روایات کے مطابق حج بجا لانے کی سابقہ تاریخ طولانی ہے اور اس کی تاریخ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے کئی سال پہلے تک پہنچتی ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام نے حج بجالانے کا کام مکمل کیا، جبرئیل نے ان سے کہا: مبارک ھو آپ پر اے آدم، آپ کو بخش دیا گیا، میں نے اس گھر کا آپ سے تین ہزار سال پہلےطواف کیا ہے۔
البتہ" طواف" ،"سعی"، " قربانی" اور" شیطان پر رمی" کے مناسک کے ساتھ مسلمانوں کے حج بجالانے کے طریقہ کا سلسلہ پیغمبر حنیف حضرت ابراھیم علیہ السلام سے شروع ھوا ہے۔ اسی طرح بیشک حج کو عام کرنے کی بنیاد بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ہی ڈالی ہے اور خداوند متعال نے انھیں حکم دیا تاکہ حج کا اعلان کریں اور لوگوں کو ہر طرف سے آکر اس کے گھر کا حج بجالانے کی دعوت دیدیں۔
تفصیلی جوابات
روایات کے مطابق، حج کی تاریخ بہت قدیمی ہے اوراس کی سابقہ تاریخ ابوالبشر حضرت آدام﴿ع﴾ سے پہلے تک پہنچتی ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:" جب حضرت آدم ﴿ع﴾ نے حج بجا لانے کا کام مکمل کیا، جبرئیل ﴿ع﴾ نے ان سے فرمایا:" مبارک ھو آپ پر اے آدم، آپ کو بخش دیا گیا، میں نے اس گھر کا آپ سے تین ہزار سال پہلےطواف کیا ہے۔[1]
حضرت امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا ہے:" جب حضرت آدم ﴿ع﴾ منی سے واپس آگئے﴿ اور ان کا حج مکمل ھوا﴾ ، فرشتوں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا:" اے آدم! آپ کا حج مبارک ھو!ہم نے آپ ﴿ع﴾ سے دوہزار سال پہلے اس گھر کا حج کیا ہے۔"[2]
ایک شخص نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا:" آہل آسمان میں سے جس نے سب سے پہلے حج بجا لایا ہے، وہ کون تھے؟ حضرت ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا:" اہل آسمان سے سب سے پہلے حج بجا لانے والے جبرئیل تھے۔"[3]
البتہ" طواف" ،"سعی"، " قربانی" اور" شیطان پر رمی" کے مناسک کے ساتھ مسلمانوں کے حج بجالانے کے طریقہ کا سلسلہ پیغمبر حنیف حضرت ابراھیم علیہ السلام سے شروع ھوا ہے۔ اسی طرح بیشک حج کو عام کرنے کی بنیاد بھی حجرت ابراھیم علیہ السلام نے ہی ڈالی ہے اور خداوند متعال نے انھیں حکم دیا تاکہ حج کا اعلان کریں اور لوگوں کو ہر طرف سے آکر اس کے گھر کا حج بجالانے کی دعوت دیدیں ۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوا ہے:" اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمھاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ھوکر آئیں گے"۔[4]
پوری تاریخ میں، خاص کر جاہلیت کے زمانہ میں، دوسرے احکام کے مانند حج ابراھیمی بھی تحریف سے دوچار ھوا ہے۔
اب ہم حج کے بعض مناسک و اعمال بیان کرکے، اس عظیم عبادت میں ھوئی تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
١۔ " پھر تمام لوگوں کی طرح تم بھی ﴿سر زمین منی کی طرف﴾ کوچ کرو اور اللہ سے استغفار کرو کہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔"[5] یہ آیہ شریفہ، زمان جاہلیت میں کفار مکہ کے عادات میں سے ایک عادت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عرفات کے وقوف کو ان افراد سے متعلق جانتے تھے، جو مکہ کے باہر سے حج کے لئے آتے تھے، لیکن قریش، حرم کے اطراف کے قبیلے اور قریش کے رشتہ دار اس کام سے مستثنی تھے، چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس آیہ شریفہ کے بارے میں فرمایا ہے:" قریش کہتے تھے: ہم خانہ خدا کے بارے میں دوسروں سے برتری رکھتے ہیں، پس ہمیں﴿ اعمال حج کے لئے﴾ مزدلفہ ﴿مشعر﴾ سے کوچ کرنا چاہئیے﴿ عرفات نہ جائیں﴾ خداوند متعال نے انھیں حکم دیا تاکہ دوسروں کے مانند عرفات سے شروع کریں۔"[6]
