قال رسول اللہ صلی اللہ عليه وآله: اني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي: كتاب الله فيه الهدی والنور حبل ممدود من السماء الی الارض وعترتي اهل بيتي وان اللطيف الخبير قد اخبرني انهما لن يفترقا حتي يردا علی الحوض وانظروا كيف تخلفوني فيهما.
میں تمہارے درمیان دو عمدہ اور گرانبہا امانتیں چھوڑے جارہا ہوں: ایک کتاب اللہ ہے اور دوسری میری عترت اور اہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان دو کا دامن تھامے رہوگے کبھی بھی گمراہی سے دوچار نہ ہوگے؛ کتاب اللہ، جس میں ہدایت اور نور (روشنی) ہے یعنی قرآن مجید اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک کھچی ہوئی ہے اور بےشک لطیف خبیر (خداوند متعال) نے مجھے خبر دی ہے کہ کہ قرآن و اہل بیت کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے حتی کہ حوض کوثر کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں۔
نیز ام المؤمنین ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: علي مع القرآن والقرآن مع علي لن یفترقا حتی يردا علي الحوض۔
یعنی علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآ علی کے ساتھ اور یہ دو ہرگز ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہونگے حتی کہ حوض کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں۔
همچنین ام سلمه از پیامبر اسلام حدیثی با همان مضمون حدیث ثقلین نقل میکند که وی گفت: «علی با قرآن است و قرآن با علی است، آنها از هم جدا نمیشوند تا اینکه در حوض بر من وارد شوند۔ (1)
حدیث ثقلین کو بھی حدیث غدیر، حدیث لیلۃالمبیت، حدیث منزلت، حدیث ذوالعشیرہ اور درجنوں دوسری احادیث کی طرح تحریف کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان احادیث کو اس دن سب سے زیادہ نمایاں طور پر پامال کیا گیا جب "رزیۃ الخمیس" (جمعرات کے المئے) کے دوران ایک صحابی نے رسول اللہ کی حرمت شکنی کرتے ہوئے کہا: یہ شخص (معاذ اللہ یعنی رسول خدا(ص)) ۔۔۔ بول رہے ہیں اور ہمارے لئے قرآن کی کافی ہے (2) لیکن جب حق مہر کے مسئلے پر قرآن کا حکم نہ سمجھ کر اسی صحابی نے ایک خاتون پر لعنت ملامت کی تو اس عورت نے قرآن کا حوالہ دیا اور وہ کہنے لگا: حتی کہ عورتیں بھی قرآن کو مجھ سے بہتر سمجھتی ہیں! اور جب بھی قرآن کی تفسیر میں الجھ جاتے تھے امیرالمؤمنین کا سہارا لیا جاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. مستدرک الحاکم، ج ۳، ص ۱۲۴۔ صواعق المحرقه، ابن حجر هيثمي، فصل ۹، بخش ۲، ص ۱۹۱، ۱۹۴۔ تاریخ الخلفا، جلال الدین سیوطی، ص ۱۷۳۔
2۔ صحیح بخاری، باب کتابه العلم من کتاب العلم، ۱/ ۲۲ و مسند احمد حنبل، تحقیق احمد محمد شاکر، حدیث ۲۹۹۲ و طبقات ابن سعد، ۲/ ۲۴۴، چاپ بیروت.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث ثقلین کے منابع:
٭ صحیح مسلم بن حجاج ج 7 ص 122
٭ ابو داؤد مسند میں
٭ ترمذی جزء دوم ص 307 سنن، میں
٭ نسائی در ص 30 خصائص میں
٭ احمد بن حنبل جلد سوئم صص 14 و 17، جلد صص 26 و 59 جلد چہارم و صص 182 و 189 جلد پنجم مسند، میں
٭ حاکم جلد سوئم صص 109 و 148 مستدرک میں
٭ حافظ ابو نعیم اصفهانی ص 355 جلد اول حلیة الاولیاء میں
٭ سبط ابن جوزی صفحه 182 تذکره الاولیاء میں
٭ ابن اثیر الجزری جلد 2 ص 12 و ص 147 ج 3 اسدالغابه میں
