ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبیین میں روایت کی ہے کہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے کے بعد امیرالمؤمنین (ع) کے زخمی ہونے کے بعد کوفہ کے طبیب آپ (ع) کی بالین پر حاضر ہوئے اور ان میں زخم کے علاج اور جراحی میں کوئی بھی اثیر بن عمرو سے زیادہ ماہر اور استاد نہ تھا۔ وہ زخموں کے علاج کا ماہر تھا اور ان چالیس نوجوانوں میں سے تھا جو ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید کے ہاتھوں عین التمر میں اسیر ہوکر کوفہ میں آبسے تھے۔
اس طبیب نے زخم کو دیکھتے ہی بکرے کے پھیپھڑا منگوایا؛ اور پھیپھڑے سے ایک رگ نکال دی اور اس رگ کو زخم میں رکھا اور تھوڑی دیر بعد نکال کر دیکھا اور امیرالمؤمنین (ع) سے مخاطب ہوکر عرض کیا: جو وصیت ہو کریں کیونکہ اس دشمن خدا کی تلوار کا زحم مغز تک پہنچا ہے اور علاج کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔ اسی وقت امیرالمؤمنین (ع) نے کاغذ و دوات منگوا کر وصیت کا آغاز کیا۔
امیرالمؤمنین (ع) کی وصیت حدیث کی کتب میں اجمال و تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ مقاتل الطالبیین میں ابوالفرج اصفہانی نے بھی یہ وصیت نقل کی اور اور کلینی نے الکافی میں اسی صورت میں نقل کی ہے اور نہج البلاغہ میں بھی خط نمبر 47 کے عنوان سے نقل ہوئی ہے جو اجمالی ہے۔ اس کا خلاصہ کشف الغمہ میں نقل ہوا ہے مجلسی نے بحار الانوار میں بھی نقل کیا ہے اور ہم وہی وصیت یہاں نقل کرتے ہیں جو ابوالفرج نے نقل کی ہے جو زیادہ جامع ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ وصیت نامہ ہے جس کے ذریعے امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (ع) وصیت کرتے ہیں:
گواہی دیتے ہیں کہ کوئی معبود نہيں ہے سوائے اللہ کے جو یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
نیز گواہی دیتے ہیں کہ محمد (ص) کے بندے اور رسول ہیں جنہیں خدا نے ہدایت اور راہنمائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکین اس کو ناپسند کیوں نہ کریں۔ خدا کا درود و سلام اور برکات ہوں ان پر۔
"میری نماز اور میری سب عبادتیں اور میری زندگی اور میری موت خاص اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ٭ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی پر میں مامور ہوں اور میں سرا طاعت جھکانے والوں میں سب سے پہلا ہوں"۔ (سورہ انعام: 162 و 163)
اے حسن! میں تمہیں اور اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کو اور ہر اس شخص کو جس تک میری یہ وصیت پہنچے گی تقوی اور خوف خدا ـ جو تمہارا پروردگار ہے ـ کی سفارش کرتا ہوں۔
"تم (بہرصورت) مسلمان رہتے ہوئے ہی مرنا"۔ (سورہ بقرہ آیت 132)
اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور تتر بتر نہ ہو، کیونکہ بے شک میں نے رسول خدا (ص) سے سنا جو فرمارہے تھے: لوگوں کے درمیان اصلاح کرانا تمام نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے اور جو چیز دین کو تباہ کرکے نیست و نابود کرتی ہے لوگوں کے درمیان فساد ڈالنا ہے و لاحول و قوة الا باللہ العلی العظیم (کوئی بھی قوت خدا کے وسیلے کے بغیر نہیں ہو جو بہت بلند مرتبہ اور بہت عظیم ہے)۔
اپنے اعزاء و اقارب اور رشتہ داروں کی طرف توجہ رکھو اور ان کے ساتھ پیوند بحال رکھو تا کہ خداوند متعال قیامت کے دن حساب کو تم پر آسان کرے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو یتیموں کے معاملے میں، پس ان کے منہ کے لئے اپنی سنگدلی کے بموجب باری کا تعین نہ کرو (کہ کبھی انہيں کھلاؤ اور کبھی انہيں بھوکا رکھو)۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو اپنے پڑوسیوں کے معاملے میں کہ رسول اللہ (ص) ان کی سفارش اور ان کے بارے میں مسلسل وصیت کرتے رہے ہیں، اس حد تک کہ ہم نے گمان کیا کہ پڑوسی کے ارث میں پڑوسی کا حصہ ہے اور پڑوس کی حرمت اتنی ہے کہ گویا خدا نے پڑوسی کے مال میں اس کے لئے ایک حصہ قرار دیا ہے!
