اردو
Wednesday 6th of November 2024
0
نفر 0

حضرت زینب (س)عفت و حیا کی پیکر

جی ہاں۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا خانہ وحی میں معصوم ماں باپ سے دنیا میں آئیں اورنبوت کی آغوش اور امامت و ولایت کے گہوارے میں نشو نما پائی۔ اور ایسی ماں کا دودھ پیا جو کائنات میں بے مثل و نظیر ہے۔ تو ایسی بیٹی جس نے ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی ہو جس نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہو اس کی شرافت و کرامت اور عفت و حیا کا کیا مقام ہو گا؟

بقلم: افتخار علی جعفری

حضرت زینب (س)عفت و حیا کی پیکر


ولادت با سعادت
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور سیدہ کونین فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی ہیں۔ آپ نے ۵ جمادی الاولی، ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال مدینہ منورہ میں دنیا میں قدم رکھا۔
اگر چہ پانچ سال کی عمر میں ماں کی عطوفت سے محروم ہو گئیں لیکن شرافت و طہارت کے گرانبہا گوہر اسی مختصر مدت میں آغوش مادری سے حاصل کر لیے تھے۔ آپ نے اپنی بابرکت زندگی میں بے انتہا مشکلات اور مصائب کی تحمل کیا۔ واقعہ کربلا میں آپ پر ٹوٹنے والے مصائب اور مشکلات کےطوفانوں اس بات کے واضح ثبوت ہیں۔ ان تمام سخت اور تلخ مراحل میں آپ نے تمام خواتین عالم کو صبر و بردباری کے ساتھ ساتھ حیا اور عفت کا درس دیا(۱)۔
آپ کے القاب
آپ کو ام کلثوم کبریٰ، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، عالمہ، فہیمہ کے القاب دئے گئے۔ آپ ایک عابدہ، زاہدہ، عارفہ، خطیبہ اور عفیفہ خاتون تھیں۔ نبوی نسب اور علوی و فاطمی تربیت نے آپ کی شخصیت کو کمال کی اس منزل پر پہنچا دیا کہ آپ '' عقیلہ بنی ہاشم‘‘ کے نام سے معروف ہو گئیں۔
نامگذاری کے مراسم
عام طور پر یہی مرسوم ہے کہ ماں باپ اپنی اولاد کے نام انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ولادت کے بعد آپ کے والدین نے نامگذاری کی ذمہ داری کو آپ کے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر چھوڑ دیا۔ پیغمبر اکرم(ص) ان دنوں میں سفر پر تھے۔ سفر سے لوٹنے کے بعد ولادت کی خبر سنتے ہی اپنی لخت جگر فاطمہ زہرا(س) کے گھر تشریف لائے۔ نومولود کو اپنی آغوش میں لیا بوسہ کیا کہ اتنے میں جبرئیل نازل ہو گئے اور زینب(زین+اب) نام کو اس نومولود کے لیے انتخاب کیا(۲)۔
اس عظیم خاتون نے ایک بے مثال زندگی گزارنے کے بعد ۱۵ رجب سن ۶۲ ہجری کو اس دارفانی سے دار ابدی کی طرف سفر کیا لیکن دنیا والوں کو ایسے ایسے الہی معارف سے روشناس کرا گئیں جن سے ایک معمولی خاتون پردہ نہیں اٹھا سکتی ہے۔ ہم یہاں پر صرف آپ کے عفت، پاکدامنی ، حیا اور شرافت کے صرف چند گوشوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان خواتین کے لیےتربیت کے میدان میں بے بہا گوہر ہیں جو آپ کی غلامی کا دم بھرتی ہیں اور آپ کے پیروکار ہونے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔
حیا سے متعلق گفتگو کی ضرورت
عصر حاضر میں پوری دنیا میں مخصوصا اسلامی ممالک اور خاص طور پر شیعہ سماج کے اندر عالمی ثقافتی استعمار کی ہر آن کوشش یہ ہے کہ خواتین کی عفت اور پاکدامنی کو نشانہ بنایا جائے اور سماج کو بے دینی، بے پردگی، اور بے حیائی کی طرف موڑا جائے تاکہ وہ اپنے شیطانی مقاصد کو پہنچ سکیں اس لیے کہ انہوں نے بخوبی یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر دین اور مذہب تشیع کو نابود کیا جا سکتا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیعہ سماج کے اندر حیا، عفت اورپاکدامنی جیسی قیمتی چیزوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