۲۔ " محترم مہینوں میں تقدیم و تاخیر کفر میں ایک قسم کی زیادتی ہے جس کے ذریعہ کفار کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سال اسے حلال بنا لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام کر دیتے ہیں تاکہ اتنی تعداد برابر ھوجائے جتنی خدا نے حرام کی ہے اور حرام خدا حلال بھی ھوجائے۔ ان کے بدترین اعمال کو ان کی نگاہ میں آراستہ کردیا گیا ہے اور اللہ کافر قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے"۔[7] یہ آیہ شریفہ ایام جاہلیت کی ایک غلط سنت﴿رسم﴾ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو " نسی" کے نام سے ، حرام مہینوں کی جگہوں کو تبدیل کرنے کے معنی میں تھی، یہ کام ہرسال ایک خاص تقریب پر سر زمین منی میں انجام پاتا تھا کہ اس میں ان کا اپنا منافع ھوتا تھا۔ کیونکہ اس تغییر و تبدل سے ان کا مقصد یہ ھوتا تھا کہ حج ایک ایسے موقع پر انجام پائے کہ ان کے تجارتی اور کاروباری منافع بھی پورے ھوجائیں۔ اس لحاظ سے وہ کوشش کرتے تھے کہ حج سال کے بہترین ایام ار رفت و آمد کے لئے آسان ترین زمانہ میں انجام پائے۔ لیکن چونکہ حج ایام ذی الحجہ میں انجام پانا چاہئیے، اور کبھی ذی الحجہ کا مہینہ مکہ کے نا قابل برداشت گرم موسم میں آتا تھا کہ حج انجام دینے والوں کے لئے مشکل ھوتا تھا اور اس کے ضمن میں تجارتی معاملات بھی اچھی طرح انجام نہیں پاتے تھے، اس لئے " نسی" نام کے عمل سے وہ ایک ایسا کام کرتے تھے کہ حج ہمیشہ معتدل موسم میں آجائے اور یہ عمل ہجرت کے دسویں سال تک جاری تھا، یہاں تک کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ حجتہ الوداع میں، اس عمل کو باطل اور ممنوع قرار دیا گیا۔[8] اور اس آیہ شریفہ کے نازل ھونے سے " نسی" کی رسم کفر شمار ھوئی تاکہ حج کا فریضہ نا جائز منافع خوروں کا کھلونا نہ بن جائے۔
۳۔ " بیشک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں ہیں، لہذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ ان دونوں پہاڑیوں کا چکر لگائے﴿ اور صفا و مروہ کی سعی انجام دیں اور ہر گز مشرکین کے جیسے بے رویہ اعمال انجام نہ دیں کہ انھوں نے ان دو پہاڑیوں پر کچھ بت رکھے تھے، یہ کام ان دو مقامات کی حیثیت کو کم نہیں کرتا ہے﴾ اور جو مزید خیر کرے گا تو خدا اس کے عمل کا قدر دان اور اس ﴿کے اعمال﴾ سے خوب واقف ہے"۔[9]
ایام جاہلیت میں حج کے اعمال میں سے ایک صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی کرنا تھا، لیکن ان دونوں پہاڑیوں پر " اساف" اور "نائلہ" نام کے دو بت رکھے گئے تھے، کہ مشرکین سعی کے دوران ان بتوں کے لئے احترام کے قائل ھوتے تھے۔ البتہ مسلمان اس ناشائستہ رسم کو پسند نہیں کرتے تھے، اور اسے جہالت کا کام سمجھتے تھے۔ خداوند متعال نے اس آیت کو نازل کرکے صفا و مروہ کو دین کی نشانیون کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ چنانچہ معاویہ بن عمار نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت ﴿ع نے فرمایا: مسلمان گمان کرتے تھے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی مشرکین کی ایجاد ہے، اس لئے خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ کو نازل فرما یا۔ ۔ ۔ "[10]
