حضرت (ع) نے فرمایا:
بین عوامنا و علمائنا وبین عوام الیہود و علمائھم فرق من جھة وتسویة من جھة: اما من حیث استووا فان اللہ قد ذم عوامنا بتقلیدھم علمائھم کما قد دم عوامھم و امامن حیث افترقوا فلا
"ہمارے عوام و علماء اور یہودی عوام و علماء میں ایک جہت سے فرق ہے اور ایک جہت سے ایک جیسے ہیں‘ ان کے ایک جیسے ہونے کی جہت میں خداوند عالم نے ہمارے عوام کو بھی اپنے علماء کی ویسی تقلید کرنے کے باعث مذمت کی ہے اور فرق ہونے کی جہت میں مذمت نہیں کی ہے۔"
اس شخص نے عرض کیا:
"فرزند رسول توضیح دیجئے۔"
حضرت (ع) نے فرمایا:
"یہودی عوام نے اپنے علماء کی عملی زندگی دیکھی تھی کہ وہ کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں‘ رشوت لینے سے نہیں چوکتے‘ رشوت اور ذاتی تعلقات کے باعث الٰہی احکام اور فیصلوں میں الٹ پھیر کرتے ہیں‘ افراد و اشخاص سے تعصب کی بنیاد پر برتاؤ کرتے ہیں‘ ذاتی حب و بغض کو الٰہی احکام میں شامل کرتے ہیں۔"
اس کے بعد حضرت۱نے فرمایا:
و اضطروا بمعارف قلوبھم الی ان من یفعل ما یفعلونہ فھو فاسق لا یجوز ان یصدق علی اللہ ولا علی الوسائط بین الخلق وبین اللہ۔
"وہ اس فطری الہام کی روشنی میں جو خداوند عالم نے تکوینی طور پر ہر شخص کو عطا کیا ہے جانتے تھے کہ ایسے اعمال کا ارتکاب کرنے والے شخص کی پیروی نہیں کرنی چاہئے‘ اس کی زبان سے بیان ہونے والا خدا اور رسول۱کا قول نہیں ماننا چاہئے۔"
یہاں امام۱یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ یہودی عوام اس مسئلہ سے واقف نہیں تھے کہ ان علماء کی بات ماننا جائز نہیں ہے جو دینی احکام کے خلاف عمل کرتے ہیں‘ کیونکہ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص واقف نہ ہو اس مسئلہ کی معرفت خداوند عالم نے ہر شخص کی فطرت میں ودیعت کی ہے اور ہر شخص کی عقل اسے جانتی ہے۔
منطقیوں کے بقول یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کی دلیل خود اس کے ساتھ ہے:
قضایا قیاسھا معھا
جس شخص کا فلسفہ وجود‘ پاکی و طہارت اور ہویٰ و ہوس سے اجتناب ہے اگر وہ ہوا و ہوس اور دنیا پرستی کا دلدادہ ہو جائے تو ہر عقل یہی حکم کرتی ہے کہ اس کی باتوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے۔ اس کے بعد حضرت۱فرماتے ہیں:
و کذلک عوام امتنا اذا عرفوا من فقہائھم الفسق الظاہر‘ والعصبیة الشدیدة‘ والتکالب علی حطام الدنیا و حرامھا‘ و اھلاک من یتعصبون علنہ و ان کان لاصلاح امرہ مستحقا‘ وبالترفق بالبر و الاحسان علی من تعصبوا لہ وان کان للاذلال و الا ھانة مستحقا فمن قلک من عوامنا مثل ھولا فھم(احتجاجی طبرسی‘ جلد ۲‘ ص ۲۶۳‘ ماخوذ از تفسیر منسوب بہ امام حسن عسکری وہاں "بالترفق" کے بجائے "بالترفرف" آیا ہے)
"ہمارے عوام کا بھی یہی حال ہے‘ یہ لوگ بھی اگر اپنے فقہاء میں بدکاری‘ شدید تعصب‘ مال و دنیا کی ہوس‘ اپنے دوستوں اور حامیوں کی جانبداری... چاہے وہ ناصالح ہی کیوں نہ ہوں... اپنے مخالفوں کی سرکوبی... چاہے وہ احسان و نیکی کے مستحق ہی کیوں نہ ہوں... اور اسی طرح کے دوسرے اوصاف مشاہدہ کرنے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے رہیں تو وہ لوگ بھی یہودی عوام کی طرح مذمت و ملامت کے مستحق ہیں۔"
پس معلوم ہوا کہ جائز و ممدوح تقلید‘ خود سپردگی‘ آنکھیں بند کر لینا اور خود کو کسی کے حوالے کر دینا نہیں ہے بلکہ آنکھ کھولے رہنا اور ہوشیار رہنا ہے ورنہ وہ جرم میں شریک مانیں جائیں گے۔
اجتھاد اور تقلید
علماء کی کریت اور عصمت کا جاہلانہ نظریہ
بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ گناہ کی تاثیر ہر شخص میں یکساں نہیں ہے‘ عام لوگوں پر گناہ اثرانداز ہوتا ہے اور ان کی عدالت و تقویٰ زائل کر دیتا ہے‘ لیکن علماء پر وہ کارگر ثابت نہیں ہوتا وہ ایک قسم کی "کُریت" اور ایک طرح کی عصمت کے مالک ہیں جو فرق آب قلیل و آب کثیر میں ہے (وہی فرق عوام اور علماء میں ہے) کہ اگر آب کثیر ایک کُر کے برابر ہو تو وہ نجاست کے مل جانے سے نجس نہیں ہوتا‘ نجاست اس پر اثرانداز نہیں ہوتی‘ جبکہ اسلام‘ کسی کے لئے کُریت و اعتصام کا قائل نہیں ہے‘ یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی۔ قرآن مجید کیوں کہتا ہے:
قل انی اخاف ان عصیت ربی عذاب یوم عظیم
"اے پیغمبر! کہہ دو کہ اگر میں بھی گناہ کروں تو مجھے بھی یوم عظیم کا خوف ہے۔"
کیونکہ ارشاد ہوتا ہے:
لئن اشرکت لیحبطن عملک
"اگر آپ کے عمل میں شرک کا شائبہ آ جائے تو آپ کا عمل رائیگاں چلا جائے گا۔"
یہ سب ہمیں بتانے کے لئے‘ یہاں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہے کہ کسی کو کُریت و اعتصام حاصل نہیں ہے (کہ چاہے جتنا گناہ کرتے جائیں ان کی عدالت و تقویٰ پر حرف نہ آئے گا)۔
قرآن مجید میں موسیٰ۱۱و عبد صالح کی جو داستان بیان ہوئی ہے وہ بڑی عجیب داستان ہے‘ اس داستان سے ایک عظیم درس یہ ملتا ہے کہ تابع و پیرو صرف اسی وقت تک پیشوا و رہنما کی اطاعت اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کر سکتا ہے‘ جب تک پیشوا قانون کی خلاف ورزی نہ کرے‘ اصول نہ توڑے‘ برائی کی طرف مائل نہ ہو۔ اگر پیشوا اصول و قوانین کے خلاف اقدام کرے تو یہاں خاموشی ہرگز جائز نہیں ہے‘ اگرچہ اس داستان میں عبد صالح کے اقدامات... خود ان کی نظر میں‘ ایک وسیع تر افق پر نظر رکھنے اور موضوع کے باطنی پہلو کی جانب توجہ کرنے کے باعث... اصول و قوانین کے خلاف نہ تھے‘ بلکہ فریضہ و ذمہ داری کے عین مطابق تھے‘ لیکن نکتہ یہ ہے کہ موسیٰ۱۱نے صبر کیوں نہیں کیا؟ اعتراض کیوں کر بیٹھے؟ باوجودیکہ وہ وعدہ کرتے تھے اور خود کو تلقین کرتے تھے کہ اعتراض نہیں کریں گے لیکن پھر بھی اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ موسیٰ۱۱کا کمزور پہلوان کا اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ موضوع کی حقیقت اور اس کے باطن سے ناواقفیت تھی‘ اگر انہیں حقیقت کا علم ہوتا تو وہ اعتراض نہ کرتے اور وہ حقیقت کو جاننا بھی چاہ رہے تھے لیکن جب تک وہ ان اقدامات کو الٰہی اصول و قوانین کے برخلاف تصور کر رہے تھے‘ ان کا ایمان انہیں خاموش رہنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ اگر قیامت تک عبد صالح کے اقدامات جاری رہتے تو موسیٰ۱۱بھی اعتراض و تنقید سے باز نہ آتے‘ مگر یہ کہ حقیقت موضوع سے باخبر ہو جاتے۔
موسیٰ(ع) ان سے کہتے ہیں:
ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا
"کیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کی پیروی کروں تاکہ آپ مجھے تعلیم دیں۔"
عبد صالح کہتے ہیں:
لن تستطیع معی صبرا
"تم میری مصاحبت برداشت اور جو کچھ دیکھو گے اس کے متعلق خاموش نہیں رہ سکتے۔"
اس کے بعد خود ہی اس کی وجہ بتائے دیتے ہیں:
وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبرا؟
"جب تم کوئی (بظاہر) غلط کام ہوتا دیکھو گے اور اس کی حقیقت و راز سے بھی واقف نہ ہو گے تو کیسے خاموش رہ سکتے ہو؟"
موسیٰ (ع) نے کہا:
ستجد نی انشاء اللہ صابراً و لا اعصی لک امراً
"انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔"
موسیٰ۱۱نے یہ نہیں کہا کہ راز کا پتہ ہو یا نہ ہو میں صبر کروں گا‘ بلکہ صرف اتنا کہا کہ مجھے امید ہے کہ یہ صبر و تحمل مجھ میں پیدا ہو جائے‘ البتہ موسیٰ۱۱میں یہ تحمل اس وقت پیدا ہو گا جب وہ ان اقدامات کے راز سے واقف ہو جائیں گے۔
اس کے بعد عبد صالح نے موسیٰ۱۱سے مزید واضح اور پکا وعدہ لینا چاہا کہ راز معلوم ہو یا نہ ہو وہ اعتراض نہ کریں‘ یہاں تک کہ وقت آنے پر میں خود اس کی وضاحت کروں:
قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شئی حتی احدث لک منہ ذکراً
"اگر میرے ساتھ آنا چاہتے ہو تو سب کچھ دیکھ بھی چپ رہنا ہو گا‘ بعد میں خود توضیح دوں گا۔"
یہاں اب اس کے بعد آیت میں یہ نہیں ہے کہ موسیٰ۱۱نے یہ شرط مان لی‘ آیت میں بس اتنا ہی ہے کہ اس کے بعد وہ لوگ چل پڑے اور ان کو سارے واقعات پیش آئے جنہیں آپ بارہا سن چکے ہیں۔
بہرحال میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ جاہل کا عالم کی تقلید کرنا سرسپردگی نہیں ہے‘ ناجائز تقلید وہی ہے جو سرسپردگی کی شکل میں ہو اور یہ صورت اختیار کر لے کہ
"جاہل کو عالم سے بحث کرنے کا حق نہیں‘ یہ باتیں ہماری سمجھ سے مافوق ہیں‘ شاید یہ سب کچھ شرعی ذمہ داریوں کا تقاضا ہو۔"
میں نے یہ داستان امام جعفر صادق علیہ السلام کی تائید و شاہد کے طور پر پیش کی ہے۔
جائز تقلید
امام جعفر صادق علیہ السلام ناجائز و مذموم تقلید کے متعلق وہ جملے (جنہیں میں نقل کر چکا ہوں) بیان کرنے کے بعد جائز و ممدوح تقلید‘ ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں:
فاما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظاً لدینہ مخالفاً علیٰ ھواہ مطیعاً لامر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ
"اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو‘ شیطان کی دعوتیں اور آوازیں اس کے قدم ڈگمگا نہ سکتی ہوں‘ اپنے دین کی حفاظت کرتا ہو‘ دین کا سودا نہ کرتا ہو (شاید مراد یہ ہو کہ عوام اور معاشرہ میں دین کی حفاظت و بقاء کا انتقام کرتا ہو) نفسانی خواہشات کا مخالف اور الٰہی احکام کا مطیع و فرمانبردار ہو تو عوام ایسے شخص کی تقلید کر سکتے ہیں۔"
البتہ یہ نکتہ واضح ہے کہ نفسانی خواہشات کی مخالفت میں ایک عالم اور عام شخص کے درمیان فرق ہے‘ کیونکہ ہر شخص کی خواہش نفس‘ کچھ معین امور میں ہوتی ہے جوان کی خواہش نفس الگ ہے اور بوڑھے کی خواہش نفس الگ‘ ہر شخص جس منصب‘ جس طبقہ‘ جس سن میں ہو اسی کے مطابق خواہش نفس رکھتا ہے۔ ایک عالم دین کی نفس پرستی کا معیار یہ نہیں ہے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں؟ جوا کھیلتا ہے یا نہیں؟ نماز و روزہ ترک کرتا ہے یا نہیں؟ اس کی ہوا پرستی کا معیار‘ عہدہ و منصب کی خواہش‘ شہرت و محبوبیت سے لگاؤ‘ ہاتھ چموانے کی آرزو‘ اپنے آگے پیچھے لوگوں کے چلنے کی تمنا‘ اپنا اقتدار مضبوط بنانے کے لئے بیت المال کا استعمال‘ اپنے ساتھیوں‘ عزیز و اقرباء‘ خاص طور سے اپنے صاحبزادوں کو بیت المال وغیرہ میں خرد برد کی کھلی چھوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں۔
امام (ع) اس کے بعد فرماتے ہیں:
وھم بعض فقہاء الشیعة لاجمیعھم
"یہ اعلیٰ و ارفع اوصاف و فضائل صرف بعض شیعہ فقہاء میں پائے جا سکتے ہیں‘ تمام شیعہ فقہاء میں نہیں۔"
یہ حدیث اپنے آخری جملوں کے لحاظ سے مسئلہ اجتہاد و تقلید کی ایک دلیل ہے۔
پس معلوم ہوا کہ اجتہاد و تقلید کی دو دو قسمیں ہیں‘ جائز و ناجائز۔
میت کی تقلید کیوں جائز نہیں؟
ہماری فقہ کا ایک مسلم الثبوت مسئلہ یہ ہے کہ میت کی تقلید ابتداً جائز نہیں ہے‘ میت کی تقلید اگر جائز ہے تو صرف اس حد تک کہ جو شخص کسی مجتہد کی اس کی زندگی میں تقلید کر رہا تھا اس کی موت کے بعد اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے‘ مردہ مجتہد کی تقلید پر باقی رہنے کے لئے بھی زندہ مجتہد کی اجازت ضروری ہے‘ مجھے اس مسئلے کی فقہی دلیلوں سے مطلب نہیں ہے‘ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بڑا ہی بنیادی نظریہ ہے‘ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مقصد واضح ہو جائے۔