جب ایک سماج سے حیا، عفت اور پاکدامنی جیسے گوہر نایاب ہو جائیں گے تو دین کی بساط خود بخود الٹ جائے گی۔ اس کی جگہ شیطنت اپنا ڈیرا ڈال دے گی۔ اسی وجہ سے امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ''اَحْسَنُ مَلابِسِ الدّينِ اَلْحَياءُ ‘‘ (۳) دین کا بہترین لباس حیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ''لا ايمانَ لِمَنْ لا حَياءَ لَهُ ‘‘ (۴) جس کے پاس حیا نہیں اس کے پاس ایمان نام کی بھی کوئی چیز نہیں ہے۔ اور امام باقر علیہ السلام کا فرمان ہے:'' اَلْحَياءُ وَالايمانُ مَقْرُونانِ في قَرْنٍ فَاِذا ذَهَبَ اَحَدُهُما تَبَعهُ صاحِبُهُ‘‘ (۵) حیا اور ایمان دونوں ایک شاخ پر ساتھ ساتھ رہتے ہیں جب ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اس کے ساتھ چلا جائے گا۔ اور سب سے زیادہ خوبصورت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا جن کے مکتب میں حضرت زینب (س) نے حیا کی تعلیم حاصل کی : لا حَياءَ لِمَنْ لا دينَ لَهُ (۶) جو شخص دین نہیں رکھتا اس کے پاس حیا بھی نہیں ہوتی۔
مذکورہ روایات سے بخوبی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سماج میں دین اسی وقت تک باقی رہے گا جب تک حیا باقی ہے جس دن حیا نے سماج سے ہجرت کر لی اس دن دین بھی رخت سفر باندھ لے گا۔ صہیونیوں نے ان دونوں کے درمیان رابطہ کو خوب درک کر لیا اسی وجہ سے مشہور صہیونیسٹ نیتن یاہو نے کہا: ''ڈش کے پروگرام ایک طاقتور مبلغ کی طرح موثر ہیں خواتین اور بچے وہی لباس اختیار کریں گے جو ہم چاہیں گے وہ ویسی زندگی کریں گے جیسی ہم چاہیں گے‘‘ (۷)
دوسری طرف سے انٹر نٹ کی دنیا میں حیا اور پاکدامنی کو کچلنے اور اس کا جنازہ نکالنے کا ہر ممکن طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔ برہنہ تصویروں، سیکسی فیلموں اور زن و مرد کے نامشروع روابط کو معمولی اور عادی چیز کے طور پر پیش کر کے انسانی سماج سے حیا اور عفت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بے انتہا کوشش کی جارہی ہے۔
اسلامی ثقافت میں حیا کا مقام
اسلامی اور قرآنی تعلیمات میں متعدد جگہوں پر حیا اور عفت کے مقام کی طرف اشارہ ہوا ہے ذیل میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
الف: جناب شعیب کی بیٹیوں کی حیا
قرآن کریم میں اس کے باوجود کہ عام طور پر مسائل کو کلی انداز میں بیان کیا گیاہے لیکن حیا اور عفت کے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس مسئلہ کی جزئیات کو بھی بیان کیا ہے۔ مثال کے طور جناب موسی اور ان کی جناب شعیب کی بیٹیوں سے ملاقات کو اس طرح بیان کیا ہے: اور جب مدین کے چشمہ پروارد ہوئے تو لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو جانوروں کو پانی پلارہی تھی اور ان سے الگ دو عورتیں تھیں جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں .موسٰی نے پوچھا کہ تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ان دونوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے اور ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں۔
موسٰی نے دونوں کے جانوروں کو پانی پلادیا اور پھر ایک سایہ میں آکر پناہ لے لی عرض کی پروردگار یقینا میں اس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری طرف بھیج دے۔
فَجاءَتْهُ اِحْداهُما تَمْشي عَلَي اسْتِحْياءٍ قالَتْ اِنَّ اَبي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ ما سَقَيْتَ لَنا...