٭ حمیدی جمع بین الصحیحین میں
٭ رزین جمع بین الصحاح السته میں
٭ طبرانی معجم الکبیر میں
٭ ذهبی تلخیص مستدرک میں
٭ ابن عبد ربه عقد الفرید میں
٭ محمد بن طلحه شافعی مطالب السؤل میں
٭ خطیب خوارزمی مناقب میں
٭ سلیمان بلخی حنفی باب 4 ینابیع الموده میں
٭ میر سید علی همدانی مودة دوئم از مودة القربی میں
٭ ابن ابی الحدید شرح نهج البلاغه میں
٭ شبلنجی ص 99 نور الابصار میں
٭ نورالدین ابن صباغ مالکی ص 25 فصول المهمة میں
٭ حموینی فرائد السمطین میں
٭ امام ثعلبی تفسیر البیان میں
٭ سمعانی و ابن مغازلی شافعی مناقب میں
٭ محمد بن یوسف گنجی شافعی باب اول صحت خطبه غدیر خم کے ضمن میں اور ص 130 کفایة الطالب باب 62 میں
٭ محمد بن سعد کاتب ص 8 جلد 4 طبقات میں
٭ فخر رازی در ص 113 ج 4 تفسیر آیت اعتصام کی تفسیر میں
٭ ابن کثیر دمشقی ص 113 جلد چہارم تفسیر میں آیت مودت کی تفسیر میں
٭ ابن عبد ربه ص 158 اور 346 جلد 2 عقد الفرید میں
٭ ابن ابی الحدید ص 130 جزء ششم شرح نهج البلاغه میں
٭ سلیمان حنفی قندوزی صص 18، 25، 29، 30، 31، 32، 34، 95، 115، 126، 199 و 230 ینابیع المودة میں مختلف عبارات کے ساتھ
٭ ابن حجر مکی صص 75، 78، 90، 99 و 136 صواعق المحرقة میں،
اور دیگر اکابر علمائے اہل سنت نے مختصر سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس حدیث شریفہ کو شیعہ اور سنی منابع کے حوالے سے تواتر کے ساتھ رسول اکرم صلی الله علیه و آله و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
"انی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بیتی لن یفترقا حتی یردا علی الحوض من توسل (تمسک) بهما فقد نجی و من تخلف عنها فقد هلک - ما ان تمسکتم بهما لن تضلوا بعدی ابدا۔
میں تمہارے درمیان دو بھاری امانتیں چھوڑے جارہا ہوں جو کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتیں حتی کہ حوض کے کنارے مجھ پر وارد ہوجائیں پس جس نے ان دو کا دامن تھاما اس نے نجات پائی اور جس نے ان کی مخالفت کی وہ نابود ہوگیا ۔۔۔ جب تک تم ان دو کا دامن تھامے رہوگے میرے بعد کبھی بھی ضلالت و گمراہی کا شکار نہ ہونگے۔
علامه فاضل العجیلی نے ذخیرة المآل میں اس سلسلے میں امام محمد ابن ادریس شافعی کے بعض اشعار نقل کئے ہیں جو اس حدیث کی تصدیق و تائید کرتے ہیں:
اہل سنت کے شافعی فرقے کے امام محمد بن ادریس شافعی اہل بیت علیہم السلام کی شان میں کہتے ہیں:
ولما رایت الناس قد ذهبت بهم
مذاهبهم فی ابحر الغی والجهل
جب میں نے دیکھا لوگوں کو کہ ان کے مذاہب انہيں جہل و گمراہی کے بحر ظلمات میں ڈبوئے ہوئے ہیں
ركبتُ على اسم الله في سفن النَّجا
وهم آلُ بيت المصطفى خاتمِ الرُّسْلِ
میں اللہ کا نام لے کر نجات کی کشتیوں میں سوار ہوا
اور وہ حضرت مصطفی کے اہل بیت ہیں، جو خاتم الرسل ہیں
وأمسكتُ حبلَ الله وهو ولاؤهم
كما قد أُمِرنا بالتمسكِ بالحبلِ
اور میں نے اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑ لی جو اہل بیت رسول کی ولایت ومودت ہے
جس طرح کہ ہمیں خدا کی طرف سے حبل اللہ پکڑنے کا حکم ہوا ہے۔
إذا افترقَت في الدين سبعونَ فِرقةً
ونَيفاً، كما قد صَحَّ في مُحكم النقلِ
جب اسلام کی امت واحدہ ستر سے زائد فرقوں میں بٹ گئی، جس طرح کہ ایک صحیح حدیث میں منقول ہے۔
ولم يكُ ناجٍ منهمُ غير فرقةٍ
