اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

سیرت امام علی علیہ السلام کی روشنی میں آداب معاشرت کے چند اصول

 

بقلم: سید علی جواد ہمدانی

 

ہمارے آئمہ معصومین علیہ السلام کی سیرت اور سنت، حقیقی اسلام کی عملی صورت ہے جو انکی زندگیوں میں واضح نظر آتی ہے قرآن میں بیان ہوئے علمی اصولوں کی یہ عملی تفسیر ہیں جس طرح ہم قرآن کے باطن اور حقیقت حتی ظاھر تک بھی رسائی پیدا نہیں کرپاتے اس طر ح ہم اپنے آئمہ معصومین کی سیرت و سنت سے بھی کما حقہ آشنا نہیں ہوتے۔ یہاں اس مختصر تحریر میں ہم کو شش کریں گے اپنی عام زندگی میں دوسروں سے میل جول کے سلسلے میںامام المتقین امیر المومنین علی علیہ السلام کی سیر ت کے گوہر بار اصولو ں کا جائزہ قرآنی بیانات کی روشنی میں پیش کریں ۔

 

قرآن کریم میں لوگو ں سے میل جو ل کے سلسلے میں مختلف احکام بیان ہو ئے ہیں جنھیں مجموعی طور پر ہم تین طر ح کے روابط میں خلاصہ کرسکتے ہیں (١)

 

١۔ سب کے ساتھ محبت آمیز اور پر خلوص رابطہ، حتی نادان دشمنوں کے ساتھ

 

٢۔دشمنان دین کے ساتھ سخت اور دو ٹوک سلوک

 

٣۔منحرف اور گناہ کار دوستوں کے ساتھ سخت رویہ

 

قرآن کریم میں ان بیان کیئے گئے ان کلی اور عمومی اصولوں کی روشنی میںذیل میں ہم سیرت امام علی علیہ السلام پر نگا ہ کریں تو؛

 

٭نہج البلاغہ میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام مومنو ں کے ساتھ با محبت رویہ اپنا تے ہیں اور انہیںبھی سختی اور بدسلو کی سے پر ہیز کرنے کو کہتے ہیں ۔

 

١۔ سع النا س بو جھک و مجلسک و حکمک و ایاک والغضب فانہ طیرة من الشیطان (٢)

 

لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، حکم و قضاوت کے دوران ہشاش چہرے کے ساتھ رابطہ قائم کریں اور غصے اور سختی سے پرہیز کریں کیونکہ یہ شیطان کا پھینکا ایک تیر ہے (شگوفہ ہے )

 

٢۔الحدہ ضر ب من الجنون لا ن صاحبھایندم فان لم یندم فجنونہ مستحکم (٣)

 

غصہ ایک قسم کا جنو ن اور پاگل پن ہے کیو نکہ غصیلے شخص کو ندامت کا اظہا ر کرنا پڑتا ہے اور اگر نادم نہ ہو تو یہ دلیل ہے اس بات کی اسکا جنون آخری مراحل میں ہے ۔

 

اس طرح اپنے ان اصحاب سے کہ جنھو ں نے دشمن کے سامنے سستی کا مظاھرہ کیا تھا فرماتے ہیں :

 

یا اشبا ہ الرجال و لا رجال، حلوم الاطفال و عقول ربات الحجال قاتلکم اللہ لقد ملاتم قلبی قیحا و شختم صدری غیظا

 

اے مردوں کے مشکل و صورت والے نا مردو !تمھاری عقلیں بچوں کی سی، اورتمھاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کی مانند ہے ۔ اللہ تمہیں ہلاک کرے، میر ے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میر ے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے جبکہ اپنے خالص اور مومن اصحاب کے بارے میں فرمایا

 

انتم الا نصارعلی الحق، والا خوان فی الدین و الجنن یو م الباس و البطانتہ دون النا س (٤)

 

تم حق کے قائم کرنے میں میر ناصر و مددگار ہو اور دین میں ایک دوسرے کے بھائی، اور سختیو ں میں میر ی سپر ہو، اور تمام لو گوں کو چھوڑ کرتم ہی میر ے راز دار ہو ۔

 

دشمن دین عمر و عاص جب شام میں امام علی علیہ السلام کی خلافت کے مقابلے میں معاویہ کے حق میں دیلیل کے طور پر امام علیہ السلام کو مزاحیہ اور شوخ طبیعت اور معاویہ کو باوقار شخصیت ثابت کرنے میں لگاہوا تھا تو امام علیہ السلام نے اسے سختی سے جھٹلایا اور فرمایا ۔

 

عجبا لا بن النابغة یز عم لا ھل الشام ان فی دعابتہ (٥)