اتنے میں دونوں میں سے ایک لڑکی کمال شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور اس نے کہا کہ میرے بابا آپ کو بلارہے ہیں کہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت دے دیں پھر جو موسٰی ان کے پاس آئے اور اپنا قصّہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈرو نہیں اب تم ظالم قوم سے نجات پاگئے (قصص، ۲۳۔۲۵)
اس واقعہ سے حیا اور پاکدامنی کو بخوبی درک کیا جا سکتا ہے چونکہ:
۱: جب تک مرد چشمہ کے پاس سے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر دور نہیں ہو جاتے تھے تب تک جناب شیعب کی بیٹیاں چشمہ کے پاس نہیں جاتی تھیں۔
۲: اس وقت اپنی بھیڑوں کو پانی پلاتی تھیں جب تمام مرد دورہو جاتے تھے۔
۳: سراپا حیا کے ساتھ جناب موسی کے پاس آئیں اور نہیں کہا آئیے ہم آپ کے کام کی اجرت ادا کریں گے بلکہ کہا ہمارے باپ نے آپ کو دعوت دی ہے تاکہ آپ کےکام کی اجرت دیں۔
پروردگار عالم نے پوری جزئیات کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کر کے بتایا کہ ایک خاتون میں حیا اور پاکدامنی کس حد تک ہونا چاہیے۔
ب: حیا مکمل دین ہے
علی علیہ السلام نے فرمایا: الْحَياءُ هُوَ الدّينُ كُلُّه (۹) حیا مکمل دین ہے۔
ج: حیا برائیوں سے روکتی ہے
علی علیہ السلام کا فرمان ہے: اَلْحَياءُ يَصُدُّ عَنْ فِعْلِ الْقَبيحِ(10) حیا انسان کو برائیوں سے روکتی ہے۔
ساتویں امام کا ارشاد ہے: ما بَقيَ مِنْ اَمْثالِ الاْنْبياءِ عليهم السلام اِلاّ كَلِمَةً؛ اِذا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاعْمَلْ ما شِئْتَ.. (۱۱) انبیا ءعلیہم السلام کے کلمات قصار میں سے صرف ایک جملہ باقی بچا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس حیا نہیں تو جو چاہو وہ کرو۔۔۔
د: بے حیائی کا انجام
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: «...مَنْ قَلَّ حَياؤُهُ؛ قَلَّ وَرَعُهُ وَمَنْ قَلَّ وَرَعُهُ؛ ماتَ قَلْبُهُ، وَمَنْ ماتَ قَلْبُهُ؛ دَخَلَ النّارَ...(12) جس کی شرم و حیا کم ہو جائے اس کا تقویٰ اور پرہیز گاری بھی کم ہو جاتی ہے اور جس کا تقویٰ کم ہو جائے اس کا دل مر جاتا ہے اور جس کا دل مر جائے وہ جہنم میں داخل ہو گا۔
ہ : حیا عیوب کا پردہ
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ كَساهُ الحَياءُ ثَوْبَهُ؛ لَمْ يَرَ النّاسُ عَيْبَهُ(13) جس شخص کو حیا کے لباس نے چھپا لیا اس کے عیب کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
و: خوبیوں کا سرچشمہ
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ لا حَياءَ لَهُ؛ لاَ خَيْرَ فيهِ (۱۴) جو شخص حیا نہیں رکھتا اس میں کوئی خیر و خوبی نہیں پائی جاتی۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کی حیا اور عفت کے چند نمونہ
