علیکم السلامامیر المومنین (ع) کے خطبے میں مراد وہ علماء ہیں جو اُس دور میں ولایت کا دامن چھوڑ کر، امام حق کی تعلیمات سے دور ہو کر دین مخالف فتوے دے رہے تھے جبکہ آپ کو معلوم ہے امام حق کی موجودگی میں کسی عالم کو اپنا فتویٰ دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اور آپ نے مولا کی اس تنقید کو عصر حاضر کے مجتہدین پر تطبیق دینے کی کوشش کی ہے حالانکہ مجتہدین کے درمیان موجود اختلاف نہ اصول دین پر ہے نہ واجبات و محرمات پر بلکہ صرف جزئی مسائل میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان کی عقل دوسرے سے مختلف ہے ایک حدیث اگر دس لوگوں کے سامنے رکھی جائے یا قرآن کریم کی ایک آیت اگر دس مفسرین کے سامنے رکھی جائے تو وہ اس سے دس معنی سمجھیں گے۔ یہی چیز دین اسلام کا طرہ امتیاز ہے کہ اس میں اصول ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ جزئیات میں اختلاف پایا جاتا ہے جس سے ہر دور میں پیدا ہونے والے مسائل کا جواب دیا جا سکتا ہے اسلام میں جمود نہیں ہے بلکہ تنوع پایا جاتا ہے اور اجتہاد نام ہی اسی چیز کا ہے کہ مجتہدین معصومین علیہم السلام سے منقولہ اصول کی روشنی میں فروعات اور جزئیات کا استخراج کریں۔ ظاہر ہے جب ایسا کریں گے تو یقینا اختلاف سامنے آئے گا جیسا کہ تمام علوم میں اس طرح کا نظریاتی اختلاف موجود ہوتا ہے جو اس علم کی پیشرفت پر دلالت کرتا ہے۔ مولا کی مراد ہر گز مجتہدین نہیں ہیں چونکہ اجتہاد تو عصر غیبت سے شروع ہوا ہے۔ اور امام زمانہ(ع) نے اپنی غیبت کے سے پہلے فقہا کی طرف رجوع کا حکم دیا تھا اور انہیں عوام پر حجت قرار دیا تھا اگر اگر مجتہدین میں اختلاف قابل مذمت ہوتا تو امام زمانہ مجتہدین کو عوام پر حجت قرار نہ دیتے بلکہ لوگوں کو ان سے بچنے کا حکم دیے جبکہ انہوں نے ان کی رجوع کو واجب قرار دیا ہے۔اور مجتہدین کے بارے میں معصومین سے منقول یہ روایت بھی آپ نے سنی ہو گی کہ اگر مجتہد کسی مسئلہ کے استنباط میں تلاش و کوشش کرے گا اور اس کے بعد واقع کے خلاف فتویٰ دے گا تو اسے ایک نیکی کی جزا ملے گی اور اگر واقع کے مطابق فتویٰ دے گا تو دو نیکیوں کی جزا ملے گی
source : www.abna.ir