 

حیرت ہے ناپا ک اور گندی عورت کے بیٹے پر، میر ے بارے میں اہل شام سے یہ کہتا پھر تا ہے کہ مجھ میں مسخرہ پن پایا جاتا ہے ۔

 

معاند اور دشمن دین افراد کے ساتھ ایسی سخت اور کرخت روش کے مقابلے میں دوسروں سے امام علیہ السلام انتہا درجے کی روا داری سے پش آتے حتی بسا اوقات تغا فل کا راستہ اپنا تے ۔ تغا فل سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز کے بارے میں جانتا ہواور آگاہ ہو لیکن کسی مصلحت کے تحت اپنے آپ کو غافل اور بے خبر ظاہر کرے اور اس طرح سامنے والے سے معاملہ کرے کہ وہ سمجھے جیسے اسے مو ضو ع کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ہے ۔ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام نے کوفہ میں کچھ خوارج کو اپنے بارے میں نا ز یبا اور نا شائستہ باتیں کرتے ہوئے سنا لیکن ان کے قریب سے بڑے وقا ر اور شرافت سے گزر گئے اور فرمایا وہ میرے بارے میں بات نہیں کر رہے ۔

 

   تغافل کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا :

 

اشرف اخلا ق الکریم "کثرة تغافلہ عما یعلم "(٦)

 

   باکرم شخص کا عالی ترین اخلاق یہ ہے کہ جو کچھ جانتا ہو اس کے بارے میں تغافل کرے ۔اسی طرح فرمایا :"من یتغا فل عن کثیر من الا مور تنغضت عیشة"(٧)

 

   جوکوئی بھی اکثر امور میں تغافل نہ کرے اپنے آرام و سکون کو برباد کر دے گا ۔

 

   البتہ ایک چیز مد نظر رکھنی چاہیے تغافل اور غفلت میں بہت بڑا فرق ہے ۔غفلت ایک نا پسند صفت ہے جس سے بڑی سختی سے منع کیا گیا ہے ۔غفلت ایک قسم کی بے توجہی سستی اور مستی ہے جو انسان کو یا د خدا سے دورکر دیتی ہے اور انسان کو انحراف و سقوط کے دہانے پر لا کھڑا کرتی ہے ۔

 

   امام علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :

 

الغفلة ا ضر الا عداء : غفلت سب سے زیادہ نقصان دہ دشمنوں میں سے ہے ۔

 

الغفلة شیمة النوٰ کی :غفلت احمق اور بے وقوفوں کی صفت ہے

 

الغفلة ضلا لة :غفلت ایک قسم کی گمراہی ہے ۔

 

   پس غفلت ایک نا پسند صفت جبکہ تغافل کسی مصلحت کی خاطر جانتے بوجھتے نظر انداز کرنے کا نا م ہے ۔اور انسانی معاشرے میں تعلقات کو بہتر انداز میں استوار رکھنے اور نفرتوں اور کدور توں اور دوسروں کی عزت نفس کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔

 

اس لئے مولا کائنا ت امام علی علیہ السلا م نے فرمایا:

 

   "نصف العاقل احتمال و نصفہ تغا فل "(٨)

 

     آدھی عقلمندی ہشیاری اور آدھی نظر اندازی (تغافل )ہے

 

   تغافل یا نظر انداز کرنا حلم سے بڑا نزدیک ہے بلکہ حلم کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور بغیر حلم تغافل نصیب نہیں ہو تا یہی وجہ ہے امام علی علیہ السلا م نے ارشاد فرمایا :

 

   لا حلم کا لتغافل(٩)

 

   تغافل (چشمہ پوشی، نظر اندازی )جیسا کوئی حلم نہیں ۔

 

   اس سلسلے میں پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کوڑا کرکٹ پھینکنے والی بڑھیا کے ساتھ برتائو اور امام حسن مجتبی علیہ السلا م کا شامی مرد کے ساتھ اور انکا نتیجہ یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ قارئین کئی ان خوبصورت واقعات کو سن چکے ہوں گے ۔جو ہمارے لئے عملی زندگی میں بڑے عبرت آموز درس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

 

   یہا ں امام علی علیہ السلام کے سیاسی روابط اور سیاسی سیرت کسے متعلق چنداقوال کا مطالعہ کرتے ہیں ۔امام علیہ السلام کے پانچ سالہ خلافت کے دور میں ان کا لو گوں کے ساتھ جو سیاسی تعلق برقرار تھا، اس میں ان کی سیاست کا محور لو گو ں کے ساتھ ان کا اسلامی عادلانہ سلوک اورتمام تدابیراور حکمت عملی کا اسلامی شریعت کی حدود میں محدود ہونا تھا۔ یہ طریقہ کار ان کی عملی سیرت کے ساتھ ساتھ ان کے تمام خطبات اور مکتوبات میں بھی واضح ہے۔