اس نظریہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ یہ دینی مدارس کی بقا اور اسلامی علوم کی حفاظت کا ذریعہ ہے‘ نہ صرف یہ کہ اس طرح اسلامی علوم محفوظ رہیں‘ بلکہ روز بروز اس میں اضافہ و ترقی آتی جائے گی اور لاینحل مشکلیں حل ہوں گی۔
ایسا نہیں ہے کہ قدیم زمانہ میں ہماری تمام مشکلیں علماء کے ذریعے حل ہو چکی ہوں اور اب کوئی مشکل باقی نہ رہ گئی ہو‘ کلام تفسیر‘ فقہ اور دوسرے اسلامی علوم میں ہزاروں معمے اور مشکلیں ہیں‘ بہت سی مشکلیں ماضی میں عظیم علماء حل کر چکے ہیں اور بہت سی مشکلیں باقی ہیں اور یہ مستقبل کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں حل کریں اور تدریجی طور پر ہر موضوع میں مزید جامع اور بہتر کتابیں تحریر کریں اور اس سلسلے کو آگے بڑھائیں‘ جس طرح ماضی میں علماء نے تدریجی طور پر تفسیر کو آگے بڑھایا‘ فقہ کو آگے بڑھایا‘ کلام کو آگے بڑھایا‘ یہ قافلہ رکنا نہیں چاہئے‘ پس زندہ مجتہدوں کی تقلید اور ان کی طرف عوام کی توجہ‘ اسلامی علوم کی بقاء و ارتقاء کا ایک ذریعہ ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ مسلمان ہر روز اپنی زندگی میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور انہیں ان مسائل میں اپنی ذمہ داری کا علم نہیں ہے‘ لہٰذا ایسے زندہ فقیہوں اور زندہ افکار کی ضرورت ہے جو یہ عظیم احتیاج برطرف کر سکیں۔ اجتہاد و تقلید سے متعلق ایک حدیث میں ہے:
و اما الحوادث الواقعة فا رجعوا فیھا الیٰ رواة احادیثنا(احتجاج طبرسی‘ ج ۲۸۳ (نئے واقعات میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرو) "احادیثنا" کے بجائے "حدیثنا" ہے)
"حوادث واقعہ" یہی نئے مسائل ہیں جو ہر صدی میں‘ ہر دور میں اور ہر سال پیش آتے رہتے ہیں۔ مختلف زمانوں‘ مختلف صدیوں کی فقہی کتابوں کی چھان بین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق تدریجی طور پر فقہ میں نئے مسائل داخل ہوئے ہیں اور فقہاء نے ان کا جواب دینے کی کوشش فرمائی ہے‘ اسی لئے رفتہ رفتہ فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص تحقیقی نقطہ نظر سے حساب لگائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ فلاں اور فلاں مسئلہ‘ کس صدی میں‘ کسی علافہ میں اور کس ضرورت کے تحت فقہ میں شامل ہوا ہے۔ اگر زندہ مجتہد ان نئے مسائل کا جواب نہ دے تو پھر زندہ و مردہ مجتہد کی تقلید میں کیا فرق ہے؟ بہتر ہے کہ ہم بعض مردہ مجتہدوں مثلاً شیخ انصاری کی... جو خود زندہ مجتہدوں کے اعتراف کے مطابق سب سے زیادہ عالم و محقق تھے... تقلید کریں۔
بنیادی طور پر اجتہاد کا فلسفہ‘ کلی احکام کو جدید مسائل اور بدلتے ہوئے حادثات پر منطبق کرنے میں نہاں ہے۔ واقعی مجتہد وہی ہے جو یہ فلسفہ حاصل کر سکے‘ اسے معلوم ہو کہ موضوعات کس طرح بدلتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے احکام بھی بدل جاتے ہیں‘ ورنہ پرانے اور تحقیق شدہ مسائل میں تحقیق کرنا اور کسی "علی الاقویٰ" کو "علی الاحوط" سے بدل دینا یا "علی الاحوط" کو "علی الاقوی" میں تبدیل کر دینا تو کوئی ہنر نہیں ہے‘ اس کے لئے اتنے ہنگامے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ اجتہاد کے لئے بہت سی شرائط و مقدمات کی ضرورت ہے۔ مجتہد کو مختلف علوم کا ماہر ہونا چاہئے‘ عربی ادب‘ منطق‘ اصول فقہ‘ حتیٰ تاریخ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ کا علم ہونا چاہئے اور پھر مدتوں مشق و تمرین کی ضرورت ہے‘ تب کہیں ایک واقعی و جید فقیہ وجود میں آتا ہے۔ فقط نحو‘ صرف‘ معانی‘ بیان اور منطق کی چند کتابیں اور پھر فرائد‘ مکاسب اور کفایة جیسی سطح کی تین چار کتابیں پڑھ کر اور چند برتمک درس خاہر میں شرکت کر کے کوئی اجتہاد کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور "وسائل" و "جواہر" سامنے رکھ کر فتوے صادر نہیں کر سکتا‘ اسے تفسیر و حدیث یعنی حضرت رسول خدا سے امام حسن عسکری۱تک کے ۲۵۰ سال پر محیط ادوار میں بیان ہونے والی ہزاروں حدیثو ں‘ نیز ان حدیثوں پر صادر ہونے والے ماحول یعنی ھھھ اسلام اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ‘ نیز رجال اور راویوں کے طبقوں کا مکمل علم ہونا چاہئے۔
آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ واقعاً فقیہ تھے‘ مجھے کسی کا نام لینے کی عادت نہیں ہے۔ وہ بھی جب تک زندہ تھے میں نے اپنی تقریروں میں ان کا نام نہیں لیا ہے‘ لیکن اب جبکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کسی لالچ کا شائبہ نہیں رہ گیا ہے‘ یہ عرض کر رہا ہوں کہ آپ واقعاً ایک ممتاز و زبردست فقیہ تھے۔ تفسیر‘ حدیث‘ رجال درایت اور تمام اسلامی فرقوں کی فقہ پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔
فتوؤں میں فقیہ کے تصورات کی جھلک
فقیہ اور مجتہد کا کام شرعی احکام کا استنباط و استخراج ہے‘ لیکن موضوعات کے بارے میں اس کی معلومات اور کائنات کے متعلق اس کے تصورات کو اس کے فتوؤں میں بڑا دخل ہوتا ہے‘ جن موضوعات کے متعلق فتویٰ صادر کر رہا ہے‘ ضروری ہے کہ ان کے متعلق بھرپور معلومات رکھتا ہو مگر کسی ایسے فقیہ کو تصور کریں جو گھر یا مدرسہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کا موازنہ ایک ایسے فقیہ سے کریں جو زندگی کے مسائل میں دخیل ہے۔ یہ دونوں فقیہ شرعی دلیلوں کی طرف رجوع کرتے ہیں‘ لیکن دونوں کا استنباط اور فتویٰ الگ ہو گا۔
ایک مثال عرض کرتا ہوں‘ فرض کیجئے جس شخص نے تہران میں زندگی گزاری ہو یا تہران ہی جیسے کسی شہر میں زندگی بسر کی ہو‘ جہاں آب کُر اور آب جاری کی فراوانی ہو‘ نہریں اور کنویں موجود ہوں۔ یہ شخص فقیہ ہے اور طہارت و نجاست کے متعلق فتویٰ دینا چاہے تو وہ اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کے پیش نظر جب طہارت و نجاست کی روایتوں کا مطالعہ کرے گا تو اس کا استنباط و احتیاط اور بہت سی چیزوں سے اجتناب کے ہمراہ ہو گا‘ لیکن جب یہی شخص بیت اللہ الحرام کی زیارت کی غرض سے سفر کرے گا اور وہاں پر طہارت و نجاست کی صورت حال‘ نیز پانی کی قلت سے دوچار ہو گا تو طہارت و نجاست کے سلسلے میں اس کا نظریہ بدل جائے گا‘ یعنی اس سفر کے بعد جب وہ طہارت و نجاست سے متعلق روایتوں کا جائزہ لے گا تو ان حدیثوں کا کچھ اور ہی مطلب اس کی سمجھ میں آئے گا۔
اگر کوئی شخص فقہاء کے فتوؤں کا آپس میں موزانہ کرے اور پھر ان کے حالات زندگی‘ نیز زندگی کے مسائل میں ان کے طرز فکر کا جائزہ لے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ ایک فقیہ کے ذہنی تصورات اور دنیا کے بارے میں اس کی معلومات کس قدر اس کے فتوؤں پر اثرانداز ہوئے ہیں‘ یہاں تک کہ عرب فقیہ کے فتوؤں سے عربیت کی بو آتی ہے اور عجمی فقیہ کے فتوؤں سے عجمیت کی بو آتی ہے‘ دیہاتی فقیہ کے فتوؤں میں دیہات کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور شہری فقیہ کے فتوؤں میں شہری جلوے نظر آتے ہیں۔
یہ دین‘ دین خاتم ہے‘ کسی خاص علاقہ یا زمانہ سے مخصوص نہیں ہے وہ ہر علاقہ اور ہر زمانہ کے لئے ہ‘ یہ وہ دین ہے جو زندگی کو منظم بنانے اور انسانی زندگی کو ارتقاء دینے آیا ہے‘ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی فقیہ فطری نظاموں اور طبیعی حالات سے بے خبر اور زندگی کے رشد و ارتقاء کا منکر ہونے کے باوجود اس دین حنیف کے اعلیٰ و مترقی احکام کا صحیح طریقے سے استنباط کر سکے جو انہی نظاموں کے لئے آیا ہے اور ان ہی تغیرات و تبدلات‘ نیز رشد و ارتقاء کی ہدایت و رہنمائی اور انہیں صحیح سمت پر لے جانے کا ضامن ہے؟!
