبہ، مسلمانوں کی زندگی میں اس کے اثر اور اس آسمانی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کے فریضہ سے مخصوص کیا ہے۔ ہم یہاں پر قرآن کریم سے متعلق نہج البلاغہ کی صرف بعض تعریفوں کی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی ـ ١٣٣ ویں خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
''وَ کِتَابُ اللّٰہِ بَینَ اَظْہُرِکُمْ نَاطِق لایَعْییٰ لِسَانُہ''
یعنی قرآن تمھارے سامنے اور تمھاری دسترس میں ہے۔ دوسرے ادیان کی آسمانی کتابوں جیسے حضرت موسیٰ ـ اور حضرت عیسیٰ ـکی کتابوں کے برخلاف، قرآن تمھارے اختیار میں ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ امتوں میں خصوصاً بنی اسرائیل کے یہودیوں میں مقدس کتاب عام لوگوں کے اختیار میں نہیں تھی، بلکہ توریت کے صرف چند نسخے علماء یہود کے پاس تھے اور تمام لوگوں کے لئے توریت کی طرف رجوع کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا تھا۔
حضرت عیسیٰ ـ کی آسمانی کتاب کی حالت تو اس سے بھی زیادہ تشویشناک تھی اور ہے، اس لئے کہ جو کتاب آج انجیل کے نام سے عیسائیوں کے درمیان پہچانی جاتی ہے، یہ وہ کتاب نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ ـ پر نازل ہوئی تھی۔ بلکہ یہ ان مطالب کا مجموعہ ہے جن کو کچھ افراد نے جمع کیا ہے اور وہ اناجیل اربعہ (چار انجیلوں) کے نام سے مشہور ہیں ۔ اس بنا پر گزشتہ امتوں کی دسترس آسمانی کتابوں تک نہیں تھی، لیکن قرآن مجید کی حالت اس سے مختلف ہے۔ قرآن مجید کے نزول کی کیفیت اور نبی اکرم ۖ کی طرف سے اس کی قرائت و تعلیم کا طریقہ ایسا تھا کہ لوگ اسے سیکھ سکتے تھے اور اس کی آیتیں حفظ کرسکتے تھے اور قرآن مکمل طور پر ان کی دسترس میں تھا اور ہے۔
اس آسمانی کتاب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خداوند متعال نے امت اسلام پر احسان کیا ہے اور قرآن کریم کو ہر طرح کے خطرہ سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نبی اکرم ۖ مسلمانوں کے یاد کرنے اور آیات الٰہی کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ رسول خدا ۖ ہی کے زمانہ میں بہت سے مسلمان حافظ قرآن ہوگئے تھے اور نازل ہونے والی آیات کے نسخے اپنے پاس رکھتے تھے وہ بتدریج ان کو یاد کرتے تھے، بہرحال ان نسخوں سے نسخہ برداری کے ذریعہ یا ایک حافظ سے دوسرے حافظ کی طرف سینہ در سینہ نقل کے ذریعے قرآن کریم تمام لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔
حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں: ''کِتَابُ اللّٰہِ بَینَ اَظْہُرِکُمْ'' کتاب خدا تمھارے درمیان ہے، تمھاری دسترس میں ہے۔ ''نَاطِق لایَعییٰ لِسَانُہ'' اس جملہ پر تاکید کرنا ضروری ہے۔
حضرت علی فرماتے ہیں: ''یہ کتاب گویا (بولنے والی) ہے اور اس کی زبان کند نہیں ہوتی، بولنے سے تھکتی نہیں ہے نیزکبھی اس میں لکنت نہیں ہوتی، وہ ایسی عمارت ہے جس کے ستون گر نہیں سکتے اور ایسی کامیاب ہے کہ جس کے دوست شکست نہیں کھا سکتے۔
source : http://www.alhassanain.com