وراثت اور خاندان کی تاثیر انسان کی رفتار و گفتار میں ناقابل تردید ہے۔ آج یہ چیز واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ بعض اچھی اور بری صفات نسل در نسل انسان کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ خاندان جن میں پیغمبروں اور آئمہ معصومین(ع) کا وجود رہا ہے عام طور پر وہ پاک اور برائیوں سے دور ہیں۔ اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں ان خوبصورت عورتوں کے ساتھ شادی کرنے سے منع کیا ہے جو ناپاک خاندان کی ہوتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں وراثت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بیان ہوئی ہے یعنی بہت ساری صفات تربیت کے ذریعہ انسان اپنے وجود میں پیدا کرسکتاہے ۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی میں یہ دونوں عوامل( وارثت اور تربیت) اعلی ترین منزل پر موجود تھے جیسا کہ آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں: "اَلسَّلامُ عَلي مَنْ رَضَعَتْ بِلُبانِ الاِْيمانِ‘‘۔ سلام ہو اس پر جس نے ایمان کے پستانوں سے دودھ پیا ہے۔
جی ہاں۔ جناب زینب سلام اللہ علیہا خانہ وحی میں معصوم ماں باپ سے دنیا میں آئیں اورنبوت کی آغوش اور امامت و ولایت کے گہوارے میں نشو نما پائی۔ اور ایسی ماں کا دودھ پیا جو کائنات میں بے مثل و نظیر ہے۔ تو ایسی بیٹی جس نے ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی ہو جس نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہو اس کی شرافت و کرامت اور عفت و حیا کا کیا مقام ہو گا؟
''یحیی مازنی‘‘ ایک بزرگ عالم دین اور راوی حدیث نقل کرتے ہیں: کئی سال میں نے مدینہ میں حضرت علی علیہ السلام کے جوار میں ایک ہی محلہ میں زندگی گزاری۔ میرا گھر اس گھر کے قریب تھا جہاں حضرت زینب بن علی علیہما السلام رہتے تھے حتی ایک بار بھی کسی نے حضرت زینب کو نہیں دیکھا اور نہ ہی کسی نے ان کی آواز سنی۔ وہ جب اپنے نانا کی زیارت کو جاتی تھیں تورات کا انتخاب کرتی تھیں رات کے عالم میں نانا کی قبر پر جایا کرتی تھیں اور اپنے بابا علی اور بھائی حسن و حسین علیہم السلام کے حصار میں گھر سے نکلتی تھیں۔ جب آپ رسول خدا(ص) کی قبر مبارک کے پاس پہنچتی تھیں تو امیر المومنین علی علیہ السلام قبر کے اطرف میں جلنے والے چراغوں کو گل کر دیا کرتے تھے۔ ایک دن امام حسن علیہ السلام نے اس کام کی وجہ پوچھ لی تو حضرت نے فرمایا: اَخْشي اَنْ يَنْظُرَ اَحَدٌ اِلي شَخْصِ اُخْتِكَ زَيْنَبَ(۱۵) میں ڈرتا ہوں کہ میری بیٹی زینب پر کسی نہ نگاہ نہ پڑ جائے۔
شیخ جعفرنقدی کے بقول جناب زینب سلام اللہ علیہا نے پنجتن آل عبا کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے '' فَالخمسة اَصْحابُ الْعَباءِ هُمُ الَّذينَ قامُوا بِتربيتِها وَتثْقيفِها وتهذيبِها وَكَفاكَ بِهِمْ مُؤَدِّبينَ وَمُعَلِّمينَ (۱۶) پنجتن آل عبا نے زینب کو تربیت و تہذیب اور تثقیف عطا کی اور یہی کافی ہے کہ وہ (آل عبا) ان کی تربیت کرنے والے اورانہیں تعلیم دینے والے ہیں۔
۲: جوانی کی ابتدا میں حیا
ڈاکٹر عائشہ بنت الشاطی اہلسنت کی ایک محققہ یوں لکھتی ہیں: زینب(س) ابتدائے جوانی میں کیسی رہی ہیں؟ تمام تاریخی منابع ان لمحات کی تعریف کرنےسے قاصر ہیں۔ اس لیے کہ اس دور میں انہوں نے چار دیواری کے اندر زندگی گزاری ہے ۔ لہذا ہم آپ کے اس دور کو صرف پشت پردہ سے دیکھ سکتے ہیں لیکن اس تاریخ کے دسیوں سال گزرنے کے بعد زینب(س) گھر سے باہر آتی ہیں اور کربلا کی جگر سوز مصیبت انہیں پہچنواتی ہے۔(۱۷)