ضرورتوں کا ادراک
آج بھی ہماری فقہ میں ایسے موارد موجود ہیں جہاں فقہاء نے صرف کسی موضوع کی ضرورت و اہمیت کے ادراک کے پیش نظر پورے جزم و یقین کے ساتھ اس کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا ہے یعنی باوجودیکہ اس موضوع کے متعلق کوئی صریح و واضح حدیث و آیت ہے نہ معتبر اجماع‘ لیکن فقہاء نے استنباط کے چوتھے رکن یعنی عقل دلیل سے استفادہ کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے‘ فقہاء ایسے مقامات پر موضوع کی اہمیت اور روح سے واقفیت کے پیش نظر کہ اسلام‘ اہم موضوعات کے احکام بیان کئے بغیر انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیتا‘ یقین کرتے ہیں کہ اس مقام پر الٰہی حکم ایسا ہونا چاہئے۔ حاکم کی ولایت اور اس کے فروعات سے متعلق فقہاء کے فتوؤں کی اساس یہی ہے‘ اگر انہیں موضوع کی اہمیت کا حساس نہ ہوا ہوتا تو یہ فتوے وجود میں نہ آتے جس حد تک انہیں موضوع کی اہمیت کا حساس ہوا‘ انہوں نے فتوے صادر کئے۔ ایسی ہی دوسری نظیریں بھی دریافت کی جا سکتی ہیں جہاں فتویٰ نہ دینے کی وجہ‘ موضوع کی اہمیت و ضرورت سے بے خبر و لاعلمی رہی ہے۔
ایک اہم تجویز
یہاں میں ایک تجویز پیش کر رہا ہوں جو ہماری فقہ کے ارتقاء کے لئے بے حد مفید ہے‘ یہ تجویز اس سے پہلے آیة اللہ حاجی شیخ عبدالکریم یزدی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ (حوزئہ علمیہ قم کے بانی) پیش کر چکے ہیں‘ میں ان ہی کی تجویز دہرا رہا ہوں۔
جناب موصوف نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ضروری ہے کہ عوام تمام مسائل میں ایک ہی شخص کی تقلید کریں‘ بہتر یہ ہے کہ فقہ کے الگ الگ شعبے قائم کر دیئے جائیں‘ یعنی ہر گروہ‘ فقہ کا ایک عمومی کورس پورا کرنے کے بعد کسی معین شعبہ میں مہارت حاصل کرے اور لوگ اس کی اسی شعبے میں تقلید کریں جس میں اس نے مہارت حاصل کی ہے‘ مثلاً بعض لوگ عبادات کو اپنی مہارت کے شعبہ کے طور پر اختیار کریں تو کچھ لوگ معاملات میں‘ کچھ افراد سیاسیات میں اور کچھ اشخاص احکام میں (احکام‘ فقہی اصطلاح میں) اجتہاد کریں‘ جس طرح علم طب میں شعبے تقسیم کر دیئے گئے ہیں ہر ڈاکٹر طب کے ایک مخصوص شعبہ میں مہارت حاصل کرتا ہے‘ کوئی دل کا ماہر ہے تو کوئی آنکھ کا‘ کوئی کان کا ماہر ہے تو کوئی ناک کا... اگر ایسا ہو جائے تو ہر شخص اپنے شعبے میں زیادہ بہتر طریقے سے تحقیق کر سکتا ہے۔ میرے خیال میں جناب سید احمد زنجانی کی کتاب "الکلام یجرالکلام" میں یہ بات آیة اللہ حائری یزدی سے نقل ہوئی ہے۔
یہ تجویز بہت اچھی تجویز ہے اور میں اس میں اتنا اور اضافہ کرتا ہوں کہف قہ میں کام کی تقسیم اور فقاہت میں تخصصی شعبوں کی ایجاد‘ تقریباً سو سال سے ایک ضرورت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور موجودہ حالات اس دور کے فقہاء یا فقہ کے تکامل و ارتقاء کو روک دیں‘ اسے موقوف کر دیں اور یا یہ تجویز مان لیں۔
علوم میں شعبوں کی تقسیم
کیونکہ علوم میں کام کی تقسیم‘ علوم کی ترقی کا نتیجہ بھی ہے اور علت بھی‘ یعنی علوم تدریجی طور پر ترقی کرتے ہیں اور پھر اس منزل پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے تمام مسائل میں تحقیق ایک شخص کے بس کی بات نہیں رہ جاتی‘ لہٰذا اس کی تقسیم اور مختلف شعبے ایجاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے‘ پس کام کی تقسیم اور ایک علم تخصصی شعبوں کی ایجاد اس علم کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف سے جب کام تقسیم ہو جاتا ہے اور تخصصی شعبے قائم ہو جاتے ہیں اور ساری توجہ اپنے اپنے مخصوص شعبوں پر متمرکز ہو جاتی ہے تو علم کو مزید ترقی ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام علوم... طب‘ ریاضیات‘ قانون‘ ادبیات اور فلسفہ... میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں‘ اسی لئے ان علوم نے خوب ترقی بھی کی ہے۔