فقُل لي بها يا ذا الرجاحةِ والعقلِ
اور نہیں ہے نجات یافتہ ان میں سے سوائے ایک فرقے کے، اے کمال عقل بردباری کے مالک کہہ دو مجھے۔
أفي فرَق الهُلاّكِ آلُ محمدٍ
أم الفرقة اللاتي نجت منهمُ ؟! قُل لي
کیا خاندان محمد(ص) ہلاک اور نابود ہونے والے فرقوں میں شمار ہوتا ہے؟ یہ وہی ہیں جو فرقہ ناجیہ اور فلاح یافتہ ہیں، دے دو میرا جواب۔
فإن قلتَ: في الناجين، فالقولُ واحدٌ
وإن قلتَ: في الهُلاّك، حِفتَ عن العدلِ
پس اگر تم کہہ دو کہ آل محمد نجات یافتگان میں شمار ہوتے ہیں تو میرا اور تمہارا عقیدہ ایک ہی ہے [اور میرا مدعا درست ہے] اور اگر کہہ دو کہ [معاذاللہ) وہ نابود ہونے والوں میں سے ہیں تو بےانصافی کے مرتکب ہوئے اور حق و عدل سے منحرف ہوچکے ہو۔
إذا كان مولى القوم منهم.. فإنني
رَضِيتُ بهم ما زالَ في ظلّهم ظلّي
جب مسلمانوں کا امام اور مولا اہل بیت میں سے ہو ـ جبکہ ایسا ہی ہے ـ پس میں فیصلہ کن انداز سے کہتا ہوں کہ میں نے ہی کے مکتب کو اختیار کرچکا ہوں اور ان کی معیت پر راضی و خوشنود ہوں جب تک کہ میری بوندیں ان کی بارش میں شامل ہیں [اور میں ان کے اصحاب و انصار میں شمار ہوتا رہوں گا]۔
فخَلِّ عليّاً لي إماماً ونسلهُ
وأنت من الباقين في سائرِ الحِلِّ
پس چھوڑ دو کہ علی اور ان کی نسل میرے امام و راہبر ہوں اور تم دوسروں کے سلسلے میں آزاد ہو۔
یا امام شافعی ہی کہتے ہیں:
یا آل بیت رسول الله حبكم
فرض من الله فی القرآن انزله
یكفیكم من عظیم الفخر انكم
من لم یصل علیكم لا صلاة له
اے رسول اللہ(ص) کے خاندان، آپ کی محبت، اللہ کی طرف سے فرض ہے اور خدا نے اس کا حکم قرآن میں نازل فرمایا ہے۔
آپ کے فخر کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو نماز میں آپ پر دورد و صلوات نہ بھیجے اس کی نماز ہی باطل ہے۔
آل النبی ذریعتی
وهمو الیه وسیلتی
ارجوا بهم اعطی غدا
بیدی الیمین صحیفتی
آل النبی میرا ذریعہ ہیں، وہ خدا کی طرف میرا وسیلہ ہیں، میں ان کی برکت سے امید رکھتا ہوں کہ کل روز قیامت، میرا صحیفہ میرے داہنے ہاتھ میں دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسناد دوسرے انداز سے
1. مصابیح السنة، البغویالشافعی، ج2، ص205 (چاپ مصر)؛
2. نظم درر السمطین، الزرندیالحنفی، ص231؛
3. تفسیر الخازن، ج1، ص4؛
4. مشکاة المصابیح، العمری، ج2، ص255 (چاپ دمشق)؛
5. السیرة النبویة، احمدزیندحلان الشافعی (مفتی مکه) در حاشیه السیرة الحلبیة، ج3، ص330؛
6. الفتح الکبیر، النبهانی، ج1، ص352؛
7. مناقب علیبنابیطالب(علیهالسلام)، ابنالمغازلی الشافعی، ص236، ح214؛
8. ذخائر العقبی، الطبریالشافعی، ص16؛
9. کفایة الطالب، الگنجیالشافعی، ص53؛
10. فرائد السمطین، الجوینیالخراسانی، ج2، ص268، ح535؛
11. المسند، احمدبنحنبل، ج5، ص181 (چاپ المیمنة، مصر)؛
12. مجمع الزوائد، ج5، ص195 و ج9، ص162و164؛
13. شرح نهجالبلاغه، ابنابیالحدید، ج6، ص375 (چاپ مصر)؛
14. تاریخ دمشق، ابنعساکر الشافعی، ج2، ص36، ح534و545 (چاپ بیروت)؛
15. انساب الاشراف، البلاذری، ج2، ص110، ح48؛
16. النهایة، ابنالاثیر، ج1، ص155 (چاپ مصر)؛
17. نهایة الارب، النویری، ج18، ص377 (چاپ مصر)؛
18. حلیة الاولیاء، ابونعیم، ج1، ص355؛
19. الاتحاف بحب الاشراف، الشبراویالشافعی، ص6؛
20. الدر المنثور فی تفسیر المأثور، جلالالدین السیوطی، ج2، ص60.
source : www.aban.ir