تاریخ نے آپ کو نہیں دیکھا اس لیے کہ حیا اس بیچ مانع تھی اور ماں فاطمہ(س) یہ نصیحت کر چکی تھیں: خَيْرٌ للنِّساءِ اَنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَلا يَراهُنَّ الرِّجالُ(۱۸) عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد انہیں نہ دیکھیں۔
اور اگر حکم الہی نہ ہوتا اگر رضائے خداوندی نہ ہوتی کہ ''انَّ اللّه شاءَ اَنْ يَراهُنَّ سَبايا‘‘ بتحقیق خدا یہ چاہتا ہے کہ انہیں اسیر دیکھے، تو امام حسین (ع) ہر گز یہ اجازت نہ دیتے کہ آپ کی بہن کربلا کا سفر کرے۔
۳: مدینہ سے حرکت کے وقت حیا کا جلوہ
مدینہ اس رات کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا جس رات حیا اور شرافت کا کاروان کس شان و شوکت کے ساتھ مکہ کی طرف رخصت ہوا۔ وہ رات رجب کی راتوں میں سے ایک تھی کہ ایک کاروان عفت و شرافت نے مدینہ سے حرکت کی اس حال میں کہ حیا و عفت کی پیکر دو بیبیوں کو بنی ہاشم کے جوانوں اور خصوصا جوانان جنت کے سردار نے اپنے گیرے میں لیا ہوا تھا۔ روای کہتا ہے:
میں نے ایک عماری کو دیکھا جسے حریر اور دیباج کے کپڑوں سے مزین کیا ہوا تھا اس ہنگام امام حسین علیہ السلام نے حکم دیا کہ بنی ہاشم کے جوان اپنی محرم خواتین کو محملوں پر سوار کریں۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک جوان امام علیہ السلام کے گھر سے باہر نکلا جو بلند قد و قامت والا تھا اور اس کے رخسار پر ایک علامت تھی اور اس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور کہہ رہا تھا: بنی ہاشم راستہ چھوڑ دو۔ اس کے بعد دو بیبیاں امام علیہ السلام کے گھر سے برآمد ہوئیں جن کی چادریں زمین پر گھسٹ رہی تھیں اور کنیزوں نے انہیں اطراف سے گیر رکھا تھا پس وہ جوان ایک عماری کے پاس گیا اور اپنے زانو کی سیڑھی بنا کر ایک بیبی کا بازوں تھا م کر انہیں محمل میں سوار کیا۔ میں نے اپنے اطراف والوں سے پوچھا: یہ بیبیاں کون ہیں؟ کہا: ان میں سے ایک زینب اور دوسری ام کلثوم ہیں یہ علی علیہ السلام کی بیٹیاں ہیں۔ پھر میں نے پوچھا: یہ جوان کون ہے؟ کہا: یہ قمر بنی ہاشم عباس بن علی علیہما السلام ہیں۔ اس کے بعد دو چھوٹی بیبیاں گھر سے باہر نکلیں جن کی مثال کائنات میں نہیں تھیں۔ ان میں سے ایک کو جناب زینب کے ساتھ اور دوسری کو ام کلثوم کے ساتھ سوار کیا۔ اس کے بعد میں نے ان دوبیوں کے بارے میں سوال کیا: توکہا: یہ امام حسین علیہ السلام کی بیٹیاں ایک سکینہ ہیں اور دوسری فاطمہ(سلام اللہ علیہما)۔
اس کے بعد دیگر خواتین بھی اسی عظمت و شرافت کے ساتھ سوار ہوئیں اور امام حسین علیہ السلام نے آواز دی: عباس کہاں ہیں؟ جناب عباس نے کہا: لبیک،لبیک، اے مولا۔ فرمایا: میری سواری لاو۔ امام کی سواری حاضر کی۔ اس کے بعد آنحضرت اس پر سوار ہوئے ۔ اس حیا، عفت اور متانت کے ساتھ اس کاروان نے مدینہ چھوڑا۔(۱۹)
۴: زیورات، حیا و عفت پر قربان
کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یزیدی لشکر نے خیام حسینی (ع) پر حملہ کیا۔ جناب زینب (س) کے لیے سب سے زیادہ سخت منزل یہی تھی اس لیے کہ ایک طرف سے بچوں بھائیوں کا دل میں داغ اور دوسری طرف سے خیموں کا تاراج، چونکہ آپ ایک جانب سے خیموں کی پاسبان تھیں اور دوسری جانب سے امام حسین علیہ السلام کی محافظ۔ علی علیہ السلام کی بیٹی کوفیوں کے مزاج سے آشنا تھیں خواتین کی حیا اور عفت کو باقی رکھنے کی غرض سے آپ نے بیبیوں کے تمام زیورات پہلے سے جمع کر کے عمر سعد سے کہا: اے عمر سعد! اپنے سپاہیوں کو خیموں پر حملہ کرنے سے روک دے بیبیوں کےتمام زیورات میں خود تیرے حوالے کر دیتی ہوں۔ مبادا نامحرموں کے ہاتھ خاندان رسول (س) کی طرف دراز ہوں۔
