سلسلہ امامت امام علی(ع) سے امام مہدی(عج) تک:
(۱)عالم اسلام میں حج کا حکم عام اور ایک لاکھ سے زائد افراد کا مکہ کی طرف روانہ ہونا
(۲)آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے حضرت علی (ع) کو یمن و نجران کی طرف بھیجا آپ بارہ ہزار احرام باندھے مسلمانوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے (کشف الیقین ص ۲۳۸)
(۳)مناسک حج ادا ہوئے اور عرفات میں ایک حکم نازل ہوا ۔
(۴)پیغمبر اکرم(صل) نے حضرت علی(ع) کی ولایت کے اعلان کے لئے اسباب مہیا کئے
(۵)حج کی ادایئگی کے بعد پیغمبر اکرم(صل) کی طرف سے بلال(رض) نے اعلان کیا کل ناتوان افراد کے علاوہ کوئی نہ رہے سب حرکت کریں تا کہ معین وقت میں غدیر خم میں حاضر ہوں (امالی الصدوق ص ۳۵۴)
واقعہ غدیر
بلاشبہ طول تاریخ میں ۱۰ھجری میں حج محمدی کی مانند عظیم الشان انداز سے دوبارہ حج کے مناسک انجام نہیں پائے ایسا حج کہ جسے آخری بار اشرف المخلوقات فخر کائنات اور خاتم الانبیاء نے کیا اور ھر طرف سے ایک لاکھ سے زائد آپ کے عاشقوں کا ہجوم آپ کے اردگرد پروانوں کی مانند موجود تھا، آخری طواف کے بعد جب سب لوٹنے کے پروگرام میں تھے ایکدم حضرت جبرائیل نازل ہوئے اور تین پیغام دئیے :اے پیغمبر جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے ابلاغ کریں، اگر آپ نے الھی حکم کو ابلاغ نہ کیا گویا آپ کی رسالت مکمل نہیں ہوئی اور اللہ تعالی آپ کو بدخواھوں کے شر سے محفوظ رکھے گا (مائدہ ۶۷آیت ابلاغ)
حالانکہ ا سے قبل بھی پیغمبر اکرم(صل) بارھا مسئلہ ولایت اور اپنی جانشینی کا موضوع مطرح کرچکے تھے تو آپ نے حکم دیا کہ سب کے سب وادی غدیر میں ان کے پاس جمع ہوں، آگے بڑھنے والے لوٹ آئیں، پیچھے رہ جانے والے پہنچ آئیں، اونٹوں کی پلانوں سے آپ کے لئے ایک منبر تیار کیا گیا اور سب خاتم الانبیا کی پاکیزہ لسان سے کلام وحی سننے کے لئے مشتاق تھے یہ حکم اتنا اھم اور دقیق تھا کہ لوگوں کے قبول نہ کرنے کا خوف ، منافقوں کا شور و غوغا اور موسم کی گرمی اور دیگر مشکلات اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھیں ۔ ۔ ۔
پیغمبر اکرم(صل) نے ہمیشہ کی مانند اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے ساتھ خطبہ کا آغاز کیا پھر آپ نے اپنی تیس(۲۳) سالہ رسالت کے معارف سے آگاہ کیا اور لوگوں کو ان کے دین کی عظمت کی طرف رہنمائی لیکن یہ سب کچھ ایک پیغام کے لئے ایک تمہید تھی اور وہ یہ تھا کہ:
اے لوگو! یہ آخری جگہ ہے کہ جہاں میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں اور بات کررہا ہوں، پس میری بات سنو اور فرمان سمجھو اور اپنے پروردگار کے مدمقابل سرتسلیم خم کرو وہی خدا عزیز و اعلی کہ جو تمہارا رب ،ولی اور معبود ہے اور اس کے بعد اس کا پیغمبر محمد کہ جو تمہارے درمیان کھڑا ہے اور بات کررہا ہے تمہارا سرپرست ہے اور میرے بعد تمہارے پروردگار کے حکم سے علی تمہارا سرپرست اور امام ہے اور ان کے بعد امامت میرے خاندان میں علی کی نسل میں جاری و ساری ہے یہاں تک کہ تم لوگ روز قیامت اللہ اور اس کے رسول سے ملاقات کرو (احتجاج طبرسی ج۱ ص ۶۶ الغدیر علامہ امینی حماسہ غدیر محمد دشتی)