 

   امام علی علیہ اسلام کیلئے خلافت اور حکومت ھدف نہ تھا بلکہ اسلام کی حفاظت اور اسلامی سیاست کے اجراء کا ایک وسیلہ تھا ۔جسکا اظہار مکتوب نمبر ٦٢میں امام علی علیہ السلام نے کچھ اس انداز سے کیا فرماتے ہیں :

 

     "حتی رایت راجعة الناس قدر جعت عن الا سلام ۔۔۔علی اعظم من فوت ولا یتکم۔۔۔"

 

   یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مر تد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔اب میں ڈرا کر اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو میرے لیئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی یہ مصیبت کہ تمھاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے ۔

 

   امام علی علیہ السلام کی سیاست اور معاویہ کی سیاست کا فرق یہ تھاکہ معاویہ کاموں کی اصلاح کے نام پر حتی اگر خلاف اسلام ہی کیوں نہ ہو ہر چیز کا استعمال کرتا لیکن امام علی علیہ السلام اسلام کی حدود سے باہر نہ نکلتے ۔

 

   حکومت بھی امام علی علیہ السلام نے اسی بنیاد پر ہاتھ لی تھی :

 

   "وما اخذ اللہ علی العلما ء ا لا یقا رو ا علی کظة ظا لم ولا سغب مظلوم لا لقیت حبلھا علی غاربھا ۔(١٠)

 

   اور وہ عہدنہ ہو تا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا ۔

 

   یا جیسے ایک اورمقام پر اس طرح فرماتے ہیں کہ اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہوتو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جو تا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے (١١)

 

   ساتھ ہی حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد امام علیہ السلام نے کبھی اس حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے کوئی غیر شرعی راستہ یا مکرو فریب کا راستہ نہیں اپنایا ۔اور فرمایا :

 

   "ولولا کرا ہیة الغدر لکنت من ادھی الناس (١٢)

 

   اور اگر مجھے عیاری اور غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زیادہ ہو شیار و زیرک ہوتا لیکن ساتھ ہی دوسروں کی چالاکیوں اور مکاریوں سے غافل نہیں تھے جیساکہ فرمایا :

 

   "واللہ ما استغفل بالمکیدہ "خدا کی قسم ! مجھے ہتھکنڈوں سے غفلت میں نہیں ڈالا جا سکتا ۔

 

   جو مومن کی نشانیوں میں سے ہے اسی لئے امام علی علیہ السلام نے سیاسی عقل کو دین کی پیروی اس کے احترام کی حفاظت کا درجہ دے رکھا تھا اور سیاست کو خداوند متعال کی عبودیت اور رضا الہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔جبکہ معاویہ اپنی ظالمانہ رقابت میں خلاف عقل اعمال انجام دیتا ۔اور غافل لوگ معاویہ کو امام علی علیہ السلام سے زیادہ سیاستدان سمجھتے جبکہ حقیقت یہ ہے ان لوگو ں کو عقل کی حقیقت کاصحیح علم نہ تھا اسی وجہ سے صحیح عقل والے یا عاقل کی بھی پہچان نہ تھی ۔

 

   امام صادق علیہ اسلام سے کسی نے سوال کیا کہ عقل کیا ہے ؟

 

   امام نے فرمایا :"العقل ما عبد بہ الر حمن و اکتب بہ الجنان " عقل یہ ہے کہ اس کے ذریعے خدای رحمان کی عباد ت کی جائے اور بہشت حاصل کی جائے

 

   پوچھا گیا؛ پس عقل معاویہ کیا تھی ؟

 

   آپ نے فرمایا:"تلک النکر ا ء، تلک الشیطنة وھی شبیة با لعقل ولیست بالعقل (١٣)

 

   وہ دھوکہ ہے، شیطانیت ہے اور ظاہراً عقل سے مشا بہت رکھتی ہے، لیکن عقل نہیں ہے ۔

 

   جس طرح اما م علی علیہ السلام نے سیاست میں کسی نا شروع اور غلط وسیلہ کو استعمال نہ کیا تھا اسی طرح دھوکہ باز اور منحرف افراد کو بھی کبھی اپنا ساتھی یا یاور و مددگا ر نہ بنا یا۔ اور انہیں سختی سے اپنے سے دور کرتے اور قول باری تعالی کے مطابق کبھی منحرف افراد کو اپنے اعلیٰ اھداف کیلئے استعمال نہ کیا :

 