تمام بیبیوں نے زیورات ایک جگہ جمع کر دئے اس کے بعد کہا انہیں اٹھا لے جاو لیکن خیموں کے نزدیک نہ آنا۔ یزیدیوں نے تمام زیورات اٹھا لیے لیکن اس کے بعد بھی ان کی حوص کی پیاس نہیں بجھی اور ننھی بچی جناب سکینہ کے کانوں باقی ماندہ گوشواروں کو کھینچنے کے لیے بھی ہاتھ بڑھا دئیے اور خاندان عصمت و طہارت کی لاج نہ رکھی(۲۰)
۵ : بے حیائی پر بی بی کی فریاد
خاندان رسالت کو اسیر بنا کر جب عبید اللہ بن زیاد کے دربار میں لے جایا گیا اور اسیروں کا تماشا کرنے چاروں طرف مجمع لگ گیا تو ایک مرتبہ حیاو عفت کے پیکر بنت حیدر نے آواز بلند کی: يا اَهْلَ الْكُوفَةِ، اَما تَسْتَحْيُونَ مِنَ اللّه ِ وَرَسُولِهِ اَنْ تَنْظُرُوا اِلي حَرمِ النَّبيِّ صلي الله عليه و آله (۲۱) اے کوفیو! تمہیں خدا اور اس کے رسول سے شرم نہیں آتی کہ خاندان رسالت کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو؟
۶: کوفہ کے دار الخلافہ میں حیا کی تجلی
جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کو جب اسیر کر کے دار الخلافہ لے جایا گیا تو غصہ سے آپ کا گلہ بند ہو گیا تھا اس لیے کہ یہ وہی دار الخلافہ تھا جس میں جناب زینب امیر المومنین کے دور خلافت میں ملکہ بن کر آیا کرتی تھیں آپ کی آنکھوں میں آنسوں نے حلقہ ڈال دیا لیکن آپ نے خوداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و ضبط سے کام لیا کہ کہیں آنکھوں سے آنسو کا کوئی قطرہ نکلنے نہ پائے۔ اس کے بعد اس بڑے ہال میں وارد ہوئیں جہاں عبید اللہ بیٹھا ہوا تھا۔ جب دیکھا کہ عبید اللہ اسی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے جہاں کل بابا امیر المومنین علی علیہ السلام بیٹھا کرتے تھے اور مہمانوں کی پذیرائی کرتے تھے تو آپ کی غیرت آگ بگولہ ہو گئی۔
جناب زینب کو جن کے سر پر چادر بھی نہ تھی اور کنیزوں نے اطراف سے گیر رکھا تھا ایک مرتبہ دربار میں داخل کیا ، آپ امیر کی طرف بغیر کوئی توجہ کئے ایک نامعلوم شخص کی طرح بیٹھ گئیں جبکہ آپ کا سارا وجود سراپا حیا و شرم تھا (۲۲) ابن زیاد نے پوچھا: یہ عورت کون ہے؟ کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ تین بار اس نے سوال تکرار کیا۔ جناب زینب کی حیا اور عفت نے ایک طرف سے اور ابن زیاد کو تحقیر کرنے کے ارادہ نے دوسری طرف سے اجازت نہیں دی کہ جناب زینب اس کا جواب دیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد ملعون نے جناب زینب کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا: کيْفَ رَاَيْتِ صُنْعَ اللّه ِ بِاَخيكِ وَاَهْلِ بَيْتِكِ(۲۳) تم نے کیسا دیکھا جو اللہ نے تمہارے بھائی اور اہلبیت کے ساتھ کیا؟
جناب زینب نےمکمل آرام و سکون اور کمال تامل کے ساتھ ایک مختصر اور نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے کہا: ما رَأيْتُ اِلاّ جَميلاً (۲۴) میں نے جو بھی دیکھا وہ خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