البتہ پیغمبر اکرم(صل) نے غدیر سے پہلے کئی بار حضرت علی(ع) کی جانشینی اور ولایت کا اعلان کیا تھا لیکن غدیر کا یہ اعلان ان تمام گذشتہ اعلانوں کی تائید کے ساتھ ساتھ لوگوں پر حجت تمام کرنے والا تھا لوگ گروہ گروہ کی شکل میں آتے تھے اور پیغمبر اکرم(صل) سے تجدید عہد کرتے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کی بعنوان امیر المومنین بیعت کرتے تھے اور انہیں مبارک باد دیتے تھے
جبرائیل نازل ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم آج کی مانند میں نے کوئی دن نہیں دیکھا کیسے اپنے چچا زاد کے مسئلہ کو محکم کیا اس کے لئے عہد باندھا کہ اللہ اور رسول کے کافر کے علاوہ کوئی اس عہد کو نہیں توڑے گا وای ہو اس پر کہ جو اس عہد کو توڑے (تفسیر عیاشی ج۱ ص ۳۲۹)
غدیر سلسلہ امامت اور لوگوں کی ہدایت کو بیان کرنے والا
غدیر نے صرف حضرت علی(ع) کی خلافت بلا فصل کو نہیں بیان کیا بلکہ سلسلہ امامت کی بھی ایسی تصویر کھینچی کہ دشمنان اسلام نہ صرف اس زمانہ میں بلکہ قیامت تک اسلام کو للچائی نگاہوں سے دیکھنے سے مایوس ہوگئے، اس دن دین کامل ہوا، نعمت تمام ہوئی اور دین اسلام اللہ کی مورد رضایت قرار پایا (مائدہ ۳ آیت کمال)
ان خصوصیات کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر اکرم نے اس دن سارے دین کو امامت و ولایت کی صورت میں بیان کردیا تھا لہذادین اسلام مکمل ہوچکا تھا، چونکہ پیغمبر(صل) کی خلافت و جانشینی ثابت ہوچکی تھی نہ صرف یہ کہ حضرت علی (ع) پیغمبر اکرم(صل) کے بعد امام مقرر ہوئے بلکہ تمام انسانوں کو نورانی سلسلہ امامت و ولایت سے آگاہ کردیا گیا تھالہذا نعمت تمام ہوچکی تھی، چونکہ حجت تمام ہو چکی تھی اس اتمام حجت کے ساتھ حضرت علی (ع) مومنین اور متقین کے امام قرار پاچکے تھا،اللہ تعالی نے قیامت تک دین اسلام پر رضایت کا اظہار کیا تھا چونکہ حضرت علی(ع) کے فائز ہونے سے ان دشمنان دین کی امید دم توڑ گئی تھی کہ جو اس فکر میں تھے کہ پیغمبر اکرم (صل)کی رحلت کے بعد یہ الھی دین محو ہوجائے گا لھذا وہ مایوس ہوچکے تھے، اسی لئے غدیر میں پیغمبر نے سلسلہ امامت کو بیان کیا تاکہ دین خدا ثابت قدم رہے۔
انہوں نے اپنی ذریت اور نسل حضرت علی(ع) کی اولاد کو قرار دیا اور بیان کیا جس نے بھی اس رسی کو محکم انداز سے پکڑلیا وہ سعادت مند ہوا۔
پیغمبر اکرم(صل) نے بارھا بیان کیا کہ علی(ع) اور اس کی اولاد سے محبت مجھ سے محبت اور ان سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے ۔
پس غدیر صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں تھا بلکہ سلسلہ امامت اور بشر کی ھدایت کو تشکیل دینے والا ہے ،لہذا یہ بشر کی سعادت کی تاریخ ہے اورا نبیا و اوصیا کے مشن کو بڑھانے کے لئے ایک عہد ہے۔