فقہ کا ایک ہزار سالہ ارتقاء
ایک زمانہ تھا جب فقہ بہت محدود تھی‘ شیخ طوسی سے پہلے کی فقہی کتابوں کا جب جائزہ لیتے ہیں تو وہ بہت ہی چھوٹی اور محدود نظر آتی ہیں۔ شیخ طوسی نے "مبسوط" نامی کتاب لکھ کر فقہ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کیا اور اسے وسعت دی۔ اسی طرح ہر دور کے علماء و فقہاء کی کوششوں اور نئے نئے مسائل شامل ہونے‘ نیز جدید تحقیقات کے نتیجے میں فقہ کی ضخامت بڑھتی گئی‘ یہاں تک کہ سو سال قبل‘ صاحب جواہر بڑی مشکلوں سے فقہ کا ایک مکمل دورہ لکھنے میں کامیاب ہو سکے۔ کہتے ہیں موصوف نے بیس سال کی عمر سے اس مہم کا آغاز کیا تھا اور اپنی غیر معمولی صلاحیت‘ پیہم کوشش اور طویل عمر کے نتیجے میں زندگی کے آخری لمحات میں فقہ کا دورہ مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے‘ جواہر کا مکمل دورہ چھ بڑی اور بہت ہی ضخیم جلدوں میں چھپا ہے۔(اب یہ کتاب ۴۴ جلدوں میں "عام سائز سائز" میں چھپی ہے) شیخ طوسی کی "مبسوط" جو اپنے زمانہ میں مشروح و مفصل فقہ کا نمونہ مانی جاتی تھی‘ جواہر کی ایک جلد کے نصف کے برابر بھی نہیں ہے۔ صاحب جواہر کے بعد شیخ مرتضیٰ انصاری اعلیٰ اللہ مقامہ‘ نے فقہ کی نئی بنیادیں قائم کیں جس کا نمونہ آپ کی کتاب مکاسب اور کتاب طہارت ہے‘ آپ کے بعد کسی کے ذہن میں اتنی تفصیل و تحقیق کے ساتھ فقہ کا مکمل دورہ پڑھانے یا لکھنے کا تصور بھی نہیں آتا۔
اس موجودہ دور میں اور دنیا کے تمام علوم کی طرح ہماری فقہ کی اس ترقی کے بعد... جو ماضی میں علماء و فقہاء کی کوششوں کا نتیجہ ہے... اس دور کے علماء و فقہاء فقہ کی ترقی کو روک دیں اس کے ارتقاء کے راستے مسدود کر دیں اور یا اس سنجیدہ مترقی تجویز کو مان کر تخصصی شعبے ایجاد کریں اور عوام بھی ایک شخص کی تقلید کرنے کی بجائے مختلف شعبوں میں الگ الگ مجتہدین کی تقلید کریں جس طرح وہ اپنی جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے الگ الگ ماہرین کے پاس جاتے ہیں
فقہی کونسل
ایک اور تجویز بیان کرنا چاہتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ یہ باتیں جتنا زیادہ بیان کی جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ تجویز یہ ہے‘ باوجودیکہ دنیا میں تمام علوم میں تخصصی شعبے قائم ہو چکے ہیں اور اس کے باعث حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے‘ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ہوا ہے جس نے اپنی جگہ پر اس ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ہر شعبہ کے صف اول کے ماہروں کی امداد باہمی‘ آپسی تعاون اور فکر و نظر کا تبادلہ ہے۔ آج کی دنیا میں ایک شخص کے فردی فکر و عمل کی کوئی قیمت نہیں‘ اکیلا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ ہر شعبہ کے ماہرین ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں‘ اپنے افکار دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ ایک براعظم کے دانشور دوسرے براعظم کے دانشوروں سے تعاون کرتے ہیں‘ چنانچہ صف اول کے ماہروں کے درمیان اس تبادلہ خیال اور باہمی تعاون کے نتیجے میں اگر کوئی صحیح و مفید نظریہ سامنے آتا ہے تو وہ دنیا میں جلد ہی پھیل جاتا ہے اور اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور اگر کوئی غلط نظریہ ہوتا ہے تو اس کا بطلان جلد از جلد واضح ہو جاتا ہے اور وہ نظریہ دم توڑ دیتا ہے‘ اس نظریہ پرداز کے شاگرد‘ برسوں غلط فہمی میں پڑے نہیں رہتے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک کام کی تقسیم ہوئی ہے نہ تخصصی شعبے قائم ہوئے ہیں اور نہ آپس میں کسی قسم کا تعاون و تبادلہ خیال ہوتا ہے‘ میں یہاں یہ بتانے کے لئے کہ خود اسلام کے اندر اس قسم کے تصورات اور مترقی احکام موجود ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت اور نہج البلاغہ کے چند جملے پیش کر رہا ہوں۔