جناب زینب نے ابن زیاد ملعون کا منہ توڑ جواب دے کر کفر و استبداد کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا جسے قیامت تک تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔
۷:عفت اور پاکدامنی جناب زینب کا ذاتی کمال
عفت اور پاکدامنی خواتین کے لیے سب سے زیادہ قیمتی گوہر ہے۔ جناب زینب (س) ایک طرف سے درس عفت کو مکتب علی (ع) سے حاصل کیا کہ فرمایا: مَا الْمُجاهِدُ الشَّهيدُ في سَبيلِ اللّه ِ بِاَعْظَمَ اَجْرا مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ يَكادُ الْعَفيفُ اَنْ يَكُونَ مَلَكا مِنَ الْمَلائِكَةِ (۲۵) راہ خدا میں شہید مجاہد کا ثواب اس شخص سے زیادہ نہیں ہے جو قادر ہونے کے بعد عفت اور حیا سے کام لیتا ہے قریب ہے کہ عفت دار شخص فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہو جائے۔
اور دوسری طرف سے خود جناب زینب (س) کی ذاتی شرم و حیا اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ عفت اور پاکدامنی کے بلند ترین مقام پر فائز ہوں۔ اس لیے کہ حیا کا بہترین ثمرہ عفت اور پاکدامنی ہے۔ جیساکہ علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: سَبَبُ العِفَّةِ اَلْحَيا(۳۰) عفت اور پاکدامنی کا سبب حیا ہے۔
اور دوسری جگہ فرمایا: عَلي قَدْرِ الحَياءِ تَكُونُ العفَّة(۲۶) جتنی انسان میں حیا ہو گی اتنی اس میں عفت اور پاکدامنی ہو گی۔
جناب زینب (س) کی خاندانی تربیت اور ذاتی حیا اس بات کا باعث بنی کہ آپ نے سخترین شرائط میں بھی عفت اور پاکدامنی کا دامن نہیں چھوڑا۔ کربلا سے شام تک کا سفر میں جو آپ کے لیے سب سے زیادہ سخت مرحلہ تھا آپ نے عفت و پاکدامنی کی ایسی جلوہ نمائی کی تاریخ دھنگ رہ گئی۔ مورخین لکھتے ہیں: وَهِيَ تَسْتُرُ وَجْهَها بِكَفِّها لاَِنَّ قِناعَها اُخِذَ مِنْها (۲۷) آپ اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں سے چھپایا کرتی تھیں چونکہ آپ کی روسری کو چھین لیا گیا تھا۔
یہ آپ کی شرم و حیا کی دلیل ہے کہ آپ نے اپنے بھائی کے قاتل شمر جیسے ملعون کو بلا کر یہ کہنا گوارا کر لیا کہ اگر ممکن ہو تو ہمیں اس دروازے سے شام میں داخل کرنا جس میں لوگوں کو ہجوم کم ہو۔ اور شہدا کے سروں کو خواتین سے دور آگے لے جاو تاکہ لوگ انہیں دیکھنے میں مشغول رہیں اور ہمارے اوپر ان کی نگاہیں نہ پڑیں۔ لیکن اس ملعون نے ایک بھی نہ سنی اور سب سے زیادہ ہجوم والے دروازے سے لے کر گیا۔
جناب زینب کی کنیزی کا دھم بھرنے والی خواتین ذرہ سوچیں کہ کیا جناب زینب نے جن شرائط میں پردہ کی لاج رکھی اگر ہم ان کی جگہ ہوتی تو کیا کرتیں۔ جناب زینب نے اپنے چادر چھنوا کر قیامت تک اپنے چاہنے والی خواتین کی چادروں کی ضمانت کر دی۔ اب اگر معمولی معمولی بہانے لے کر کوئی خاتون بے پردہ ہو جاتی ہے بے حیائی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کنیز جناب زینب ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو کل قیامت میں جناب زینب کو کیا منہ دکھائی گی؟ ذرہ سوچیے۔
حوالہ جات
۱:شيخ ذبيح اللّه محلاتي، رياحين الشريعه، تهران، دارالكتب الاسلامية، ج3، ص46.