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو قرآن کے معاملے میں، ایسا نہ ہو کہ کوئی اور قرآن پر عمل کرنے میں تم سے سبقت لے جائے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو نماز کے معاملے میں کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو اپنے پروردگار کے گھر (خانہ کعبہ) کے معاملے میں ایسا نہ ہو کہ جب تک تم زندہ ہو وہ گھر تم سے خالی رہے۔ کہ اگر اس کو ترک کیا گیا ہے تو تمہیں مہلت نہ دی جائے گی اور عذاب سے دوچار ہوجاؤگے اور اگر تم سے خالی رہا خدا کا کیفر تمہیں زندہ رہنے کی فرصت نہ دے گا۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو اپنے اموال کی زکٰوۃ کے معاملے میں کہ زکٰوۃ پروردگار کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتی ہے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو ماہ مبارک رمضان کے معاملے میں کیونکہ وہ تمہارے لئے ڈھال ہے دوزخ کی آگ سے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو بے بینواؤوں اور مسکینوں کے معاملے میں اور انہیں اپنی زندگی میں شریک کرو اور اپنی خوراک اور لباس میں سے ان کو بھی دے دیا کرو۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو خدا کی راہ میں مال و جان اور زبان سے جہاد کرنے کے معاملے میں۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو اپنے نبی (ص) کی امت کے معاملے میں، ایسا نہ ہو کہ تمہارے درمیان ظلم و ستم واقع ہوجائے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو اپنے پیغمبر (ص) کے اصحاب کے معاملے میں کیونکہ رسول خدا نے ان کی سفارش کی ہے۔
خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو اپنے ماتحتوں، غلاموں اور کنیزوں کے معاملے میں کیونکہ رسول اللہ (ص) کی آخری سفارش یہ تھی کہ "میں تمہیں دو بےبس گروہوں کے بارے میں سفارش کرتا ہوں جو تمہارے ماتحت ہیں۔
اور پھر فرمایا: نماز! نماز! خدا کے سلسلے میں لوگوں کی ملامت سے نہ ڈرو؛ کیونکہ جو بھی تم پر ظلم روا رکھے یا تمہاری نسبت بد اندیش ہو خداوند ان کا شر دفع کرنے میں تمہاری مدد فرماتا ہے۔
لوگوں کے ساتھ حسن گفتار سے کام لینا،جیسا کہ خداوند متعال نے حکم دیا ہے۔ (سورہ بقرہ آیت 83)
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرو حالات تم سے بےقابو ہوجائيں اور پھر جب تم دعا کرو اور خدا سے دفع شر کی التجا کرو تو قبول نہ ہو اور اجابت تک نہ پہنچے۔
تم پر فرض ہے کہ معاشرت میں ایک دوسرے کی نسبت منکسرالمزاجی اور بخشش اور نیکی روا رکھو۔
خبردار کہ کہیں جدائی اور تفرقہ اور انتشار اور ایک دوسرے سے روگردانی کا شکار نہ ہوجاؤ۔
اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو، اور اللہ کے غضب سے بچو۔ یقینااللہ سخت سزا والا ہے۔ (سورہ مائدہ آیت 3)
خداوند متعال تم خاندان (اہل بیت (ع)) کا حافظ و نگہبان ہو اور تمہارے حق میں اپنے پیغمبر (ص) کے حقوق کا تحفظ فرمائے، اب میں تم سے وداع کرتا ہوں اور تمہيں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اس کا درود و سلام تم پر بھیجتا ہوں۔
*** *** ***
الکافی میں ہے کہ وصیت کے بعد امیرالمؤمنین (ع) مسلسل کلمہ "لا الہ الا اللہ" کو دہراتے رہے یہاں تک کہ آپ (ع) کی روح ملکوت اعلی کی طرف پرواز کرگئی۔
source : www.abna.ir