قرآن مجید میں سورئہ شوریٰ ۳۸ میں ہے:
والذین استجابوالربھم واقاموا الصلوة و امرھم شوریٰ بینھم ومما رزقناھم ینفقون
یہ آیت مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کے اوصاف ان لفظوں میں بیان کرتی ہے:
"یہ لوگ حق کی دعوت قبول کرتے ہیں‘ نماز پڑھتے ہیں‘ اپنے کام باہمی ہم فکری اور رائے مشورے سے انجام دیتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عنایت کیا ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔"
پس اسلامی نقطہ نظر سے تبادلہ خیال اور ہم فکری مومنوں اور اسلام کے پیروؤں کی زندگی کے اصول میں شامل ہے۔
نہج البلاغہ میں ہے:
و اعلموا ان عباد اللہ المسحفطبر علمہ یصونون مصونہ و یفجرون عیونہ یتواصلون بالولایة ویتلاقون بالمحبہ‘ ویساقون بکاس رویة و یصدرون بریة
"جان لو! خدا کے جن بندوں کو الٰہی علم سپرد کیا گیا ہے وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں‘ اس کے چشموں کو جاری کرتے ہیں‘ یعنی علم کے چشموں سے لوگوں کو سیراب کرتے ہیں‘ آپس میں محبت آمیز عواطف اور دوستی کا رشتہ قائم کرتے ہیں‘ کشادہ روئی‘ محبت ار گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کو اپنی فکر و علم کے جام سے سیراب کرتے ہیں‘ اپنے نظریات سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے ہیں‘ نتیجہ میں سب کے سب سیراب ہو کر باہر آتے ہیں۔"
اگر فقاہت کی علمی کونسل قائم ہو جائے اور تبادلہ خیال کا عمل باقاعدہ طور سے انجام پائے تو فقہ میں رونما ہونے والی ترقی کے علاوہ فتوؤں کا اختلاف بھی کافی حد تک برطرف ہو جائے گا۔
اگر ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہماری فقہ بھی دنیا کے واقعی علوم کا ایک حصہ ہے‘ تو ہمیں بھی ان اسلوبوں سے استفادہ کرنا پڑے گا جس سے دوسرے علوم میں فائدہ اٹھایا جا رہا ہے‘ اگر ہم ان اسلوبوں کو کام میں نہ لائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری فقہ‘ علوم کی صف سے خارج ہے۔
کچھ اور بھی تجویزیں ہیں‘ لیکن انہیں بیان کرنے کا اب وقت نہیں رہا ہے‘ میں نے اس آیت کو سرنامہ کلام بنایا تھا:
قلولا نفرمن کل فرقة منھم طائفہ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلم یحذرون
یہ آیت واضح لفظوں میں حکم دے رہی ہے کہ کچھ مسلمانوں خو دین میں "تفقہ" کر کے دوسروں کو اپنے "تفقہ" سے بہرہ مند کرنا چاہئے۔
"تفقہ"، "فقہ" سے بنا ہے‘ فقہ کا معنی صرف سمجھنا ہی نہیں ہے‘ بلکہ گہرائی اور ایک شئے کی حقیقت کے متعلق بھرپور بصیرت کے ساتھ سمجھنے کو فقہ کہتے ہیں۔ راغب اصفہانی اپنی کتاب "مفردات" میں کہتے ہیں:
الفقہ ھوالتوصل الی علم غائب بعلم شاہد
"فقہ ظاہر و آشکار امر کے ذریعے کسی مخفی و پوشیدہ حقیقت کے انکشاف کا نام ہے۔"
تفقہ کی تعریف میں کہتے ہیں:
تفقہ اذا طلبہ فتخصص بہ
"کسی چیز کو تلاش کیا اور اس میں مہارت حاصل کر لی۔"
یہ آیت مسلمانوں سے کہتی ہے کہ دین کی معرفت سطحی نہیں ہونی چاہئے بلکہ گہرائی میں اتر کر غور و فکر کریں اور احکام کی روح و فلسفہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
یہ آیت اجتہاد و فقاہت کی دلیل ہے اور یہی آیت ہماری تجویزوں کی سند ہے‘ جس طرح اس آیت کی روشنی میں اسلام میں تفقہ و اجتہاد کی بساط بچھائی گئی‘ اسی طرح اس آیت کے فرمان کے مطابق اس کی بساط میں مزید وسعت دی جائے‘ ضرورتوں پر مزید توجہ دی جائے‘ فقہی کونسل میدان عمل قدم رکھے‘ اجتماع سے کٹ کر انفرادی اقدامات منسوخ قرار دے دیئے جائیں‘ تخصصی شعبے قائم کئے جائیں تاکہ ہماری فقہ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھ سکے۔
(یہ استاد شہید‘ جلیل القدر مفکر حضرت آیة اللہ مرتضیٰ مطہری کی تقریر تھی جو آپ نے ۱۹۶۱ء میں حضرت آیة اللہ بروجردی اعلیٰ اللہ مقامہ‘ کی وفات کے تین دن بعد کی تھی)۔
source : www.sibtayn.com