غدیر کے دشمن صرف حضرت علی(ع) کے دشمن نہیں ہیں بلکہ وہ بشر کی ھدایت و سعادت کے بھی دشمن ہیں وہ سوائے کفار اور منافقین کے کچھ بھی نہیں ہیں ۔
امام مہدی(عج) غدیر میں:
پیغمبر اکرم(صل) نے الھی حکم کی بنیاد پر سلسلہ امامت کے پہلے امام کے اعلان کے بعد اس سلسلہ امامت کے آخری اپنے جانشین کا بھی چند جملوں میں تعارف کروایا تاکہ حق کے تشنہ اور عدالت کے مشتاق لوگ راہ گم نہ کرلیں اور سب جان لیں کہ ان کے جانشین بارہ ہیں اور سب خلیفہ ہیں ان میں سے آخری وہ ہے کہ جو عدل و انصاف کے لئے قیام کریں گے، اس دین حق اور خدا کے مورد رضایت دین کو پوری دنیا پر حاکم کریں گے ۔آپ(صل) نے فرمایا:جان لو بلا شبہ ہمارے ائمہ میں سے آخری مہدی قائم ہے ۔
جان لو وہ تمام ادیان پر فتح پائے گا ۔
جان لو وہ ظالموں سے انتقام لے گا۔
جان لو وہ شرک و فساد کے قلعوں کے مضبوط دروازے کھولے گا اور انہیں تباہ و برباد کرے گا ۔
جان لو وہ شرک کو تباہ کرنے والا ہے۔
جان لو وہ اللہ عزیز و عظیم کے محبین کے خون کا انتقام لینے والا ہے۔
جان لو وہ اللہ عزیز و عظیم کے دین کی نصرت کرنے والا ہے۔
جان لو وہ پیاسوں کو دریائے حقیقت سے سیراب کرنے والا ہے۔
جان لو وہ علما کی برتری اور ان کے فضل اور جھلا کی جھالت و بے عقلی کو جانتا ہے۔
جان لو وہ اللہ تعالی کا برگزیدہ اور اس کی طرف سے امام منتخب ہونے والا ہے۔
جان لو وہ ہر علم کا وارث ہے اور اس کا علم تمام علوم پر برتر ہے۔
جان لو وہ اللہ عزیز و عظیم کی معرفت سے آگاہ کرنے والا اور احکام اور راہ ایمان کو روشن کرنے والا ہے۔
جان لو وہ شجاع اور صحیح عمل کرنے والا ہے ۔
جان لو مخلوق کے امور اس کے سپرد ہوئے ہیں۔
جان لو گذشتہ پیغمبروں نے اس کے ظہور کی بشارت دی ہے۔
جان لو وہ آخری الھی حجت ہے اور اس کے بعد کوئی حجت نہیں آئی گی دنیا میں صرف اس کے ساتھ حق ہےاور ہر علم صرف اس کے پاس ہے۔
جان لو کوئی اس پر کا میابی کی طاقت نہیں رکھتا اور اس کے علاوہ کوئی مدد کرنے والا نہیں ہے۔
جان لو وہ زمین میں ولی خدا اور مخلوق میں قاضی اور ظاھر و پنہان میں الھی اسرار کا محافظ ہے۔ (احتجاج طبرسی ج۱ ص ۶۶ خطبہ غدیر)
اگر پیغمبراکرم(صل) امام مہدی(عج) کا تعارف نہ کرواتے تو معلوم نہ تھا کہ ان کا نام بھی باقی رہتا کیونکہ لوگوں نے حضرت علی (ع) کی ولایت و امامت کے حوالے سے آپ کے حکم کو نظرانداز کردیا تھا طول تاریخ میں چراغ امامت کو بجھانے کی کوشش کرتے رہے بعض ائمہ کو قتل کیا اور بعض کو قید و بند میں ڈالا (دعائے ندبہ) لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ پروردگار کا ارادہ یہ ہے کہ دیندار لوگوں کو دنیا پر غلبہ دے اگرچہ کفار و مشرکین کو یہ پسند نہ آئے(صف۹)
امام مہدی(عج) حضرت علی(ع) کی نگاہ میں:
دین خدا تو وہی ہے کہ جس کا وعدہ الھی کتاب میں آیا ہے۔
اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں اوراعمال صالحہ انجام دینے والوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین پر جانشین قرار دے گا اور مورد رضایت دین کہ جو خوف کے بعد ان کے لئے اطمینان کا باعث ہوگا اور ان کے لئے مستحکم قرار دے گا (نور آیت ۵۵)
واضح سی بات ہے کہ اللہ تعالی کا مورد رضایت دین وہی ہے کہ جسے اللہ تعالی نے اسلام کا نام دیا اور روز غدیر اس پر رضایت کا اظہار کیا اور یہ دین اس وقت تک مستقر اور مستحکم نہ ہوگا کہ جب تک اس کو بیان کرنے والوں کی معرفت حاصل نہ ہو اور ان کے احکام پر عمل نہ ہو، تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر اکرم(صل) کے جانشینوں نے کیسے زحمات برداشت کیں تاکہ اس اللہ تعالی کے مورد رضایت دین کو بپا کرنے کے اسباب فراھم ہوں۔
حضرت علی (ع) جو کہ پیغمبر اکرم(صل) کے بعد ان کے سب سے پہلے جانشین تھے لوگوں کو اپنی اولاد میں سے ایک امام غائب کے وجود کی خبر دیتے ہیں کہ جو دنیا کو یوں عدل سے پر کرے گا جیسے کہ وہ ظلم و جور سے پر ہوئی ہے ۔
حضرت علی(ع) اپنے اس عظیم الشان فرزند کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
(۱)درگذر کرنے والا
وہ بہت زیادہ درگذر کرنے والا ہے(غیبت نعمانی باب ۱۳ج۱)
(۲)پناہ گاہ
وہ محکم قلعہ اور مستحکم پناہ گاہ ہے
(۳)صالحین کے لئے اسوہ حسنہ
جو بھی انہیں پائے گا انہیں ایسی تابناک مشعل کی مانند پائے گا کہ جو صالحین کے لئے اسوہ ہوگی (سابقہ ماخذ)
(۴)بشریت کے لئے نجات بخش:
زنجیروں کو توڑے گا اور انسان کو غلامی و جبر سے نجات دلائے گا (نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۰)
(۵)وسیع عدالت:
حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسین کو فرمایا اے حسین تمہارا نواں فرزند حق کے لئے قیام کرنے والا ہے وہ ہے کہ جو دین کو آشکار کرے گا اور عدالت کو وسعت بخشے گا (کمال الدین صدوق ج۱ ص ۳۰۴)
(۶)مسرتوں اور خوشیوں کو تقسیم کرنے والا
اس کے آنے کے ساتھ آسمان اور زمین والے شادمان ہوجائیں گے (نہج البلاغہ خطبہ ۲۵۰)
(۷)ثابت قدم رہنے والوں کے لئے اجر
ہمارے قائم کے لئے طولانی غیبت ہے جان لو کہ جو بھی اس زمانہ میں اپنے دین پر ثابت قدم رہے اور اس کا دل امام کی غیبت کے طولانی ہونے کی بنا پر سخت نہ ہو وہ قیامت کے دن جنت میں میرے ساتھ اور میرے قریب ہوگا (کمال الدین صدوق ج۱ باب ۲۶ص ۱۴)
(۸)حضرت کے لئے دعا
اے میرے خدا اس کی غیبت کو غموں کا اختتام قرار دے اور اس کے وسیلہ سے امت میں سے جدائیاں اور منافقت کو ختم کردے (غیبت نعمانی باب ۱۳ ص ۲۱۲)
ہمارے سامنے ایک بنیادی سوال:
آیا ہم امام زمانہ(عج) کے ظہور کو درک کرنے کے قابل ہیں یا دنیاوی مفادات اور خواہشات نفسانی ہمیں دوسری طرف لے جائیں گے؟
آیا ہم ان لوگوں میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنی دانش، بصیرت، اور تربیت کے ساتھ زمانہ ظہور سے مشرف ہونے کے لئے تلاش و کوشش کرنی ہے(یوطئون للمھدی سلطانہ سنن ابن ماجہ ج ۲ باب فتن)
source : http://www.shiastudies.net