۴۔ مراسم حج میں مشرکین کی ایک اور رسم اور عادات یہ تھی کہ ننگے مادرزاد حالات میں طواف کرتے تھے۔ وہ اعتقاد رکھتے تھے کہ احرام کا لباس تہیہ کرنا قریش کے اختیار میں ہے اور اگر کوئی احرام کا لباس تہیہ نہیں کرسکتا، اسے عریان حالت میں طواف کرنا چاہئیے اور حرم سے باہر کے لباس یا احرام میں طواف انجام دینے کو باطل جانتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:" رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کو فتح کرنے کے بعد اس سال مشرکین کو زیارت کرنے سے نہیں روکا اور مشرکین کی زیارت کی رسوم میں سے ایک رسم یہ تھی کہ اگر لباس کے ساتھ مکہ میں داخل ھوتے اور اسی لباس کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کرتے، تو پھر اس لباس کو زیب تن نہیں کرتے تھے بلکہ اسے صدقہ کے طور پر دینا واجب جانتے تھے، اس لئے کہ اپنے لباس کو صدقہ دینے سے بچانے کے لئے، طواف سے قبل دوسروں سے لباس ادھار یا کرایہ پر لیتے تھے اور طواف کے بعد اس لباس کو اس کے مالک کو واپس لوٹا دیتے تھے۔ اس دوران اگر کسی کو ادھار یا کرایہ پر لباس نہ ملتا اور اپنے لئے بھی ایک ہی لباس رکھتا، تو اس لباس کو بچانے کے لئے مجبوراً ننگا ھوتا تھا اور عریان و مادرزاد صورت میں طواف کرتا تھا۔"[11]
اسلام کے مستحکم ھونے کے بعد، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاہلیت کی تحریفات سے مبارزہ کرنا شروع کیا اور حج کو جاہلیت کی تحریفات سے پاک کرنے کے بعد حج میں سنت ابراھیمی کو پھر سے زندہ کیا۔ لہذا حج کو اسلام نے قبول کرکے اس کی سفارش کی ہے کہ یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت ہے اور اسلام کی شریعت نے حج کی اسی شکل و صورت کو مسلمانوں پر واجب کردی جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کی سنت تھی اور اس طرح حج کے مناسک اور ارکان ہمیں سکھا دے۔
[1] ۔ شیخ صدوق ، علل الشرائع ، ج 2، ص 407 ، كتاب فروشى داورى ، طبع اول ، قم، 1385ش .
[2] ۔ شیخ صدوق، من لا يحضره الفقيه، ج 2، ص 230، دفتر نشر اسلامی ، قم، طبع دوم، 1404ق.
[3] ۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج 10، ص 78، دار إحياء التراث العربی ، بیروت، 1403ق.
[4] ۔«وَ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجالاً وَ عَلى كُلِّ ضامِرٍ يَأْتينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَميق»؛ حج، 27.
[5] ۔ «ثُمَّ أَفيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحيم»؛ بقره، 199.
[6] ۔ عروسى حويزى، عبد على بن جمعه، تفسير نور الثقلين، ج 1، ص 195،اسماعيليان، قم، طبع چهارم، 1415ق.
[7] ۔ توبه، 37.
[8] ۔ تفسیر نور الثقلین، ج 2، ص 217.
[9] ۔ بقره، 158.
[10] ۔ تفسیر نور الثقلین، ج 1، ص 146 و 148.
[11] ۔ فيض كاشانى، ملا محسن، تفسیر صافی، تحقيق: اعلمی، حسين، ج 2، ص 192، الصدر، تهران، طبع دوم.
source : www.islamquest.net