روایت ہے کہ انس بن مالک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ مسلمانوں میں از روئے ایمان کون شخص برترہے۔ ا?پ? نے فرمایا مخلوق میں بہتر وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو کیونکہ انسان کے لئے حسن خلق بہترین خصلت ہے۔اس سے ا?دمی کا ذاتی جوہر ظاہر ہوتاہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حسن خلق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا ہے۔ تم سے جہاں تک ہوسکے اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کرو۔ تم میں بہتر وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں کوئی چیز میزان عمل میں حسن خلق سے زیادہ وزن دار نہ ہوگی۔حضرت جنید بغدادی? فرماتے ہیں میں نے حارث? کو فرماتے سناہے کہ میں نے تین چیزوں کو تین چیزوں کے ساتھ مکمل کیا۔ خوبروئی کو خیانت سے ،خوش کلامی کو سچائی سے اور امانت کی تکمیل کو ایفائے عہد سے۔ بزرگوں کاکہنا ہے کہ خوش خلق آدمی اپنے آپ کو ہیچ جانتاہے اور دوسروں کو بزرگ سمجھتاہے۔فرمایا نیک خْو کی علامت یہ ہے کہ دوسروں کو آزار نہیں دیتا، خودمحنت اْٹھاتاہے۔حضرت ذوالنون مصری سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں بدترین کون ہے ؟ فرمایا جس کا اخلاق بْرا ہو۔اویسی قرنی? کو لڑکے دیکھ کر ڈھیلے ماراکرتے تھے۔آپ نے فرمایا اگر تم ڈھیلے مار کر خوش ہوتے ہوتو چھوٹے چھوٹے ڈھیلے مار کرو البتہ میری ٹانگیں زخمی ہوکر ان سے خون جاری نہ ہو تاکہ میں نماز پڑھ سکوں ۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے کہاکہ تین آدمی تین چیزوں کے بغیر نہیں پہچانے جاتے۔(١): بردباراور حلیم غصہ کے وقت، (٢):دلیراور شجاع لڑائی کے وقت اور (٣) بھائی حاجت کے وقت۔آج کے اس مادہ پرستی کے دور میں جب انسان پہلے سے کہیں زیادہ خودغرض ہوچکاہے اس سے دوسروں کے درد کا احساس نہیں رہا وہ صرف اپنے بھلے کی سوچتا ہے اسی بنائ پر معاشرہ میں چھینا جھپٹی ، بے انصافی ، غریب اور بے کس کی حق تلفی ہورہی ہے۔ ایک بے اطمینان اور بے قراری کا دور دورہ ہے۔اگر ہم اسوہ رسول? پر عمل کرتے ہوئے خدمت خلق کے جذبہ کو فروغ دیں او رجس حد تک بھی ہم دوسروں کے کام آسکتے ہیں آئیں ۔ جتنا بھی ہمارے بس میں ہو دوسروں کی خدمت کریں ۔جتنا کچھ ہمارے اختیار میں ہودوسروں کے لئے بھلائی کریں ۔ اس سے معاشرہ میں سدھار ہوگا او ریہ جذبہ اگر عام ہو جائے تو پورا معاشرہ سکون اور محبت کی شاہراہ پر چل سکے گا۔خدمت خلق کا تقاضہ یہ ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مقدس ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق ہیں ۔ سلام کا جواب دینا ،مریض کی عیادت کرنا ، جنازہ کے ساتھ جانا ، دعوت قبول کرنا۔ سب سے پہلے اپنے ماں ، باپ ، بہن بھائی اور دوسرے عزیر رشتہ داروں کی جس حد تک ہوسکے خدمت کرنی چاہئے۔ کسی کو کوئی کام آپڑے تو قبل اس کے کہ وہ آپ سے اس کے لئے رجوع کرے ، ا?پ خود جاکر اس کی حتی الامکان مدد کریں ۔ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھیں ، انہیں کوئی تکلیف نہ دیں ، اپنے ماتحت اور ملازم سے حسنِ سلوک کریں ۔ کسی کا دل نہ دْکھائیں ، کسی سے سخت لہجہ میں بات نہ کریں ، کسی کو نہ جھڑکیں اور بلاوجہ غصہ نہ کریں ۔عام زندگی میں یہی خدمت خلق ہے کہ صبح سے رات تک جس کسی سے بھی واسطہ پڑے اس سے شائستہ لہجہ میں بات کریں ۔ کسی کو بھی اپنے سے کمتر نہ جانیں ۔ کوئی شخص کسی کا پتہ معلوم کرے تو اس کا ٹھیک پتہ بتا دیں ۔ اگر کوئی پیاسا مسافر پانی طلب کرے تواس کو پانی پلادیں ۔ اگر کوئی بھوکا کھانا طلب کرے تو اسے کھاناکھلادیں ۔یاد رکھیں بھوکے کو پیٹ بھر کھانا کھلانا سب سے بہتر صدقہ ہے۔ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ اگر خدائے تعالیٰ تمہیں یہ سعادت نصیب کرے کہ کسی ایک شخص کو تمہاری وجہ سے ہدایت نصیب ہو جائے تو یہ بات اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ تمہیں کہیں سے بہت سرخ اونٹ ہاتھ ا?جائے۔ مومن کا سب سے بڑا سرمایہ یہی ہے کہ وہ خود نیکی پر عمل کرتا رہے اور اس کی ذات سے نیکیاں پھیلیں ۔ اللہ ہم سب کو اسی بات کو توفیق عطافرمائے کہ ہم خود نیک راہوں پر چلیں اورہمارے وجہ سے نیکیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے
source : http://www.shianet.in