   سورہ کہف آیہ ٥ : "وما کنت متخذ المضلین عضدا "؛ گمراہوں کو اپنا بازو اور معاون قرار نہیں دوں گا "

 

   جس طرح جھوٹ جو ایک کھلی اور اشکار ا گمراہی اور انحراف ہے اس کے بارے میں ہے کہ مزاح میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے کیونکہ ابتدائی چھوٹا انحراف آگے چل کر ایک بڑے انحراف اور برائی کا راستہ کھولتا ہے ۔

 

   یہی وجہ ہے کسی بھی چھوٹی برائی اور انحرافی وسیلے کو پا ک اور الوھی اھداف کیلئے استعمال کرنے سے بچنا چاہیے، کیونکہ گمراہی اور ضلالت حتی چھوٹی سطح پر بھی الوھی ھدف تک انسان کو سالم و کامل نہیں پہنچا سکتی ۔

 

   آج اگر ہم عمر کے ابتدائی حصے میں اپنے آپ کو ان چھوٹی گمراہیوں اور انحرافات سے نہ بچاسکیں اور دوستی، انا اور ضد کے ہاتھوں منحرف افراد کے ساتھ لولگا ئے بیٹھے رہیں توکل اپنی عملی زندگی میں حق کا ساتھ دینے میں بڑی مشکلات کا شکار ہو جائیںگے۔بڑا واضح ہے، جس طرح امام علی علیہ السلام نے اپنے پاک ھدف کیلئے غلط وسیلہ تو کیاغلط اور منحرف افراد کو بھی اپنا ہمنوا بنانا پسند نہ فرمایا تھا، تو کیاعلی علیہ السلام کا بیٹا ظہور کے وقت منحرف اور گمراہ افراد یاان کا ساتھ دینے والو ں کو اپنے لشکر میں شامل کرنا پسند فرمائیں گے ؟ خداوند متعال سے دست بستہ دعا گو ہیں کہ ہم سب کو ہر قسم کی برائی اور گمراھی سے نجات دے اور اگر ناخواستہ اس راستہ پر چل کھڑے ہوں تو ہمیں پلٹنے کی تو فیق عنایت فرما اور انہی چندا صولو ں پر جو ہمیں سمجھ آرہے ہیںپوری تند دھی سے عمل کرنے کی تو فیق دے ۔اور لوگو ں سے اس طرح رویہ اختیا ر کرنے کے قابل ہو ں کہ امام علی علیہ السلام کے اس فرمان کا مصداق بن پائیں جو امام علیہ السلام نے بستر شہادت پر اپنے فرزند ان کیلئے وصیت میں ارشاد فرمایا :

 

   "یابنی عاشوا الناس عشرة ان غبتم حنو ا الیکم وان فقدتم بکو ا علیکم "(١٣)

 

   اے میرے بیٹو !لوگوں کے ساتھ اس طرح زندگی بسر کر و کہ اگر ان سے دور ہو تو تمہاری ملاقات کے مشتاق ہو ں اور اگر اسی دنیا سے چلے جا ئو تو تمہا ری جدائی میں گریہ کریں ۔

 

............

 

(١)سورہ حجرات، فتح 29/، انعام53/، نحل 125/، توبہ ٧٣ ، آل عمران 109/، مسدرا، ھود 18/، رعد 24/ بقرہ 104، 222، 83، فرقان 43

 

(٢)نہج البلاغہ، خمکتوب٧٦

 

(٣)نہج البلاغہ حکمت200

 

٤۔نہج البلاغہ خطبہ 28

 

٥۔نہج البلاغہ خطبہ116

 

٦۔نہج البلاغہ خطبہ92

 

(٦)غرر الحکم، ج ٢، ص ٥١٥

 

(٧)بحارالا نور ج ٣٦، ص ٢٨٩

 

٨۔غر ر الحکم

 

٩۔میزان الحکمہ ج ٧، ص ٢٦٨

 

(١٠)خطبہ ٣ نھج البلاغہ

 

(١١)خطبہ ٣٣

 

(١٢)خطبہ ١٩٨

 

(١٣)اصول کافی ج ١، ص ١١، باب لعقل و الجمل ج ٣۔

 

(١٤)بحارالا نوار، ج ٣٢، ص ٢٣٥

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کربلا اور اصلاح معاشرہ
مظلومیت ہی مظلومیت
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
افغانستان میں قرآن کریم کی بے حرمتی، مغرب میں ...
ہندو مذہب میں خدا کا تصور و اجتماعی طبقہ بندی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی نرغے میں
سب سے پہلے اسلام
سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو
بازار اسلامی حکومت کے سایہ میں
دور حاضر کی دینی تحریکیں

 
user comment