۲: وحی حوالہ، ج3، ص39.
۳:محمدي ري شهري، ميزان الحكمه (بيروت، دارالحديث)، چاپ دوم، 1419، ج2، ص716، روايت 4544.
۴: وہی حوالہ، ص717، روايت 4570.
۵: وہی حوالہ روايت 4565؛ بحارالانوار، ج78، ص309.
۶: وہی حوالہ ، ج78، ص111، حديث6؛ ميزان الحكمة، همان، ج2، ص717، روايت 4569.
۷: روزنامه جمهوري اسلامي، 23/6/1381
۸:قصص/23 ـ 25.
۹:ميزان الحكمة، ج2، ص717، روايت 4567.
۱۰: وہی حوالہ، ص717، روايت 4556؛ امالي طوسي، ص301.
۱۱: وہی حوالہ ، ص718؛ خصال صدوق، ص20.
۱۲: نهج البلاغه، محمد دشتي، ص712، حكمت349.
۱۳: وہی حوالہ ، ص676، حكمت223.
۱۴: عبدالواحد آمدي، غررالحكم، ترجمه علي انصاري، ص646.
۱۵: شيخ جعفر نقدي، كتاب زينب كبري، ص22، و رياحين الشريعه، ج3، ص60.
۱۶:زينب كبري، ص20.
۱۷:عائشه بنت الشاطي، بانوي كربلا، مترجم: سيد رضا صدر (قم، انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، چاپ سوم 1378)، ص58 ـ 59.
۱۸: وسائل الشيعه، ج14، ص43، حديث 7.
۱۹:موسوعة كلمات الامام حسين عليه السلام ، معهد تحقيقات باقرالعلوم، قم، مؤسسه الهادي، چاپ اول، صص297 ـ 298.
۲۰: احمد بن يحيي البلاذري، انساب الاشراف، بيروت، مؤسسة الاعلمي، 1349 (ه·· .ق)، ج3، ص204.
۲۱: سيد عبدالرزاق الموسوي المقرم، مقتل الحسين عليه السلام ، ص310.
۲۲: با نگاهي به: بانوي كربلا حضرت زينب، صص 138 ـ 139.
۲۳:بحارالانوار، ج45، ص179.
۲۴: وہی حوالہ ، ج45، ص116.
۲۵:نهج البلاغه، فيض الاسلام، حكمت 466.
۲۶:ميزان الحكمة، ج2، ص717، روايت 4557.
۲۷: وہی حوالہ ، روايت 4559.
۲۸: جزائري، الخصائص الزينبيه، ص345.

 


source : www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

يوٹوپيا اور اسلامي مدينۂ فاضلہ (حصہ دوم)
اسلامی انقلاب، ایران کی ترقی اور پیشرفت کا ضامن: ...
امام محمد باقر علیہ السلام کا عہد
حضرت علی علیہ السلام کی صحابہ پر افضلیت
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
انسان کے مقام ومرتبہ کی عظمت
دین از نظر تشیع
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...
روزہ اور تربیت انسانی میں اس کا کردار
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں

 
user comment